اسلام محتاج کربلا اور کربلا محتاج زینب(س)

انسان کا اس دنیا میں آنے کا واحد مقصد معرفت پروردگار ہے وہ اس دنیا میں آیا ہی اسی لیے ہے تاکہ اپنے معبود حقیقی کو پہچانے اور اس کا قرب حاصل کرے۔ اس مقصد تک پہنچنے کے لیے انسان کو راہنما اور رہبر کی ضرورت ہے۔ جس طرح دنیا میں دنیوی کسی مقصد کو حاصل کرنے لیے انسان کو ایک گائڈ کی ضرورت ہوتی ہے

اسلام محتاج کربلا اور کربلا محتاج زینب(س)

انسان کا اس دنیا میں آنے کا واحد مقصد معرفت پروردگار ہے وہ اس دنیا میں آیا ہی اسی لیے ہے تاکہ اپنے معبود حقیقی کو پہچانے اور اس کا قرب حاصل کرے۔ اس مقصد تک پہنچنے کے لیے انسان کو راہنما اور رہبر کی ضرورت ہے۔ جس طرح دنیا میں دنیوی کسی مقصد کو حاصل کرنے لیے انسان کو ایک گائڈ کی ضرورت ہوتی ہے مختلف مواقع پر ہم اور آپ سنتے رہتے ہیں کہ کہا جاتا ہے کہ بھئی ہم اس لائن میں جانا چاہتے ہیں چونکہ آپ اس لائن کے آدمی ہیں اور آپ کا تخصص اس لائن میں ہے لہذا آپ ہماری رہنمائی فرمائیں۔  معلوم ہوتا ہے کہ انسان کو قدم قدم پہ رہنما اور گائڈ کی ضرورت ہے دنیوی امور میں بھی اور دینی امور میں بھی۔ اسی وجہ سے ہم روزانہ کم سے کم دس مرتبہ بارگاہ رب العزت سے رہنمائی اور ہدایت کی درخواست کرتے ہیں اھدنا الصراط المستقیم(سورہ حمد) اور نہ صرف سیدھے راستے کی رہنمائی طلب کرتے ہیں بلکہ خداوند عالم سے آئیڈیل اور گائڈ کی بھی درخواست کرتے ہیں کہ خدایا ہمیں تیرا قرب حاصل کرنا ہے اس کے لیے نہ صرف ہمیں راستہ دکھلا دے کہ اس کے بعد ہم خود اس پر چل پڑیں بلکہ ہمیں ان لوگوں کا راستہ دکھلا جن پر تونے اپنی نعمتیں نازل کی ہیں یعنی ایسے افراد کو ہمیں ائیڈیل اور نمونہ کے طور پر پہچنوا تاکہ ہم ان کے کردار سے اپنا کردار ملا سکیں ان کی سیرت پر چل کر تجھ تک پہنچ سکیں، اس کا واضح طور پر مطلب یہ ہے کہ وہ لوگ جن پر اللہ کی نعمتیں نازل ہوئی ہیں وہ قرآن کی دوسری آیت کی روشنی میں انبیاء، صدیقین، شہداء اور صالحین ہیں’’ وَمَنْ يُطِعِ اللَّهَ وَالرَّسُولَ فَأُولَٰئِكَ مَعَ الَّذِينَ أَنْعَمَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ مِنَ النَّبِيِّينَ وَالصِّدِّيقِينَ وَالشُّهَدَاءِ وَالصَّالِحِينَ‘‘ (النساء، ۶۹) ۔ زبدۃ التفاسیر میں ملا فتح اللہ کاشانی فرماتے ہیں: یہاں پر نعمت سے مراد دنیوی نعمتیں بھی ہیں اور معنوی نعمتیں بھی۔ دوسرے لفظوں میں ملا کاشانی کی بات کو یوں بیان کیا جائے کہ عالم بشریت کا رہنما اور رہبر وہ ہوتا ہے جو نہ دنیا میں کسی کا محتاج ہو اور نہ آخرت میں کسی کا محتاج ہو ظاہری اور مادی کمالات بھی اس کے پاس ہوں اور باطنی اور معنوی کمالات میں بلند درجہ پر فائز ہو۔ اس چیز کو اہل سنت کے ایک بزرگ عالم دین خلیل بن احمد بصری نے خوب درک کیا اور مولائے کائنات کی امامت کی دلیل یہی بیان کی کہ علی کے امام الکل ہونے کی دلیل یہ ہے کہ علی(ع) سب سے بے نیاز ہیں اور باقی سب ان کے محتاج ہیں «إحتیاجُ الکُلِّ إلَیْهِ وَ إسْتِغْنائُه عَنِ الکُلِّ دَلیلٌ عَلى أنَّه إمَامُ الکُلِّ؛۔
