اسلام ميں عزاداری کی اہمیت اور اس کا کردار

 

اسلام ميں عزاداری کی اہمیت اور اس کا کردار

 

  ہم سب کو معلوم ہونا چاہئے کہ مسلمانوں کے درمیان اتحاد کا باعث‘ آئمہ معصومین ؑ اور خاص کر سید مظلومین سرکار سید الشہداء حضرت امام حسین ؑ کی مجالس عزاداری کے سیاسی مراسم ہیں اور یہی چیز تمام مسلمانوں اور خاص طور سے اثناء عشری شیعوں کی ملت کی محافظ ہے۔

 

          سید مظلومین امام حسین ؑ کی ہمیشہ کے لئے عزاداری منانے اور اہل بیت رسول  کی مظلومیت اور بنی امیہ ‘ کہ جن کا وجود نحس دنیا سے مٹ چکا ہے کہ ظلم کی فریاد بلند کرنے کے سلسلہ میں آئمہ مسلمین ؑ کی زبردست تاکید مظلوم کی‘ ظالم کے ظلم کے خلاف فریاد ہے۔ اس پر خاش اور فریاد کو زندہ رہنا چاہئے۔ جس کی برکتیں آج ایران میں یزیدیوں کے خلاف جنگ میں مشاہد اور ملموس ہیں۔

 

    خداوند عالم نے جب دیکھا کہ صدر اول کے منافقین نے اسلام کی بنیاد کو متزلزل کردیا ہے اور صرف چند افراد کے علاوہ باقی سب منحرف ہوگئے ہیں تو حسین ؑ ابن علی ؑ کو تیار کیا اور جانثاری اورقربانی کے ذریعہ ملت کو بیدار کیا۔ ان کے عزاداروں کے لئے بہت بڑا ثواب مقرر کیا تاکہ وہ عوام کو بیدار رکھیں اور کربلا کی بنیاد کو فرسودہ نہ ہونے دیں کہ جس کی بنیاد ظلم وجور کا نام و نشان مٹا دینے اور لوگوں میں توحید وعدل کو رائج کرنے پر رکھی گئی ہے۔ اس صورت میں ضروری ہے کے عزاداری کے لئے کہ جس کی بنیاد اس چیز پر رکھی گئی ہے۔ اس صورت میں ضروری ہے کہ عزاداری کے لئے کہ جس کی بنیاد اس چیز پر رکھی گئی ہے۔ اس قدر ثواب مقرر کیا جائے کہ ہر دباؤ اور سختی کے باوجود اس سے دست بردار نہ ہوں۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو وہ لوگ حسین ؑ ابن علی ؑ کی زحمتوں کو برق رفتاری سے برباد کردیتے۔ اور ان کی زحمتوں کے برباد ہوتے ہی پیغمبر اسلام  کی زحمتیں اور کوششیں جو انہوں نے شیعت کی بنیاد ڈالنے کے لئے کی تھیں بالکل برباد ہوجاتیں۔ پس فرضاً جو اجر پروردگار عالم عطا فرماتا ہے وہ اس فائدہ کے مقابلہ میں ہے جو عمل سے حاصل ہوتا ہے اور اس عمل سے حاصل ہونے والا فائدہ دین حق اور بنیاد تشیع کی بقاء ہے اور دنیا والوں کی دنیا و آخرت کی سعادت اس سے وابستہ ہے اور اس زمانہ میں شیعوں کی حالت اور مخالفین علیؑ ابن ابی طالب ؑ کی طرف سے ان کے ماننے والوں پر طرح طرح کی سختیوں اور مظالم کو دیکھتے ہوئے پتہ چلتا ہے کہ اس عمل کی قیمت مافوق تصور ہے اور خداوند عالم نے اس کے لئے اتنے ثواب اور اجرتیں رکھی ہیں کہ جس کو نہ کسی آنکھ نے دیکھا اور نہ کسی کان نے سنا ہوگا اور یہ کمال عدالت ہے۔

