اردو زبان کے فردوسی میر ببر علی انیس کی وفات/ایک نظر

اردو زبان کے فردوسی میر ببر علی انیس کی وفات/ایک نظر

میر انیس 1803ء میں محلہ گلاب باڑی فیض آباد میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد میر مستحسن خلیق، دادا میر حسن اور پردادا امیر ضاحک قادر الکلام شاعر تھے۔ یوں شاعری انہیں ورثے میں ملی تھی۔ انیس نے ابتدائی تعلیم میر نجف علی فیض آبادی اور مولوی حیدر علی لکھنوی سے حاصل کی۔ بچپن ہی سے شاعری سے شغف تھا۔ پہلے حزیں تخلص کرتے تھے پھر ناسخ کے مشورے سے بدل کر انیس رکھ لیا۔ابتدا میں غزلیں کہنا شروع کیں مگر پھر والد کی ہدایت پر اس صنف سخن کو سلام کیا۔ مرثیہ گوئی کی جانب راغب ہوئے اور اس صنف سخن کو معراج تک پہنچا دیا۔

شروع شروع میں میر انیس مرثیہ پڑھنے کے لیے ہر سال لکھنؤ آتے رہے۔ مگر 45 برس میں جنگ آزادی کی تباہی کے بعد وہ لکھنؤ چھوڑ کر کچھ عرصہ کاکوری میں مقیم رہے۔ پھر امن و امان کے بعد لکھنؤ واپس تشریف لائے اور محلہ سبزی منڈی میں رہائش اختیار کی۔

میر ببر علی انیس نے 29 شوال 1291ھ مطابق 10 دسمبر 1874ء کو لکھنؤ میں انتقال کر گئے اور اپنے مکان میں ہی دفن ہوئے۔ 1963ء میں ان کے مزار پر ایک عالیشان مقبرہ تعمیر کروایا گیا۔مرزادبیر نے آپ کی تاریخ وفات اس شعر سے نکالی۔
آسماں بے ماہِ کامل، سدرہ بے روح الامین
طورِ سینا بے کلیم اللہ، منبر بے انیس
جو ان کے لوحِ مزار پر بھی کندہ ہے۔

 

میر انیس نے اردو میں نہ صرف رزمیہ شاعری کی کمی کو پورا کیا

میر انیس نے اردو میں نہ صرف رزمیہ شاعری کی کمی کو پورا کیا بلکہ اس میں انسانی جذبات اور ڈرامائی تاثر کے عناصر کا اضافہ کرکے اردو مرثیہ کو دنیا کی اعلیٰ ترین شاعری کی صف میں لاکھڑا کیا۔ انہوں نے منظر نگاری، کردار نگاری، واقعہ نگاری اور جذبات نگاری کے اعلیٰ ترین نمونے پیش کیے۔ انیس نے مرثیہ کی صنف کو آسماں تک پہنچا دیا یہاں تک کہ مرثیہ اور انیس مترادف الفاظ بن گئے۔

میر انیسؔ ارو شاعری کی تاریخ میں ایک نہایت اعلیٰ و ارفع مقام رکھتے ہیں۔ اردو مرثیہ کا تذکرہ انیس کے بغیر نامکمل ہے۔ مرثیہ اردو میں میر انیس سے پہلے بھی موجود تھا، لیکن اس کا شمار غزل، قصیدہ اور مثنوی جیسی اہم اصناف میں نہ ہوتا تھا۔
انیسؔ کے جمالیاتی احساس نے مرثیہ میں تنوع اور بوقلمونی پیدا کر کے اس میں ادبی وقار پیدا کر دیا اور اسے عظیم ادب کی صف میں لا کھڑا کر دیا؛ پروفیسر مسعود حسن رضوی ادیب رقم طراز ہیں:
”معنوی حیثیت یا تاثرات کے اعتبار سے شاعری کی جتنی قسمیں ہو سکتی ہیں؛ انیسؔ کے مرثیے ان سب پر حاوی ہیں، شاعری جذبات کی ترجمانی ہو یا خیالات کی، وجدان کی تعمیر ہو یا حیات کی، تخیل کی جولاں گاہ ہو یا محاکات کی، اس کا مقصد فنی حسن کی تخلیق ہو یا انسانی اخلاق کی تکمیل؛ سکونِ قلب کی تحصیل ہو یا کسی پیغام کی تبلیغ۔ مختصر یہ کہ شاعری کی جو تعریفیں کی گئی ہیں اس کے جو محاسن قرار دیے گئے ہیں؛ اس کے جو مقاصد بیان کیے گئے ہیں؛ ان سب کے اعتبار سے انیسؔ کے مرثیوں کا شمار، اعلیٰ درجہ کی شاعری میں ہو گا۔ ایسی جامع صنفِ سخن انیسؔ کے مرثیہ کے سوا اور کون ہے”۔۱؎
مرثیہ شُہدائے کرب و بلا کی یاد میں لکھا جاتا ہے۔ ضمیر و خلیق اور انیسؔ و دبیرؔ نے اردو مرثیہ میں جدتیں پیدا کیں۔ چہرہ، سراپا، رخصت،آمد، رجز، جنگ، شہادت اور بین اس کے اجزائے ترکیبی متعین کیے۔

