اسلامی معاشرے کی تعمیر ضروری

ریاض عظیم آبادی:
چند روز قبل جماعت اسلامی حلقہ پٹنہ کی جانب سے ’اسلامی معاشرہ کی تعمیر میں علماءکا کردار‘ کے زیرعنوان ایک مذاکرہ میں سامعین کی حیثیت سے شرکت کرنے کا موقع ملا۔ وہاں پر یہ سوال زوروشور سے اٹھا کہ اصلاح معاشرہ ہونا چاہئے یا اسلامی معاشرہ کی تعمیر…. میں ذاتی طور پر اسلامی معاشرہ کی تعمیر میں یقین رکھتا ہوں، ٹھیک اسی طرح کہ اتحاد بین المسلمین کی جگہ پر مسلمانوں کی یکجہتی کی بات کہی جائے تو زیادہ مناسب ہوگی کیونکہ ایک خدا، نبی آخری الزماں اور قرآن کی آفاقیت پر تو مسلمانوں کا اتحاد ہے ہی۔ اختلاف مسلک اور ذات برادری کے نام پر شدید ہوتا جارہا ہے جسے کم کرنا وقت کا اہم ترین تقاضہ ہے۔جماعت اسلامی ہند کے سکریٹری مولانا محمد رفیق قاسمی نے بڑی خوبصورتی کے ساتھ سوالات کے جواب دیئے اور کہا کہ جب تک ایک مسلمان اپنے اوپر اسلام کو غالب نہیں آنے دیتا اس وقت تک اسلامی حکومت کی بات کہنا مناسب نہیں۔میں یہاں پر اصلاح معاشرہ اور اسلامی معاشرہ کی تعمیر سے زیادہ اصلاح علماءکی ضرورت محسوس کررہا ہوں۔ اس سے قبل بھی میں نے اپیل کی تھی کہ علماءاور ائمہ مساجد کو معاشرے سے جوڑیئے۔ ہمارے بہتیرے مسائل ان کے تعاون سے حل ہو سکتے ہیں۔اس بات سے تو آپ بھی اتفاق کریں گے کہ اسلامی معاشرہ کی تعمیر میں علماءاور ائمہ مساجد سب سے اہم رول ادا کرسکتے ہیں۔ لیکن موجودہ حالات ان کے مواقف نہیں ہیں۔ ائمہ مساجد یا تو متولی کی دھونس میں رہتے ہیں یا سکریٹری وقف کمیٹی کے دبدبے سے پریشان رہتے ہیں۔ائمہ مساجد مولانا عتیق اللہ قاسمی جیسے تو ہو نہیں سکتے کہ وہ مخالف ہوا کے باوجود اپنے مشن میں مصروف رہتے ہیں۔ جماعت اسلامی نے اس بات کو محسوس کیا کہ جس کا خیرمقدم کیا جانا چاہئے۔ 
ائمہ کی پرسنالٹی یعنی ان کی شخصیت کو نئے سانچے میں ڈھالنے کی ضرورت ہے۔ انہیں موجودہ وقت کے تقاضے کا احساس دلانا ہوگا اس کیلئے ورک شاپ کا انعقاد کرنا ہوگا اور ان کی مخصوص ٹریننگ کا نظم کرنا ہوگا۔ سماجی خدمات، تعلیمی خدمات کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کی یکجہتی، ائمہ کا اتحاداور سیاسی بیداری کی لازمیت کو محسوس کرنا ہوگا۔ محلہ مینجمنٹ ایک اہم شعبہ ہے جس پر علماءکو توجہ دینی ہوگی۔ فرسودہ رسموں خصوصاً جہیز مخالف مہم کو تیز کرنے میں وہ ایک اہم رول ادا کرسکتے ہیں۔ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ جمہوری ملک میں اگر پروقار انداز میں جینا ہے تو جمہوری حقوق کی حصولیابی کیلئے جمہوری تقاضوں کو بھی پورا کرنا ہوگا۔ حکومت اور برسراقتدار پارٹی کے لیڈروں کی چمچہ گیری اور دلالی کی جگہ پر احتجاجات کا راستہ اختیار کرنا ہوگا۔ دھرنا اور ریلیوں کو اپنا جمہوری ہتھیار بنانا ہوگا۔ 