          یہ سید الشہداء کا خون ہے جو تمام اسلامی ملتوں کے خون کو جوش میں لاتا ہے اور یہی عاشورا کے ماتمی دستے ہیں جو لوگوں کو جوش میں لاتے ہیں اور اسلام و اسلامی مقاصدکی حفاظت کے لئے تیار کرتے ہیں اس کام میں سستی نہیں کرنا چاہئے۔

 

          حق بہرحال کامیاب ہے۔ لیکن ہمیں کامیابی کے راز کو معلوم کرنا چاہئے۔ کہ ہماری کامیابی کا راز کیا ہے؟ اور حضرت علی ؑ کے زمانہ سے آج تک اس طویل عرصہ میں جب کہ شیعوں کی تعداد بہت کم تھی ان کی بقاء کا راز کیا تھا۔ اب بحمد اللہ ان کی تعداد زیادہ ہے لیکن اس وقت کم تھی۔ دوسروں کے مقابلہ میں زیادہ نہیں تھی اس دور میں اس مذہب‘ ممالک اسلامی اور شیعہ مملکتوں کی بقاء کا راز کیا تھا۔ اس راز کی ہمیں حفاظت کرنی چاہئے۔ ان میں ایک سب سے بڑا راز‘ واقعہ کربلا ہے۔ ہمیں اس راز کی حفاظت کرنا چاہئے۔ یہ مجلسیں جو تاریخ کے ہر دور میں تھیں‘ یہ آئمہ معصومین ؑ کے حکم سے تھیں۔ ہمارے جوان یہ نہ سوچیں کہ ان مجالس میں گریہ نہیں ہوتا تھا لہذا ہمیں بھی نہیں رونا چاہئے۔ یہ اشتباہ ہے جس کے وہ مرتکب ہو رہے ہیں۔

 

          ہر چیز کو محفوظ رکھنے کی بنیاد وہی تھے۔ پیغمبر  نے بھی فرمایا تھا ”انا من الحسین ؑ“ میں حسینؑ ہوں یعنی دین و دیانت کو وہی بچائے گا۔ ان کی اس فداکاری نے اسلام کو بچایا ہے اور ہمیں اس کو بچائے رکھنا چاہئے۔ یہ جوان اس کو نہیں سمجھ پاتے۔ جن کے ذہنوں میں ان لوگوں نے القاء کیا ہے جو چاہتے ہیں کہ عزاداری نہ رہے۔ یہ سرے سے عزاداری کو ہی مٹانا چاہتے ہیں۔ اس لئے کہ عزاداری ہی عوام کے جذبات کو بھڑکاتی ہے کہ جو ہر میدان میں موجود ہیں۔ جب لوگ یہ دیکھتے ہیں کہ سید الشہداء ؑ کے جوانوں کو ٹکڑے ٹکڑے کیا گیا اور انہوں نے اپنے جوانوں کو قربان کردیا تو لوگوں کے لئے جوانوں کو قربان کرنا آسان ہو جاتا ہے۔ اور شہادت دوستی کی اسی حس کے ساتھ ہماری ملت نے عزاداری کو بچائے رکھا اور وہی حقیقت تھی جو کربلا سے ہم تک پہنچی ہے جس کی بنا پر ہماری پوری ملت ہر لحاظ سے شہادت کی آرزو کرتی ہے۔ وہی شہات جس کے سردار‘ سید الشہداء تھے یہ لوگ نہیں سمجھتے کہ اس طرح سید الشہداء ؑ نے محفوظ رکھا ہے۔ جو لوگ سمجھتے ہیں وہ دوسروں کے ذہنوں میں القاء کرتے ہیں اور انہیں دھوکہ دیتے ہیں۔

 

