استعمار كا مفہوم اور تاريخ

) استعمار قديم و جديد:
استعمار قديم

اسلامى تہذيب و تمدن كے جمود كے بہت سے اسباب وعوامل ميں سے آخرى ”استعمار” ہے _ اس مختصر سى گفتگو ميں ہمارى كوشش يہى ہے كہ كلمہ استعمار كى مناسب تعريف اور اسكے وجود ميں آنے كے اسباب كا جائزہ ليتے ہوئے اسلامى ممالك كے اسكے تحت آنے كى تاريخ پر بحث كريں اور اسلامى تہذيب وتمدن پر اسكى وجہ سے جواثرات اور نتائج حاصل ہوئے ہيں ، انكاتجزيہ كريں _
استعمار كا مفہوم اور تاريخ

لفظ استعمار كا لغوى معنى آباد كرنا ہے_ ليكن سياسى اصطلاح ميں اس سے مراد كسى گروہ كى دوسرے لوگوں يا كسى اور سرزمين پر حاكميت ہے _ ايك اور تعريف كے مطابق يہ ايك سياسى اور اقتصادى مسئلہ ہے جو سنہ 1500ء سے شروع ہوا ، اسى زمانہ سے بعض يورپى ممالك كے استعمار گر لوگوں نے دنيا ميں وسيع علاقوں كو دريافت كيا ، وہاں سكونت اختيار كى اور وہاں سے فوائد حاصل كيے_ جبكہ بعض اہل نظر كے نزديك استعمار كا مفہوم ان قديم ادوارسے متعلق ہے كہ جب قديم حكومتوں نے كچھ ايسے اقدامات كيے مثلاً مصرى ، يونانى اور پھر رومى حكومتوں نے اپنى سرزمين سے باہر چھاؤنياں يا مراكز قائم كيے كہ جنكا مقصد جنگ ، تجارت اور اپنى تہذيب كا پھلنا پھولنا تھا اور يہ اقدامات استعمار كہلائے_

كيمونسٹوں نے لفظ استعمار كى جگہ اسكے مشابہ لفظ ”امپريالزم ” كو عنوان بحث قرار ديا _ كلمہ امپريالزم در اصل اس حكومتى نظام كو كہا جاتا تھا جس ميں ايك باشكوہ حاكم دور و نزديك كى بہت سارى سرزمينوں پر حكومت

 

كرے يا بالفاظ ديگر بادشاہت قائم كرے ليكن بعد ميں طاقتور ممالك كى ديگر ممالك پر ہر قسم كى بلا واسطہ يا بالواسطہ حكومت كو امپرياليزم سے تعبير كياجانے لگا_(1)

جب دنيا كے نقشے پر بعض طاقتور يورپى ممالك مثلاً انگلينڈ ، فرانس ، پرتگال اوراسپين ظاہر ہوئے اسى زمانہ ميں استعمار بھى وجود ميں آيا ، سنہ 1488 ء ميں جنوبى افريقا كے اردگرد نئے دريائي راستے دريافت ہوئے اور سال 1492 ء ميں براعظم امريكا دريافت ہوا تو استعمارى مقاصد اور نئي سرزمينوں كى دريافت كيلئے دريائي سفر شروع ہوئے ،انہوں نے ابتداء ميں تو سونے ، ہاتھى كے دانتوں اور ديگر قيمتى اشياء كى تلاش ميں سفر كيے ليكن آہستہ آہستہ انكے اقتصادى مقاصد بڑھتے گئے _ مثلاً تجارت ، دريافت شدہ سرزمينوں كى خام معدنيات اور زرعى پيداوار كو يورپى سرزمينوں كى طرف منتقل كرنا اور يورپى مصنوعات كو ان سرزمينوں ميں پہنچاناان سب چيزوں نے انكى استعمارى فعاليت كو بڑھايا _

استعمارگر ممالك بہت جلد اس نكتہ كو سمجھ گئے تھے كہ دراز مدت تك فوائد حاصل كرنے كيلئے ضرورى ہے كہ ان مستعمرہ ممالك يا سرزمينوں كى سياست اور حتى كہ كلچر كو بھى كنٹرول كياجائے اور انہوں نے يہ تجربہ بعض سرزمينوں يا اقوام پر كيا _ مثلاً براعظم امريكا، افريقا اور بحرالكاہل كے جزائر كى اقوام اور اصلى ساكنين ان استعمارى مقاصد كى زد ميں آئے وہ لوگ معاشرتى طور پر استعمارى طاقتوںكى ابتدائي يلغار اور حملوں سے ڈھير ہوگئے _ لہذا يہ تجربہ يہاں بہت آسان ثابت ہوا _