میرا نیسؔ نے فکری موضوعات اور جدید فنی تقاضوں کو سامنے رکھ کر مرثیہ کو ایک نیا رنگ و آہنگ دیا۔ جوش، نسیم، جمیل مظہری، سید آلِ رضا، صبا اکبر آبادی، رئیس امروہوی، وحید الحسن ہاشمی، ڈاکٹر ہلال نقوی، شبیہہ الحسن زیدی اور کوثر نقوی وغیرہ کے مرثیوں میں مراثی انیسؔ کے اسلوب کی صدائے بازگشت سنائی دیتی ہے:مرتضیٰ حسین فاضل میر انیسؔ کی پیدائش کے متعلق بیان کرتے ہیں کہ:
”میر حسن نے عشرہ محرم ۱۲۰۱ھ/۱۷۸۶ء میں رحلت کی اور خلیق کے گھر میں اس واقعے کے تقریباً بیس سال کے ہیر پھیر سے غالباً ۱۲۱۹ھ/۱۸۰۴ء میں انیسؔ کی ولادت ہوئی یا میر حسن علی اشک (متوفی۔ ۱۸۹۰ئ) اور عارف کے اندازے کے مطابق میر صاحب ۱۲۱۶ھ/۱۸۰۱ء میں پیدا ہوئے۔” ۲

میر انیسؔ کے سنِ پیدائش کے سلسلہ

میر انیسؔ کے سنِ پیدائش کے سلسلہ میں اب تک اختلاف چلا آ رہا ہے۔ میر انیسؔ فیض آباد میں پیدا ہوئے، وہیں پلے بڑھے اور جوان ہوئے۔ انھوں نے اپنے زمانے کے علوم رسمی صرف و نحو، معنی و بیان، عروض، منطق، فلسفہ، تاریخ، طب، رمل وغیرہ سبھی سیکھے۔ عربی اور فارسی زبان و ادب پر عبور حاصل تھا۔ مروجہ علوم کے علاوہ سپہ گری، ورزش اور اسپ رانی میں بھی ید طولیٰ رکھتے تھے۔
خوش مزاجی، خودداری اور عزتِ نفس ان کی سَرِشت کے نمایاں پہلو تھے۔ شعر گوئی کا شوق انھیں لڑکپن ہی سے تھا۔

دراصل یہ اُن کے گھر کا ماحول اور باہر کی فضا کا اثر تھا۔ اپنے والد خلیق کی طرح انیسؔ کی شاعری کا آغاز بھی غزل سے ہوا۔

بہ قول محمد حسین آزاد:”ابتدا میں انھیں بھی غزل کا شوق تھا۔ ایک موقع پر کہیں مشاعرے میں گئے اور غزل پڑھی، وہاں بڑی تعریف ہوئی۔ شفیق باپ خبر سُن کر دل میں باغ باغ ہوا۔ مگر ہونہار فرزند سے پوچھا کل کہاں گئے تھے؟ انھوں نے حال بیان کیا۔ غزل سنی اور فرمایا کہ بھائی اس غزل کو سلام کرو۔اور اس شغل میں زور طبع کو صرف کرو، جو دین و دنیا کا سرمایہ ہے۔ بیٹے نے اُسی دن سے ادھر سے قطع نظر کی۔”

غزل کو سلام کرو

”غزل کو سلام کرو” یہ فقرہ ذو معنی ہے۔ اس کا ایک معنی تو یہ ہے کہ ”غزل ترک کرو” دوسرا یہ کہ اس غزل کو سلام میں تبدیل کرو۔ غزل کی طرح سلام کے تمام اشعار مقفیٰ ہوتے ہیں اور سلام میں غزل کی طرح مطلع و مقطع ہوتا ہے۔ پہلے سلام میں ردیف ”سلام” ہی باندھی جاتی تھی اور اسے حضرت محمد(ص)اور آل محمد صلی اللہ علیہ وآلہ پر درود و سلام کا وسیلہ بنایا ہوا تھا۔ مگر اب انقلاب ِ زمانہ کے ساتھ ساتھ اس میں ظاہری و معنوی جدتیں آ گئی ہیں۔ اب اخلاقی، اصلاحی اور حکیمانہ پہلو بھی ”سلام” میں داخل ہو گئے ہیں۔ یعنی ”سلام” بہ لحاظ معنی ”غزل” کے بہت قریب ہو گیا ہے۔ جس محفل میں غزلیں سنائی جاتی ہیں اسے ”مشاعرہ” اور اسی کے وزن پر جس محفل میں ”سلام” پر داد وصول کی جاتی ہے اسے ”مسالمہ” کہتے ہیں:
”غزل کی طرح سلام میں بھی ہر شعراپنی جگہ ایک مکمل نظم کی حیثیت رکھتا ہے۔ جس کا دوسرے شعروں کے ساتھ منطقی اعتبار سے مربوط ہونا ضروری نہیں، یعنی غزل کی طرح سلام میں بھی تمام اشعار کا متحد المضمون ہونا لازم نہیں بلکہ مختلف المضمون ہونا ہی انسب ہے۔ غزل کی طرح سلام کے لیے بھی کوئی عنوان تجویز نہیں کیا جا سکتا۔ سلام میں بھی تعداد اشعار زیادہ تر دس بارہ ہی ہوتی ہے۔ ایجازواختصار اور نکتہ سنجی کو سلام گو شعرا بھی ملحوظ رکھتے ہیں۔”
انیسؔ کے سلام کے اکثر اشعار اپنی سادگی و پُرکاری اور سوزوگداز کی بدولت تغزل میں اس طرح ڈھل گئے ہیں کہ غزل اور سلام کے اشعار میں فرق کرنا مشکل ہو گیا۔ ڈاکٹر فرمان فتح پوری نے اپنی تصنیف ”میر انیسؔ… حیات اور شاعری”میں انیس کے سلاموں کے ایسے اشعار پیش کیے ہیں، جن سے یہ گمان ہوتا ہے کہ یہ غزل کے اشعار ہیں۔

