اسلام میں قیادت كے بنیادی اصول

آیۃ الله محمد محمدی رے شہری

مترجم: ابو جواد

(تنظیم و پیشكش گروہ ترجمہ سایٹ صادقین)

 اس میں شك نہیں كہ امامت و قیادت خالص محمدی اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم كی بقا اور اس كے الہٰی آئین كے اعلیٰ مقاصد كی تكمیل كی ضمانت ہے لہٰذا اس نقطہ نظر سے امامت كا مسئلہ ، اسلام كے اعتقادی، سیاسی اور سماجی اصولوں میں بنیادی اصول اور اسلامی معاشروں كی بقا كا اصل سبب ہے۔

امت مسلمہ صدیوں سے زندگی كے اس راز سے غافل ہے اسی غفلت كے باعث اسلامی معاشرے اپنی عظمت و شوكت اور رشدو ارتقاء سے ہاتھ دھو بیٹھے، مسلمانوں پر اغیار كے تسلط كی راہ ہموار ہوئی اور اسلام كا صرف نام باقی رہ گیا۔

ایران میں اسلامی انقلاب كی كامیابی نے مسلمانوں كے بیداركركے انہیں اسلامی ملكوں كے زوال و پسماندگی كے اصلی اسباب و علل سے روشناس كرادیا ہے۔ آج ہر آگاہ و انصاف پسند مسلمان … چاہے وہ جس مذہب كا ماننے والا ہو … اچھی طرح سے جانتا ہے كہ حقیقی اسلام كو عملی جزمہ پہنانے، اسلامی مقاصد كو پایہ تكمیل تك پہنچانے اور اسلامی ممالك كو اغیار كی دست بُرد سے محفوظ ركھنے كا واحد راستہ امام برحق كی امامت كا نفاذ ہے۔

تاریخ اسلام كے اس موڑ پر اور موجودہ حالات میں “اسلام میں امامت و قیادت كے بنیادی اصول” سے واقفیت اس آسمانی دین كے تمام ماننے والوں كے لئے نہایت ضروری ہے۔ اور یہ مضمون اسی سلسلے كی ایك كوشش ہے۔

امامت كی تعریف

لفظ امام ممكن ہے حسب ذیل الفاظ سے مشتق ہوا ہو:۔

اَمام =آگے، یا اُمّ = اصل، یا اَمّ = قصد وارادہ

اگر” اَمام” سے مشتق ہوا ہو تو امام كا معنی پیشرو وپیشوا ہوگا۔ اور اگر “اُمّ ” سے مشتق مانیں گے تو اس كا معنی معاشرے كی اساس و بنیاد ہوگا۔ اور اگر “اَمّ” سے مشتق ہوگا تو پھر امام سے مراد وہ شخص ہوگا جس كی پیروی و اتباع كا عوام قصد وارادہ كریں۔

كتاب “المفردات فی غریب القرآن” میں لفظ امام كا معنی یوں بیان كیا گیا ہے: “امام اس چیز كو كہتے ہیں جس كی پیروی كی جائے۔ وہ چیز چاہے انسان ہو جس كے اقول و اعمال كی پیروی كی جاننے یا كتاب ہو یا كوئی دوسری چیز” اس كی پیروی برحق ہو یا باطل۔

جیسا كہ آپ نے ملاحظہ فرمایا “امام، امامت اور امت” یہ الفاظ خود كوئی مقدس مفہوم نہیں ركھتے امام وہ ہے جو كسی امت كی امامت كے فرائض انجام دے۔ اور اپنی پیرو جماعت كی قیادت سنبھالے چاہے وہ خود عادل و ہدایت یافتہ ہو اور اس كی امامت برحق ہو، یا گمراہ و فاسق اور اس كی امامت باطل ہو۔

بنابریں لفظ امامت توحید و نبوت كی طرح بذات خود كسی مقدس مفہوم كا حامل نہیں ہے۔یہ لفظ صرف اس وقت مقدس مفہوم كا حامل ہوگا جب كسی ایسے قائد كے لئے استعمال كیا جائے جس كی قیادت برحق ہو۔

قرآن مجید میں لفظ “امامت” تو استعمال نہیں ہوا ہے۔ ہاں “امام” اور “امت” كا لفظ مقدس و غیر مقدس دونوں مفہوموں میں بیان ہواہے۔

امام نور

قرآن كریم نے لفظ امام كو جن مقامات پر مقدس مفہوم میں استعمال كیا ہے ان میں سے ایك حضرت ابراہیم علیہ السلام كی امامت سے متعلق سورہ بقرہ كی ۱۲۴ ویں آیت ہے:۔

“واذابتلیٰ ابراھیم ربّہ بكلمات فاتمّھنّ قال اِنّی جاعلك للنّاس اماماً”

جب ابراہیم علیہ السلام كو ان كے پروردگار نے مختلف طریقوں سے آزمالیا اور وہ ان سب میں پورے اترے تو خدا نے كہا میں تمہیں لوگوں كا امام و پیشوا بنا رہاہوں۔

اس مقدس مفہوم كا ایك دوسرا نمونہ حضرت ابراہیم علیہ السلام كے خاندان اور الہٰی رہبروں كی امامت كے بارے میں سورہٴ انبیاء كی یہ ۷۳ ۔ویں آیت ہے۔

“وجعلناھم ائمة یھدون بامرنا”

ہم نے انہیں ایسا امام بنایا ہے جو ہمارے امر سے لوگوں كی ہدایت كرتے ہیں۔

امام نار

قرآن كریم فرعون اور فرعونیوں كو بھی امام سمجھتا ہے لیكن “امام نار” یعنی ایسے قائد و پیشوا جو اپنے ماننے والوں كو آتش جہنم كی طرف لے جاتے ہیں:۔

وجعلناھم ائمة یدعون الی النّار (قصص ۴۱)

ہم نے انہیں ایسا امام بنایا ہے جو لوگوں كوجہنم كی طرف بلاتے ہیں۔

قرآن ان عہد شكن مستكبروں كو ائمہ كفر كے نام سے یاد كرتا ہے جو صدر اسلام كے مسلمانوں سے برسر پیكار تھے۔

“وان نكثو اایمانھم من بعد عھد ھم وطعنوا فی دینكم فقاتلوا ائمۃ الكفر…”

اگریہ لوگ عہد كرنے كے بعد اپنی قسمیں توڑ دیں اور تمہارے دین پر حملہ كرنے لگیں تو كفر كے اماموں سے جنگ كرو…(توبہ ۔۱۲)

امت نور

ایك وہ مقام جہاں قرآن نے لفظ امت كو مقدس معنی میں استعمال كیا ہے سورہ بقرہ كی ۱۲۷ ویں آیت ہے:۔