ان سرزمينوں ميں ايسے طاقتور مراكز بنائے گئے كہ جو استعمارى طاقتوں كے كنٹرول ميں تھے_ استعمارى طاقتوں نے ان ممالك ميں علاقائي اداروں اور مراكز كے ساتھ ساتھ ايسے مراكز اور ادارے قائم كيے كہ جنہوں نے تجارتي، معاشرتى اور تہذيبى امور و روابط ميں ايسى جدت پيدا كى كہ جو دراصل استعمارى طاقتوںكے مفادات اور ضروريات كو پورا كرنے كيلئے تھى نہ كہ ان سرزمينوں كے ساكنين كيلئے سودمند تھي_ (2)
1) ولفگانگ ج ، مومسن ، نظريہ ہائے امپرياليسم ، ترجمہ سالمى ، تہران ، ص 12_7_

2) احمد ساعى ، مسائل سياسى _ اقتصادى جہان سوم ، تہران ص 7، 46_

 

وہ ممالك جو كچھ حد تك اندرونى طور پر استحكام ركھتے تھے اور استعمارى طاقتيںان پر مكمل كنٹرول نہيں پاسكتى تھيں، مثلاً ايران اور چين وغيرہ يہاں انكى سياست يہ تھى كہ ان ممالك ميں اپنے مفادات كے تحفظ كيلئے كچھ تبديلياں لائي جائيں مثلاً انكى اقتصادى صورت حال كو ايسے تبديل كياجائے كہ وہ فقط عالمى منڈيوں كى ضروريات پورى كريں نہ كہ اپنے اندرونى منڈيوں كى ضروريات كو ملحوظ خاطر ركھيں _(1)
استعمار كے وجود ميں آنے كے اسباب

اہل فكر ونظر نے استعمار كے وجود ميں آنے اورپيشرفت كرنے كے اسباب كے حوالے سے متعدد نظريات پيش كيے ہيں_ اور اس مسئلے كا مختلف زاويوںسے تجزيہ كيا ہے:

اہل نظر كے ايك گروہ نے استعمار كو سياسى پہلو سے تحقيق وتجزيہ كا محور قرار ديا اور بتايا كہ سولہويں صدى اور اس كے بعد كے ادوار ميں يورپ كے بڑے طاقتور ممالك ميں سياسى اور فوجى رقابت استعمار كے وجود ميں آنے اور اس كى وسعت كا باعث قرار پائي_ اس نظريے كا محور حكومتيں اور انكے سياسى مقاصد ہيں اوراس نظرى كے حامى بڑى حكومتوں كى ديگر رقيبوں كے مد مقابل اپنى طاقت اور حيثيت كو بڑھانے كى طلب كو استعمار كے پھلنے پھولنے كا اصلى سبب قرار ديتے ہيں _

جبكہ اہل نظر كے ايك اور گروہ كا نظريہ ہے كہ استعمار كے وجود ميں آنے اورپھلنے پھولنے كا بنيادى سبب يہ ہے كہ طاقتور اقوام اور حكومتيں اپنے قومى جذبات اور سياسى اور فوجى صلاحيتوں كو مستحكم كرنے اور محفوظ ركھنے كيلئے وسيع پيمانے پر سرزمينوں پرقابض ہوتى تھيں اور بڑى بڑى بادشاہتوں كو تشكيل ديتى تھيں _ كچھ اہل نظر كے مطابق استعمار دراصل ايك نسلى امتياز كا نتيجہ ہے _ انكے خيال كے مطابق گورے لوگ (يورپي) ذاتى طور پر ديگر اقوام سے برتر ہيں ، انكے كندھوں پر يہ ذمہ دارى ہے كہ دنيا كى ديگر اقوام كے امور كى اصلاح اور انكو مہذب كرنے كيلئے ان پر حكومت كريں _(2)
1) تيلمان اورس، ماہيت دوست درجہان سوم ، ترجمہ بھروز توانمند ، تہران ،ص 51_20_

2) دلفگانگ ج ، سوسن ، سابقہ حوالہ ، ص 12_ 7_ 900 _ 59 _

 

