اسلامی جمہوریہ کا عصر شاہی سے موازنہ؛ آیت اللہ قرائتی کی نظر میں

شہرہ آفاق ایرانی مفسر قرآن حجت الاسلام محسن قرائتی نے عشرہء فجرانقلاب اسلامی کے ایام اللہ کی مناسبت سے تہران کی مسجد امام جعفر صادق علیہ السلام میں حاضر ہو کرانقلاب اسلامی کا” ہم کہاں تھے اور اب کہاں ہیں “کے عنوان کے تحت تجزیہ کرتے ہوئے تقریر کی جس کا خلاصہ ح

  شہرہ آفاق ایرانی مفسر قرآن حجت الاسلام محسن قرائتی نے عشرہء فجرانقلاب اسلامی کے ایام اللہ کی مناسبت سے تہران کی مسجد امام جعفر صادق علیہ السلام میں حاضر ہو کرانقلاب اسلامی کا” ہم کہاں تھے اور اب کہاں ہیں “کے عنوان کے تحت تجزیہ کرتے ہوئے تقریر کی جس کا خلاصہ حسب ذیل ہے:

استاد محسن قرائتی نے عشرہء فجر کی قدردانی کے ضمن میں ملک کے ماضی اور حال کے شرائط کے بارے میں کچھ نکات کی جانب اشارہ کیا اور کہا : ہمیں موازنہ کرنا چاہیے کہ “ہم کہاں تھے اور اب کہاں ہیں” ۔ جس دن اسلامی جمہوریہ کی تشکیل ہوئی تو تمام دنیا نے کہا : اسلامی جمہوریہ نہیں رہے گی ۔ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ ایران کے پاس ڈاکٹر نہیں تھے بلکہ ہندوستانی اور پاکستانی ڈاکٹر یہاں تعینات کئے جاتے تھے ۔لیکن آج باہر سے بیمار علاج کے لیے ایران آتے ہیں اور آپریشن کرواتے ہیں ۔جمکران کی مسجد مقدس میں پہلے بہت کم لوگ جاتے تھے لیکن آج کل کئی ہزار لوگ اس مسجد میں آتے ہیں ۔اس زمانے میں نماز جماعت صرف مساجد میں ہوتی تھی ،لیکن آج کل عاشور کے دن ظہر کی نماز شہروں کی سڑکوں پر باشکوہ انداز میں قائم ہوتی ہے ۔یہی جمعہ کی باشکوہ نمازیں کہ جو تمام بڑے اور چھوٹے شہروں میں آج منعقد ہو رہی ہیں یہ اس حکومت اور انقلاب کی برکت سے ہے ۔

ادارہ تعلیم و تربیت میں نماز نہیں ہوتی تھی،سڑکوں کے کنارے مسجدیں نہیں تھیں جو شخص نماز پڑھنا چاہتا تھا وہ ہوٹلوں میں تنگ اور کثیف جگہوں پر نماز پڑھتا تھا ،آج تقریبا سات سو مسجدیں سڑکوں کے کنارے بنی ہوئی ہیں ،نوروز کے دن تحویل سال کے موقعے پر صرف سینکڑوں کی تعداد میں لوگ مشہد جایا کرتے تھے آج اگر سعودیہ والے اجازت دیں تو لاکھوں کی تعداد میں لوگ خانہ خدا کی زیارت کے مشتاق ہیں ۔