“واذیرفع ابراھیم القواعد من البیت و اسمٰعیل ربّنا تقّبل منّا انّك انت السّمیع العلیم ربّنا واجعلنا مسلمین لك ومن ذرّیّتنا امّۃ مسلمۃ لك۔

جب ابراہیم علیہ السلام و اسماعیل علیہ السلام اس گھر كی دیواریں اٹھارہے تھے اور یہ دعا كررہے تھے: اسے ہمارے پروردگار ہم سے یہ خدمت قبول فرما، تو سب كی سننے اور سب كچھ جاننے والا ہے… پروردگارا: ہمیں اپنا مطیع و فرمانبردار بنا، اور ہماری نسل سے ایك ایسی امت پیدا كر جو تیری تابع فرمان ہو۔

اسی سورہ كی ۱۴۳، ویں آیت میں بھی لفظ امت مقدس معنی میں استعمال ہوا ہے:۔

وكذالك جعلناكم امۃ وسطاً لتكونو ا شھداء علی الناس۔

“اور اسی طرح ہم نے تمہیں ایك معتدل و میانہ رو امت قرار دیا ہے تاكہ تم لوگوں كےلئے ایك نمونہ امت بنو”

امت نار

قیامت كے دن گمراہ اماموں اور بھٹكی ہوئی قوموں كی گفتگو كو قرآن كریم ان لفظوں میں بیان فرماتا ہے:۔

“قال ادخلوافی امم قد خلت من قبلكم من الجن والانس فی النّار كلمادخلت امّۃ لعنت اختھا…” (اعراف ۳۸)

خدا ان سے كہے گا اس جہنم میں چلے جاؤ جس میں تم سے پہلے كے جن و انس كے گروہ جاچكے ہیں جب كوئی گروہ جہنم میں داخل ہوگا تو وہ اپنے پیش روگروہوں پر لعنت كرتا ہو اداخل ہوگا یہاں تك كہ جب سب ذلت كے ساتھ وہاں جمع ہوجائیں گے تو گمراہ امتیں اپنے اماموں كے بارے میں كہیں گی: پروردگارا! ان ہی لوگوں نے ہمیں گمراہ كیا تھا لہٰذا انہیں آگ كادہرا عذاب دے”۔

امامت كے مدارج

جس طرح نور كے مختلف درجے ہیں اسی طرح كمال مطلق كی طرف انسانوں كی ہدایت كے مقدس مفہوم میں استعمال ہونے والی امامت كے بھی مختلف مراتب ہیں اور جس طرح ظلمت كے مختلف درجے ہیں اسی طرح زوال مطلق كی طرف انسانوں كولے جانے كے غیر مقدس مفہوم میں استعمال ہونے والی امامت كے بھی مختلف درجات ہیں۔

اب سوال یہ ہے كہ امامتِ نور كے كتنے درجے ہیں اور امامت كا كون سا درجہ ایك اعتقادی اصول كی حیثیت سے اس مقالہ كا عنوانِ گفتگو ہے؟

مجموعی طورپر امامت كے لئے حسب ذیل چھ (۶) درجے تصور كئے جاسكتے ہیں…

1. قول سے رہبری

2. قول و فعل سے رہبری

3. سیاسی رہبری

4. سیاسی و دینی رہبری

5. سماجی مسائل میں معصوم كی رہبری

6. انسانوں كی ہدایت میں تكوینی ولایت و رہبری

قولی رہبری

صرف قول سے رہبری یا عمل سے خالی قولی امامت، امامت كا سب سے ادنیٰ درجہ ہے۔ جو شخص لوگوں كو خیر و كمال، بھلائی اور نیكی كی دعوت دیتا ہے لیكن خود اس پر عمل نہیں كرتا وہ امام تو ضرور ہے لیكن گفتار میں امام نور اور كردار میں امام نار ہے۔

اسلام اس قسم كی امامت اور اس درجہ كی قیادت كی بڑی شدت كے ساتھ مذمت كرتا ہے كیونكہ اگر چہ امام لوگوں كو حق كی طرف دعوت دیتا ہے اور كمال كی جانب ہدایت كرتا ہے لیكن اس كا فعل اس كے قول سے تضاد ركھتا ہے۔ چنانچہ ارشاد ہوتا ہے:۔

“یاایّھا الّذین آمنو الم تقولون مالاتفعلون كبر مقتاً عند اللّہ ان تقولو امالاتفعلون”

اے ایمان لانے والو لوگوں سے ایسی باتیں كیوں كہتے ہو جن پر تم خود عمل نہیں كرتے۔ خدا كے نزدیك یہ بڑی بری حركت ہے كہ كہووہ جو كرتے نہیں ہو۔ (صف ۲)

اسلام كا نقطہ نظر تو یہ ہے كہ امام لوگوں كو اپنے قول كے ذریعہ نیكی و كمال كی جانب بلانے سے پہلے خود اپنے عمل سے ہدایت كرے۔ حضرت امام علی علیہ السلام اس سلسلہ میں فرماتے ہیں

“من نصب نفسہ للناس اماماً فعلیہ ان یبداء بتعلیم نفسہ قبل تعلیم غیرہ۔ ولیكن تادیبہ بسیرتہ قبل تاٴدیبہ بلسانہ، معلمہ نفسہ و موٴدّبھا احقّ بالاجلال من معلم الناس دموٴدّبھم… (نہج البلاغہ۔ حكمت ۷۳)

“جو شخص لوگوں كا امام و پیشوابنتا ہے اسے دوسروں كو تعلیم دینے سے پہلے اپنے كو تعلیم دینا چاہیئے ۔ زبان سے درسِ اخلاق دینے سے پہلے اپنی سیرت و كردار سے تعلیم دینی چاہیئے۔ اپنے نفس كی تعلیم و تادیب كرنے والا دوسروں كی تعلیم و تادیب كرنے والے سے زیادہ احترام كا مستحق ہے”۔

امیر المومنین علیہ السلام نے ایك دوسرے مقام پر اس قسم كے واعظوں پر لعنت فرمائی ہے:۔

“لعن اللہ الاٰمرین بالمعروف التاركین لہ والناھین عن المنكر العاملین بہ”

خدا لعنت كرے ان لوگوں پر جو دوسروں كو نیكی كی دعوت دیتے ہیں اورخود اس سے غافل ہیں ۔ برائیوں سے روكتے ہیں لیكن خود اس كے مرتكب ہوئے ہیں۔ (وسائل الشیعہ ج ۱۱ ص۴۲۰)