بعض ديگر دانشوروں كے خيال كے مطابق استعمار ايك اقتصادى مسئلہ ہے كہ جو نئے سرمايہ دارى نظام كے پھلنے پھولنے سے سامنے آيا ہے_ انكے نظريہ كے مطابق چونكہ يورپى ممالك كے اپنے وسائل (خريد و فروش كے بازار، خام مال اور سرمايہ كارى كے مواقع) انكى روزبروز بڑھتى ہوئي ضرورتوں كيلئے ناكافى ہوچكے تھے جسكى بناء پر وہ ديگر ممالك كے امور ميں مداخلت كرنے لگے ،نيز انكا نظريہ يہ ہے كہ استعمار در حقيت ايك كوشش ہے جس ميں مغرب كے بڑے ترقى يافتہ ممالك ديگر ممالك ميں سود پر مبنى تجارتى وصنعتى نظام كو پيش كرتے ہيں جس سے انكا مقصد يہ ہوتا ہے كہ اپنے سرمايہ دارى نظام كى روز بروز بڑھتى ہوئي ضروريات كو ان ممالك كے ذرائع اور وسائل سے پورا كريں _ يہ نظريہ ليبرل اقتصاد والے سرمايہ دارى نظام كے اہل نظر اور ماركسزم كے پيروكاروں ميں ديكھا جاسكتا ہے_(1)
ايشيا ميں استعمار

استعمارى طاقتوںميں سے ايشيا ميں داخل ہونے والا پہلا گروہ پرتگاليوں كا تھا_ سن 1498 ء ميں پرتگالى جہازران واسكوڈ ے گاما ، بحيرہ ہند كے ذريعے ہندوستان كے شمال مشرقى ساحلوں تك پہنچا اسطرح ايشيا اور يورپ كے روابط ميں ايك نيا دور شروع ہوا _ اس زمانہ ميں ايشيا كے بڑے ممالك مثلاً ايران ، سلطنت عثمانيہ اور چين مختلف علوم ، زراعت اور تجارت ميں ترقى كے پيش نظر ايك بلند سطح كے حامل تھے_

واسكوڈ ے گاما تو تجارتى اہداف كے پيش نظر ان سرزمينوں تك پہنچا تھا ليكن آٹھ سال كے بعد پرتگال كا فوجى سردار ايلبوكرك (2) جديد سرزمينوں كو فتح كرنے اور پرتگالى سلطنت كى توسيع كيلئے ان علاقوں ميں داخل ہوا _ مجموعى طور پر پرتگالى لوگوں كے تجارتي، سياسى ، فوجى اور مذہبى مقاصد تھے ، ليكن بہرحال وہ دنيا
1) سابقہ حوالہ ، ص 55_ 25_

2- Albauquerque

 

كے اس منطقہ ميں اپنى حيثيت برقرار ركھنے ميں زيادہ كامياب نہ رہے_ فقط تجارت اس سے متعلقہ مسائل كى حد تك رہے _

يہ نكتہ قابل غور ہونا چاہئے كہ يورپ ميں پرتگالى لوگ ايشيا اور شمالى يورپ كے درميان تجارتى ايجنٹوں كے طور پر كام كرتے تھے_ انہوں نے سولھويں صدى كے آخر تك ہالينڈ كو اپنى تجارتى نظام كے تحت ركھا_ ليكن سترہويں صدى كے اوائل ميں اہل ہالينڈ نے بذات خود ايشيا سے براہ راست تجارت كيلئے كوششيں شروع كيں _اہل ہالينڈ كے بعد انگريز اور پھر فرانسيسى لوگ ايشيا ميں داخل ہوئے_

ايشيا ميں اہل يورپ كے استعمارى روابط دو مرحلوں ميں تقسيم ہوتے ہيں: پہلا دور يا مرحلہ سنہ 1498 ء ميں شروع ہوتا ہے اور 1757 ء ميں ہندوستان پر انگريزوں كى فوجى فتح پر ختم ہوتا ہے _ اس دور ميں اہل يورپ كى يہ كوشش تھى كہ وہ اپنى بحرى اور بارودى اسلحہ كى طاقت كے بل بوتے پر ان سرزمينوں سے تجارتى روابط بڑھائيں اور ان علاقوں كى مرغوب پيداوار مثلاً مصالحوں ، كپڑوں اور آرائشے كے لوازمات تك پہنچيں اسى دور ميں بہت سى تجارتى كمپنياں تشكيل پائيں وہ سب تجارتى سہوليات اور اختيارات كے درپے تھيں ان كمپنيوں ميں سے بعنوان مثال ہالينڈ كى فارلينڈ كمپنى (سال 594 1ئ) ، ايسٹ انڈيا كمپنى ہالينڈ، ايسٹ انڈيا كمپنى انگلينڈ (سال 1600 ئ) اور فرانسيسى كمپنى كى طرف اشارہ كيا جاسكتا ہے_ يہ سب كمپنياں اپنے ممالك كى طرف سے سياسى اور فوجى پشت پناہى كى حامل تھيں_ اور ايشيا كے مختلف علاقوں پر قابض ہونے كيلئے باہمى سخت رقابت كا شكار تھيں _