          مجلس سید الشہداء ان کے مکتب کی حفاظت کے لئے ہے۔ جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ مصائب نہ پڑھئے وہ بالکل نہیں سمجھتے کہ مکتب سید الشہداء کیا تھا۔ اور انہیں معلوم نہیں کہ ان مصائب اور اس رونے نے اس مکتب کو بچایا ہے۔ اس وقت چودہ سو سال ہوگئے ہیں کہ ان تقریروں‘ مجلسوں‘ ذکر مصائب اور سینہ زنی کے ذریعہ ہمیں بچایا ہے۔ اور اسلام کو یہاں تک پہونچایا ہے۔ بعض جو یہ کہتے ہیں کہ اب ہمیں اس دور کی بات کہناچاہئے۔ یہ بدنیتی کی بناء پر نہیں کہتے۔ انہیں معلوم نہیں کہ سید الشہداء ؑ کی بات ہر دور کی بات ہے۔ ہمیشہ ہر دور کی بات ہے۔ اصلاً ہر دور کی بات کرنا سید الشہداء نے ہمیں سکھایا ہے۔ اور سید الشہداء کو اس گریہ نے زندہ رکھا ہے۔ ان کے مکتب کو‘ ان کے مصائب‘ فریاد نوحہ و ماتم اور ان ماتمی دستوں نے بچائے رکھا ہے۔ اگر صرف خشک مقدسی ہوتی گھر میں بیٹھ جاتے اور زیارت عاشورا اور تسبیح پڑھتے رہتے تو کچھ بھی باقی نہ رہتا۔ شور کی ضرورت ہے۔ ہر مکتب کے لئے شور ضروری ہیں۔ اس کے لئے سینہ زنی ہونی چاہئے۔ جس مکتب کے لیے سینہ زنی نہ ہو۔ گریہ نہ ہو‘ سرو صورت نہ پیٹیں وہ مکتب زندہ نہیں رہ سکتا۔ یہ لوگ اشتباہ کررہے ہیں۔ یہ ابھی بچے ہیں۔ انہیں معلوم نہیں کہ اسلام میں علماء اور اہل منبر کا کیا رول ہے۔ شاید آپ کو بھی زیادہ معلوم نہیں ہے۔ یہ ایسا رول ہے جس نے اسلام کو زندہ رکھا ہے یہ ایسا پھول ہے جس کو ہر وقت پانی کی ضرورت ہے۔ اس گریہ نے مکتب سید الشہداء کو زندہ رکھا ہے۔ مصائب کے یہ تذکرے ہیں جنہوں نے مکتب سید الشہداء کو زندہ رکھا ہے ہمیں چاہئے کہ اپنے ایک شہید کے لئے جو ہم سے جدا ہوتاہے علم اٹھائیں۔ نوحہ خوانی کریں۔ روئیں اور فریاد کریں۔ دوسروں کا جب ایک آدمی قتل ہو جاتا ہے تو وہ ایسا کرتے ہیں اس کے لئے فریاد بلند کرتے ہیں۔ فرض کیجئے کہ کسی پارٹی کا اگر کوئی آدمی قتل ہو جائے تو وہ اس کے لئے جلسے اور میٹنگیں کرتے ہیں۔ سید الشہداء کے مکتب کو زندہ رکھنے کے لئے یہ بھی ایک طرح کی میٹنگ اور فریاد ہے لیکن یہ لوگ متوجہ نہیں ہیں۔ یہ لوگ مسائل کو درک نہیں کر پاتے اسی گریہ اور نوحہ سرائی نے اس مکتب کو اب تک زندہ رکھا ہے اور یہی چیز ہے جس نے ہمیں زندہ رکھا ہے۔ اسی چیز نے اس نہضت کو آگے بڑھایا ہے۔ اگر سید الشہداء نہ ہوتے تو یہ تحریک بھی آگے نہ بڑھتی سید الشہدء ہر جگہ ہیں ”کل ارض کربلا“ ہر جگہ محضر سید الشہداء ہے ۔تمام منبر سید الشہداء کے محضر میں ہیں۔ تمام محراب سید الشہداء کی وجہ سے ہیں۔ امام حسین ؑ نے اسلام کو نجات دلادی۔ جس ذات نے قتل ہو کر اسلام کو نجات دلائی ہم اس کے لئے کچھ نہ کہیں اور خاموش رہیں؟ ہمیں ہر روز رونا چاہئے اور اس مکتب کی حفاظت کی خاطر ہر روز تقریر کرنا چاہئے۔ ان تحریکوں کو بچانے کی خاطر جو امام حسین ؑ کی مرہون منت ہیں۔