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ والہ وسلم فرماتے ہیں كہ:۔

شب معراج مجھے ایسے لوگ دكھائے گئے جن كے ہونٹ آتشیں قینچیوں سے كاٹے جارہے تھے، جتنا ہونٹ كٹتا تھا اتنا ہی پھر روئیدہ ہوجاتا تھا میں نے جبرئیل سے پوچھا یہ كون لوگ ہیں انہوں نے جواب دیا یہ آپ كی امت كے خطباء و ذاكرین ہیں! یہ لوگوں سے جو كچھ كہتے ہیں خود اس پر كاربند نہیں ہوتے۔ خدا كی كتاب پڑھتے ہیں لیكن اس پر عمل نہیں كرتے۔ 1

قول و فعلی رہبری

امامت كا دوسرا درجہ قول و فعل سے قیادت ہے۔ قیادت كا یہ مفہوم درحقیقت امامت انسان كا وہ پہلا درجہ ہے جس كی اسلام تائید كرتا ہے اور قرآن لوگوں كو اس كی طرف بلاتا ہے۔ اس معنی میں ہر انسان امام بن سكتا ہے۔ اور امامت كے ا س درجہ پر فائز ہوسكتا ہے۔

قرآن كریم سورہٴ فرقان كے آخر میں صالح انسانوں اور “عبادالرحمٰن ” كے بارہ خصوصیات ذكر فرماتا ہے۔ چنانچہ انكی ایك خصوصیت یہ ہے كہ:۔

“والّذین یقولون ربّنا ھب لناس ازواجنا وذریاتنا قرّة اعین واجعلنا للمتقین اماماً ” (فرقان ۷۴)

یہ ایسے لوگ ہیں جو دعا كرتے ہیں كہ ہمارے پروردگار! ہمیں اپنی بیویوں اور اپنی اولاد سے آنكھوں كی ٹھنڈك دے اور ہم كو پرہیزگاروں كا امام بنادے۔

نہج البلاغہ كی ۲۸۹۔ویں حكمت میں امیرالمومنین علیہ السلام اپنے ایك دینی بھائی كے خصوصیات بیان فرماتے ہوئے جو امامت كے اس درجہ پر فائز ہوا تھاتاكید كرتے ہیں كہ ان صفات سے آراستہ ہونا سب كےلئے ضروری ہے۔ اور اگر كوئی ان تمام اوصاف كو اپنانے سے عاجز ہو تو اسے امكانی حد تك كوشش كرنی چاہیئے كہ ان میں سے كچھ ہی صفات حاصل كرلے۔ امیر المومنین علیہ السلام فرماتے ہیں:۔”كان لی فیما مضی اخ فی اللّٰہ ، وكان یعظّمہ فی عینی صغراالدّنیا فی عینہ، وكان خارجاً من سلطان بطنہ فلا یشتھی ما لا یجد و لا یكثر اذا وجد، و كان اكثر دھرہ صامتہ فان قال بذالقائلین ونقع غلیل السائلین ، وكان ضعیفاً مستضعفاً فان جاء الجدّفھولیث غادّ وصل واد،لایدلی بحجة حتی یاتی قاضیاً وكان لایلوم احداً علی مایجد العذرفی مثلہ حتی یسمع اعتذارہ، وكان لایشكورجعاً الاعندبرئہ، وكان یفعل مایقول ولا یقول مالایفعل، وكان ان غلب علی الكلام لم یغلب علی السكوت، وكان علی ان یسمع احرص منہ علی ان یتكلمہ، وكان اذابدھم امران نظر ایّھما اقرب الی الھوی فخالفہ، فعكیلم بھذہ الخلائق فالزمرھا وتنافسوافیھا فان لم تستطیعوھا فاعلمو ان اخذالقلیل خیرمن ترك الكثیر۔

عہد ماضی میں میراایك دینی بھائی تھا جو میری نظروں میں اس درجہ سے عزیز تھا كہ دنیا اس كی نظروں میں پست و حقیر تھی، اس پر پیٹ كے تقاضے مسلط نہ تھے۔ لہٰذا جو چیز اسے میسر نہ تھی اس كی خواہش نہیں كرتا تھا، او رجو چیز میسر تھی اسے ضرورت سے زیادہ صرف نہیں كرتا تھا۔وہ اكثر اوقات خاموش رہتا تھا اور جب بولتا تھا تو بولنے والوں كی بولتی بند ہوجاتی تھی اور سوال كرنے والوں كی پیاس بجھادیتا تھا۔ یوں تووہ مستضعف و كمزور نظر آتا تھا مگر جہاد كا موقع آجائے تو وہ شیرعبیثہ اور وادی كا اژدہا تھا۔ اختلافات میں اپنے دلائل و برہان صرف قاضی كے سامنے پیش كرتا تھا۔وہ ان چیزوں میں جن میں عذر كی گنجائش ہوتی تھی كسی كو سرزنش نہیں كرتا تھا۔ جب تك اس كے عذر كو سُن نہ لے، وہ درد و تكلیف سے چھٹكارا پالینے سے پہلے ان كا ذكر نہیں كرتا تھا، وہ جو كرتا تھاوہی كہتا تھا، وہ جو نہیں كرتا تھااسے نہیں كہتا تھا۔ اگر بولنے میں كبھی اس پر غلبہ پا بھی لیا جائے تو خاموشی میں اس پر غلبہ حاصل نہیں كیا جاسكتا تھا، وہ بولنے سے زیادہ سننے كا خواہشمند رہتا تھا اور جب اس كے سامنے دو چیزیں آجاتی تھیں تو ان دونوںمیں سے جو ہوائے نفس كے زیادہ قریب ہوتی وہ اس كی مخالفت كرتا تھا۔

لہٰذا تمہیں ان عادات و خصائل كو حاصل كرنا چاہیئے اور ان پر عمل پیرا نیز انكا خواہشمند رہنا چاہیئے، اگر ان تمام كا حاصل كرنا تمہاری قدرت سے باہر ہوتو یادركھو كہ تھوڑی سی چیز حاصل كرنا پورے كو چھوڑدینے سے بہتر ہے۔

امامت كے اس درجہ میں قرآنی نقطہ نظر سے تمام مومنین ایك دوسرے كے امام وولی ہیں یعنی سب پر فرض ہے كہ اپنے كردار و گفتار سے ایك دوسرے كو نیكی كی دعوت دیں اور برائی سے روكیں۔

“الموٴمنون والموٴمنات بعضھم اولیآء بعض یامرون بالمعروف وینھون عن المنكر” (توبہ ۷۱)

مومنین و مومنات ایك دوسرے كے ولی ہیں اسی لئے وہ ایك دوسرے كو نیكیوں كی دعوت دیتے ہیں اور برائی سے روكتے ہیں۔

