اسلام كے پہلے مہاجرين

پيغمبر اكرم (ص) كى بعثت اور عمومى دعوت كے ابتدائي سالوں ميں مسلمان بہت ہى كم تعداد ميں تھے قريش نے قبائل عرب كو يہ نصيحت كرركھى تھى كہ ہر قبيلہ اپنے قبيلہ كے ان لوگوں پر كہ جو پيغمبر اكرم (ص) پر ايمان لاچكے ہيں انتہائي سخت دبائوڈاليں اور اس طرح مسلمانوں ميں سے ہر كوئي اپنى قوم وقبيلہ كى طرف سے انتہائي سختى اور دبائوميں مبتلا تھا اس وقت مسلمانوں كى تعداد جہادآزادى شروع كرنے كے لئے كافى نہيں تھى _پيغمبراكرم (ص) نے اس چھوٹے سے گروہ كى حفاظت اور مسلمانوں كے لئے حجاز سے باہر قيام گاہ مہياكرنے كے لئے انہيں ہجرت كا حكم دے ديا اور اس مقصد كےلئے حبشہ كو منتخب فرمايا اور كہا كہ وہاں ايك نيك دل بادشاہ ہے جو ظلم وستم كرنے سے اجتناب كرتا ہے _ تم وہاں چلے جائو يہاں تك كہ خداوند تعالى كوئي مناسب موقع ہميں عطافرمائے_پيغمبر اكرم (ص) كى مراد نجاشى سے تھى (نجاشى ايك عام نام تھا جيسے ”كسرى ” جو حبشہ كے تمام بادشاہوں كا خاص لقب تھا ليكن اس نجاشى كا اصل نام جو پيغمبر اكرم (ص) كا ہم عصر تھا اصحمہ تھا جو كہ حبشہ كى زبان ميں عطيہ وبخشش كے معنى ميں ہے )_

مسلمانوں ميں سے گيارہ مرداور چار عورتيں حبشہ جانے كے لئے تيار ہوئے اور ايك چھوٹى سى كشتى كرايہ پر لے كر بحرى راستے سے حبشہ جانے كے لئے روانہ ہوگئے _يہ بعثت كے پانچويں سال ماہ رجب كا واقعہ ہے _كچھ زيادہ عرصہ نہيں گزراتھا كہ جناب جعفر بن ابوطالب بھى مسلمانوںكے ايك دوسرے گروہ كے ساتھ حبشہ چلے گئے _ اب اس اسلامى جمعيت ميں 82/مردوں علاوہ كافى تعداد ميں عورتيںاور بچے بھى تھے _

مشركين ،مہاجرين كى تعقيب ميں

اس ہجرت كى بنيادبت پرستوں كے لئے سخت تكليف دہ تھى كيونكہ دہ اچھى طرح سے ديكھ رہے تھے كہ كچھ زيادہ عرصہ نہيں گزرے گا كہ وہ لوگ جو تدريجاً اسلام كو قبول كرچكے ہيں اور حبشہ كى سرزمين امن وامان كى طرف چلے گئے ہيں ، مسلمانوں كى ايك طاقتور جماعت كى صورت اختيار كرليں گے يہ حيثيت ختم كرنے كے لئے انہوں نے كام كرنا شروع كرديا اس مقصد كے لئے انہوں نے جوانوں ميں سے دوہوشيار، فعال، حيلہ باز اور عيار جوانوں يعنى عمروبن عاص اور عمارہ بن وليد كا انتخاب كيا بہت سے ہديے دے كر ان كو حبشہ كى طرف روانہ كيا گيا ،ان دونوں نے كشتى ميں بيٹھ كر شراب پى اور ايك دوسرے سے لڑپڑے ليكن آخركار وہ اپنى سازش كو روبہ عمل لانے كے لئے سرزمين حبشہ ميں داخل ہوگئے _ ابتدائي مراحل طے كرنے كے بعد وہ نجاشى كے دربار ميں پہنچ گئے ،دربار ميں بارياب ہونے سے پہلے انہوں نے نجاشى كے درباريوں كو بہت قيمتى ہديے دے كران كو اپنا موافق بنايا تھا اور ان سے اپنى طرفدارى اور تائيد كرنے كا وعدہ لے ليا تھا _

” عمروعاص ” نے اپنى گفتگو شروع كى اور نجاشى سے اس طرح ہمكلام ہوا:

ہم سرداران مكہ كے بھيجے ہوئے ہيں ہمارے درميان كچھ كم عقل جوانوں نے مخالفت كا علم بلند كيا ہے اور وہ اپنے بزرگوںكے دين سے پھر گئے ہيں،اور ہمارے خدائوں كو برابھلا كہتے ہيں ،انہوں نے فتنہ وفساد برپا كرديا ہے لوگوں ميں نفاق كا بيچ بوديا ہے ،آپ كى سرزمين كى آزادى سے انہوں نے غلط فائدہ اٹھايا ہے اور انہوں نے يہاں آكر پناہ لے لى ہے ، ہميں اس بات كا خوف ہے كہ وہ يہاں بھى خلل اندازى نہ كريں بہتريہ ہے كہ آپ انہيں ہمارے سپرد كرديں تاكہ ہم انہيں اپنى جگہ واپس لے جائيں _

يہ كہہ كر ان لوگوں نے وہ ہديئےو وہ اپنے ساتھ لائے تھے پيش كيے _

نجاشى نے كہا : جب تك ميں اپنى حكومت ميں پناہ لينے والوں كے نمائندوں سے نہ مل لوں اس سلسلے ميں كوئي بات نہيں كرسكتا اور چونكہ يہ ايك مذہبى بحث ہے لہذا ضرورى ہے كہ تمہارى موجودگى ميںمذہبى نمائندوں كوبھى ايك جلسہ ميں دعوت دى جائے _

جعفربن ابى طالب مہاجرين كے بہترين خطيب

چنانچہ دوسرے دن ايك اہم جلسہ منعقد ہوا، اس ميں نجاشى كے مصاحبين اور عيسائي علماء كى ايك جماعت شريك تھى جعفر بن ابى طالب مسلمانوں كے نمائندہ كى حيثيت سے موجود تھے اور قريش كے نمائندے بھى حاضر ہوئے نجاشى نے قريش كے نمائندوں كى باتيں سننے كے بعد جناب جعفر كى طرف رخ كيا اور ان سے خواہش كى كہ وہ اس سلسلے ميں اپنا نقطہ نظربيان كريں جناب جعفرا دائے احترام كے بعد اس طرح گويا ہوئے : پہلے ان سے پوچھيے كہ كيا ہم ان كے بھاگے ہوئے غلاموں ميں سے ہيں ؟

عمرو نے كہا :نہيں بلكہ آپ آزاد ہيں _

جعفر: ان سے يہ بھى پوچھئے كہ كيا ان كا كوئي قرض ہمارے ذمہ ہے كہ جس كا وہ ہم سے مطالبہ كرتے ہيں ؟

عمرو : نہيں ہمارا آپ سے ايسا كوئي مطالبہ نہيں ہے _

جعفر: كيا ہم نے تمہارا كوئي خون بہايا ہے كہ جس كا ہم سے بدلہ لينا چاہتے ہو ؟

عمرو:نہيں ايسا كچھ نہيں ہے؟

جعفر: تو پھر تم ہم سے كيا چاہتے ہو ؟تم نے ہم پر اتنى سختياں كيں اور اتنى تكليفيں پہنچائيں اور ہم تمہارى سرزمين سے جو سراسر مركز ظلم وجور تھى باہر نكل آئے ہيں _

اس كے بعد جناب جعفر نے نجاشى كى طرف رخ كيا اور كہا : ہم جاہل اور نادان تھے، بت پرستى كرتے تھے ،مردار كا گوشت كھاتے تھے ، طرح طرح كے برے اور شرمناك كام انجام ديتے تھے، قطع رحمى كرتے تھے ، اپنے ہمسايوں سے براسلوك كرتے تھے اور ہمارے طاقتور كمزوروں كے حقوق ہڑپ كرجاتے تھے _ ليكن خدا وند تعالى نے ہمارے درميان ايك پيغمبر كو معبوث فرمايا، جس نے ہميں حكم ديا كہ ہم خدا كا كوئي مثل اورشريك نہ بنائيں اور فحشاء ومنكر، ظلم وستم اور قماربازى ترك كرديں ہميں حكم ديا كہ ہم نماز پڑھيں ،

زكوة ادا كريں ، عدل واحسان سے كام ليں اور اپنے وابستگان كى مدد كريں _

نجاشى نے كہا : عيسى مسيح عليہ السلام بھى انہى چيزوں كے لئے مبعوث ہوئے تھے _

اس كے بعد اس نے جناب جعفر سے پوچھا: ان آيات ميں سے جو تمہارے پيغمبر پر نازل ہوئي ہيں كچھ تہميں ياد ہيں _جعفرنے كہا : جى ہاں : اور پھر انہوں نے سورہ مريم كى تلاوت شروع كردى ،اس سورہ كى ايسى ہلادينے والى آيات كے ذريعہ جو مسيح عليہ السلام اور ان كى ماں كو ہر قسم كى نارو اتہمتوں سے پاك قرارديتى ہيں ، جناب جعفر كے حسن انتخاب نے عجيب وغريب اثر كيا يہاں تك كہ مسيحى علماء كى آنكھوں سے فرط شوق ميں آنسو بہنے لگے اور نجاشى نے پكار كر كہا : خدا كى قسم : ان آيات ميں حقيقت كى نشانياں نماياں ہيں_