 

          اس سے زیادہ یکسوئی اور کیا ہوگی۔ آپ نے کہا کسی ملت کو اس قدر ہم آہنگ دیکھا ہے؟ کس نے ان کو یکسو کیا ہے؟ ان کو سید الشہداء نے ہم آہنگ کیا ہے۔ جملہ اسلامی ممالک اور ملتوں کو تاسوعا اور عاشورا کے روز یا اس کے علاوہ اور ان ماتمی دستوں کو ان کی اس عظمت اور سراسر درس و سبق ہونے کی شکل میں کون اس عظیم اجتماع کو تشکیل دے سکتا ہے؟ دنیا میں کہاں آپ نے دیکھا ہے کہ لوگ اس قدر ہم آہنگ ہوں۔ ہندوستان جایئے تو یہی بساط ہے۔ پاکستان میں جاکر دیکھئے تو یہی نظر آئے گا۔ انڈونیشیا میں دیکھئے تو یہی ہے اور عراق و افغانستان میں بھی یہی نظر آتا ہے۔ دنیا میں جہاں بھی دیکھئے یہ بساط نظر آتی ہے کس نے ان کو ہم آہنگ کیا ہے؟ آپ اس ہم آہنگی کو ہاتھ سے نہ جانے دیجئے۔

 

          سید مظلومین کی یہ مجالس عزاء و سوگواری اور نوحہ سرائی اور اس ذات کی مظلومیت کا اظہار جس نے اپنی اور اپنے دوستوں اور اولاد کی جان کو خدا اور اس کی رضا کے لئے فدا کیا ہے۔ یہی وہ چیز ہے جس نے جوانوں کو ایسا بنادیا ہے کہ وہ محاذ جنگ پر جاکر شہادت طلب کرتے ہیں اور شہادت پر فخر کرتے ہیں ا ور شہادت نصیب نہ ہونے کی صورت میں سخت متاثر ہوتے ہیں اور ماؤں کو وہ حوصلہ دیا ہے کہ وہ اپنے جوان بیٹوں کو قربان کرتی ہیں اور اس کے بعد بھی کہتی ہیں کہ اب بھی دو ایک جوان باقی ہیں۔ یہ مجالس عزاء‘ مجالس دعا اور مجالس دعائے کمیل اور دوسروں دعاؤں کی مجالس ہیں جنہیں نے اس جمعیت کو اتنا حوصلہ دیا ہے۔ اس کی بنیاد اسلام نے ابتداء سے ہی رکھ دی تھی۔ کہ وہ اس طرز فکر اور اسی پروگرام کے تحت آگے بڑھے گا۔

 