یہ ولایت، سیاسی ولایت و قیادت نہیں ہے، بلكہ یہ وہ حق ہے جو خدا وند عالم نے معاشرے كی اصلاح كی غرض سے ہر مسلمان كو عطا كیا ہے كہ وہ معاشرے سے برائیوں كو دور كرنے اور اچھائیوں كو رواج دینے كے لئے ایك دوسرے كو حكم دے سكتے ہیں اورنہ صرف یہ كہ یہ ولایت ان كاحق بلكہ ان پر فرض ہے كہ وہ اس ولایت سے استفادہ كریں۔

امامت و ولایت كا یہ درجہ اپنے اوج كمال پر اس وقت پہنچتا ہے جب انسان كے قول سے زیادہ اس كا عمل لوگوں كو نیكیوں كی طرف بلاتا ہے اور برائیوں سے دور ركھتا ہے، كہتا كم ہے اور عمل زیادہ كرتا ہے۔ اور اس طرح وہ حضرت امیرا لمومنین علیہ السلام كے بقول اعلیٰ ترین انسانی فضائل سے آراستہ ہوجاتا ہے۔

“زیادة الفعل علی القول احسن فضیلۃ و نقص الفعل عن القول اقبح رذیلۃ”

قول سے زیادہ عمل بہترین فضیلت ہے اورعمل سے زیادہ قول بدترین رذالت ہے۔

سیاسی قیادت

امامت كا تیسرادرجہ امت كی سیاسی قیادت ہے۔ پہلے اور دوسرے درجے میں امام، امت پر سیاسی حاكمیت نہیں ركھتا، وہ صرف اپنے قول اور طرز عمل كے ذریعہ لوگوں كو فلاح و كمال كی جانب بلاتا ہے۔ لیكن اس درجہ میں امام، معاشرے كی سیاسی ہدایت كا ذمہ دار ہے جب كہ دینی قیادت اس كے دائرہ كار سے باہر ہے۔

امامت كے اس درجے میں جس چیز كی وضاحت ضروری ہے وہ یہ كہ آیا اسلامی نقطہ نظر سے سیاسی قیادیت دینی قیادت سے جدا ہوسكتی ہے؟ كیا اسلام یہ مانتا ہے كہ اسلامی معاشرہ كی سیاسی باگ ڈور كسی ایسے شخص كے ہاتھ میں ہو جو دینی قیادت كا حامل نہ ہو؟

اس كا ہر عكس تو ممكن ہے یعنی یہ ہوسكتا ہے كہ كوئی شخص دینی قائد تو ہو (قیادت كے بعض مدارج میں) مگر سیاسی رہبرنہ ہو… اس قسم كی قیادت كی وضاحت امامت كے دوسرے درجے كی تشریح كے ضمن میں بیان ہوچكی ہے… لیكن اسلامی نقطہ نظر سے یہ ہرگز ممكن نہیں كہ سیاسی قیادت مذہبی قیادت سے جداہو، كیونكہ اسلام رشد و ارتقاء كا ایك دستور العمل ہے اور اس مكتب فكر میں سیاسی قیادت كا واحد مقصد اور اس كا فلسفہ اسی دستور العمل كو بروئے كار لانا ہے۔ لہٰذا سیاسی قیادت اور دینی رہبری میں جدائی ناممكن ہے۔ اسی لئے اسلامی نقطہ نظر سے امامت كی ایك یقینی شرط دینی مسائل سے مكمل واقفیت ہے۔ 2

متواتر طور سے نقل ہونے والی حدیث ثقلین میں قرآن و عترت كے ایك دوسرے سے جدانہ ہونے كے سلسلہ میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم كی تاكید كا بھی یہی سبب ہے كہ دین سیاست سے جدا نہیں ہے۔ سیاسی قیادت كو دینی رہبری سے الگ نہیں كیا جاسكتا۔ سیاسی قیادت كو دینی قیادت سے جدا كرنا وہ پرانی، پیچیدہ اور كار ساز سازش ہے جو اسلام كو زك پہنچانے اور قرآن كو انسانی معاشروں سے دور كرنے كی غرض سے رچی گئی ہے۔ آئندہ ہم اس سلسلہ میں مزید توضیحات پیش كریں گے۔

مجتہد كی سیاسی قیادت

امامت كا چوتھا درجہ قیادت كے لئے ضروری شرائط كے حامل مجتہد كے ذریعہ اسلامی معاشرہ كی سیاسی قیادت ہے۔ امامت كے اس درجہ میں سیاسی و دینی قیادتیں ایك ہی جگہ پر جمع ہیں امام، امت كا سیاسی حاكم ہونے كے ساتھ ساتھ ان كے دینی مسائل كا بھی ماہر ہے اور حكومتی مسائل میں ان كی دینی ہدایت كا بھی ذمہ دار ہے۔

اس درجہ میں امام كی امامت كو ولایت فقیہ بھی كہتے ہیں۔ یہاں فقیہ سے مراد دینی مسائل كا وہ ماہر و مجتہد ہے جس میں قیادت كے لئے ضروری تمام شرائط موجود ہیں اور عوام نے اس كی بیعت كی ہے۔

ولی فقیہ اگر فروعی مسائل میں صاحب فتویٰ ہو اور عوام ان مسائل میں اس كی پیروی كرتے ہوں تو وہ مرجع تقلید بھی ہوگا۔ جیسے امام خمینی(رضوان اللہ تعالیٰ علیہ)تھے كہ حق یہ ہے كہ آپ امامت كے اس مرتبے كی سب سے بلند منزل پر فائز تھے۔

معصوم كی سیاسی قیادت

امامت كا پانچواں درجہ معصوم امام كے ہاتھوں امت كی سیاسی قیادت ہے۔ امامت كے چوتھے اور پانچویں درجے میں فرق یہ ہے كہ مجتہد كی امامت میں بھول چوك اور خطا و لغزش كا امكان ہے لیكن معصوم كی قیادت میںان چیزوں كا گذر نہیں ہے۔

دوسرے لفظوںمیں مجتہد و معصوم دونوںہی دین كے ماہر ہیں لیكن ان میں دو بنیادی فرق پایا جاتا ہے جس كے باعث ایك كو دوسرے پر قیاس نہیں كیا جاسكتا:۔

1. مجتہد كی دینی مہارت كا سرچشمہ دینی مآخذ اور معصومین علیہم السلام كے اقول كی چھان بین اور اس میں غور و خوض ہے جب كہ معصوم كی دینی معرفت خدا داد ہے۔

2. معصوم قائد… جیسا كہ خود اس لفظ سے ظاہر ہے … خطاء و لغزش سے محفوظ ہوتا ہے یعنی وہ جو بھی حكم دیتا ہے وہ خدا كا واقعی حكم ہوتا ہے اس كے تمام سیاسی، ثقافتی، اقتصادی، سماجی اور فوجی موقف صد فی صد مرضی معبود كے مطابق ہوتے ہیں لیكن غیر معصوم امام اپنے بعض فیصلوں میں خطاء و لغزش كا شكار ہوسكتا ہے۔