قصہ کاہو سکنجبین کا اور بیان حدیث

استاد قرائتی نے آگے ایک داستان سنائی اور کہا ؛ میرا بھائی سپاہی تھا اور خرم آباد سے دو فرسخ کے فاصلے ایک چوکی میں کام کرتا تھا ،میں قم سے گیا تا کہ اپنے بھائی سے ملاقات کروں ،میں نے سنتری سے کہا ؛ کیا ممکن ہے کہ میں اندر آوں اور اپنے بھائی سے ملوں ؟اس نے کہا ، آپ یہیں رکیں ،میں جاوں اور ان کو بتا دوں ،میں نے کہا ؛ میں چاہتا ہوں تقریر کروں ، اس نے کہا ؛ آپ اندر نہیں آسکتے چہ جائیکہ آپ تقریر کریں؟ ہم مسلمان ہیں لیکن قانون اجازت نہیں دیتا ۔وہ سچ کہہ رہا تھا ۔میں وہیں رک گیا جو بھی آتا تھا میں اسے روک کر کہتا تھا کہ جناب کیا ممکن ہے کہ میں اندر آوں اور دو حدیثیں بیان کروں ۔ میرا بھائی دکھی ہوا کہ اس کا ایک بھائی مولوی ہے ،اس نے کہا تم خود بھی پھنسو گے اور مجھے بھی مرواو گے ۔

وہ دکھی تھا کہ کیوں میں حدیث بیان کرنے کے لیے التماس کر رہا ہوں ۔میں نے کہا کہ اگر میں عمامہ اور لباس اتار دوں اور پینٹ شرٹ پہن لوں تو چلے گا؟ انہوں نے کہا : اس سے کوئی فرق نہیں پڑے گا ۔ میں نے کہا اگر کچھ کھانے پینے کی چیز لے کر آوں تو کیا یہ لوگ میری بات سننے کے لیے آجائیں گے؟۔ اس نے کہا : شاید آ جائیں گے ،میں نے کہا میں جا رہا ہوں” کاہو” لینے ،اور اب کاہو لے کر آوں گا ۔ میں وہاں سے خرم آباد گیا اور وہاں سے ۳۰ ۔ ۴۰ کیلو کاہو اور کچھ سکنجبین کی بوتلیں خریدیں اور ٹیکسی میں بیٹھ کر چوکی پر پہنچ گیا ۔ میں نے کہا ؛ جاو کاشانی اور اپنے شہر والے بچوں کو لے آو ۔میں نے عمامہ اور لباس اتارا ، کاہو کو دھویا ۔اس کے بعد کچھ سپاہی آئے اور انہوں نے کاہو کھانا شروع کر دیا وہ کاہو کھا رہے تھے اور میں انہیں حدیث بیان کر کے سنا رہا تھا ۔ شاہ کے دور میں فوج کی یہ حالت تھی ۔ اگر ایک طالبعلم اپنے بھائی سے ملنا چاہتا تھا اور حدیث بیان کرنا چاہتا تھا تو اسے اپنا عمامہ اور لباس اتارنا پڑتا تھا ۔

ہمیں موازنہ کرنا چاہیے اور دیکھنا چاہیے کہ ہم نے بہت سارا راستہ طے کیا ہے لیکن ابھی ہمیں اور آگے بڑھنا ہے ۔

بہت ساری آیات میں خدا اپنے پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے فرماتا ہے ؛ مجھ سے غفلت مت برتو[أَلَمْ يجِدْكَ يتِيمًا فَآوَى(الضحي/6)] ۔آپ کو یاد رکھنا چاہیے کہ آپ یتیم تھے تو ہم نے آپ کو پناہ دی۔ [وَوَجَدَكَ عَائِلًا فَأَغْنَى(الضحي/8)]۔ اور آپ کو یاد ہے کہ آپ تنگدست تھے تو ہم نے آپ کو غنی بنا دیا ۔[ وَوَجَدَكَ ضَالًّا فَهَدَى(الضحي/7)] اور آپ کو یاد ہے کہ آپ حیران تھے تو ہم نے آپ کو راستہ دکھا دیا ،ہمیں بھی یہ یاد کرنا چاہیے کہ ہم کہاں تھے ۔ہمیں موازنہ کرنا چاہیے اور دیکھنا چاہیے کہ ہم نے بہت سارا راستہ سر کیا ہے اور ابھی بہت سارا باقی ہے ۔

