اسلام میں احکام کا مقام

اسلام آخری اورکامل ترین دین ہے ،جس کے تمام پروگرام اور دستور العمل فطرت اور انسانی مصلحتوں کے مطابق ہیں، چنانچہ ان کو عملی جامہ پہنانا انسان کی سعادت وخوش بختی کی ضمانت ہے اور جس معاشرے میںیہ اسلامی قوانین نافذ ہوجائیں وہ مثالی معاشرہ ہوسکتا ہے اس سبق کا موضوع یعنی احکام،اسلام کے انسان ساز قوانین کا ایک بنیادی حصہ ہے۔

اسلام کے حیات بخش پروگرام حسب ذیل حصوں پر مشتمل ہیں:

الف : اعتقادی دستورالعمل یعنی اصول دین۔

ب: عملی احکام، یعنی فروع دین۔

ج: نفسیات وکردار سے متعلق مسائل، جسے اخلاق کہا جاتاہے۔

پہلا حصہ :

یہ وہ دستور العمل ہیں جن کے ذریعہ انسان کی فکر واعتقاد کو درست کیا جاتاہے، انسان کو عقائد کے سلسلے میں دلیل کے ذریعہ اعتقاد پیداکرنا چاہئے ( اگرچہ دلائل سادہ ہوں)۔ چونکہ اسلام کے دستور العمل کا یہ حصہ اعتقادات سے مربوط ہے اور ان میں یقین پیدا کرنے کی ضروت ہے، اس لئے ان میں دوسروں کی تقلید کرنا جائز نہیں ہے ۔

دوسرا حصہ:

یہ ایک عملی دستورالعمل ہے، جس میں انسان کا فریضہ معین ہوتاہے کہ کن کاموں کو انجام دے اور کن کاموں سے اجتناب کرے ایسے دستورالعمل کو ” احکام ” کہتے ہیں اور ایسے احکام کو جاننے کے لئے تقلید اور کسی (ماہر)مجتہد کی پیروی کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے ۔

احکام کی قسمیں:

انسان جوبھی کام انجام دیتا ہے، اس سے متعلق اسلام میں ایک خاص حکم موجود ہے اور یہ احکام حسب ذیل ہیں:

١۔ واجب : وہ کام جس کا انجام دینا ضروری ہے اور اس کے ترک کرنے میں عذاب ہے، جیسے: نماز و روزہ….

٢۔حرام: وہ کام جس کا ترک کرنا ضروری ہے، اوراس کے انجام دینے میں عذاب ہے، جیسے: جھوٹ اور ظلم…

٣۔ مستحب: وہ کام جس کا انجام دینا اچھا اور باعث ثواب ہے، لیکن اس کے ترک کرنے میں عذاب نہیں ، جیسے: نمازشب وصدقہ …

٤۔ مکروہ: وہ کام جس کا ترک کرنا اچھا اور موجب ثواب ہے لیکن اس کے انجام دینے میں عذاب نہیں، جیسے: کھانے پر پھونک مارنا ، یا گرم کھانا کھانا…

٥۔ مباح: وہ کام جس کا انجام دینا یا ترک کرنا مساوی ہے اور نہ اس میں کوئی عذاب ہے اور نہ ثواب، جیسے : چلنا، بیٹھنا…(١)

 

(١) الفتاویٰ الواضحة، ج ١، ص ٨٣.

تقلید

تقلید کے معنی پیروی کرنا اور نقش قدم پر چلنا ہے ،یہاں تقلید کے معنی ”فقیہ” کی پیروی کرنا ہے یعنی اپنے کاموں کو مجتہد کے فتویٰ کے مطابق انجام دینا۔(١)

١۔ جوشخص خود مجتہد نہیں اوراحکام ودستورات الٰہی کو حاصل بھی نہیں کرسکتا تواُسے مجتہد کی تقلید کرنا چاہئے ۔(٢)

٢۔احکام دین میں اکثر لوگوں کا فریضہ تقلید کرناہے چونکہ بہت کم ایسے لوگ ہیں جو احکام میں اجتہاد کرسکتے ہیں۔(٣)

٣۔  جس مجتہد کی دوسرے لوگ تقلید کرتے ہیں اسے ”مرجع تقلید” کہتے ہیں۔

٤۔ جس مجتہد کی انسان تقلید کرے، اس میں مندرجہ ذیل شرائط کا ہونا ضروری ہے:

*  عادل ہو            

 *شیعہ اثنا عشری ہو ۔

*  زندہ ہو ۔          

 *  احتیاط واجب کی بناپر اعلم ہو اور دنیا طلب نہ ہو۔(٤)

*  مرد ہو۔

*بالغ ہو۔

شرائط مرجع تقلید کی وضاحت:

١۔ عادل اسے کہتے ہیں، جو تقویٰ وپرہیز گاری کی ایسی منزل پر فائز ہو،جہاں واجبات کو انجام دیتا ہو اور گناہوں سے پرہیز کرتا ہو،نیز گناہان کبیرہ ( ز )سے پرہیز اور گناہان صغیرہ کی تکرار سے

 

(١)تحریر الوسیلہ ،ج ١،ص ٥.                                  (٢) تحریر الوسیلہ ،ج ١، ص ٥.

(٣) تحریر الوسیلہ، ج ١، ص٥.                  

  (٤) ۔ توضیح المسائل ،م٢.