اسی لئے معصوم امام كی موجودگی میں غیرمعصوم كی قیادت جائز نہیں ہے۔

انسانِ كامل كی باطنی قیادت

امامت كا سب سے اعلیٰ درجہ انسان كامل كی باطنی امامت و ہدایت ہے۔ امامت كا یہ درجہ قول و فعل سے قیادت یا سیاسی قیادت كے مانند نہیں ہے۔بلكہ یہ انسان كامل اور كمال كی راہ میں گامزن انسانوں كے درمیان ایك قسم كا معنوی و روحانی رابطہ ہے جو انسانوں كی استعداد و صلاحیت كے شگفتہ ہونے اور ان كے كمال مطلق تك پہنچنے میں نہایت موٴثر و بنیادی كردار اداكرتا ہے۔جس طرح سورج كا كردار زندہ موجودات كے رشد و ارتقاء میں۔ اسی لئے امامت كے اس درجہ كو ولایت تكوینی یا ولایت معنوی كہا جاتا ہے۔ كیونكہ اس مرحلہ میں انسان كی تربیت وارتقاء میں امام كی ہدایت ، ولایت، قیادت اور اس كا نقش، تكوینی ہے۔

امامت و قیادت كا یہ درجہ نبوت سے بھی اعلیٰ ہے یعنی ممكن ہے كوئی شخص نبوت كے درجہ پر فائز ہونے كے باوجود انسان كامل كی امامت كا رتبہ نہ پاسكے یہی وجہ ہے كہ حضرت ابراہیم علیہ السلام ایك مدت تك پیغمبر تھے لیكن امام نہ تھے۔ متعدد آزمائشوں سے گزرنے كے بعد اور تكامل و ارتقاء كے مدارج طے كرنے كے بعد مقام امامت پر فائز ہوئے ہیں۔ چنانچہ قرآ ن كریم اس سلسلہ میں فرماتا ہے:۔

“واذابتلی ابراہیم ربّہ بكلمات فاتمھن قال انی جاعلك للنّاس اماماً ” (بقرہ ۱۲۴)

“جب خدا نے مختلف طریقوں سے ابراہیم(علیہ السلام) كو آزمالیا اور وہ ان میں پورے اترے تو خدا نے فرمایا میں تمہیں لوگوں كا امام بنا رہا ہوں”

امام محمد باقر علیہ السلام امامت كے اس درجہ كی وضاحت كرتے ہوئے جس پر حضرت ابراہیم علیہ السلام فائز ہوئے فرماتے ہیں:۔

انّ الله اتخذ ابراہیم عبداً قبل ان یتخذہ نبیاً واتّخذہ نبیاً قبل ان یتّخذہ رسولاً واتّخذہ رسولاً قبل ان یتخذہ خلیلاً قبل انیتخذہ اماماً فلما جمع لہ ھٰذہ الاشیاء وقبض یدہ ۔ قال لہ : یا ابراھیم “انی جاعلك النّاس اماماً”

خداوند عالم نے ابراہیم علیہ السلام كو نبوت دینے سے پہلے اپنا بندہ بنایا، رسالت دینے سے پہلے انہیں نبی بنایا، خلت دینے سے پہلے رسول بنایا، اور امامت سونپنے سے پہلے اپنا خلیل بنایا۔

جب ابراہیم علیہ السلام ان تمام كمالات سے آراستہ ہوچكے تو خدا وند عالم نے ان سے فرمایا: اے ابراہیم(علیہ السلام) میں تمہیں لوگوں كا امام بنارہا ہوں۔ 3

لہٰذا جب انسان كمال كے اعلیٰ ترین مدارج طے كرلیتا ہے۔ اور كمالِ مطلق تك پہنچنے كے تمام مراحل سے گزرجاتا ہے تب كہیں وہ امامت مطلقہ كے درجہ پر فائز ہوتا ہے۔ امامت كا یہ درجہ تمام معنوی مدارج حتیٰ نبوت، رسالت اور خلت سے بھی بالاتر ہے۔

اس سلسلہ میں مزید وضاحت نیز امامت كے تیسرے اور چوتھے درجہ كی تشریح، فلسفہ، امامت، كے ذیل میں بیان ہوگی۔

قیادت كا فلسفہ

“اسلام میں قیادت و امامت كے بنیادی اصول” سے متعلق بحث كا اصلی و بنیادی موضوع گفتگو یہی” فلسفہ امامت” ہے۔ دوسرے مباحث یا تو اس كی تمہید ہیں اور یا اسكی فرع و شاخیں ہیں۔

اصل مسئلہ یہ ہے كہ انسانی معاشرہ كے لئے قیادت و امامت كی ضرورت ہے بھی یا نہیں؟ اور اگر جواب مثبت ہے تو پھر امامت كا كون سادرجہ اس ضرورت كو پورا كرتا ہ؟ فلسفہ امامت ان ہی دو سوالوں كا جواب ہے۔

معاشرہ كو قائد كی ضرورت

پہلی نظر میں اس مسئلہ كے بارے میں بحث و گفتگو كی ضرورت محسوس نہیں ہوتی۔ كیونكہ معاشرہ كو قائد كی ضرورت اسكے فطری ضروریات میں سے ہے۔ اسی لئے تمام قومیں ہر زمانہ میں اور ہر مقام پر ایك قائد و رہبر سے بہر مند رہی ہیں۔ مختلف مكاتب فكر میں جس چیز پر اختلافِ نظر ہے وہ یہ ہے كہ ایك معاشرہ كے قائدہ و سربراہ كو كن خصوصیات و اوصاف سے آراستہ ہونا چاہئے۔ لیكن یہ ایك ناقابل انكار حقیقت ہے كہ معاشرہ كے لئے ایك قائد ضروری ہے۔

البتہ یہ بھی ایك حقیقت ہے كہ بعض اسلامی فرقوں نے اس بدیہی مسئلہ سے انكار كیا ہے…

خوارج كے ایك فرقہ اور دو معتزلی سربراہوں كے سوا تمام اسلامی فرقے امامت كوواجب سمجھتے تھے۔ خوارج كا فرقہٴ نجدات كہتا تھا كہ امامت سرے سے واجب ہی نہیں ہے ۔ یہ خود عوام كا فریضہ ہے كہ وہ حكم قرآن كے مطابق ایك دوسرے سے برحق سلوك كریں۔ قدیم معتزلی عالم ابوبكر اصمّ كہتے تھے كہ: جب لوگوں كے درمیان عدل و انصاف كادور دورہ ہو تو پھر امام كی ضرورت نہیں ہے، ہاں جب ظلم پھوٹ پڑے تب امامت واجب ہوتی ہے۔ 4