چند مثالیں بطور مشتِ نمونہ از خروارے

ملاحظہ فرمائیں:
انیسؔ دم کا بھروسا نہیں ٹھہر جائو
چراغ لے کے کہاں سامنے ہوا کے چلے

عالم پیری میں آئے کون پاس
اے عصا گرتی ہوئی دیوار ہوں

سُبک ہو چلی تھی ترازوئے شعر
مگر ہم نے پلّہ گراں کر دیا

نہ جانے برق کی چشمک تھی یا شرر کی لپک
ذرا جو آنکھ جھپک کر کھلی شباب نہ تھا

کسی کو کیا ہو دلوں کی شکستگی کی خبر
کہ ٹوٹنے میں یہ شیشے صدا نہیں رکھتے
ابوالاعجاز حفیظ صدیقی ”کشاف تنقیدی اصطلاحات” میں حسب ذیل اشعار میر انیسؔ کے سلاموں سے پیش کرتے ہیں:
یہ جُھریاں نہیں ہاتھوں پہ، ضُعف پیری نے
چنا ہے جامۂ ہستی کی آستینوں کو

خیال خاطر احباب چاہیے ہر دم
انیسؔ ٹھیس نہ لگ جائے آبگینوں کو

تمام عُمر جو کی سب نے بے رُخی ہم سے
کفن میں ہم بھی عزیزوں سے منہ چھپا کے نکلے

ان اشعار کے بارے میں

اگر ان اشعار کے بارے میں یہ معلوم نہ ہو کہ یہ میر ببر علی انیسؔ کے سلام سے تعلق رکھتے ہیں تو کوئی بھی انھیں غزل کے سوا سلام کے اشعار نہ کہے گا۔ میر انیسؔ کی غزلیں آج ہمارے سامنے نہیں ہیں۔ ان کے مجموعہ ہائے کلام میں مراثی ، رباعیات اور سلام تو ملتے ہیں مگر غزلیں نظر نہیں آتیں۔ مگر ان کے مرثیوں کے ٹکڑوں اور خاص طور پر متغزلانہ فضا سے یہ ضرور اندازہ ہوتا ہے کہ ان کی طبیعت کو غزل سے خاص مناسبت تھی۔ اگر وہ غزل کہتے رہتے تو اس میں بھی اپنا ایک الگ مقام بنا لیتے۔
پروفیسر مسعود حسن رضوی ادیب نے اپنے مقالے ”میر انیسؔ کی غزل گوئی” مشمولہ ”انیسیات” مرتبہ صباح الدین عمر ۱۹۷۶ء میں اور ڈاکٹر فرمان فتح پوری نے ”میر انیسؔ حیات اور شاعری” میں میر انیسؔ کی غزلیں اور غزلوں کے بعض اشعار کا تذکرہ کیا ہے۔ ان میں سے ایک غزل کاحوالہ دینا چاہوں گا تاکہ انیسؔ کے رنگ تغزل کی وضاحت ممکن ہو سکے:
شہیدِ عشق ہوئے قیس نام ور کی طرح
جہاں میں عیب بھی ہم نے کیے ہنر کی طرح

کبھی آج شام سے چہرہ ہے فق سَحَر کی طرح
ڈھلا ہی جاتا ہوں فرقت میں دوپہر کی طرح
سیاہ بختوں کو یوں باغ سے نکال اے چرخ
کہ چار پھول تو دامن میں ہوں سپر کی طرح
تمام خلق ہے خواہاں آبرُو یا رب
چُھپا مجھے صدف قبر میں گہر کی طرح
تجھ ہی کو دیکھوں گا جب تک ہیں برقرار آنکھیں
مری نظر نہ پھرے گی تری نظر کی طرح
انیسؔ یوں ہوا حال جوانی و پیری
بڑھے تھے نخل کی صورت گرے ثمر کی طرح
میر انیسؔ کے سلام کے اشعار، مرثیوں کے اشعار اور غزل کے اشعار سے پتا چلتا ہے کہ انھوں نے تغزل اور مرثیت دونوں کو ملا کر ایک ایسا حسین و جمیل امتزاج پیدا کیا ہے؛ جو آج تک نہ صرف پسندیدہ ہے بلکہ جدید شاعری کی بنیاد بن چکا ہے۔ اُن کی اس حسین و جمیل سخن سنجی کا نتیجہ یہ نکلا کہ سانحہ کرب و بلا جو اردو ادب میں رونے رلانے اورماتم گُساری کا حوالہ بنا رہا وہ جدید مرثیوں میں قوت و حرارت کا مرکز و محور بن کر ایک تحریک کی صورت اختیار کر گیا ہے۔
میر انیسؔ کے مرثیوں کے ٹکڑے ہوں یا سلام کے اشعار بہ لحاظ موضوع اور مواد دوسروں سے مختلف نہ بھی ہوں، لیکن زبان و بیان کی دل کشی، جاذبیت اور محاسنِ شعری کے لحاظ سے اتنے منفرد ہیں کہ انھیں اپنے طرز کا موجد کہنا پڑتا ہے۔
انھوں نے اپنی افتاد طبع اور احساسِ جمال سے مرثیت کو جو  آب ورنگ دیا ہے، اُسے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ اسی سے اقلیم سخن میں اُن کا فن زندہ ہے اور جمال نکھرا ہوا ہے:
کسی نے تری طرح اے انیسؔ
عروسِ سُخن کو سنوارا نہیں