دوران ستم شاہی میں امام حسین علیہ السلام کی مظلومیت پر آیۃ اللہ خوانساری کے آنسو

رضا خان کی ستم شاہی کے دور میں امام حسین علیہ السلام کی مجالس عزا پر پابندی تھی ۔  ہمارے بزرگوں نے مخفیانہ طور پر مجالس برپا کرنے کے بہت سارے قصے بیان کیے ہیں ۔ایک بزرگ کا کہنا تھا کہ قم میں گھروں کے سردابوں( تہ خانوں) کو اندر سے متصل کر رکھا تھا اور چھپ کر ایک مقررہ وقت پر اکٹھا ہوتے تھے اور مجلس برپا کرتے تھے ۔ ایک دن آیۃ اللہ خوانساری ایک سرداب کی گیلری میں اس قدر روئے کہ بے ہوش ہوگئے ،اور کہنے لگے کہ کس قدر امام حسین علیہ السلام مظلوم ہیں کہ ہم کھل کر ان پر رو بھی نہیں سکتے !

ہمیں اپنی کمزوریوں کا اعتراف ہے لیکن حکومت کو کمزور کرنے کے بجائے ہمیں عیوب کو برطرف کرنا چاہیے ۔

البتہ ہم مانتے ہیں کہ ہمارے نظام میں کمزوریاں ،نقائص، عیوب، اجتماعی خرابیاں ،مہنگائی ، سرمائے کا بحران، بے حجابی، منشیات کا استعمال وغیرہ جیسی چیزیں ہیں  لیکن میرا عقیدہ ہے کہ بہانہ تراشی حماقت ہے ،اگر کوئی عیوب کو نہیں دیکھتا تو وہ احمق ہے لیکن کمزور کرنا بھی خیانت ہے ۔ اتنی تعداد میں جوان شہید ہوئے تا کہ انقلاب ہمارے ہاتھ میں آ سکے ہم نے لاکھوں شہید معلول اور اسیر تقدیم کیے  اب ہم شہیدوں کے خون کو رائگاں جانے دیں؟ ہماری رسالت اور مسئولیت تکمیل کرنا ہے یعنی ہمیں عیوب کو دور کرنا چاہیے ۔

مشکلات سے نجات پانے کا بہترین راستہ اکثریت کی رائے

آج ملکوں میں حکام کی تعیین کا بہترین راستہ انتخابات کا راستہ ہے ۔ لیکن اس میں شک نہیں کہ انتخابات راہ حل ہے لیکن ہر جگہ راہ حل نہیں ہے۔کوئی بھی برہان اور علمی اور عقلی دلیل انتخاب شدہ شخص کی لیاقت ، صلاحیت اور حقانیت کی تائیید نہیں کرتی ،اگر چہ مقام عمل میں اکثریت کی رائے مد نظر ہوتی ہے اور یہ مشکل سے نجات پانے کا بہترین راستہ ہے ۔

دنیا میں حکومت کی منتقلی یا کودتا کے ذریعے ہوتی ہے یا جانشینی کے ذریعے  یا اقلیت کی رائے سے اور یا اکثریت کی رائے سے ۔کودتا جنگل کا قانون ہے جس کی کوئی منطق نہیں ہے ۔جانشینی بھی زبردستی تھوپنا ہے ۔ آج یہی آل سعود کہ جن کے درمیان حکومت نسل در نسل منتقل ہوتی ہے یہ زبردستی حاکم ہے ۔ یہ ایسے ہی ہے کہ میں کہوں کہ میں اس مسجد کا پیش نماز ہوں تو میرے بعد میرا لڑکا اس مسجد کا پیش نماز ہو گا ۔یہ کس کا حکم ہے ؟ اقلیت کی رائے بھی ظلم اور اکثریت کی رائے کی بربادی ہے ۔ اکثریت کی رائے انتخابات سے معلوم ہوتی ہے اور یہ وہی چیز ہے جو ہمارے ملک میں رائج ہے ۔ اور یہ بہترین راستہ ہے ۔