ابن ابی الحدید اس سلسلہ میں لكھتے ہیں:۔

“متكلمین امامت كو واجب جانتے ہیں سوائے اس بیان كے كہ جو ہمارے ایك قدیم عالم ابوبكر اصمّ سے نقل ہوا ہے كہ اگر عوام كے درمیان عدل و انصاف رائج ہو اور وہ ایك دوسرے پر ظلم نہ كریں تو امامت واجب نہیں ہے۔ لیكن ہمارے متاخرین علماء نے ان كے بیان كی توجیہ كرنے كی كوشش كرتے ہوئے كہا ہے كہ چونكہ لوگوں كے مسائل عموماً كسی ایسے سربراہ كے بغیر حل نہیں ہو پاتے جو ان پر حكومت كرے۔ لہٰذا ان كا خیال ہے كہ امامت ہر حال میں واجب ہے مگر یہ كہ وہ یہ دعویٰ كریں كہ لوگوں كے مسائل سربراہ كے بغیر حل ہوسكتے ہیں اوربعید ہے كہ وہ ایسا دعویٰ كریں۔ 5

معاصر دنیا میں بھی مادہ پرست مكتب فكر میٹریلزم ، معاشرے كے لئے ہدایت و قیادت كی ضرورت كامنكرہے۔ ڈئالكٹك میٹریلزم (Dialectic Materialism) كے مطابق معاشرے كی حركت جبری ہے۔ وہ خود بخود اپنے ارتقاء كی راہیں طے كرتا ہے لہٰذا اسے كسی قائد كی ہدایت و رہبری كی ضرورت نہیں ہے۔

اس منطق كے مطابق روشن خیال افراد كی ذمہ داری صرف اتنی ہے كہ وہ عوا م كو آگاہ كریں، وہ انہیں برائیوں اور ناانصافیوں سے روشناس كرائیں۔ جب عوام واقف ہوجائیں گے تو ارتقاء كی جانب معاشرہ كی جبری حركت خود بخود وجود میں آجائے گی:۔

ڈئالكٹك منطق كا ایك نتیجہ یہ ہے كہ وہ معاشرے كے لئے ہدایت وقیادت كی ضرورت كا انكار كرتی ہے اس منطق كی رو سے معاشرہ كو قائد اور روشن خیال كی صرف اتنی ضرورت ہے كہ وہ عوام كو برائیوں ،نا انصافیوں اور تضادوں سے آگاہ كرے، معاشرہ میں موجود تضادكو عوام كے ذہن میں اتارے تاكہ ڈئالكٹك حركت وجود میں آئے۔ اور چونكہ حركت جبری ہے اور تھیسز (Thesis) واینٹی تھیسز (Antithesis) سے گزر كر سینتھیسز تك پہنچنا ایك حتمی امر ہے جس سے روگردانی ناممكن ہے لہٰذا معاشرہ خود بخود اپنا راستہ طے كرلے گا اور منزل كمال تك پہنچ جائے گا۔ 6

ہم اس وقت اس منطق پر تبصرہ كرنا نہیں چاہتے ہماری بحث توحید و نبوت كی بنیاد پر قیادت كے اصول كے بارے میں ہے۔ اصولی طور پر اب اس دور میں ماركسی نظریات پر بحث و گفتگو كی ضرورت، ہی نہیں ہے۔ كیونكہ تاریخ نے خود ہی اس كا تجزیہ كردیا ہے اور اس كے غلط ہونے كا اعلان كركے اس كے موہوم عقائد كو اپنے میوزیم میں دفن كردیا ہے۔ یہ منطق درحقیقت ایك نظریاتی مكتب فكر كے بجائے سیاست كے میدان میں سادہ لوحافراد كو پھانسنے كے لئے ایك پیچیدہ و خطرناك سیاست ہے۔

چونكہ قیادت و رہبری كی ضرورت معاشرہ كی ایك فطری ضرورت ہے لہٰذا ڈئالكٹك منطق كے پرستار بھی صرف خواب و خیال كی دنیا ہی میں اس كی ضرورت سے انكار كرسكے ہیں لیكن میدان عمل میں ایك لحظ كے لئے بھی اپنے اس نظریہ پر عمل پیرا نہیں ہوئے۔

رہبری كی ضرورت اسلامی نقطہ نظرسے

اسلامی مصادر كے بغور مطالعہ سے یہ واضح ہوجاتا ہے كہ اگر چہ اسلام انسان كے ارتقاء كے لئے امامت و قیادت كے سب سے اعلیٰ درجہ كو ضروری سمجھتاہے تاہم انسان كامل كی قیادت كے لئے زمین ہموار نہ ہونے كی صورت میں وہ معاشرہ كی مطلق سیاسی قیادت كی ضرورت پر بھی زور دیتا ہے۔

دوسرے لفظوں میں اسلام كا مطمح نظر معاشرہ میں شائستہ افراد كی قیادت اور صالحین كی حكومت قائم كرنا ہے۔ اور اس كے لئے زمین ہموار كرنا ہر شخص كا فریضہ ہے لیكن وہ كسی بھی حالت میں سیاسی قیادت كی ضرورت سے انكار نہیں كرتا اور مسلمان كو اجازت نہیں دیتا كہ وہ ہرج و مرج میں زندگی گزاریں یا حكومت كی تشكیل اور سیاسی قیادت وجود میں لانے سے لاپرواہی برتیں۔

عوام كے لئے ایك قائد ضروری ہے۔ خواہ اچھاہو یا برا!

یہ جملہ امیر المومنین علیہ السلام نے اپنی تین اہم مخالف پارٹیوں میں سے ایك پارٹی… جو مارقین و خوارج كے نام سے پہچانی جاتی ہے … كے مشہور نعرہ كے جواب میں فرمایا ہے ان كا نعرہ تھا:۔لَا حُكمَ اِلّالِلّہَ حكم كا حق صرف اللہ كو ہے

اس نعرہ كی بنیاد قرآن كریم كی وہ آیت ہے جو كہتی ہے:۔

اِنِ الحُكم اِلّا لِلّہ 7حكم صرف خدا كا حق ہے

ان آیتوں میں اس حكم سے مراد جسے خدا كا مخصوص حق بتایا گیا ہے یا حكم تكوینی ہے۔ یعنی خدا اس كائنات میں جو چاہے وہی ہوگا اس كے ارادے كو كوئی چیز روك نہیں سكتی ۔ اور یا اس سے مقصود حكم تشریعی ہے یعنی حكم دینے اور قانون بنانے كا حق صرف خدا كو ہے۔خدا كے سوا كوئی نہ قانون بنانے كا حق ركھتا ہے اور نہ انسانوں كو حكم دینے كا حق ركھتا ہے۔

