ازدواج حضرت علی (ع) و جہاد آنحضرت

شادی رسول نے مدینے میں آکر سب سے پھلاکام یہ کیا کہ اپنی اکلوتی بیٹی فاطمہ زھرا علیھا السّلام کاعقد علی علیہ السّلام کے ساتہ کردیا . رسول اپنی بیٹی کو انتھائی عزیز رکھتے تھے اور اتنی عزت کرتے تھے کہ جب فاطمہ زھرا علیہ السّلام آتی تھیں تو رسول تعظیم کے لیے کھڑے ھوجاتے تھے . ھر شخص اس بات کاطلب گار تھا کہ رسول کی اس معزز بیٹی کے ساتہ منسوب ھونے کا شرف اسے حاصل ھو. دو ایک نے ھمت بھی کی کہ وہ رسول کو پیغام دیں مگر حضرت نے سب کی خواھشوں کو رد کردی

شادی

  رسول نے مدینے میں آکر سب سے پھلاکام یہ کیا کہ اپنی اکلوتی بیٹی فاطمہ زھرا علیھا السّلام کاعقد علی علیہ السّلام کے ساتہ کردیا . رسول اپنی بیٹی کو انتھائی عزیز رکھتے تھے اور اتنی عزت کرتے تھے کہ جب فاطمہ زھرا علیہ السّلام آتی تھیں تو رسول تعظیم کے لیے کھڑے ھوجاتے تھے . ھر شخص اس بات کاطلب گار تھا کہ رسول کی اس معزز بیٹی کے ساتہ منسوب ھونے کا شرف اسے حاصل ھو. دو ایک نے ھمت بھی کی کہ وہ رسول کو پیغام دیں مگر حضرت نے سب کی خواھشوں کو رد کردیا اور یہ کہاکہ فاطمہ کی شادی بغیر حکمِ خدا کے نھیں ھوسکتی۔ ھجرت کاپھلا سال تھا جب رسول نے علی علیہ السّلام کو اس عزت کے لئے منتخب کیا . یہ شادی نھایت سادگی کے ساتھ انجام پذیرھوئی . شھنشاہ  دین ودنیا حضرت پیغمبر خدا کی بیٹی اور اس کو پیغمبر کی طرف سے جھیزبھی نھیں دیا گیا . خود فاطمہ کا مھر تھاجو علی علیہ السّلام سے لے کر کچھ سامان  خانہ داری فاطمہ کے لیے خرید کر ساتھ کردیا گیا , وہ بھی کیا؟مٹی کے کچھ برتن , خرمے کی چھال کے تکیے . چمڑے کابستر اور چرخہ , چکی اور پانی بھرنے کی مشک . علی علیہ السّلام نے مھر ادا کرنے کے لئے اپنی زرہ فروخت کی اور فاطمہ زھرا علیھا السّلام کا مھر ادا کیا گیا جو ایک سو سترہ تولے چاندی سے زیادہ نہ تھا اس طرح مسلمانوں کے لئے ھمیشہ کے لیے ایک مثال قائم کردی گئی کہ وہ اپنی تقریبات میں فضول خرچی سے کام نہ لیں .

 

خانہ داری

فاطمہ علیھا السّلام اور علی علیہ السّلام کی زندگی گھریلو زندگی کا ایک بے مثال نمونہ تھی۔مرد اور عورت آپس میں کس طرح ایک دوسرے کے شریک حیات ثابت ھوسکتے ھیں ،آپس میں کس طرح تقسیم عمل ھونا چاھیے اور کیوں کر دونوں کی زندگی ایک دوسے کے لیے مددگار ھوسکتی ھے , وہ گھر دنیا کی آرائشوں سے دور , راحت طلبی اور تن آسانی سے بالکل علیحدہ تھا , محنت اور مشقت کے ساتھ ساتھ دلی اطمینان اور آپس کی محبت واعتماد کے لحاظ سے ایک جنت بناھوا تھا , جھاں سے علی علیہ السّلام صبح کو مشکیزہ لے کر جاتے تھے اوریھودیوں کے باغ میں پانی دیتے تھے اور جو کچھ مزدوری ملتی تھی اسے لے کر گھر پر آتے تھے .بازار سے جو خرید کر فاطمہ علیھا السّلام کو دیتے تھے اور فاطمہ چکی پیستی , کھانا پکاتی او رگھر میں جھاڑودیتی تھیں , فرصت کے اوقات میں چرخہ چلاتی تھیں اور خود اپنے اور اپنے گھر والوں کو لباس کے لیے اور کبھی مزدوری کے طور پر سوت کاتتی تھیں اور اس طرح گھر میں رہ کر زندگی کی مھم میں اپنے شوھر کاھاتہ بٹاتی تھیں

 
یا علی

 

