اسلامي معاشرے ميں قرآن کريم کي اہميّت

قرآن کا بولنا: حضرت امام علي (ع ) نہج البلاغہ ميں ايک طرف قرآن کے اوصاف کے متعلق ارشاد فرماتے ہيں کہ: يہ کتاب، کتاب ناطق ہے، خود بولتي ہے، بولنے سے تھکتي نہيں، اپني بات اور اپنا مطلب خود واضح طور سے بيان کرتي ہے- اور دوسري طرف، ارشاد فرماتے ہيں : يہ قرآن ناطق نہيں ہے، اسے قوت نطق و گويائي ديني چاہئے اور ميں ہي ہوں جو اس قرآن کو تمھارے لئے گويا کرتا ہوں – اور ب

قرآن کا بولنا:

حضرت امام علي (ع ) نہج البلاغہ ميں ايک طرف قرآن کے اوصاف کے متعلق ارشاد فرماتے ہيں کہ: يہ کتاب، کتاب ناطق ہے، خود بولتي ہے، بولنے سے تھکتي نہيں، اپني بات اور اپنا مطلب خود واضح طور سے بيان کرتي ہے- اور دوسري طرف، ارشاد فرماتے ہيں : يہ قرآن ناطق نہيں ہے، اسے قوت نطق و گويائي ديني چاہئے اور ميں ہي ہوں جو اس قرآن کو تمھارے لئے گويا کرتا ہوں – اور بعض عبارتوں ميں اس طرح آيا ہے : ”قرآن، صَامِت نَاطِق” قرآن صامت بھي ہے اور ناطق بھي – اس بات کے صحيح معني کيا ہيں؟

معلوم ہوتا ہے کہ يہ تعبير اس آسماني کتاب سے متعلق دو مختلف نظريوں کو بيان کر رہي ہے کہ ايک نظر يہ کي رو سے قرآن ايک مقدس کتاب ہے جو کہ خاموش ہے اور ايک گوشہ ميں رکھي ہوئي ہے، نہ وہ کسي سے بولتي ہے اور نہ کوئي اس سے ارتباط رکھتا ہے، اور دوسرے نظريہ کے لحاظ سے قرآن ايک گويا (بولنے والي) کتاب ہے جس نے تمام انسانوں کو اپنا مخاطب قرار ديا ہے اور ان کو اپني پيروي کي دعوت دي ہے اور اپنے پيروؤ  ں کو سعادت و نيک بختي کي خوشخبري دي ہے-

واضح ہے کہ وہ قرآن جس کي صفت صرف تقدس ہو اور بس، جس کي آيتيں صرف کاغذ کے صفحوں پرنقش ہوں اور مسلمان اس کا احترام کرتے ہوں، اس کو چومتے ہوں اور اس کو اپنے گھر کي بہترين جگہ پر محفوظ رکھتے ہوں اور کبھي کبھي محافل و مجالس ميں اس کي حقيقت اور اس کے معاني کي طرف توجہ کئے بغير اس کي تلاوت کرتے ہوں- اگر اس نگاہ سے قرآن کو ديکھيں تو قرآن ايک صامت (خاموش) کتاب ہے جو کہ محسوس آواز کے ساتھ نہيں بولتي، جو شخص ايسا نظريہ قرآن کے متعلق رکھے گا وہ ہرگز قرآن کي بات نہ سن سکے گا اور قرآن کريم اس کي مشکل کو حل نہيں کرے گا-

اس بنا پر ہمارا فريضہ ہے کہ ہم دوسرے نظريئے کو اپنائيں، يعني قرآن کو ضابطہء حيات سمجھيں، اور خدائے متعال کے سامنے اپنے اندر تسليم و رضا کي روح پيدا کر کے خود کو قرآن کريم کي باتيں سننے کے لئے آمادہ کريں کہ قرآن کي باتيں زندگي کا دستور ہيں اسي صورت ميں قرآن، ناطق اور گويا ہے، انسانوں سے بات کرتا ہے اور تمام شعبوں ميں ان کي رہنمائي کرتا ہے-

اس توضيح کے علاوہ جو کہ ہم نے قرآن کے صامت و ناطق ہونے کے متعلق بيان کي ہے، اس کے اس سے بھي زيادہ عميق معني پائے جاتے ہيں اور وہي معني حضرت علي  ـ کے مد نظر تھے اور ان ہي معني کي بنياد پر آپ نے فرمايا ہے کہ قرآن صامت ہے اور اسے ناطق و گويا کرنا چاہئے اور يہ ميں ہوں جو کہ قرآن کو تمھارے لئے گويا کرتا ہوں-

اب ہم قرآن کے صامت و ناطق ہونے کي توضيح دوسرے معني کے اعتبار سے (يعني حقيقت ميں اس کے حقيقي معني کي توضيح) پيش کر رہے ہيں:

اگرچہ قرآن کريم خداوند متعال کا کلام ہے اور اس کلام الٰہي کي حقيقت اور اس کے صادر اور نازل ہونے کا طريقہ ہمارے لئے قابل شناخت نہيں ہے، ليکن اس وجہ سے کہ اس کے نزول کا مقصد انسانوں کي ہدايت ہے، اس کلام الٰہي نے اس قدر تنزل کيا ہے کہ لفظوں، جملوں اور آيتوں کي صورت ميں انسان کے لئے پڑھنے اور سننے کے قابل ہوگيا، ليکن اس کے باوجود ايسا بھي نہيں ہے کہ اس کي تمام آيتوں کے مضامين عام انسانوں کے لئے سمجھنے اور دسترس ميں رکھنے کے قابل ہوں اور لوگ خود نبي اکرم  (ص)  اور ائمہء معصومين  (جو کہ راسخون في العلم ہيں) کي تفسير و توضيح کے بغير آيتوں کے مقاصد تک پہنچ سکيں-

مثال کے طور پرشرعي احکام و مسائل کے جزئيات کي تفصيل و توضيح قرآن ميں بيان نہيںہوئي ہے، اسي طرح قرآن کريم کي بہت سي آيتيں مجمل ہيں اور توضيح کي محتاج ہيں- اس بنا پر قرآن بہت سي جہتوں سے ”صامت” ہے، يعني عام انسان اس کو ايسے شخص کي تفسير و توضيح کے بغير نہيں سمجھ سکتے جو غيب سے ارتباط  رکھتا ہے اور خدائي علوم سے آگاہ ہے-

تبصرے
Loading...