ز گناہ کبیرہ،ایسا گناہ جس کے ارتکاب پر عذاب کا وعدہ دیا گیا ہے، جیسے : جھوٹ، تہمت وغیرہ .

اجتناب، عدالت کی علامت ہے۔ ز (١)

٢۔ تازہ بالغ ہونے والے نے اگر تقلید نہ کی ہو تو اسے چاہئے کسی ایسے مجتہد کو اپنا مرجع تقلید قرار دے جو زندہ ہو ، مردہ مجتہد کی تقلید نہیں کی جاسکتی ہے۔(٢)

٣۔ جو کسی مجتہد کی تقلیدکرتا ہو، اگر اس کا مرجع تقلید مرجائے تو وہ زندہ مجتہد کی اجازت سے اپنے مردہ مجتہد کی تقلید پر باقی رہ سکتاہے۔(٣)

٤۔ جن مسائل کے بارے میں مردہ مجتہد نے کوئی فتویٰ نہ دیا ہو اور اسی طرح جنگ وصلح وغیرہ جیسے نئے مسائل کے بارے میں، میت کی تقلید پر باقی رہنے والے شخص کو زندہ مجتہد کی تقلید کرنی چاہئے۔(٤)

٥۔جس مجتہد کی انسان تقلید کرے، وہ مذہب جعفری کا پیرو؛یعنی شیعہ اثنا عشری ہو۔ لہٰذاشیعہ، احکام میں کسی غیر اثناء عشری مجتہد کی تقلید نہیں کرسکتے ۔(٥)

٦۔ اسلام نے مرد اور عورت کا فریضہ ان کی فطری حالت اور تخلیقی کیفیت کے لحاظ سے معین کیا ہے۔ مرجعیت کی انتہائی زبردست اور بھاری ذمہ داری کو عورتوں کے کندھوں سے اٹھالینا، ہرگز ان کی آزادی سے محرومیت نہیں ہے چونکہ اسلام میں، عورتوں کو بھی حق ہے کہ اسلامی علوم میں اجتہاد تک تعلیم حاصل کریں اور احکام الٰہی کو ان کے منابع (قرآن وروایات) سے استخراج کریں اور کسی کی تقلید نہ کریں۔

(١)تحریر الوسیلہ، ج ١١، ص ١٠، م ٢٨ .

(٢)تحریرالوسیلہ ،ج ١، ص ٧ ،م ١٣ .

(٣) تحریر الوسیلہ، ج ١ ، ص ٧، م ١٣.

(٤) استفتا آت، ج ١،ص ١٢، س ٢٠.

(٥)توضیح المسائل،م٢.

ز(گلپائیگا نی۔ خوئی)عدالت یہ ہے کہ اگر کسی کے بارے میں اس کے ہمسایوں یا اس کے جاننے والوں سے اس کا حال واحوال پوچھا جائے تو اس کی اچھائی اور نیکی کو بیان کریں ۔

٧۔ اعلم وہ ہے جو(قرآن وروایات سے)احکام کے استخراج میں دوسرے مجتہدوں سے ماہر تر ہو۔(١)

٨۔ مکلف پر واجب ہے کہ مجتہداعلم کو پہنچاننے میں جستجو کرے۔(٢)

٩۔انسان تقلید کرنے میں آزاد ہے اور کسی کے تابع نہیں ہے ۔ مثلاًاس سلسلے میں عورت مردکی تابع نہیں ہے ، وہ جس کسی کو واجدشرائط پائے اس کی تقلید کرسکتی ہے،اگرچہ اس کا شوہر کسی اور مجتہد کا مقلد ہو۔(٣)

سبق نمبرایک کا خلاصہ

١۔ اسلام کے مجموعی پروگرام سے مراد : عقائد، احکام اوراخلاق ہے۔

٢۔ احکام تکلیفی سے مراد : واجب، حرام ، مستحب، مکروہ اور مباح ہے۔

٣۔ تقلید، یعنی مجتہد کے قتویٰ پر عمل کرنا۔

٤۔زندہ مجتہد کی اجازت سے میت کی تقلید پر باقی رہنے میں کوئی حرج نہیں ۔

٥۔جو شخص تقلید میت پر باقی ہو، اسے نئے مسائل میں زندہ مجتہد کی تقلید کرنی چاہئے ۔

٦۔ ہر شخص تقلید کرنے میں آزاد ہے اور کسی کے تابع نہیں ۔

(؟) سوالات:

١۔ اصول دین کتنے ہیں؟

٢۔ اصول اور فروع دین کے سلسلے میں مکلف کا فریضہ بیان کیجئے۔

٣۔ اسلامی دستوار العمل کے پانچ نمونے بیان کیجئے۔

(١)العروة الوثقیٰ، ج اص٧، م١٧.

(٢)تحریر الوسیلہ ،ج ١، ص ٦، م ٥.

(٣) استفتاآت، ج ١، ص ١٣، س ٢٥.

٤۔ اگر کوئی عورت درجہ اجتہاد پر پہنچ جائے تو کیا وہ اپنے فتویٰ کے مطابق عمل کرسکتی ہے،یا اسے دوسروں کی تقلید کرنا چاہئے؟

٥۔ عادل کون ہے اور اسے کیسے پہچانا جائے گا ؟

٦۔ تقلید میت پر باقی رہنے والے شخص کے لئے، زمانے کے حالات کے مطابق پیش آنے والے نئے مسائل، جیسے :جنگ وجہاد میں، فریضہ کیا ہے؟

تبصرے
Loading...