لیكن یہ واضح اور بدیہی ہے كہ الہٰی قوانین كے دائرہ میں خدا كے حكم كی بنیاد پر تشكیل پانے والی حكومت كے قوانین خدا ہی كے قانون مانے جائیں گے۔ اس طرح اس امام و قائد كا حكم بھی خدا كا حكم شمار ہوگا جس كی اطاعت خدا نے واجب قراردی ہے۔

مارقین ایسے لوگ تھے جو اپنے غرور، جہالت اور شاید دشمن كی منصوبہ بندی سازش كے باعث جنگ صفین میں حكمیت كے مسئلہ پر امیرا لمومنین علیہ السلام كے مخالف ہوگئے اور رفتہ رفتہ انہوں نے امام علیہ السلام كی حكومت كے مقابل میں ایك منظم، طاقت ور، اور انتہا پسند مخالف پارٹی كی شكل اختیار كرلی، ان لوگوں نے امیرا لمونین علیہ السلام كی امامت و قیادت كو مشكوك بنانے كے لئے یہ نعرہ پیش كیا كہ “لاحكم الّا للّہ” یہ قرآنی بنیادوں پر استوار نعرہ تھا، اور كوئی اس سے انكار بھی نہیں كرسكتا تھا۔ امام علیہ السلام نے ان كے جواب میں اس نعرہ كی تائید فرماتے ہوئے حكومت و سیاسی قیاد ت سے متعلق اسلامی نقطہ نظر كو واضح فرمایا اور ان تیز و تند نعروں كی حقیقت آشكار فرمائی جنہیں انقلابی نما افراد اپنی حقانیت ثابت كرنے كے لئے استعمال كررہے تھے۔ حضرت علیہ السلام اس ذیل میں فرماتے ہیں:۔

“كلمۃ حقّ یراد بھاالباطل، نعم انّہ لاحكم الّاللّہ، ولكن ھولآء یقولون:

لاامرة الّا للّہ، وانہ لابدّ للنّاس من امیر برّاوفاجر، یعمل فی امرتہ المومن ویستمتع فیھا الكافر، ویبلّغ اللّہ فیھا الاجل، ویجمع بہ الفی و یقاتل بہ الصدق وتامن بہ اسّبل یوٴخذبہ الضعیف من القوی حتّی یستریح ویستراحمن فاجر”

بات تو صحیح ہے مگر وہ اسے غلط معنیٰ پہناتے ہیں۔ ہاں بیشك حكم اللہ كے لئے مخصوص ہے مگر یہ لوگ تو یہ كہنا چاہتے ہیں كہ حكومت بھی اللہ كے سوا كسی كی نہیں ہوسكتی۔ حالانكہ لوگوں كے لئے ایك حاكم كا ہونا ضروری ہے۔ خواہ وہ اچھا ہو یا بُرا ، حكومت كے سائے میں مومن اچھے عمل كرسكے گا اور كافر اپنی دنیاوی زندگی سے بہر مند ہوگا۔ اور خدا اس نظام حكومت میں ہر چیز كو اس كی آخری حد تك پہنچا دے گا۔

اسی حاكم كی وجہ سے مال (خراج و غنیمت وغیرہ) جمع ہوتا ہے، دشمن سے لڑا جاتا ہے، راستے پُر امن رہتے ہیں اور قوی سے كمزوروں كا حق دلایاجاتا ہے، تاكہ نیك افراد راحت پائیں اور بدكاروں كے شر سے نجات ملے۔

ایك دن امام علیہ السلام مسجد میں تشریف فرما تھے كہ ایك خارجی مسجد میں داخل ہوااور بلند آواز سے كہنے لگا۔ لَاحُكم اِلّاللّہ

لوگ امیرا لمومنین علیہ السلام كے رد عمل كے متظر تھے۔شاید بعض لوگوں كا خیال تھا كہ امام علیہ السلام طیش میں آكر اس سے سخت برتاؤ كریں گے۔لیكن ان كے تصورات كے برعكس امام علیہ السلام نے بڑی ملائمت كے ساتھ پہلے اس نعرہ كی تائید فرماتے ہوئے اسے چند مرتبہ دہرایا، سورہٴ روم كی ۶۰۔ ویں آیت كی تلاوت فرمائی كہ خداوند عالم پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم سے تاكید فرماتا ہے كہ اسلام مخالفوں كی گوشمالی كرنے كا خدائی وعدہ حق ہے لہٰذا ان كے تشدد و ایزارسانی سے آپ كے صبر كا پیمانہ چھلكنے نہ پائے اور ان سے برتاؤ میں متانت و بردباری كا دامن ہاتھ سے چھوٹنے نہ پائے۔ اس كے بعد امام علیہ السلام نے مسجد میں موجود افراد كو خطاب كرتے ہوئے فرمایا:۔

“فَماتدرون مایقول ھولآء؟ یقولون: لاامارة ایّھا النّاس انہ لایصلحكم اِلّا امیر برّادفاجر”

جانتے ہو یہ لوگ كیا كہتے ہیں؟ یہ كہتے ہیں حكومت و قیادت نہیں ہونی چاہئے: یاد ركھو صرف حكومت و قیادت كے سائے میں تمہاری مصلحتیں پوری ہوسكتی ہیں خواہ وہ حاكم اچھا ہو یا بُرا۔

عوام كے لئے یہ ایك نئی بات تھی كہ امام معاشرہ كے لئے مطلق طور سے حكومت كی ضرورت كی تائید فرمارہے ہیں یہاں تك كہ فاسق و فاجر امام كی حكومت بھی لہٰذا انہوں نے تعجب سے پوچھا؟

“ھٰذا البر قد عرفناہ فمابال الفاجر”

معاشرے كے لئے نیك و متقی قائد كی ضرورت تو واضح ہے لیكن یہ كیسے ممكن ہے كہ عوام فاجر امام سے بھی بے نیاز نہیں ہیں؟

امیر المومنین علیہ السلام نے جواب میں فرمایا:۔

“یعمل المومنین و یعملی للفاجر و یبلغ اللّہ الاجل و تامن سبلكم و تقوم اسواتك ویقسم فیئكم و یجاھد عدوكم ویوخدللضعیف من القوی”