          کچھ لوگ ایسے پیدا ہوگئے ہیں جو کہتے ہیں کہ اب مصائب نہ پڑھیئے۔ انہیں نہیں معلوم کہ مصائب کیا ہیں۔ وہ اس عزاداری کی ماہیت سے واقف نہیں ہیں۔ وہ نہیں جانتے کہ امام حسین ؑ کی تحریک نے یہاں تک آکر اس تحریک کو جنم دیا ہے۔ یہ تحریک اسی تحریک کی ایک شعاع کے تابع ہے وہ نہیں جانتے کہ امام حسین ؑپر رونا تحریک کو زندہ رکھنا اور اس حقیقت کو باقی رکھنا ہے۔ کہ کس طرح ایک مٹھی بھر افراد بڑی ایمپر اطوری کے مقابلہ پرڈٹ گئے اور اسے ٹھکرا دیا اس ”انکار“ کو ہر روز اور ہرجگہ محفوظ رہنا چاہئے۔ یہ مجلسیں اسی ”انکار“ کو محفوظ رکھنے کی خاطر منائی جاتی ہیں۔ ہمارے بچے اور جوان یہ نہ سوچیں کہ بات رونے والی قوم تک محدود ہے۔ اس کو دوسروں نے القاء کیا ہے کہ آپ اسے رونے والی قوم کہیں۔ وہ اسی رونے سے ڈرتے ہیں اس لئے کہ یہ مظلوم پر گریہ ہے اور ظلم کے خلاف فریاد ہے۔ ماتمی دستے جو سڑکوں پر آتے ہیں وہ ظلم کے مقابلہ میں قیام کرتے ہیں۔

 

          اس زمانہ میں ایک بات ہر ایک کی زبان پر رائج تھی کہ ”رونے والی قوم“ تاکہ مجلسوں کو ان سے چھین لیں۔ اس زمانہ میں جو تمام مجلسوں پر پابندی عائد کردی گئی تھی اور وہ بھی اس شخص کے ذریعہ جو خود بھی مجلسوں میں جاتا تھا اور ویسے تماشے کرتا تھا۔ بات صرف مجلس کی تھی یا مجلس سے وہ کچھ اور سمجھتے تھے اور اسے نابود کرنا چاہتے تھے؟ عمامہ یا ٹوپی کا مسئلہ تھا یا عمامہ اورٹوپی سے کچھ اور سمجھتے تھے اور اسی وجہ  سے عمامہ کی مخالفت کرتے تھے۔ وہ سمجھ گئے تھے کہ اس عمامہ سے وہ کام ہوتا ہے۔ کہ وہ لوگ اپنے منصوبوں پر عمل نہیں کر پاتے۔ اور مجالس عزاداری اس قدر موثر ہیں کہ وہ لوگ اپنے ناپاک منصوبوں کو عملی جامہ نہیں پہنا سکتے ۔ چونکہ ماہ محرم میں ایک ملت پورے ملک میں ایک ہی بات کہتی ہے۔ مجلسیں لوگوں کو یوں جمع کرکے یکسو کرتی ہیں کہ تین ساڑھے تین کروڑ کی جمعیت ماہ محرم و صفر اور خاص کر عاشورا کے دن یکسو ہو کر ایک ہی طرف چلتی ہے ان کو خطبا اور علماء پورے ملک میں کسی ایک مسئلہ پر آمادہ و منظم کرسکتے ہیں۔ مجالس کا یہ سیاسی پہلو ان کے دیگر پہلوؤں سے بالاتر ہے۔ اور واقعاً ایسا ہی ہے۔

 

          وہ دیکھتے ہیں کہ یہ مجالس عزا اور مظلوم کے مصائب اور ظالم کے ظلم کے تذکرے ہر دور میں ظلم کے مقابلہ پر آمادہ کرتے ہیں۔ یہ لوگ متوجہ نہیں ہیں کہ وہ اسلام اور کی خدمت کررہے ہیں۔ ہمارے جوان متوجہ نہیں ہیں ان بڑوں کے دھوکہ میں نہ آیئے۔ یہ خائن ہیں یہی آپ کو باور کراتے ہیں کہ آپ رونے والی قوم ہیں یہ خیانت کے مرتکب ہورہے ہیں۔ ان کے بڑے اور ارباب اس گریہ سے ڈرتے ہیں اس کی دلیل یہ ہے کہ رضاخان نے آکر ان سب پر پابندی عائد کردی اور جب رضاخان کا دور ختم ہوا تو انگریزوں نے ریڈیو دہلی سے اعلان کیا کہ ہم اسے لائے تھے اور اب ہم نے ہی اس کو برطرف کیا ہے۔ ان کا یہ کہنا بجا بھی تھا وہ اسے اسلام کو مٹانے کے لئے لائے تھے جس کا ایک طریقہ یہی تھا کہ ان مجالس کو آپ سے چھین لیں۔ ہمارے جوان یہ نہ سوچیں کہ جب مجلس میں جاتے ہیں اور مصائب کے تذکرے سے روکتے ہیں تو خدمت کررہے ہیں۔ ان کا یہ کہنا غلط ہے مصائب کا تذکرہ ہونا چاہئے۔ داستان ظلم دہرائی جائے تاکہ لوگ یہ سمجھیں کہ اس وقت کیا واقعہ رونما ہوا اور یہ کام ہر روز ہونا چاہئے۔ یہ کام سیاسی اور اجتماعی نوعیت کا ہے۔