اردو کی رثائی شاعری کو اپنی خلاقی سے معراج کمال تک پہنچا دیا

میر ببر علی انیس ان شاعروں میں سے ایک ہیں جنہوں نے اردو کی رثائی شاعری کو اپنی خلاقی سے معراج کمال تک پہنچا دیا۔صنف مرثیہ میں انیس کا وہی مقام ہے جو مثنوی کی صنف میں ان کے دادا میر حسن کا ہے۔انیس نے اس عام خیال کو باطل ثابت کر دیا اردو میں اعلی درجہ کی شاعری صرف غزل میں کی جا سکتی ہے۔انہوں نے رثائی شاعری کو جس مرتبہ تک پہنچایا وہ اپنی مثال آپ ہے۔انیس آج بھی اردو میں سب سے زیادہ پڑھے جانے والے شاعروں میں سے ایک ہیں۔

شاعروں کے گھرانے میں پیدا ہونے کی وجہ سے انیس کی طبیعت بچپن سے ہی موزوں تھی اور چار پانچ برس کی ہی عمر میں کھیل کھیل میں ان کی زبان سے موزوں شعر نکل جاتے تھے۔انہوں نے اپنی ابتدائی تعلیم فیض آباد میں ہی حاصل کی۔مروجہ تعلیم کے علاوہ انہوں نے سپہ گری میں بھی مہارت حاصل کی۔ان کا شمار علماء کی صف میں نہیں ہوتا ہے تاہم ان کی علمی معلومات کا سب کو اعتراف ہے۔ایک بار انہوں نے سر منبر علم ہیئت کی روشنی میں سورج کے گرد زمین کی گردش کو ثابت کر دیا تھا۔ان کو عربی اور فارسی کے علاوہ بھاشا(ہندی) سے بھی بہت دلچسپی تھی اور تلسی و ملک  محمد جائسی کے کلام سے بخوبی  واقف تھے۔کہا جاتا ہے کہ وہ لڑکپن میں خود  کو  ہندو ظاہر کرتے ہوئے ایک برہمن عالم سے ہندوستان کے مذہبی صحیفے سمجھنے جایا کرتے تھے۔اسی طرح جب پاس پڑوس میں کسی کی موت ہو جاتی تھی تو وہ اس گھر کی خواتین کی نالہ و زاری اور اظہار غم کا گہرائی سے مطالعہ کرنے جایا کرتے تھے۔یہ مشاہدات آگے چل کر ان کی مرثیہ نگاری میں بہت کام آئے۔

انیس نے بہت کم عمری میں ہی باقاعدہ شاعری شروع کر دی تھی

نیس نے بہت کم عمری میں ہی باقاعدہ شاعری شروع کر دی تھی۔جب ان کی عمر نو برس تھی انہوں نے ایک سلام کہا۔ ڈرتے ڈرتے باپ کو دکھایا۔باپ خوش تو بہت ہوئے لیکن  کہا کہ تمہاری عمر ابھی تحصیل علم کی ہے۔ادھر توجہ نہ کرو۔فیض آباد میں جو مشاعرے ہوتے،  ان سب کی طرح پر وہ غزل لکھتے لیکن پڑھتے نہیں تھے۔تیرہ چودہ برس کی عمر میں والد نے اس وقت کے استاد شیخ امام بخش ناسخ کی شاگردی میں دے دیا۔ناسخ نے جب ان کے شعر دیکھے تو دنگ رہ گئے کہ اس کم عمری میں لڑکا اتنے استادانہ شعر کہتا ہے ۔ ۔انہوں نے انیس کے کلام پر کسی طرح کی اصلاح کو غیر ضروری سمجھا، البتہ ان کا تخلص جو پہلے حزیں تھا بدل کر انیس کر دیا۔انیس نے جو غزلیں ناسخ کو دکھائی تھیں ان میں  ایک شعر یہ تھا۔
سبب ہم پر کھلا اس شوخ کے آنسو نکلنے کا
دھواں لگتا ہے آنکھوں میں کسی کے دل کے جلنے کا
تیرہ چودہ برس کی عمر میں انیس نے اپنے والد کی غیر موجودگی میں گھر کی زنانہ مجلس کے لئے ایک مسدس لکھا۔اس کے  بعد وہ رثائی شاعری میں تیزی سے قدم بڑھانے لگے اس میں ان کی محنت اور ریاضت کا بڑا ہاتھ تھا۔کبھی کبھی وہ خود کو کوٹھری میں بند کر لیتے،کھانا پینا تک موقوف کر دیتے اور تبھی باہر نکلتے جب حسب منشاء مرثیہ مکمل ہو جاتا۔خود کہا کرتے تھے “مرثیہ کہنے میں کلیجہ خون ہو کر بہہ جاتا ہے”۔جب میر خلیق  کو،جو اس وقت تک لکھنو کے بڑے اور اہم مرثیہ  نگاروں میں تھے،پورا اطمینان ہو گیا کہ انیس ان کی جگہ لینے کے قابل ہو گئے ہیں تو انہوں نے بیٹے کو لکھنو کے باذوق اور نکتہ رس سامعین کے سامنے پیش کیا  اور میر انیس کی شہرت پھیلنی شروع ہو گئی۔انیس نے مرثیہ گوئی کے ساتھ مرثیہ خوانی میں بھی کمال حاصل کیا تھا۔محمد حسین آزاد کہتے ہیں کہ انیس قد آدم آئینہ کے سامنے،تنہائی میں گھنٹوں مرثیہ خوانی کی  مشق کرتے۔وضع،حرکات و سکنات اور بات بات کو دیکھتے اور اس موزونی اور نا موزونی کی خود اصلاح کرتے۔کہا جاتا کہ سر پر صحیح طریقہ سے ٹوپی رکھنے میں ہی کبھی کبھی ایک گھنٹہ لگا دیتے تھے۔
اودھ کے آخری نوابوں غازی الدین حیدر،امجد علی شاہ اور واجد علی شاہ کے زمانہ میں انیس نے مرثیہ گوئی م میں بے پناہ شہرت حاصل کر لی تھی۔ان سے پہلے دبیر بھی مرثئے کہتے تھے لیکن وہ مرثیہ خوانی کو کسی فن کی طرح برتنے کی بجائے سیدھا سادہ پڑھنے کو ترجیح دیتے تھے اور انن کی شہرت ان کے کلام کی وجہ سے تھی جبکہ انیس نے مرثیہ خوانی  میں کمال پیدا کر لیا تھا۔آگے چل کر مرثیہ کے ان دونوں استادوں کے الگ الگ مداح پیدا ہو گئے۔ایک گروہ انیسیا اور دوسرا دبیریا کہلاتا تھا۔دونوں گروپ اپنے اپنے ممدوح کو برتر ثابت کرنے کی کوشش کرتے اور دوسرے کا مذاق اڑاتے۔انیس اور دبیر ایک ساتھ کسی مجلس میں مرثیہ نہیں پڑھتے تھے۔صرف ایک بار شاہی گھرانے کے اصرار پر دونوں ایک مجلس میں یکجا ہوئے اور اس  میں بھی انیس نے یہ کہہ کر کہ وہ اپنا مرثیہ لانا بھول گئے ہیں، اپنے ممرثئے کی بجائے اپنے بھائی مونس کا لکھا ہہوا حضرت علی کی شان میں ایک سلام صرف ایک مطلع کے اضافہ کے ساتھ پڑھ د دیا اور منبر سے اتر آئے ۔مونس کے سلام میں انہوں نے جس فی البدیہ مطلع کا اضافہ کر دیا تھا وہ تھا۔
غیر کی مدح کروں شہ کا ثنا خواں ہو کر
مجرئی اپنی ہوا کھوؤں سلیماں ہو کر

