اسلام میں تربیت کی روش

 اسلام دیگر مسائل کی طرح تربیت میں بھی اپنی خاص روش وطریقہ کار رکھتاہے بقول شھید مطہری ایک مکتب جو واضح اھداف و مقاصد اور ھمہ گیر قوانین کا حامل ہے اور جدید قانونی اصطلاح کے مطابق اقتصادی و سیاسی نظام کا حامل ہے ایسا نہیں ہو سکتا کہ اس کے پاس تعلیم و تربیت کا خاص نظام موجود نہ ہو ۔

تعلیم و تربیت کے مسئلے کو ہمشہ سے اسلامی تمدن میں مرکزی حیثیت حاصل رہی ہے بلکہ یہ امر اسلامی تھذیب و تمدن کا رکن رہا ہے اور دین جو تمدن اسلامی کی بنیاد ہے اس سے تعلیم و تربیت کا کبھی نہ ٹوٹنے والا رشتہ قائم ہے  اور مسلمانوں نے ہمیشہ سے قرآن و سنت نبوی (ص) سے تعلیمی اور تربیتی روشیں اخذ کی ہیں ۔

دراصل تربیت اسلامی ایمان و عمل صالح ،شریعت و سنت کی نگرانی کی اساس پر مسلمانوں کے لے اخلاق حسنہ و معنوی اقدار کے حصول کا منبع رہی ہے رسول اسلام صلی اللہ علیہ آلہ وسلم نے انسان کے لۓ ایسی تعلیمات اور اصول وضوابط پیش کۓ جو اس زمانے تک ادیان الھی کے سوا وہ بھی محدود سطح پر کہیں اور موجود نہیں تھے اور ان تعلیمات و اصول وضوابط کا سرچشمہ قرآن اور دیگر امور تھے جو وحی و الھام سے آپ (ص) کو حاصل ہوتے تھے اور یہی امور آپ (ص) کی سنت کے طور پر خلوہ گر ہوۓ ہیں  ۔

اسلامی تربیت کا نظام متوازن نظام ہے جس کا ھدف انسان کو ایسے اقدار سے آشنا کرانا ہے کہ انسان اپنی دنیوی زندگي کے لۓ یہ سمجھے کہ وہ ھمیشہ کے لۓ دنیا میں رھے گا اور دینی لحاظ سے یہ سوچے کہ وہ کسی بھی لمحے درگاہ حق میں پہنچ سکتا ہے لھذا اسلام نے انسانی زندگي اور آخرت سے متعلق کسی بھی امر کو نظر انداز نہیں کیا ہے  ۔

اولاد کی تربیت کے بارے میں اسلام نے بہت زیادہ تاکید کی ہے اسی تاکید کی بناپر بہت سے علما و دانشوروں نے تعلیم و تربیت کے موضوع پر اپنی کتابوں میں اولاد کی تربیت پر قلم فرسائي کی ہے  ۔

اسلام نے تمام مکاتب فکر سے زیادہ عورت کی حمایت کی ہے یہ صرف دعوی نہیں ہے بلکہ قرآن و اسلامی کتب پر اجمالی نگاہ ڈالنے سے بھی ہمارا دعوی ثابت ہوجاتاہے اس کے علاوہ مسلمانوں نے اھل کتاب کے ساتھ جو رواداری کا رویہ اختیار کر رکھا تھا وہ مفاھمت آمیز زندگي کے اصول پر مبنی تھا جس سے قرون وسطی کا یورپ بالکل بے خبر تھا  شاید اسی رواداری کی بناپر بہت سے اھل کتاب اسلام کی طرف کھنچتے چلے آۓ اور انہوں نے اسلام کے دائرہ رحمت میں پناہ لے لی بقول مرحوم زرین کوب اس کا مرکز عراق وشام نہیں بلکہ قرآن کریم تھا ۔

تربیت اسلامی کا فلسفہ

تمام متکلمین و فلاسفہ الھی کا ماننا ہے کہ اس عالم ھستی کا ایک ھدف و مقصد ہے اور قرآن میں بھی اس ھدف و مقصد کی طرف اشارہ کیا گیا ہے یہ اشارہ مختلف تعبیرات کے پیرائے میں آیا ہے 