دوسرا دور سال 1757 ع سے 1858 تك ہے كہ اس دور ميں يورپينز كى اس سرزمين كے امور ميں بالواسطہ مداخلت تھى اور يہ مداخلت بظاہر فوجى صورت ميں نہ تھى مثلا ہندوستان سنہ 1757ء سے ليكر 1858 ء تك ايسٹ انڈيا كمپنى كے تحت تھا اور انگلستان كى حكومت اس كمپنى كى پشت پناہى كرتى تھي_ ليكن اس كے بعد انگلستان كى حكومت نے سرے سے ہى ہندوستان كى حكومت كى باگ دوڑ سنبھال لى اور ہندوستان كى حيثيت برطانيہ كى ايك رياست كى ہوگئي اوروہ اور انگلستان كى پارليمنٹ كے تابع سرزمين كے طورپر جانى گئي _(1)
1) ك ، م پانيكار ، آسيا واستيلاى باخر ، ترجمہ محمد على مہميد ، تہران ،ص 45_ 12_

 

ايسٹ انڈيا كمپنى اور انگلستان گورنمنٹ كى پاليسى باعث بنى كہ ہندوستان جوكہ خودكپڑے بنانے اور برآمد كرنے والا ملك تھا اب كپڑا درآمد كرنے والا ملك بن گيا اس كى برآمدات صرف روئي تك محدود رہ گئيں _ ايشيا كے جنوب مشرقى اور جنوبى ممالك بھى اس مشكل سے بچ نہ سكے _ اہل ہالينڈ نے انڈونيشيا كو اپنے قبضہ ميں كيا ہوا تھا اور انہوں نے اس سرزمين پر كافى اور چينى كى كاشت كو بڑھايا اور انگريزوں كى ہندوستانى طرز كى اقتصادى تبديلياں يہاں بھى وجود ميں لائے_

فرانسيسى لوگ بھى انڈيا اور چين ميں داخل ہوئے اور انہى كى طرز كى استعمارى سياست كو لاگو كيا اسطرح كہ سن 1747 ء سے 1850 ء تك انڈيا اور چين كے تمام علاقے سوائے تھائي لينڈ كے انكے كنٹرول ميں آگئے_ تھائي لينڈ ميں انہوں نے بالواسطہ مداخلت كى _ اپنے استعمارى مفادات كو پورا كرنے كيلئے انہوں نے اس ملك ميں بہت سے امور ميں سہوليات حاصل كيں مثلاً جہاز راني، تجارتى فعاليت اور كسٹم ڈيوٹى سے چھوٹ جيسے امور ميں رعايتيں حاصل كيں يہاں تك كہ انہوں نے كيپيٹلائزيشن كا حق بھى حاصل كيا_

اسى طرح چين بھى انكے استعمارى حملات كى زد ميں آيا _ كيونكہ اس بہت بڑى آبادى والے ملك نے استعمارى طاقتوںكى ماركيٹ كو اپنى طرف متوجہ كرليا تھا_ مثلاً يورپى لوگوں بالخصوص انگريزوں نے چين ميں افيون (منشيات كى ايك قسم )درآمد كرتے تھے ، چين كى حكومت نے اس تجارت كو محدود كرنے كيلئے اقدامات كئے جس كے نتيجہ ميں سنہ 1842 ء ميں جنگ افيون واقع ہوئي اور چين كو شكست ہوئي اس جنگ كے ايك سال بعد فرانس اور انگلستان نے چين پر مشتركہ حملہ كيا اور اس ملك كو شكست ہوئي اس كے نتيجہ ميں انہوں نے چين كو مجبور كيا كہ وہ انہيں مختلف امور مثلاً جہاز رانى ، كسٹم اور تجارت وغيرہ ميں بہت سے امتيازى حقوق دے_ يوں چين كا اقتصاد بھى استعمارى كنڑول ميں آگيا اور نابود ہوگيا_ جس كى وجہ سے كئي ميلين چينى لوگوں نے روزگار كى تلاش ميں اپنے وطن كو ترك كيا اور يورپى ممالك اور امريكا ميں سخت كام كرنے پر مجبور ہوئے _(2)
1) سابقہ حوالہ ، ص171 _ 146_