یہ در اصل دبیر پر چوٹ تھی جنہوں نے حسب روایت  مرثیہ سے قبل بادشاہ کی شان میں ایک رباعی پڑھی تھی۔اس کے باجود  عمومی طور پر انیس اور دبیر کے تعلقات خوشگوار تھےاور دونوں ایک دوسرے کے کمال کی قدر کرتے تھے۔دبیر بہت منکسر المزاج اور صلح کل انسان تھے جبکہ انیس کسی کو خاطر میں نہیں لاتے تھے۔ان کی پیچیدہ شخصیت اور نازک مزاجی  کے واقعات اور ان کی مرثیہ گوئی اور مرثیہ خوانی نے انہیں ایک افسانوی شہرت دے دی تھی اور ان کا شمار لکھنو کے ممتاز ترین شہریوں میں ہوتا تھا۔اس زمانہ میں انیس کی شہرت کا یہ  حال تھا کہ صاحب  اقتدار امیر،نامور شہزادے اور عالی خاندان نواب زادے ان کے گھر پر جمع ہوتے اور نذرانے پیش کرتے۔اس طرح ان کی آمدنی گھر بیٹھے ہزاروں تک پہنچ جاتی لیکن اس فراغت کا زمانہ مختصر رہا 1856 میں انگریزوں نے اودھ پر قبضہ کر لیا۔لکھنو کی خوشحالی رخصت ہو گئی۔گھر بیٹھے رزق پہنچنے کا سلسلہ بند ہو گیا اور انیس دوسرے شہرں میں مرثیہ خوانی کے لئے جانے پر مجبور ہو گئے۔انہوں نے عظیم آباد(پٹنہ)،بنارس،الہ آباد اور حیدرآباد میں مجلسیں پڑھیں جس کا اثر یہ ہوا، دور دور کے لوگ ان کے کلام اور کمال سے واقف ہو کر اس کے مداح بن گئے۔

 

انیس کی طبیعت آزادی پسند تھی

انیس کی طبیعت آزادی پسند تھی اور اپنے اوپر کسی طرح کی بندش ان کو گوارہ نہیں تھی ایک بار نواب امجد علی شاہ  کو خیال پیدا ہوا کہ شاہنامہ کی طرز پر اپنے خاندان کی ایک تاریخ نظم کرائی جائے۔اس کے لئے نظر انتخاب انیس پر پڑی۔انیس نے پہلے تو اخلاقا منظور کر لیا لیکن  جب دیکھا کہ ان کو شب و روز سرکاری عمارت میں رہنا ہو گا تو کسی  حیلہ سے انکار کر دیا۔  بادشاہ سے وابستگی،اس کی کل وقتی ملازمت،شاہی مکان میں مستقل سکونت دنیوی ترقی کی ضمانتیں تھیں ۔ بادشاہ اپنے خاص ملازمین کو خطابات دیتے تھے اور دولت سے نوازتے تھے۔لیکن انیس نے شاہی ملازمت قبول نہیں کی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جن انگریزوں نے اودھ پر قبضہ کر کے ان کا رزق چھینا تھا وہی ان کو پندرہ روپے ماہوار وظیفہ اس لئے دیتے تھے ک کہ وہ میر حسن کے پوتے تھے جن کی مثنوی فورٹ ولیم کالج کے نصاب  اور اس کی مطبوعات میں شامل تھی۔

