اسلام اور ہر زمانے کي حقيقي ضرورتيں ( حصّہ پنجم )

مغربي دانشور، دين کو ايک اجتماعي مظہر جانتے ہيں ،جو خود معاشرہ کے مانند بعض فطري عوامل کا ايک معلول ہے – مغربي دانشوروں کي نظر ميں تمام اديان من جملہ اسلام (اگر دين کے موضوع کے بارے ميں خوش فہم ہوں تو) چند غير معمولي ذہانت رکھنے والے افراد کے آثار ہيں ،جنہوں نے اپنے نفس کي پاکي، انتہائي ذہانت اور ناقابل شکست ارادہ کے نتيجہ ميں اپنے معاشرہ کے اخلاق واعمال کي اصلاح کے لئے کچھ قوانين وضع کرکے لوگوں کي زندگي کي سعادت کي راہ پر راہنمائي کرتے تھے- يہ قوانين انساني معاشروں کے تدريجي ارتقاء کے ساتھ ساتھ تغير پيدا کرکے ارتقاء کي آخري منزل تک پہنچتے ہيں –

حس، تجربہ اور يہي تاريخ ثابت کرتي ہے کي انساني معاشرہ تدريجي طور پر ارتقاء کي طرف بڑھتا ہے اور عالم بشريت تہذيب و تمدن کے ميدان ميں ہر روز ايک نيا قدم اٹھاتي ہے اور نفسياتي ،قانوني اور اجتماعي ،حتي فلسفي ،خاص کر”ڈيالٹيک ميٹريالزم ”فلسفہ کے نتائج کے پيش نظر چونکہ معاشرے ايک ثابت حالت ميں نہيں رہتے ہيں اس لئے معاشروں ميں قابل نفاذ قوانين بھي ايک حالت ميں باقي نہيں رہ سکتے-

جنگلي ميوے کھا کر غاروں ميں زندگي بسر کرنے والے ابتدائي انسانوں کي سعادت مند زندگي کي ضرورتوں کوپورا کرنے والے قوانين، ہرگز آج کي تکلفاتي زندگي کے لئے کافي نہيں ہو سکتے-

ڈنڈوں اور کلہاڑيوں سے جنگ کرنے والے زمانہ سے مر بوط قوانين، آج کل کے ايٹمي دور کے لئے کسي صورت ميں فائدہ مند نہيں ہوسکتے-

گھوڑوں اور گدھوں پر سفر کرنے والے زمانے سے مربوط قوانين، آج کل کے جٹ ہوائي جہاز اور آب دوز کشتيوں سے سفر کرنے کے زمانے کے کس درد کا علاج کر سکتے ہيں ؟

تبصرے
Loading...