2) سابقہ حوالہ ، ص ص 249 _ 231 _ 143_ 121 _

 

مشرقى وسطى اور خليج فارس ميں استعمار

اہل يورپ كى يہ كوشش تھى كہ بحرى راستوں سے نئي نئي جگہوں كو دريافت كرتے ہوئے اپنى طاقت اور تسلط كو بڑھائيں _ اور سب سے زيادہ ثروت ومال كے ذخائر كو جمع كريں _ سولہويں صدى كے ابتدائي سالوں ميں پرتگالى لوگ خليج فارس ميں داخل ہوئے اور پرتگالى بحرى سردارايلبو كرك نے سن 1514 ء ميں جزيرہ ہرمز پر قبضہ كرليا _ انہوں نے 512 1 ء سے گمبرون (بندرعباس ) جو كہ ايك عمدہ تجارتى مركز تھا ، پر بھى قبضہ كيا ہوا تھا_(1)

انكا تقريباً ايك صدى تك خليج فارس كے علاقوں پر كنٹرول رہا _ يہاں تك كہ صفوى بادشاہ ، شاہ عباس نے انگريزوں سے ايك قرار داد طے كى اور انكى بحرى طاقت كى مدد سے اس قابل ہوا كہ پرتگاليوں كوہميشہ كے ليے خليج فارس سے نكال دے _ ليكن انگريزوں نے اپنے اثر نفوذ كو بڑھانا جارى ركھا جس كى بڑى وجہ خليج فارس كى تزويرى (اسٹرٹيجك) اہميت تھى _ انہوں نے عرب شيوخ سے بھى قرار داد باندھي، ان شيوخ نے انگريزوں كو بعنوان قاضى ، مصالحت كروانے والے اور ثالث مانتے ہوئے يہ عہد كيا كہ درياى قزاقى ، اسلحہ اور غلاموں كى سمگلنگ سے پرہيز كريں گے _

سنہ 1800 عيسوى (فتحعلى شاہ قاجاركے دور ميں) ايران كى طرف سے انگلستان كو بہت سے تجارتى حقوق ديے گئے ، انہوںنے سال 1856 ء ميں بوشہرميں فوج كو لاكر اس پر قبضہ كرليا ليكن آخر كار ايران كے تمام شہروں كو ترك كرديا _(2)

مشرق وسطى ميں تيل كے ذخيروں نے دنيا كى ديگر قوتوں مثلاً امريكا اور جرمنى كو دلچسپى لينے پر مجبور كيا_ بيسوى صدى كے اوائل ميں اس علاقے كا تيل انگريزى اور امريكى كمپنيوں ميں تقسيم ہوا _ انگريزوں نے قطر ، كويت ، عراق ، عمان اور ايران كے تيل پر كنٹرول حاصل كرليا جبكہ امريكى نے بھى سعودى عرب اور بحرين
1) وادلا، خليج فارس در عصر استعمار، ترجمہ شفيع جوادى ، تہران ،ص 77_ 39_

2)سابقہ حوالہ _

 

كے تيل پر اپنا تسلط جماليا_ البتہ يہ بات نہيں بھولنى چاہئے كہ ايران نے اس استعمارى دور ميں سب سے زيادہ ضرراٹھايا كيونكہ ايران كى جغرافيائي حيثيت ايسى تھى كہ بڑى قوتوں كے ميدان جنگ ميں بدل گيا مثلاً انگلستان اور فرانس ، ہندوستان پر قبضہ جمانے كيلئے باہمى رقابت كا شكار تھے يہ جھگڑا ايران تك بڑھتا گيا اور اس ملك كى سياسى اور اقتصادى خود مختارى پر بہت زيادہ ضربيں لگيں_