جس طرح انیس کا کلام سحر آمیز ہے اسی طرح ان کا پڑھنا بھی مسحور کن تھا۔منبر پر پہنچتےہی ان کی شخصیت  بدل جاتی تھی۔آواز کا اتار چڑھاؤ آنکھوں کی گردش اور ہاتھوں کی جنبش سے وہ اہل مجلس پر جادو کر دیتے تھے اور لوگوں کو تن بدن کا ہوش نہیں رہتا تھا۔مرثیہ  خوانی میں ان سے بڑھ کر ماہر کوئی نہیں پیدا ہوا۔ آخری عمر میں انہوں نے مرثیہ خوانی بہت کم کر دی تھی۔1874 ء میں  لکھنو میں ان کاکا انتقال ہوا۔ انہوں نے تقریباً 200 مرثئے اور 125 سلام لکھے، اس کے علاوہ تقریباً 600 رباعیاں بھی ان کی یادگار ہیں۔

انیس ایک نابغہ ٔ روزگار شخصیت تھے۔اگر وہ مرثیہ کی بجائے غزل  کو اظہار کا ذریعہ بناتے تب بھی ان کا شمار بڑے شاعروں میں ہوتا۔غزل پر توجہ نہ دینے کے باوجود ان کے کئی شعر خاص و عام کی زباں پر ہیں۔
خیال خاطر احباب چاہئے ہر دم
انیس ٹھیس نہ لگ جائے آبگینوں کو

انیس دم کا بھروسہ نہیں ٹھہر جاو
چراغ لے کے کہاں سامنے ہوا کے چلے

انیس کا کلام اپنی فصاحت،منظر نگاری اور خلاقانہ برتاؤ

انیس کا کلام اپنی فصاحت،منظر نگاری اور زبان کے ساتھ ان کے خلاقانہ برتاؤ کے لئے ممتاز ہے۔

وہ ایک پھول کے مضمون کو سو طرح پر باندھنے پر قادر  تھے۔ان کی شاعری اپنے عہد کی نفیس زبان اور تہذیب کی آئینہ دار ہے۔انہوں نے مرثیہ کی تنگنائے میں گہرائی سے غوطہ لگا کر  ایسے بیش بہا  گوہر نکالے جن کی اردو مرثیہ میں کوئی مثال نہیں ملتی۔

11 سال کی عمر میں پہلا شعر کہنے والے میر انیس کے والد کو جب پتہ چلا کہ ان کا بیٹا شاعری کرنے لگ گیا ہے تو وہ بہت خوش ہوئے۔ انہوں نے اپنے بیٹے سے جب پہلا کلام سنا تو ہدایت کی اپنی غزل کو سلام میں تبدیل کرو کیونکہ منقبت و سلام تمہارے لیے دنیا و آخرت میں توشہ ثابت ہو گا۔ میر انیس کے والد میر خلیق کے بارے میں یہ بھی مشہور ہے کہ جب انہیں اپنے بیٹے کے شعر کہنے کی خبر ملی تو انہوں نے اپنے دوستوں میں مٹھائی تقسیم کی۔ غزل کے ذریعے شاعری کا آغاز کرنے والے میر انیس کی پہچان مرثیہ بنی۔ ان کی تعداد کے بارے میں بہت سی جگہوں پر اختلاف پایا جاتا ہے۔ لیکن ایک بات طے ہے کہ اُن کے مرثیوں کی تعداد سینکڑوں میں ہے۔ میرانیس کا اندازِ مرثیہ خوانی ایسا تھا کہ وہ جب شعر پڑھتے تو خود شعر کی صورت بن جاتے۔ میر انیس کے سننے والے کہتے تھے کہ وہ منبر کے دوسرے زینے پر بیٹھ کر پڑھتے۔ اکثر دور بیٹھے لوگوں کو وہ دکھائی نہیں دیتے تھے تو پھر لوگوں کی یہ خواہش ہوتی تھی کہ وہ اوپر والے زینے پر بیٹھیں لیکن انہوں نے کبھی اپنے لیے سب سے اوپر والا زینہ پسند نہ کیا۔ منبر پر وہ انتہائی ادب و وقار سے بیٹھتے۔ مرثیہ پڑھنے سے قبل محفل کو صلوٰة پڑھواتے اس کے بعد چند لمحوں کے لیے خاموش ہو کر مرثیے کا آغاز کرتے۔ میر انیس نے جب بھی مرثیہ پڑھا اپنے گھٹنوں پر سفید رومال ضرور رکھا۔ بقول ڈاکٹر تقی عابدی کے وہ چشم و ابرو کے اشارات کے تیور سے شعر کے جذبات بناتے تھے اور بہت ہی کم جسم کے کسی حصے کو جنبش دیتے۔ شعر میں اگر غم، خوشی، حیرت، غصہ، رحم، تعجب یا شجاعت کا ذکر کرتے تو وہ اس کی تصویر بن جاتے۔ یہ طرزِ مرثیہ خوانی میر صاحب نے کسی سے سیکھا نہیں تھا بلکہ وہ خود اس کے موجد تھے اور یہ عطائے الٰہی تھی۔ اگر کوئی شاگرد میر انیس سے مرثیہ خوانی سیکھنے کی درخواست کرتا تو وہ اس سوال کے جواب میں کہتے ”یہ کیا سیکھے گا اور مَیں کیا سکھاؤں گا بھئی یہ کوئی سیکھنے کا فن ہے۔“