 ولی فقیہ کی خصوصیات امام زمانہ کی نظر میں

قانون البتہ خدا کا قانون ہے ،[ إِنِ الْحُكْمُ إِلَّا لِلَّهِ]  (انعام / ۵۷ ) خدا نے پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو منتخب فرمایا ۔ پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بھی غدیر خم کے میدان میں حضرت علی علیہ السلام کو جانشینی کے لیے انتخاب کیا اور پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد ۱۲ امام روئے زمین پر خدا کی حجت ہیں ۔ غیبت کے زمانے میں بھی مرجع تقلید اور ولی فقیہ کو امام عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف نے معین کیا ہے ۔حضرت مہدی عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف نے فرمایا : جو شخص فقیہ اور عادل ہو اور ہوس پرست نہ ہو  تو میری غیبت کے زمانے میں اس کی طرف رجوع کریں ۔

ہمیں زندگی میں اسی طرح مرجع کے تابع ہونا چاہیے جس طرح کہ ہم بیماری کے وقت ڈاکٹر کے تابع ہوتے ہیں ۔

لوگوں کا رہبر کے ساتھ رابطہ تبعیت کا رابطہ ہے ، فتوے پر عمل کیجیے ، یہ نہ کہیے کہ ہمیں اس کا راز نہیں معلوم کیا فقیہ معصوم ہوتا ہے ؟ نہیں ! کیا آپ جب ڈاکٹر کے پاس جاتے ہو تو دوائی کے بارے میں پوری جانکاری حاصل کرتے ہو ؟ ہمارے تمام مراجع خود بھی تقلید کرتے ہیں ۔یعنی جب وہ بیمار ہوتے ہیں تو ڈاکٹر کہتا ہے اس پر عمل کرتے ہیں ۔ جس طرح ہمارا مرجع ڈاکٹر کی بات مانتا ہے ڈاکٹر کو بھی چاہیے کہ وہ مرجع کی بات مانے ۔ اصل حجت ہے ،عصمت نہیں ۔ کیا ڈاکٹر سے غلطی نہیں ہوتی ؟ لیکن ڈاکٹر کی بات ہمارے لیے حجت ہے ۔

نماز جماعت کی اہمیت حتی جہاد کے دوران

آگے چل کر استاد قرائتی نے نماز کی اہمیت کے بارے میں سورہء نسا کی کچھ آیات کی تفسیر بیان کی اور کہا : سال چھ ہجری میں مسلمانوں کے ایک گروہ کے ساتھ پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مکہ کا رخ کیا ۔ حدیبیہ کے مقام پر کفار نے آپ کا راستہ روک دیا اور حضرت کو روکنے کے لیے مورچے سنبھال لیے ۔ بلال نے اذان دی اور نماز جماعت قائم ہوئی  ، دشمن نے دیکھا کہ موقعہ مناسب ہے نماز عصر کے وقت یکبارگی حملہ کر دیں گے ۔اسی موقعے پر آیت نازل ہوئی اور اس میں دشمن کی سازش کے بارے میں خبر دار کیا گیا ۔

اس جماعت میں پہلے گروہ نے نماز کی پہلی رکعت سے کھڑے ہو کر باقی نماز کو فرادیٰ مکمل کیا امام جماعت نے انتظار کیا تاکہ دوسرا گروہ جماعت کے ساتھ ملحق  ہو جائے اور وہ اپنے ہتھیاروں سمیت نماز جماعت میں شریک ہو سکیں ۔