انيسويں صدى ميں روس اور انگلستان كے مدمقابل ايران كى بار بار عسكرى شكست سے قاجارى حكومت نے اپنے استحكام كو باقى ركھنے كيلئے مجبوراً بہت سے اقتصادى اور تجارتى حقوق ان ممالك كو عطا كيے _ يوں يہ ملك نصف حد تك استعمارى طاقتوںكى زد ميں آگيا _(1)

ايران كا اپنا اقتصاد بھى روس و انگلينڈ كى طرف سے سيلاب كى طرح وارد ہونے والى اجناس كے مدمقابل تاب نہ لاسكا اور ايران بھى ہندوستان كى مانند خام زراعتى پيداوار مثلاً روئي اور تمباكو كى حدتك رہ گيا _ استعمارى طاقتوں كے بينكوں (انگلينڈ كے شاہى بينك اور روس كے بينك نے) ايران كے مالى معاملات پر كنٹرول كر ليا اور قاجارى بادشاہوں اور سرداروں كو بار بار قرض ديكر ايران كى سياست اوراقتصاد پر روز بروز اپنا قبضہ وكنٹرول بڑھانا شروع كرديا_

انيسويں اور بيسويں صدى كے درميان مشرق وسطى كے تمام ممالك يورپى استعمار گروں كے كنٹرول ميں آگئے _ استعمار گر لوگوں كى كوشش تھى كہ مشرق وسطى كے اقتصاد اور سياست كو مكمل طور پر اپنے قبضہ ميںكرليں اور اسكے علاوہ ان ممالك كى سياسى جغرافيائي سرحدوں كو اپنے مفادات كى روسے خود ترتيب ديں _ ان سرزمينوں كى تقسيم اس انداز سے ہوئي كہ بہت سے قومى ، مذہبى اور سياسى جھگڑوں نے جنم ليا_ مثلاً استعمار نے كردوں كو ايران ، تركي، شام اور عراق ميں تقسيم كرديا_ لبنان ميں بھى مختلف اقوام اور مذاہب پر مشتمل ناہموار تركيب سامنے آئي كہ مختلف مذاہب اور اقوام كے درميان سياسى قوت عدم استحكام كا شكار رہى اور قومى و مذہبي
1) فيروز كاظم زادہ ، روس و انگليس در ايران ، ترجمہ منوچھر اميري، تہران ،ص 25_ 15_

 

جھگڑوں نے جنم ليا_

پورى دنيا سے يہودى لوگوں نے استعمار ى طاقتوں كى پشت پناہى كى وجہ سے فلسطين كى طرف ہجرت كى _ اور ايك يہودى حكومت تشكيل ديكر مشرق وسطى اور دنيا ميں ايك بڑى پيچيدگى كو وجود ميں لائے(1) _ مجموعى طور پر مشرق وسطى كے ممالك ميں استعمار ى طاقتوںكے اقدامات نے دنيا كے اس خطہ كو فتنوں اور جھگڑوں كا مركز بناديا كہ اب بھى مشرق وسطى كانام سنتے ہى ذہن ميںلڑائي اور ناآرامى كى ايك تصوير نقش ہوجاتى ہے_

مختصر يہ كہ استعمار نے دنيا كے مختلف ممالك ميں داخل ہو كر انكے معاشرتى ، سياسى اور اقتصادى حالات اور كلچر كو بلاواسطہ يا بالواسطہ ايسے متاثر كيا كہ اب بھى ان ممالك ميں استعمار كى موجودگى كے بہت سے اثرات اور نتائج مشاہدہ كيے جاسكتے ہيں ،اسلامى ممالك ان مسائل سے جدا نہ تھے جيسا كہ ہم نے كہا ہے كہ استعمار كى موجودگى سے ان ممالك كے اقتصادى حالات تبديل ہوئے ،قدرتى اور انسانى ذخائر سے ان ممالك كو خالى كيا گيا اور يہ سب ذخائر استعمار ى ممالك ميں درآمد كيے گئے جسكے نتيجے ميں ان ممالك كے اجتماعى ڈھانچے اور طبقات ميں تبديلى واقع ہوئي اور ان سے بڑھ كر ان ممالك كى تہذيب و تمدن پر منفى اثرات پڑے ان سب امور پر نئے استعمار كے عنوان كے تحت بحث كى جائے گي_
استعمار جديد