چاروں طرف سے نعروں کی آوازیں بلند ہوئیں

انہوں نے اپنی پہلی مجلس لکھنو میں پڑھی۔ میر انیس سے پہلے ان کے والد میر خلیق مجلس پڑھ رہے تھے۔ منبر پر آ کر میر انیس چند منٹ خاموش بیٹھے پھر ایک رباعی پڑھی۔ پڑھنے کے انداز اور جوانی کی آواز نے سننے والوں کو نیا لطف دیا۔ چاروں طرف سے نعروں کی آوازیں بلند ہوئیں۔ اس کے بعد میر انیس نے سلام پڑھ کر حاضرینِ مجلس کو اپنی طرف متوجہ کیا۔ سلام کے بعد میر انیس نے جب مرثیہ پڑھنا شروع کیا تو سیّد امجد علی اشہری اپنی کتاب ”حیاتِ انیس“ میں لکھتے ہیں ” کہ اپنی پہلی مجلس میں انہوں نے رزم و بزم کی تصویر اس خوبصورتی سے دکھائی کہ اسی وقت سے ہر دل میں میر صاحب کی فصاحت کا سکہ بیٹھ گیا۔ اعجازِ کلام اور اندازِ بیان سے کئی مرتبہ اربابِ مجلس بے تاب ہوئے اور کئی مرتبہ جوشِ شجاعت اور اندازِ فصاحت کے بند سن کر جھومنے لگے۔ قصہ مختصر میر انیس نے پُرجوش تعریفوں کی گونجتی ہوئی آوازوں میں اپنی زندگی کا پہلا مرثیہ ختم کیا۔ سینکڑوں قدر شناس اپنی اپنی جگہ سے اٹھ کر میر انیس سے مصافحہ کرنے اور ہاتھ چومنے کو آئے۔ تعریف کا سلسلہ دیر تک قائم رہا تو پھر میر صاحب کی شہرت روز بروز بڑھنے لگی۔ بڑے بڑے نواب و وزیر میر انیس کے زیبِ مجلس ہونے پر فخر کرنے لگے اور بہت جلد تمام شہر میں میر انیس کی دھوم مچ گئی۔“

پہلی مجلس لکھنو میں اکرام اﷲ خاں کے امام بارگاہ میں

میر انیس نے اپنی زندگی کی پہلی مجلس لکھنو میں اکرام اﷲ خاں کے امام بارگاہ میں پڑھی۔ اس امام بارگاہ کی خوبی یہ تھی کہ ایامِ عزا کے علاوہ پورا سال شہادتوں کے موقع پر مجالس منعقد ہوا کرتی تھیں اور ان مجالس میں میر ضمیر اور میر خلیق مرثیے پڑھا کرتے تھے۔ میر انیس نے پہلی مجلس طے شدہ پروگرام کے مطابق نہیں پڑھی۔ ان کے والد نے ان کو غیر متوقع طور پر اچانک پڑھوایا۔ بیٹے کو اپنی جگہ پر منبر دینا بہت بڑی بات تھی اور وہ بھی لکھنو کے کسی ایسے امام بارگاہ میں جہاں کے سننے والوں کے بارے میں یہ مشہور ہے کہ وہ ایک ایک لفظ اور ایک ایک مصرعے پر داد بڑی مشکل سے دیتے تھے۔

س مجلس کے بعد میر انیس کے پاس مجالس پڑھنے کی دعوتوں کا رش ہو گیا۔ وہ پہلے مجالس کی تاریخ پوچھتے اور یادداشت کے طور پر اپنے پاس اور بانی مجلس کے پاس تاریخ نوٹ کروا دیتے۔ اس کا مقصد یہ ہوتا تھا کہ شہر میں اس دن اور اسی وقت کوئی اور مجلس نہ ہو رہی ہو۔ میر انیس اسی وقت ہی اس مرثیے کا انتخاب کر لیتے تاکہ آنے والی مجالس میں مرثیے کی تکرار نہ ہو۔ یہ احتیاط وہ مرزا دبیر کی وجہ سے کرتے تھے۔ دوسری طرف مرزا دبیر بھی کسی بھی مجلس کا دعوت نامہ قبول کرنے کے بعد اسی قسم کی پریکٹس کرتے۔ میر انیس نے پہلا مرثیہ لکھنو میں 18 ربیع الثانی 1242ھ کو پڑھا۔ مرثیے کا پہلا مصرعہ ملاحظہ فرمائیں:جب حرم میں مقتلِ سرور سے وطن میں آئے

ان کی پہلی مجلس میں ہی ایک خلافِ معمول بات یہ ہوئی کہ مجالس میں ہمیشہ بڑا عالمِ دین، ذاکر یا شاعر سب سے آخر میں منبر لیتا ہے۔ اس سے پہلے پیش خوانی کے طور پر چھوٹا عالم، ذاکر یا شاعر مجلس پڑھتا ہے۔ میر انیس کے والد میر خلیق کی پیش خوانی کے لیے ہمیشہ سے شہر کے ان سے چھوٹے شاعر سلام و مرثیہ پڑھا کرتے تھے۔ میر خلیق نے یہ روایت توڑی اور اپنے بعد اپنے ہی بیٹے کو مرثیہ پڑھنے کی دعوت دے ڈالی۔ اس کے بعد وہ 1291ھ یعنی وفات تک مجالسِ عزا پڑھتے رہے۔