بہر کیف، انسان کو ہر مرحلہ پر ایک رہبر اور رہنما کی ضرورت ہے۔ اسی وجہ سے خداوند عالم نے انسان کی خلقت سے پہلے ہی اس کی ہدایت اور رہنمائی کے لیے رہبر اور رہنما کا انتظام کر دیا اور پھر یہ سلسلہ جاری رہا یہاں تک کہ پیغمبر رحمت جیسی عظیم الشان ھستی کو عرش سے فرش پر اتارا تاکہ وہ لوگوں کو قرب الہی حاصل کرنے کا بہترین طریقہ اور سلیقہ سکھائیں۔ اسی طرح ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیا و مرسلین انسان کی ہدایت کے لیے بھیجے گئے۔ لیکن اس درمیان جہاں خداوند عالم نے انسانوں کی ہدایت کے لیے بہترین مردوں کو نمونہ اور آئیڈیل بنا کر بھیجا وہاں عصمت و طہارت کے مقام پر فائز جناب سیدہ کونین کو بھیجا تاکہ خواتین کو یہ شکوہ نہ ہو کہ ان کے لیے مقام قرب کے حصول کے واسطے اللہ نے کوئی انتظام نہیں کیا۔ اگر عالم انسانیت میں خواتین کی ایک الگ دنیا کو تصور کیا جاتا اور صنف نسواں میں کسی رہنما اور رہبر کا انتخاب کیا جاتا تو اس مقام کے لیے سب سے زیادہ اگر کوئی سزاوار ہوتا تو وہ جناب سیدہ کی ذات گرامی اور ان کی بیٹی جناب زینب کبریٰ تھیں۔
اس لیے کہ ان شخصیتوں کو وہ مقام حاصل ہے جو انبیا اور ائمہ اطہار کے علاوہ کسی کو حاصل نہیں ہے۔ جناب فاطمہ زہرا(س) کے بارے میں تو چلو پھر یہ کہا جا سکتا ہے کہ وہ معصومہ ہیں اور آیت تطہیر ان کی طہارت کی گواہی دے رہی ہیں لیکن حضرت زینب (س) اس کے باوجود کہ انہیں چہاردہ معصومین میں شمار نہیں کیا گیا اور نہ ہی اصحاب کساء میں شامل کیا گیا لیکن ان کی زندگی کے کسی ایک گوشے میں بھی اللہ کی نافرمانی کو تلاش نہیں کیا جا سکتا ان کا وجود اطاعت محض ہے وہ معرفت کی اس منزل پر فائز ہیں کہ امام معصوم کو کہنا پڑا ’’انت عالمۃ غیر معلمۃ‘‘ اور ایسا کیوں نہ ہوتا چونکہ آپ کے اطراف میں عصمتوں کا حصار پایا جاتا ہے باپ معصوم، ماں معصومہ، دونوں بھائی معصوم تو عصمت کے ایسے حصار میں پروان چڑھنے والی زینب نہ صرف خود گناہوں اور پلیدگیوں سے مبرہ و منزہ ہو گی بلکہ معصوم کے معصومانہ عمل میں شریک کار بن کر تا ابد اس کی حقانیت اور صداقت پر مہر تصدیق لگا دیں گی اور گمراہیوں اور ظلمتوں میں دھکدے میں بھٹکے افراد کے لیے مشعل راہ بن جائیں گی۔
تاریخ کو اگر حقیقت کی نگاہ سے دیکھا جائے تو یہ بخوبی معلوم ہوتا ہے کہ جس طرح امام حسین (ع) کی خلقت کا مقصد کربلا کا قیام تھا اسی طرح جناب زینب(س) کی خلقت کا مقصد کربلا کے پیغام کو عام کرنا تھا، یا دوسرے لفظوں میں، جس طرح امام حسین (ع) کربلا کے لیے پیدا ہوئے تھے اسی طرح جناب زینب بھی کربلا کے لیے پیدا ہوئی تھیں۔ تاریخ میں درج ہے جب جناب زینب سلام اللہ علیہا کی ولادت ہوئی تو مولائے کائنات جو مسجد میں تشریف فرما تھے کو خبر دی گئی تو آپ کے چہرے کی رنگت بدل گئی اور آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے۔ علی(ع) کے گھر میں پہلی بیٹی اور رسول اسلام کی پہلی نواسی دنیا میں تشریف لائیں اور مولائے کائنات کی آنکھیں اشکبار ہو جائیں؟ یہ انتہائی تعجب کی بات تھی لیکن جو علی(ع) کی نگاہیں دیکھ رہی تھیں وہ کوئی اور نہیں دیکھ پاتا تھا۔ اسی لیے پوچھنے والے نے فورا پوچھ لیا کہ مولا یہ کیا ہوا؟ بیٹی کی ولادت پہ تو خوشی منانا چاہیے اور چہرے پر مسرت کے آثار نمایاں ہونا چاہیے فرمایا: میں بیٹی کے پیدا ہونے پر گریہ نہیں کر رہا ہوں میرا گریہ اس دردناک وقت کے لیے جو میری اس بیٹی پر گزرے گا جبکہ اسے دلاسہ دینے والا کوئی نہیں ہوگا اس کے ہاتھوں میں رسن ہو گی سر برہنہ ہو گا دشمنوں کے تازیانے ہوں گے اور میری بیٹی مصائب و آلام کا طوفان اٹھائے ہو گی۔ مولائے کائنات نے جناب زینب(س) کی پیدائش کے وقت ہی بتا دیا کہ زینب میرے حسین کی طرح کربلا کے لیے پیدا ہوئی ہے۔ یہ راز اس وقت مزید آشکار ہوا جب جناب امیر نے حضرت زینب (س) کو جناب عبد اللہ کے عقد میں دینا چاہا۔ مولائے کائنات نے شرط ضمن عقد رکھ کر جناب عبد اللہ سے کہا کہ عبداللہ اگر کوئی ایسا وقت آئے کہ حسین کربلا جانا چاہے اور زینب بھی اپنے بھائی کے ساتھ کربلا کا ارادہ کرے تو تم اسے روک نہیں سکتے۔ یہ مولائے کائنات کا شرط ضمن عقد رکھنا یہ بتا رہا ہے کہ زینب کا کربلا میں حاضر ہونا اتنا ہی ضروری ہے جتنا امام حسین علیہ السلام کا حاضر ہونا ضروری ہے۔ اس لیے کہ اگر امام حسین علیہ السلام نے بقول علامہ اقبال کے صحرائے کربلا میں کلمہ لا الہ الا اللہ کو اپنے خون سے لکھ کر حیات ابدی عطا کی ہے تو جناب زینب(س) نے لہجہ علی سے صدائے لا الہ الا اللہ کو دنیا کے کونے کونے تک پہنچایا ہے۔ کوفہ اور شام کی گلیوں اورحکمرانوں کے درباروں میں اگر لہجہ علوی میں حضرت زینب نے خطبے نہ دیے ہوتے تو طاغوت زمانہ اور شیاطین بنی امیہ، یزید ملعون کو حق کا علمبردار اور امام حسین علیہ السلام کو معاذ اللہ باطل کا پرچمدار گردان کر تاریخ کربلا اور دین محمدی کا نقشہ بدل دیتے اور دین اموی و بوسفیانی کو دین ناب محمدی (ص) کی جگہ نافذ کر دیتے۔ آج اگر گلدستہ آذان سے لا الہ الا اللہ کی آواز بلند ہو رہی محمد رسول اللہ کی صدا کانوں میں آ رہی ہے کلمہ گویان رسول، نظر آ رہے ہیں مسجدیں آباد دکھائی دے رہی ہیں، انسانیت کا وجود کہیں دکھ رہا ہے اور حقیقی اسلام کی خوشبو ہمارے مشام کو پہنچ رہی ہے تو ثانی زہرا جناب زینب کبریٰ کو سلام بھیجو یہ سب کچھ ان کی بے ردائی کا صدقہ ہے لہذا یہ ماننا پڑے گا کہ اگر اسلام محتاج کربلا تھا تو کربلا محتاج زینب تھی۔ اسلیے کہ مسند خلافت اور منبر رسول پر بیٹھنے والوں نے تو اعلان کر دیا تھا کہ نہ کوئی وحی آئی ہے اور نہ کوئی دین نازل ہوئی ہوا ہے معاذ اللہ یہ سب بنی ہاشم کا ڈھونگ ہے۔ ہاشم کی پوتی نے بھرے دربار میں یزید کے منہ پر زور دار طمانچہ مار کر اس کی بولتی بند کر دی اور قیامت تک یہ ثابت کر دیا کہ وحی بھی آئی تھی اور دین بھی نازل ہوا تھا یہ بنی ہاشم کا ڈھونگ نہیں یہ اللہ کا نظام ہدایت ہے جو تمام عالم بشریت کی ہدایت کے لیے نازل ہوا ہے اور یہ بنی ہاشم کا طرہ امتیاز ہے کہ یہ نظام ہدایت ان کے گھر میں نازل ہوا ہے اللہ نے اس نظام کو ان کے دلوں پر اتارا ہے اور انسانوں کی ہدایت کا بیڑہ انہیں تھمایا ہے۔ یہ ان کی شرافت اور دیانت کا علامت ہے یہ ان کے خلوص اور تقرب کا نتیجہ ہے یہ شرافت و دیانت اور یہ خلوص و تقرب خاندان عصمت و طہارت کی ہر فرد میں کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہے لہذا منزل ہدایت میں اگر کسی کو ہدایت پانا ہے اور خود کو گمراہیوں کے دلدل سے نکالنا ہے تو در اہل بیت(ع) پہ آنا پڑے گا ان کے سوا کسی در پہ الہی ہدایت نہیں مل سکتی۔ والسلام علی من اتبع الھدیٰ



source : abna

تبصرے
Loading...