جيسا كہ اشارہ ہوا ہے كہ استعمار كى پہلى صورت ايسى تھى كہ استعمارى طاقتوں نے اپنے رقيبوں كى قوت و طاقت سے موازنہ كرتے ہوئے اپنے عسكرى تحفظ اور اقتصادى مفادات كو بڑھانے كيلئے يہ اقدامات كيے _ يورپى استعمار نے عسكرى فتوحات يا ہجرت كے ذريعے ديگر ممالك پر قبضہ جماليا اور تجارتى كمپنياں قائم كرتے ہوئے ان ممالك كے اقتصاد كو اپنى تجارتى پالسيوں كے سخت كنٹرول ميں لے آئے_
1) احمد ساعى ،سابقہ حوالہ ، ص 73_

 

سنہ 1763 ء سے 1870 ء تك استعمار كى پيش رفت ميںسستى آگئي كيونكہ اس عرصہ ميں يورپى ممالك اپنے اندرونى مسائل، آزادى پسند انقلابات اور صنعتى انقلابات سے نمٹ رہے تھے_

سنہ 1870 ء سے پہلى جنگ عظےم تك استعمار كى پيشرفت و تحرك بہت وسيع پيمانے پر تھا سارا افريقہ اور مشرق بعيد انكى لپيٹ ميں آگيا ليكن دوسرى جنگ عظےم اور اقوام متحدہ كے وجود ميں آنے كے بعد بالخصوص دو عشروں 1950 اور 1960 ء ميں ہم استعمار كے خلاف (سياسى خودمختارى كے حصول كيلئے)تحريكوں كا مشاہدہ كرتے ہيں _ اس طرح كہ اقوام متحدہ كے ممبر ممالك كى تعداد دوگنى ہوگئي _

ان ممالك نے جنرل اسمبلى ميں اپنى كثير تعداد كے باعث اپنے اقتصادي، سياسى اوراجتماعى مسائل كو اقوام متحدہ كى توجہ كا مركز قرار دلوايا_ ان ممالك پرقديم استعمار كے شديد اثرات كے باعث استعمار سے چھٹكارے كى تحريك نہ صرف يہ كہ انكى مشكلات حل نہ كرسكى بلكہ اس نے ان ممالك كو دو راہے پر لاكھڑا كيا _ يہ ممالك ايك طرف تو ترقى يافتہ ممالك (سابقہ استعمارى ممالك) سے اقتصادى امداد چاہتے ہيں اور دوسرى طرف اپنے اندرونى مسائل ميں كوئي مداخلت بھى پسند نہيں كرتے جبكہ ترقى يافتہ ممالك اب بھى ان ممالك اور بالخصوص انكے بازاروں اور ابتدائي خام پيداوار كے محتاج ہيں اور چاہتے ہيں ان اہداف تك پہنچيں (1)_

مجموعى طور پر ترقى يافتہ ممالك (سابقہ استعمار ) كے آزاد شدہ ممالك (سابقہ مستعمرہ ممالك ) سے روابط ايسى صورت اختيار كرگئے ہيں كہ اسے جديد استعمار كا نام ديا گياہے _ اس نئي صورت ميں سابقہ استعمار گر ممالك انہيں اپنے ہاتھوں بنائي ہوئي بظاہر خود مختار حكومتوں اور بين الاقوامى كمپنيوں كے قوانين اور روابط كے ذريعے بغير كسى براہ راست سياسى اور عسكرى كنٹرول كى ضرورت كے ، اپنى اغراض اور مفادات كو پہلے سے بہتر صورت ميں پورا كررہے ہيں _

بہت سے اہل نظر كى رائے كے مطابق ترقى يافتہ ممالك (سابقہ استعمار )ملٹى نيشنل كمپنيوں اورعالمى اداروں مثلاً عالمى بينك، آئي ايم ايف اور ورلڈ ٹريڈ آرگنائزيشن WTO كے ذريعے مختلف بين الاقوامي
1) جك پلنو وآلٹون روى ،سابقہ حوالہ ، ص 30_

 

حالات اور روز بروز بڑھتے ہوئے پيچيدہ معاملات اور روابط سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اسى كوشش ميں ہيں كہ محروم ممالك يا ترقى پذير ممالك پر تسلط جماليں _ لہذا ہم ان تنظيموں اور عالمگيريت كا تجزيہ كرتے ہوئے كوشش كريں گے كہ جديد استعمار اور اسكے دنيا كے ممالك بالخصوص اسلامى ممالك پر اثرات كا تجزيہ كريں _

 

تبصرے
Loading...