جهاد

 مدینہ میں آکر پیغمبر کو مخالف گروہ نے آرام سے بیٹھنے نہ دیا . آپ کے وہ پیرو جو مکہ میں تھے انھیں طرح طرح کی تکلیفیں دی جانے لگیں۔ بعض کو قتل کیا ، بعض کو قید کیا اور بعض کو زد وکوب کیااور تکلیفیں پھنچائیں . یھی نھیں بلکہ اسلحہ اور فوج جمع کر کے خود رسول کے خلاف مدینہ پر چڑاھا ئی کردی , اس موقع پر رسول کا اخلاقی فرض تھا کہ وہ مدینہ والوں کے گھروں کی حفاظت کرتے جنھوں نے  آپ کوانتھائی ناگوار حالات میں پنا ہ دی تھی اور آپ کی نصرت وامداد کاوعدہ کیا تھا , آپ نے یہ کسی طرح پسند نہ کیا کہ آپ شھر کے اندر رہ کر مقابلہ کریں اور دشمن کو یہ موقع دیں کہ وہ مدینہ کی پر امن آبادی اور عورتوں اور بچوں کو بھی پریشان کرسکے. گو آپ کے ساتھ تعدادبھت کم تھی یعنی صرف تین سو تیرہ آدمی, ھتھیار بھی نہ تھے مگر آپ نے یہ طے کرلیا کہ آپ باھر نکل کر دشمن سے مقابلہ کریں گے چنانچہ اسلام کی پھلی لڑائی ھوئی. جو جنگِ بدر کے نام سے مشھور ھے . اس لڑائی میں رسول نےزیادہ تر اپنے عزیزوں کو خطرے میں ڈالا چنانچہ آپ کے چچا زاد بھائی عبیدہ ابن حارث ابن عبدالمطلب(ع) اس جنگ میں شھید ھوئے . علی کو جنگ کا یہ پھلا تجربہ تھا ۔25برس کی عمر تھی مگر جنگ کی فتح کا سھرا علی علیہ السّلام کے سر رھا .جتنے مشرکین قتل ھوئے تھے ان میں سے آدھے مجاھدین کے ھاتھوں قتل ھوئے تھے۔ اس کے بعد ,اُحد, خندق,خیبر,اور آخر میں حنین،یہ وہ بڑی لڑائیاں ھیں جن میں علی علیہ السّلام نے رسول کے ساتھ رہ کر اپنی بے نظیر بھادری کے جوھر دکھلائے . تقریباًان تمام لڑائیوں میں علی علیہ السّلام کو علمداری کا عھدہ بھی حاصل رھا . اس کے علاوہ بھت سی لڑائیاں ایسی تھیں جن میں رسول نے علی علیہ السّلام کو تنھا بھیجا اورانھوں نے اکیلے ان تمام لڑائیوں میں بڑی بھادری اور ثابت قدمی دکھائی اور انتھائی استقلال , تحمّل اور شرافت نفس سے کام لیا،جس کااقرار خود ان کے دشمن بھی کرتے تھے ۔ خندق کی لڑائی میں دشمن کے سب سے بڑے سورماعمر وبن عبدود کو جب آپ نے مغلوب کر لیااور اس کاسر کاٹنے کے لیے اس کے سینے پر بیٹھے تو اس نے آپ کے چھرے پر لعاب دھن پھینک دیا . آپ کو غصہ آگیااور آپ اس کے سینے پر سے اتر آئے۔ صرف اس خیال سے کہ اگر غصّے میں اس کو قتل کیا تو یہ عمل محض خدا کی راہ میں نہ ھوگا بلکہ خواھش نفس کے مطابق ھوگاکچھ دیر کے بعد آپ نے اس کو قتل کیا , اس زمانے میں دشمن کو ذلیل کرنے کے لیے اس کی لاش برھنہ کردیتے تھے مگر حضرت علی علیہ السّلام نے اس کی زرہ نھیں اُتاری اگرچہ وہ بھت قیمتی تھی . چناچہ اس کی بہن جب اپنے بھائی کی لاش پر آئی تو اس نے کھا کہ کسی اور نے میرے بھائی کوقتل کیا ھوتا تو میں عمر بھر روتی مگر مجھے یہ دیکھ کر صبر آگیا کہ اس کاقاتل علی سا شریف انسان ھے جس نے اپنے دشمن کی لاش کی توھین گوارا نھیں کی , آپ نے کبھی دشمن کی عورتوں یابچّوں پر ھاتہ نھیں اٹھا یا اور کبھی مالِ غنیمت کی طرف رخ نھیں کیا.

 

خدمات

نہ فقط جھاد بلکہ اسلام اور پیغمبر اسلام کے لیے کسی کام کے کرنے میں آپ کو انکار نہ تھا .یہ کام مختلف طرح کے تھے رسول کی طرف سے عھد ناموں کا لکھنااور خطوط تحریر کرنا آپ کے ذمہ تھا اور لکھے ھوئے اجزائے قرآن کے امانتدار بھی آپ تھے- اس کے علاوہ یمن کی جانب تبلیغ اسلام کے لئے پیغمبر نے آپ کو روانہ کیا جس میں آپ کی کامیاب تبلیغ کا اثر یہ تھا کہ سارا یمن مسلمان ھو گیا۔

 

جب سورہ براَت نازل ھوئی تو اس کی تبلیغ کے لئے بحکم خدا آپ ھی مقرر ھوئے اور آپ نے جا کر مشرکین کو سورۂ براَت کی آیتیں سنائیں- اس کے علاوہ بھی آپ رسالت مآب کی ھر خدمت انجام دینے پر تیار رھتے تھے- یھاں تک کہ یہ بھی دیکھا گیا کہ رسول کی جوتیاں اپنے ھاتھ سے سی رھے ھیں، علی علیہ السّلام اسے اپنے لئے باعثِ فخر سمجھتے تھے-

 

تبصرے
Loading...