جب عمرنے چاہا كہ اب يہاں كوئي بات كرے اور مسلمانوں كو اس كے سپرد كرنے كى درخواست كرے ، نجاشى نے ہاتھ بلند كيا اور زور سے عمرو كے منہ پر مارا اور كہا: خاموش رہو، خدا كى قسم اگر ان لوگوں كى مذمت ميں اس سے زيادہ كوئي بات كى تو ميںتجھے سزادوں گا ،يہ كہہ كر مامورين حكومت كى طرف رخ كيا اور پكار كر كہا : ان كے ہديے ان كو واپس كردو اور انہيں حبشہ كى سرزمين سے باہر نكال دو جناب جعفر اور ان كے ساتھيوں سے كہا : تم آرام سے ميرے ملك ميں زندگى بسر كرو _

اس واقعہ نے جہاں جعفر اور ان كے ساتھيوں سے كہا تم آرام سے ميرے ملك ميں زندگى بسركرو_(1)

اس واقعہ نے جہاں حبشہ كے كچھ لوگوں پر اسلام شناسى كے سلسلے ميں گہرا تبليغى اثر كيا وہاں يہ واقعہ اس بات كا بھى سبب بنا كہ مكے كے مسلمان اس كو ايك اطمينان بخش جائے پناہ شماركريں اور نئے مسلمان ہونے والوں كو اس دن كے انتظارميں كہ جب وہ كافى قدرت و طاقت حاصل كريں ،وہاں پر بھيجتے رہيں _

فتح خيبركى زيادہ خوشى ہے يا جعفركے پلٹنے كي

كئي سال گزر گئے پيغمبر (ص) بھى ہجرت فرماگئے اور اسلام روزبروز ترقى كى منزليں طے كرنے لگا،عہدنامہ حديبيہ لكھا گيا اور پيغمبر اكرم (ص) فتح خيبركى طرف متوجہ ہوئے اس وقت جب كہ مسلمان يہوديوں كے سب سے بڑے اور خطر ناك مركز كے لوٹنے كى وجہ سے اتنے خوش تھے كہ پھولے نہيں سماتے تھے، دور سے انہوں نے ايك مجمع كو لشكر اسلام كى طرف آتے ہوئے ديكھا ،تھوڑى ہى دير گزرى تھى كہ معلوم ہواكہ يہ وہى مہاجرين حبشہ ہيں ، جو آغوش وطن ميں پلٹ كر آرہے ہيں ،جب كہ دشمنوں كى بڑى بڑى طاقتيںد م توڑچكى ہيں اور اسلام كا پودا اپنى جڑيںكافى پھيلا چكا ہے _

پيغمبر اكرم (ص) نے جناب جعفراور مہا جرين حبشہ كو ديكھ كر يہ تاريخى جملہ ارشاد فرمايا:

”ميں نہيں جانتا كہ مجھے خيبر كے فتح ہونے كى زيادہ خوشى ہے يا جعفر كے پلٹ آنے كى ”

كہتے ہيں كہ مسلمانوں كے علاوہ شاميوں ميں سے آٹھ افراد كہ جن ميں ايك مسيحى راہب بھى تھا اور ان كا اسلام كى طرف شديد ميلان پيدا ہوگيا تھاپيغمبر (ص) كى خدمت ميں حاضرہو ئے اور انہوں نے سورہ ى سين كى كچھ آيات سننے كے بعد رونا شروع كرديا اور مسلمان ہوگئے اور كہنے لگے كہ يہ آيات مسيح عليہ السلام كى سچى تعليمات سے كس قدر مشابہت ركھتى ہيں _

اس روايت كے مطابق جو تفسير المنار، ميں سعيد بن جبير سے منقول ہے نجاشى نے اپنے يارو انصار ميں سے تيس بہترين افراد كوپيغمبر اكرم (ص) اور دين اسلام كے ساتھ اظہار عقيدت كے لئے مدينہ بھيجا تھا اور يہ وہى تھے جو سورہ ى سين كى ايات سن كر روپڑے تھے اور اسلام قبول كرليا تھا_

(1)بہت سے مفسرين نے نقل كيا ہے كہ سورہ مائدہ ايات 82تا86 نجاشى اور اس كے ساتھيوں كے بارے ميں نازل ہوئي ہيں

تبصرے
Loading...