قرآن مجید فرماتا ہے :[ وَإِذَا ضَرَبْتُمْ فِي الْأَرْضِ فَلَيسَ عَلَيكُمْ جُنَاحٌ أَنْ تَقْصُرُوا مِنَ الصَّلَاةِ إِنْ خِفْتُمْ أَنْ يفْتِنَكُمُ الَّذِينَ كَفَرُوا إِنَّ الْكَافِرِينَ كَانُوا لَكُمْ عَدُوًّا مُبِينًا(النساء/101)] اور جب تم زمین میں سفر کرو تو اگر تمہیں خوف ہو کہ کافر تمہیں نقصان پہنچائیں گے کہ تو تم نماز کو قصر کر سکتے ہو ،بے شک کفار تمہارے کھلے دشمن ہیں ۔

«وَ إِذا کُنْتَ فِیهِمْ فَأَقَمْتَ لَهُمُ الصَّلاةَ فَلْتَقُمْ طائِفَةٌ مِنْهُمْ مَعَکَ وَ لْیَأْخُذُوا أَسْلِحَتَهُمْ فَإِذا سَجَدُوا فَلْیَکُونُوا مِنْ وَرائِکُمْ وَ لْتَأْتِ طائِفَةٌ أُخْرى‌ لَمْ یُصَلُّوا فَلْیُصَلُّوا مَعَکَ وَ لْیَأْخُذُوا حِذْرَهُمْ وَ أَسْلِحَتَهُمْ وَدَّ الَّذِینَ کَفَرُوا لَوْ تَغْفُلُونَ عَنْ أَسْلِحَتِکُمْ وَ أَمْتِعَتِکُمْ فَیَمِیلُونَ عَلَیْکُمْ مَیْلَةً…»

اے پیغمبر ! اگر کہیں جہا کے سفر میں آپ اسلامی لشکر کے درمیان موجود ہوں اور انہیں نماز پڑھائیں تو تم میں سے ایک گرو ہ نماز کے لیے کھڑا ہو تو اپنے ہتھیاروں کو اپنے ساتھ رکھے تو وہ سجدہ کے بعد کھڑے ہو جائیں اور دوسری رکعت کو فرادی پڑھ کر چلے جائیں اور جا کر حفاظت کریں اور دوسرا گروہ کہ جس نے نماز نہیں پڑھی ہے وہ دوسری رکعت میں تمہارے ساتھ شریک ہو اور اپنے وسایل اور ہتھیاروں کو اپنے ساتھ رکھیں ،چونکہ کفار چاہتے ہیں کہ تم اپنے ہتھیاروں سے غفلت برتو تو وہ تمہارے اوپر حملہ کر بیٹھیں ….۔

ان آیات سے مراد یہ ہے کہ نماز جنگ کے میدان میں بھی نہیں چھوڑی جا سکتی  اور جنگجو نماز کے بغیر نہیں رہ سکتا ۔ نماز جماعت کی اہمیت کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ وہ دشمن کے ساتھ جنگ کے میدان میں بھی ایک رکعت میں شرکت کی صورت میں بھی ہو سکتی ہے ،اور جب نماز اور جہاد دونوں ذمہ داریاں ایک ساتھ پوری کرنا ہوں تو ایک کو دوسری کے لیے چھوڑا نہیں جا سکتا۔ ہر حال میں ہوشیاری لازمی ہے مسلمانوں کو دشمن کے خطرے سے غافل نہیں ہونا چاہیے فوجی کو تیز اور چالاک ہونا چاہیے ۔

نماز جماعت کی اہمیت کے سلسلے میں تاجروں کو وصیت

میں نے یہ بات کیوں کہی ہے ؟ یہاں مسجد ہے اور احتمالا تمہارے درمیان تاجر اور دوکاندار بھی ہیں۔ خدا نے محاذ جنگ اور جنگ کے دوران بھی نماز جماعت کو فوجیوں کے درمیان تقسیم کیا ہے تا کہ سبھی نماز میں شرکت کر سکیں ۔کتنا اچھا ہو کہ آپ بھی نماز جماعت کو تقسیم کریں ۔مثلا اگر دوکان میں آپ کا شاگرد بھی موجود ہو تو آپ مغرب کی نماز پڑھیں اور آپ کا شاگرد عشاء کی نماز میں شرکت کرے ۔اگر ہفتے کے دن آپ مسجد میں جاتے ہو تو ایتوار کے دن آپ کا شاگرد مسجد میں جائے ۔ اور جس طرح پچھلی نسل نے ہمیں مسجد اور نماز جماعت والا بنایا ہے تو ہم بھی ایسے ہی بنیں ۔