فاسق و فاجر قائد كی حكومت میں بھی مومن كو اپنے نیك عمل كا موقع ملتا ہے اور فاجر كو مہلت ملتی ہے اور خدا ہر چیز كو اس كی آخری حدتك پہنچادے گا۔ تمہارے راستے پر امن رہیں گے ۔ تمہارے بازار آباد ہو ں گے۔ تمہارے اموال (خراج اور ٹیكس وغیرہ) تقسیم ہوں گے اور تمہارے دشمنوں سے لڑا جائے گا اس كے ذریعہ قوی سے ضعیف كا حق دلایا جائے گا۔8

امام علیہ السلام نے اپنے اس غیر معمولی اہم اور گراں بہا كلام میں چند بنیادی نكتوں كی طرف اشارہ فرمایا ہے۔

1۔ كلام حق ہمیشہ حق كا حامی نہیں ہوتا

تاریخ گواہ ہے كہ حق كی حمایت اور خلق كی طرفداری كا لبادہ اوڑھے ہوئے تمام خود پرست انقلابی نماؤں كا نعرہ ایسا كلام حق رہا ہے جس سے باطل معنی مراد لئے جاتے ہیں۔ باطل مكاتب فكر اور فاسد قائدوں كے غلبہ و كامیابی كا راز یہ ہے كہ عوام اس غیر معمولی اہمیت كے حامل نكتہ سے غافل ہیں كہ كلامِ حق ہمیشہ حق كا حامی و طرفدار نہیں ہوا كرتا…!

امام علیہ السلام حقیقی اسلام كا دفاع كے ان جھوٹے دعویداروں كے جواب میں جو قیادت كے مقابلہ میں معاندانہ موقف اختیار كئے ہوئے میں، پہلے وضاحت كرتے ہیں كہ یہ لوگ اپنے مقاصد كے حصول كی غرض سے كلام حق كو ناجائز طور پر استعمال كررہے ہیں۔ یہ لوگ حكم خدا كی پیروی كو بہانہ بناكر اس امام كی نافرمانی كرنا چاہ رہے ہیں جس كی اطاعت كا خود خدا نے حكم دیا ہے۔ بلكہ سرے سے اسلامی معاشرہ كے لئے سیاسی قیادت و حكومت كی ضرورت ہی كا انكار كرنا چاہتے ہیں۔

2۔ انقلابی نماؤں سے مقابلہ كا طریقہ

امام علیہ السلام كے كلام میں دوسرا نكتہ ان انقلابی نماؤں سے مقابلہ كا طریقہ ہے جو حق كہتے ہیں لیكن مقصد باطل ہوتا ہے۔ ایسے افراد كے مقابلہ میں كچھ لوگ ان كے برحق نعروں ہی كی مخالفت كرنے لگتے ہیں لیكن امام علیہ السلام نعرہ بلند كرنے والوں كی مخالفت نہیں كرتے امام علیہ السلام نے مارقین كے نعرہ پر كوئی اعتراض نہیں كیا بلكہ خود ان پر اور اس نعرہ كی آڑ میں چھپے ہوئے ان كے اغراض و متصامد پر كڑی تنقید فرمائی۔ امام علیہ السلام یہ نہیں فرماتے كہ چونكہ اس نعرہ سے تم غلط فائدہ اٹھانا چاہتے ہولہٰذا یہ نعرہ ہی معاشرہ میں پیش كرنے كے لائق نہیں ہے بلكہ امام علیہ السلام خود بھی ان كے نعرہ كی تائید فرماتے ہوئے اسے بار بار دہراتے ہیں۔ كیونكہ حق بات جو بھی كہے اسے مان لینا چاہیئے لیكن اس پر بھی نگاہ رہنی چاہئے كہ اس حق بات سے اس كا مقصد كیا ہے؟

3۔ تشكیل حكومت كی ضرورت

امیر المومنین علیہ السلام كے كلام میں تیسرا نكتہ یہ ہے كہ عوام كے كم سے كم حقوق كی حفاظت كے لئے حكومت كی تشكیل ایك ناقابل اجتناب ضرورت ہے چاہے وہ جس شكل میں ہو۔ اسلام كسی بھی حال میں معاشرہ كے لئے سیاسی قیادت كی ضرورت سے انكار نہیں كرتا۔ خواہ قائد گناہگار و فاجر ہی كیوں نہ ہو۔ اور اس كی وضاحت كرتے ہوئے فرماتے ہیںكہ فاجر كی حكومت میں بھی ٹیكس وصول اور تقسیم ہوتے ہیں۔ راستے پُرامن ہوتے ہیں، اقتصادی كاروبار میں رونق آتی ہے۔ عوام كے دشمنوں سے جنگ ہوتی ہے اور قوی سے ضعیف كا حق دلایا جاتا ہے۔

دوسرے لفظوں میں اگر چہ فاجر كی حكومت میں عوام كے حقوق كا ایك برا حصہ ضائع ہوتا ہے لیكن پھر بھی اتنا فائدہ ضرورہے كہ زندگی ممكن ہوتی ہے۔ كیونكہ فاجر بھی اپنی حكومت كی بقاء كے لئے معاشرہ میں اقتصادی اور سماجی تحفظ و سالمیت برقرار كرنے پر مجبور ہوتا ہے۔ اچھے اور برے سب كی زندگی كی بقاء كے اسباب فراہم كرتا ہے لہٰذا فاجر كی حكومت، فتنہ و فساد اور ہرج و مرج سے بہتر ہے۔

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم كے بقول:۔

“الامام الجائر خیر من الفتنۃ” 9 امام جائر فتنہ سے بہتر ہے۔

ایك روایت میں امیرالمومنین علیہ السلام فرماتے ہیں:۔

اسد حطوم خیر من سلطان ظلوم و سلطان ظلوم خیر من فتن تدوم۔10

درندہ شیر، ظالم بادشاہ سے بہتر ہے اور ظالم بادشاہ دائمی فتنہ سے بہتر ہے۔

1. میزان الحكمۃ ج ۶ باب ۲۸۹۶ “قوم یقرضون شفاھھم بمقاریض من نار”

2. تفصیلی گفتگو انشاء اللہ شرائچ امامت كی بحث میں آئے گی

3. اصول كافی جلد ۱ ص ۱۷۵

4. لغت نامہ دہخدا لفظ “امامت”

5. شرح نہج البلاغہ ان ابی الحدید جلد ۲ ص۳۰۸

6. امامت و رہبری، استاد شہید مرتضیٰ مطہری، ص۳۳

7. اَنعَام ۵۷۔ یوسف ۴۰ و ۶۷ كچھ دوسری آیتیں بھی اس مفہوم پر دلالت كرتی ہیں۔

8. المصنف، ابی شیبہ جلد ۱۵۔ ص ۷۵۱

9. شرح نہج البلاغہ ابن میثم۔ جلد ۲ ص۱۰۳

10. بحار الانوار جلد ۷۲ ص ۳۵۹

 

تبصرے
Loading...