ہماری بدنصیبی یہ ہے کہ آزادی کے بعد منصوبہ بند طریقے سے پہلے تومسلمانوںکو اپنی زمینوں سے بے دخل کردیا جب انہوں نے شہروں کا رخ کیا تو مزدوری ان کا مقدر بن گیا۔ بازار میں تو آئے لیکن مفلس اور کنگال بن کر۔ قوت خریداری سے محروم رہے، سرکاری اسکیموں سے دوسرے فائدہ اٹھاتے رہے اور ہم تماشہ دیکھتے رہے۔ یہاں تک کہ پروڈکشن کے بعد ڈسٹریبوشن اور مارکیٹنگ سے بھی مسلمان بے دخل کردیئے گئے۔ مسلمانوں نے آمدنی سے زیادہ خرچ کرنے کی عادت پال لی، محنت سے فرار اختیار کرنے لگے، خیرات اور زکوٰة، فطرہ اور صدقہ کی جانب للچائی نظروں سے دیکھنے لگے اور بدلے میں پوری امت غریبی، مفلسی، بیماری اور بدحالی کی شکار ہوگئی۔ درمیانی طبقہ واہ واہی اور شوداری کی بیماری میں مبتلا ہوگیا، شادی بیاہ میں ضرورت سے زیادہ خرچ کی عادت بنالی، کثرت اولاد نے بچوں کو تعلیم سے محروم کردیا۔ہمارے علماءاور ائمہ مساجدان مسائل سے خود کو الگ رکھے رہے۔ وہ یہ بھول گئے کہ اسلام نے کبھی بھی رہبانیت کی تعلیم نہیں دی۔ نہ تو دین سے الگ ہٹ کر دنیاوی رغبتوں کی طرف مائل ہونے کی تلقین کی اور نہ ہی دنیا کو چھوڑ کر صرف دین و آخرت کی حصولیابی کی طرف بڑھنے کی تعلیم دی۔ اسلام کوئی مذہب نہیں ہے بلکہ مکمل دین فطرت ہے۔ دینی اور دنیاوی ہر جگہ پر اسلامی شریعت ہمیں راستہ دکھارہی ہے۔ہر شہر، ہر قصبہ اور تقریباً بڑے محلوں میں مسجد ضرور ہیں۔موجودہ دہائی میں مساجد کی تعمیر کے رجحان میں کافی اضافہ ہوا ہے۔ ہر جمعہ کی نماز میں امام صاحب کسی نہ کسی مسجد کی تعمیر کیلئے معاونت کی اپیل کرتے رہتے ہیں۔یقینا مسجد خدا کا گھر ہے، کوئی سیاسی اکھاڑہ نہیں ہے لیکن مساجد کو مرکز بناکر مسلمانوں میں باہمی یکجہتی پیدا کرنے، ان کے اندر پنپ رہی خرابیوں کو دور کرنے کا کام تو کیا ہی جا سکتا ہے۔ عام طور پر مسلم محلوں میں بچے اسکول نہیں جاتے،بہتیرے گھرانے ایسے ہیں جہاں مرد شراب کے نشے میں دھت ہوکر بیوی اور بچوں کو زدوکوب کرتا ہے اور شراب نوشی کے چکر میں بیوی بچوں کو بھوکا سونے پر مجبور کردیتا ہے۔غربت کی وجہ سے بچیوں کی شادیاں نہیں ہوپارہی ہیں کیونکہ والدین کے پاس شادی کے لوازمات کیلئے پیسے نہیں ہیں۔ آج لڑکے والے شادیوں کیلئے لڑکی والوں سے ’نقد‘ کی مانگ کرنے میں کسی طرح کی شرم محسوس نہیں کرتے۔ شادی کے موقع پر ڈھول باجا اور مختلف قسم کی بدعت کو اپنا شعار بناتے جارہے ہیں۔ مسلک کے نام پر نفرت بڑھتی جارہی ہے اور ذات برادری کی تفریق اب نفرت اور عداوت کی شکل اختیار کرتی جارہی ہے۔کرناٹک کے مولانا عثمان بیگ ایک جید عالم، حافظ اور معاشرے کے مسائل کو سمجھنے والے ہیں۔ مجھ سے تفصیلی بات چیت ہوئی۔ انہوں نے بتایا کہ اسی مقصد کے تحت آل انڈیا امام کونسل کا قیام عمل میں لایا گیا ہے۔