یعنی قرآن کریم نے جسے ہم آج کی اصطلاح میں دین کا ترجمان و منشور کھہ سکتے ہیں کبھی بھی یہ نہیں کہا ہے کہ عالم ھستی اور اس کے مرکزی کردار، انسان کی خلقت، بغیر ھدف و حکمت کے ہوئي ہے بلکہ قرآن کی نظر میں انسان کو پیدا کرنے کا بنیادی ھدف قرب الھی اور کمالات کا حصول ہے اب یہاں اس موضوع پر قرآن کی آیات کا ذکر کرنا ممکن نہیں کیونکہ قرآن میں جگہ جگہ انسان کو گناہوں، غفلت، اور دیگر آفات سے دور رھنے کو کہا گیا ہے جو اسے خدا سے دور کردیتی ہیں اسی کے ساتھ ساتھ انسان کو تقوی اختیار کرنے اور نیکیوں کی تلقین کی گئی ہے اور اس بات پر تاکید کی گئي ہے کہ انسان خدا سے قربت حاصل کرنے کے راستے میں موجود رکاوٹوں کو ھٹادے لھذا انسان کو اس کے حال پر چھوڑا نہیں جا سکتا بلکہ اس کی ھدایت ضروری ہے اور اس کے لۓ ضروری ہے کہ وہ اپنی بعض خواہشوں سے دست بردار ہوجائے، البتہ یہ کسی طرح کی پابندی نہیں ہے وجوب طاعات و ترک معاصی کو پابندی نہیں کہا جا سکتا بلکہ تزکیہ و تطہیر روح و پاکیزگي سرشت و طبیعت کی بنیادی شرط ہے اور جب تک انسان ان سختیوں کا متحمل بلکہ ان پر جان و دل سے راضی نہیں ہوگا خدا کے منظور نظر اھداف کو نہیں پا سکتا اور یہی تربیت اسلامی کا فلسفہ ہے ۔

اسلامی تربیت کے فلسفے اور دیگر مکاتب ‌فکر کے تربیتی اندازمیں مختلف جھات سے فرق ہے، بعض فلسفی مکاتب میں تعلیم و تربیت سے بحث نہیں کی جاتی بلکہ فلاسفہ، تعلیم و تربیت کے بارے میں بعض نظریات اس مکتب فکر کی مناسبت سے حاصل کرلیتے ہیں لیکن اس کے مقابل اسلام جو فلسفی مکتب نہیں ہے جس طرح سے کہ قرآن، اصطلاحی معنی میں تاریخ یا سماجیات کی کتاب نہیں ہے لیکن اس کے باوجود قرآن و نہج البلاغہ اور رسول و آل رسول علیھم الصلوات و السلام کی احادیث و روایات میں تربیتی مفاھیم و مضامین کثرت سے مل جائيں گے  ۔

اسلامی تربیت

لقد من اللہ علی المومنین اذ بعث فیھم رسولا من انفسھم یتلواعلیھم آیاتہ و یزکیھم و یعلمھم الکتاب و الحکمۃ و ان کانوا من قبل لفی ضلال مبین ۔ آل عمران 164 ۔

خدانے ایمان داروں پر بڑا احسان کیا کہ ان کے لۓ ان ہی کی قوم کا ایک رسول بھیجا جو انہیں خدا کی آيتیں پڑھ کر سناتا ہے اور ان کی طبیعت کو پاکیزہ کرتا ہے اور انہیں عقل کی باتیں سکھاتا ہے ۔

دین اسلام بھی دیگر آسمانی مذاھب کی طرح انسان کو آلودگیوں اور انحراف سے بچاکر اسے الھی راستے یعنی عالم خلقت کے فطری اصولوں پر چلانے کے سوا کوئی اور ھدف نہیں رکھتا بہ الفاظ دیگر اسلام کی ذمہ داری بھی انسان کی تعلیم و تربیت ہے

اسلام کی تعلیمی اور تربیتی روشیں دنیا کی روشوں سے الگ بلکہ بے نظیر ہیں ، مرحوم زرین کوب لکھتے ہیں کہ

“عیسائیت کے برخلاف جو صرف دینی نقطہ نگاہ سےانسانوں کی تربیت و تعلیم کا قائل تھا جس کی بناپر ہی یورپ آخر کار بے دین ہوکر رہ گیا ،اسلام دنیوي امور پر بھی خاص توجہ کرتا ہے اور یہ امر باعث ہواہے اس بات کاکہ مسلمانوں کے درمیان دینی اور دنیوی امور سے ترکیب یافتہ متوازن صورتحال وجود میں آۓ 

اسلام میں تربیتی احکام انسانی فطرت کے تمام امور کو شامل ہیں ،اسلام ان تمام چیزوں پر جو فطرت انسان سے جنم لیتی ہیں خاص توجہ رکھتاہے ان امور کا انسان اور اس کی زندگي کے حقائق پر مثبت اثر پڑتاہے جس کی نظیر کسی اور مذھب میں نہیں دیکھی جاسکتی۔

اسلامی تعلیم و تربیت کا ایک عدیم المثال نمونہ صدر اسلام کی مسلمان قوم ہے جو گمراہی وجھالت کی کھائیوں سے نکل کر کمال کی اعلی منازل تک پہنچنے میں کامیاب ہوگئی تھی اسلام سے پہلے اس کا کام آپس میں جنگ و قتال کے علاوہ کچھہ بھی نہ تھا اسی قوم نے اسلامی تربیت کے زیر اثر ایسی عظیم تھذیب وتمدن کی بنیاد رکھی جو بہت کم مدت میں ساری دنیا پر چھا گئي اوراخلاق و انسانی اقدار کے لحاظ سےایسا نمونہ عمل بن گئي جو نہ اس سے پہلے دیکھا گيا تھا نہ اس کے بعد