ان کی آخری مجلس کے بارے میں بے شمار کتابوں میں ملتا ہے کہ میر انیس نے اپنی آخری مجلس نواب باقر علی خان کے گھر شیش محل لکھنو میں پڑھی۔ جس کا مرثیہ کچھ اس طرح شروع ہوتا تھا:اس شکوہ سے رَن میں خدا کی فوج

انہوں نے لکھنو کے امام بارگاہ ترمنی گنج میں اپنی زندگی کا آخری عشرہ پڑھا۔ ان مجالس کے بعد انہوں نے تبرکاً کچھ چھوٹی چھوٹی مجالس بھی پڑھیں لیکن وہ اپنی زندگی کی بڑی مجالس پڑھ چکے تھے۔ اب وہ اپنی شاعری میں بھی اپنی بیماریوں کا ذکر کرنے لگ گئے تھے۔ انتقال سے چند سال پہلے انہوں نے کچھ یوں اپنی پریشانیوں اور بیماریوں کا ذکر کیا:

ضعف اس برس بہت ہے، اجل آ نہ جائے آہ
دفنِ علی اصغر کا ہے پُر درد بہت حال

کرشہ سے یہی عرض کہ اے فاطمہؑ کے لال
بیمار انیس جگر افگار ہے امسال
یہ میرا مرض دور ہو یاور رہے اقبال
ہو دادرسِ خلق مری داد کو پہنچو
اے شاہِ شہیداں مری امداد کو پہنچو
گر مسیحِ دو جہاں کا ہو افضال انیس
اچھے یوں ہوئیں گے جیسے کبھی بیمار نہ تھے
ہر لحظہ گھٹی جاتی ہے طاقت میری
بڑھتی ہے گھڑی گھڑی نقاہت میری
آتا نہیں آبِ رفتہ پھر جو میں انیس
اب مرگ پہ موقوف ہے صحت میری
ہے سخت ملول طبعِ ناساز مری
نوحہ ہے صدائے نغمہ پرواز مری
اﷲ رے زور ناتوانی کا انیس
آوازۂ مرگِ دل ہے آواز مری

میر انیس کا انتقال

میر انیس کا انتقال 29 شوال 1291ھ / 10 دسمبر 1874ءکی شام کو ہوا۔ لیکن ان کی پڑھے گئے مرثیے آج بھی لوگوں کو یاد ہیں۔ اور خاص طور پر جب میر انیس کسی مجلس میں مرثیہ پڑھنے آتے تو ان کی اس مجلس کا اعلان کئی دن پہلے کر دیا جاتا۔ میرِ مجلس کو آنکھوں پہ بٹھایا جاتا۔ حقے کے دور چلنے لگتے۔ مجلس شروع ہونے سے پہلے لوگ اِدھر اُدھر کی باتیں کرتے۔لیکن ان کی نظریں میر انیس کی منتظر ہوتیں۔ جیسے میر انیس مرثیہ پڑھنے پہنچتے تو بانی¿ مجلس فوراً حقے ہٹا دینے کاحکم جاری کرتا۔ جن طشتریوں میں پان اور دیگر چیزیں موجود ہوتی تھیں ان کو ہٹا دیا جاتا۔ ساری مجلس ہمہ تن گوش ہو کر منبر کی طرف دیکھنا شروع کر دیتی۔ منبر کو ہمیشہ سیاہ پوش سے ڈھانپا جاتا تھا کہ یہی رنگ مجلس کے لیے مخصوص کیا جاتا ہے۔ منبر کے دائیں بائیں اگر دو علَم لگے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ میر انیس آج حضرت عباسؑ کا مرثیہ پڑھیں گے۔ اگر منبر کے قریب جھولا دکھائی دیتا تو حاضرینِ مجلس سمجھ جاتے کہ آج حضرت علی اصغرؑ کا مرثیہ میر انیس پڑھیں گے۔ مقصد یہ ہے کہ میر انیس کا مجلس میں استقبال بھی ان کے شایانِ شان ہوتا۔ منبر پر بیٹھتے ہی وہ کچھ دیر تک خاموش رہتے اس کے بعد دُعائیہ کلمات ادا کرتے پھر بستہ دار مودب انداز میں منبر کے قریب جا کر انہیں مرثیہ پیش کرتا۔ میر انیس مرثیہ بائیں ہاتھ میں لے کر دایاں ہاتھ زانو پہ رکھ کے دھیمی آواز میں دو تین رباعیات پڑھتے۔ پھر امامِ حسینؑ کے حضور سلام کا نذرانہ پیش کرتے۔ داد و تحسین کے شور میں وہ پھر مرثیہ پڑھتے اور اس کے بعد مجلس کی حالت کچھ یوں ہوتی کہ میر انیس مرثیہ پڑھ رہے ہوتے اور بقول شمس العلماءمولانا ذکاءاﷲ کے ”میر انیس کا طرزِ بیان جوانوں کو مات کرتا تھا اور معلوم ہوتا تھا کہ منبر پر ایک کل کی بڑھیا بیٹھی لڑکوں پر جادو کر رہی ہے جس کا دل جس طرف چاہتی ہے پھیر دیتی ہے اور جب چاہتی ہے ہنساتی ہے اور جب چاہتی ہے رلاتی ہے۔“

توقیر ترے ہی آستانے سے ملی
عزت ترے در پہ سر جھکانے سے ملی
مال و زر و آبرو دین و ایماں
کیا کیا دولت ترے خزانے سے ملی!

تبصرے
Loading...