ائمہ مساجد کو معاشرے سے جوڑنے کی میری اپیل کو انہوں نے سراہتے ہوئے کہا کہ وہ علماءاور ائمہ کی شخصیت کو نکھارنے اور انہیں وقت کے تقاضے کے مطابق ملت کیلئے کارآمد بنانے کے سلسلے میں اگر ضرورت پیش آئے تو وہ ان کیلئے ورکشاپ کا نظم کرسکتے ہیں۔جماعت اسلامی معاشرہ کی تعمیرکیلئے فکرمند ہے اور اسے اس بات کا بھی احساس ہے کہ اس کام میں علماءایک اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔ اگر پورے ملک میں اسے تحریک کی شکل دی جائے اور باضابطہ نصاب کے ساتھ علماءاور ائمہ مساجد کو معاشرے سے جوڑا جائے اور انہیں ذمہ داری دی جائے تو یقینا ایک انقلاب آفریں قدم ہوگا جس کی آج اشد ضرورت ہے۔آج سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ہم دانستہ طور پر یا حماقت میں اسلام دشمن طاقتوں کے معاون بنتے جارہے ہیں۔ مسلمانوں کے معاملے میں جارحانہ رخ اختیار کرنےوالی جماعتیں انتخاب سے قبل مسلمانوں کے حقوق کی بات بھی کرنے لگتی ہیں۔ اب ان طاقتوں نے اپنی حکمت عملی تبدیل کرلی ہے۔ اب وہ شور مچاکر نہیں بلکہ خاموشی سے تباہ و برباد کرنے میں یقین کرنے لگی ہیں۔ مثال کیلئے اردو زبان کو ہی لیں۔قانون اردو کے مطابق سبھی شاہراہوں اور عوامی تعلق سے سبھی نشانات اردو میں بھی لکھے جائیںگے۔ آج بہار میں اسلام دشمن بی جے پی کی مدد سے حکومت چل رہی ہے۔ محکمہ شہریات کے وزیر برابربی جے پی کے ہی رہے جس کا نتیجہ یہ ہوا ہے کہ بہار کی راجدھانی پٹنہ میں ہر گلی، چوراہے اور اہم مقامات پر سبز رنگ کابورڈ لگایا گیا ہے جس میں انگریزی اور ہندی کا تو استعمال ہوا ہے اردو کہیں بھی نظر نہیں آتی۔تبلیغی جماعت کے ایک سربراہ اردو مشاورتی کمیٹی کے صدر ہیں، سرخ بتی والی گاڑی میں گھومتے تو ضرور ہیں لیکن انہوں نے ان بورڈوں کو دیکھنے کی ضرورت محسوس نہیں کی جہاں سے اردو غائب ہے۔میرے کہنے کا مقصد یہ ہے کہ ہم خوشامد اور چاپلوسی میں اس قدر کھو گئے ہیں کہ اس زہر کو محسوس نہیں کرپارہے ہیں جو ہمارے خلاف استعمال کئے جارہے ہیں۔حکومت اگر مسلمانوں کیلئے کچھ کرتی ہے تو وہ احسان نہیں کرتی بلکہ یہ ہمارا حق ہے، ہم ٹیکس ادا کرتے ہیں اسلئے ہمیں آئینی حق حاصل ہے کہ سرکاری اسکیموں کا اطلاق مسلم علاقوں اور مسلم محلوں میں بھی ہو۔ہمارے علماءاور ائمہ مساجد اپنی مسجد کے علاقے میں صالح اور فعال نوجوانوں کی ٹولی بناسکتے ہیں، ان کے طاقت کے بل بوتے پر معاشرتی خرابیوں کے خلاف جدوجہد چھیڑ سکتے ہیں۔وہ صرف یہ قسم کھالیں کہ مسلکی اور ذات برادری کی تفریق کو پھٹکنے نہیں دیں گے اور خلوص کے ساتھ ملت میں نیا انقلاب لانے کی سعی کریں گے تو یقینا چند دنوں کے اندر ہی معاشرے میں تبدیلی کا احساس ہونے لگے گا۔جماعت اسلامی ہو یا امارت شرعیہ یا پھر آل انڈیا امام کونسل…. یہ صرف ان کی تربیت کا انتظام کردیں، پھر دیکھئے کہ انقلاب کیسے بدحال ملت کے دروازے پر دستک دیتا ہے۔

تبصرے
Loading...