اسلامی طریقہ تربیت انسانی خلقت و فطرت کے تمام تر تقاضوں کو پورا کرنےسے عبارت ہے اسلام انسان کی کسی بھی ضرورت سے غفلت نہیں کرتاہے اس کے جسم عقل نفسیات معنویات و مادیات یعنی حیات کے تمام شعبوں پر بھر پور توجہ رکھتاہے ،اسلامی تربیت کے بارے میں رسول اسلام صلی اللہ وعلیہ وسلم کا یہ ارشاد گرامی ہی کافی ہے کہ آپ فرماتے ہیں مجھے مکارم اخلاق کو کمال تک پہنچانے کے لۓ بھیجا گیا ہے

قرآن میں والدین کو مربی قرار دیا گیا ہے اور ان کی قدر و منزلت کا اس سے اندازہ ہوجاتاہے کہ خدا نے بارہا جھان شرک سے نھی اوراپنی عبادت کا حکم دیا ہے اس کے بعد والدین کے حق میں احسان و نیکی کرنے کا امر فرمایا ہے اس سے اسلام میں تربیت کی اھمیت کا اندازہ ہو جاتا ہے ۔

تربیت کے اصطلاحی معنی بیان کرنےمیں ماھرین و اصحاب نظر کے درمیان اتفاق و اشتراک پایا جاتا ہے ، متقدم و متاخر علما و دانشوروں نے گرچہ مختلف تعبیریں استعمال کی ہیں تاہم ایک ہی بات کہی ہے یہاں پر ہم تربیت کی بعض تعریفیں پیش کر رہے ہیں ۔

اخوان الصفا و خلان الوفا کی نظر میں تربیت ان امور کو کہتے ہیں جو انسان کی روحانی شخصیت کو پروان چڑھانے میں موثر واقع ہوتے ہیں ۔

آیۃاللہ شھید مطہری کا خیال ہے کہ تربیت انسان کی حقیقی صلاحیتوں کو نکھارنے کا نام ہے، ایسی صلاحیتیں جو بالقوہ جانداروں (انسان حیوان و پیڑپودوں ) میں موجود ہوں انہیں بالفعل پروان چڑھانے کو تربیت کہتے ہیں بنابریں تربیت صرف جانداروں سے مختص ہوتی ہے ۔

مرحوم ڈاکٹر شریعتی نے تربیت کے بارے میں خوبصورت اور دلچسپ تعبیر استعمال کی ہے وہ کہتے ہیں تربیت انسانی روح کو خاص اھداف کے لۓعمدا خاص شکل دینے کو کہتے ہیں ،کیونکہ اگر انسان کو آزاد چھوڑدیا جاے تو وہ اس طرح پلے بڑھے گا کہ اس کی شخصیت سے کوئي فائدہ نہیں پہنچے گا لھذا اس کی شخصیت کو ایسی شکل میں ڈھالنے کی ضرورت ہےکہ وہ مفید واقع ہو۔

بہ الفاط دیگراصطلاحا تربیت ایسا علم ہے جس کا ھدف ومقصد سلامت جسم ،پرورش عقل ،اور تجربوں نیز نیک صفات میں اضافہ کرنے کے لحاظ سے انسان کو کمال کے اعلی ترین ممکنہ درجے تک پہنچانا ہے

ویبسٹر انٹرنیشنل ڈکشنری میں education کے ذیل میں چار تعبیریں لائي گئی ہیں جو حسب ذیل ہیں ۔

الف: تعلیم یا تربیت کے عملی مرحلہ کوکہتے ہیں جیسے کسی بچے یا جانور کی تربیت ۔

ب:ایسے مختلف مراحل جن میں علم، مھارت ،لیاقت اور اخلاق حسنہ حاصل کۓ جائيں یہ مراحل باضابطہ دورہ تعلم مکمل کرنے پر اختتام پذیر ہوتے ہیں ۔

ج: ایسا مرحلہ جس میں تعلیم و تربیت مکمل ہوگئي ہو یا تعلیم و تربیت اس کا ھدف ہو۔

د: کلی طور پر اسلامی تعلمی و تربیتی نظام کو کہا جاتا ہے

Encyclopedia of islamکی دسویں جلد میں Tarbiya کے ذیل میں آیا ہے کہ تربیۃ عام اصطلاح ہے جو جدید عربی میں تعلیم و تربیت (education) اور علم تعلیم (pedagogy) کے معنی میں استعمال ہوتی ہے ، تربیت ابتدائي سطح پر اسکول و مدرسہ اور اعلی سطح پر کالج اور یونیوسٹیوں میں انجام پاتی ہے اور یونیوسٹی و کالج کے لۓ عربی میں الجامعۃ و الکلیہ کے الفاظ استعمال ہوتے ہیں  ۔

تبصرے
Loading...