کچھ شبہات کا جواب

مجھ سے پوچھا گیا کہ کیوں بہت سارے احکام قرآن میں نہیں ہیں ۔مثلا آٰیہ خمس جنگ کی غنیمت کے سلسلے میں ہے ۔میں یہ بتا دوں کہ قرآن مجید میں مجموعا دو سو قرآنی احکام ہیں لیکن ہمارے کئی ہزار دینی احکام روایت اور احادیث سے ماخوذ ہیں ،قرآن مجید فرماتا ہے ؛[ مَا آتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوا (الحشر/7)] جو کچھ پیغمبر آپ کے لیے لائے ہیں وہ ان سے لے لو اور جس چیز سے آپ کو منع کریں اس سے باز آجاو ،پیغمبر نے فرمایا ہے ،اس آیت کے مطابق ہمیں پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بات ماننی چاہیے ، چاہے وہ قرآن میں نہ ہو ۔کیا طواف کی تعداد قرآن میں بیان ہوئی ہے ؟ کیا نماز صبح ، ظہر ،عصر مغرب اور عشاء کی رکعتوں کی تعداد قرآن میں بیان ہوئی ہے ۔

حضرت علی علیہ السلام کی صداقت کے بارے میں امیر المومنین اور ابو ذر کا قصہ

آپ نے آخر میں حضرت علی علیہ السلام اور ابوذر کا ایک قصہ نقل کرتے ہوئے انتخابات کے بارے میں نصیحت بیان کی اور کہا : ابو ذر مجلس میں داخل ہوئے دیکھا معاویہ بیٹھا ہے اور تمام حکومتی عہدیدار اس کے رشتہ دار ہیں ،ابوذر کو ہنسی آگئی پوچھا کیوں ہنسے ہو ؟ کہا : میں نے پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنا ہے کہ آنحضور نے فرمایا : اے لوگو ! جب دیکھو کہ لوگوں پر تمام حکمران بنی امیہ سے ہیں  تو اپنے آپ کو مردہ سمجھ لو ؛ پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بوڑھے صحابی ابوذر نے یہ حدیث بیان کر کے غوغا برپا کر دیا اور مسلمانوں کی عزت کا بھانڈا پھوڑ دیا ۔ان کو پکڑا اور کہا کہ اس حدیث کا گواہ لاو ،ہوسکتا ہے تم نے یہ حدیث ہمیں رسوا کرنے کے لیے اپنی طرف سے بنائی ہو ۔ابوذر نے قدرے سوچا اور پھر جواب دیا ؛ میرا گواہ علی ہے چونکہ جو سب سے زیادہ پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ رہا ہے وہ علی ہے ۔

امیر المومنین علی علیہ السلام تشریف لائے  لوگوں نے پوچھا کہ کیا یہ سچ ہے ،حضرت نے فرمایا ؛ میں نے یہ حدیث پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے نہیں سنی ہے ،لیکن بعد میں حضرت نے فرمایا ؛ البتہ میں نے یہ حدیث پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنی ہے کہ آسمان کے نیچے ابوذر سے زیادہ سچا کوئی نہیں ہے ۔ اس حدیث نے ابوذر کی جان بچالی لیکن حضرت علی علیہ السلام نے بھی پارٹی بازی سے کام نہیں لیا ۔

تبصرے
Loading...