 

          پہلی بار جب مجھے قم سے گرفتار کرکے لئے گئے تو راستہ میں ان کے کچھ نوکر جو میری گاڑی میں تھے ان میں سے ایک نے کہا کہ جب ہم آپ کو گرفتار کرنے آئے تھے تو قم میں جو یہ خیمے لگے ہوئے تھے ان سے ہم ڈر رہے تھے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ انہیں پتہ چل جائے اور یہ ہمیں اپنا کام نہ کرنے دیں۔ ان کی کیا حقیقت تھی ان خیموں سے تو بڑی طاقتیں بھی ڈرتی ہیں۔ بڑی طاقتیں اس نظم و اتحاد سے ڈرتی ہیں کہ بغیر کسی کی کوشش کے لوگ اکٹھا ہو جاتے ہیں اور اس وسیع و عریض پورے ملک میں ملت کو یکجا کر دیتے ہیں ایام عاشورا‘ ماہ محرم‘ صفر اور ماہ رمضان المبارک میں یہ مجلسیں ہیں جن کی وجہ سے لوگ جمع ہو جاتے ہیں۔ اگر کوئی اسلام کی خدمت کرناچاہے اور کوئی شخص کوئی پیغام دینا چاہے تو ان خطباء علماء اور آئمہ جمعہ و جماعت کے ذریعہ پورے ملک میں متشر ہو جاتا ہے۔ اور خدائی جھنڈے اور حسینی پرچم کے نیچے لوگوں کا یہ اجتماع باعث بنتا ہے کہ وہ منظم ہو جائیں۔ بڑی طاقتیں اپنے ملکوں میں ا گر کوئی اجتماع منعقد کرنا چاہیں۔ تو دسیوں دن کی جان توڑ محنت اوربھاری مقدار میں پیسہ خرچ کرنے کے بعد کسی شہر میں ممکن ہے کہ ایک لاکھ یا پچاس ہزار افراد جمع ہو جائیں اور جسے تقریر کرنا ہو اس کی تقریر سنیں۔ اس کے برخلاف آپ دیکھتے ہیں کہ ان مجالس کے صدقہ میں جنہوں نے لوگوں کو ایک دوسرے سے ملا کر ان میں محبت پیدا کردی ہے ۔ جیسے ہی کوئی مسئلہ پیش آتا ہے۔ تو ایک شہر میں ہی نہیں بلکہ پورے ملک میں ہر صنف کے لوگ اور عزاداران حضرت سید الشہداء جمع ہو جاتے ہیں اور انہیں جمع کرنے میں کسی زحمت و تبلیغ اور پروپیگنڈہ کی ضرورت نہیں پڑتی۔ صرف ایک آواز کافی ہوتی ہے۔ جب لوگ دیکھتے ہیں کہ کلمہ سید الشہداء سلام اللہ علیہ کے حلقوم مبارک سے نکلا ہے تو سب جمع ہو جاتے ہیں۔

 

 http://www.shiastudies.com

تبصرے
Loading...