اربعین اور اسیران اہل بیت کا تبلیغی کردار

*اربعین اور اسیران اہل بیت کا تبلیغی کردار*

*شیخ اکبرترابی*

*پیشکش : مجمع طلاب شگر*

اربعین عربی زبان کا لفظ ہے جو چالیس کے عدد پر دلالت کرتا ہے۔اسلامی  روایات  میں چالیس کے عدد کا ایک خاص مقام ہے .مگر جب بھی اربعین کا لفظ سنتا ہے تو ہر ایک کا ذہن ایک مخصوص دن کی طرف جاتا ہےجوکہ آج سے چودہ سوسال پہلے( سنہ 61ہجری) اہل بیت اطہار علیہم السلام پر ظلم کے پہاڑ گرنے، ماں بیٹے، بھائی بہن سے جدائی کے المناک لمحات سے عبارت ہے۔یعنی شہدائے کربلا واسیران آل محمد کے ساتھ ظلم،ستم اور تمام انسانی اصولوں کے پائمالی کی دردناک داستان۔

اہل بیت اطہار علیہم السلام ایک عظیم مقصد کی خاطر اٹھائیس(28)رجب کو کاروان کی صورت میں امام حسین ابن علی علیہ السلام کی قیادت میں مدینہ سے اپنے سفر کا آغاز کرتے ہیں اور دس محرم کو کربلا کی سر زمین پر وہ کاروان دو حصوں میں تقسیم ہوکر ایک حصہ فرات (عراق کے مشہور ترین دو دریاوں میں سے ایک کانام) کے کنارہ کوآخری منزل قرار دیتا ہے اور اپنی ذمہ داری کو ادا کرکے ہمیشہ کے لیے مکمل آزاد  ہوجاتا ہے اور خدا کے نزدیک ان کی منزل کربلا اتنی عزیز ہوتی ہے کہ صبح قیامت تک کےلیے آسمانوں اور زمین والوں کےلیے زیارت گاہ بنا دیتا ہے۔
جب امام حسین علیہ السلام اپنے تمام اصحاب سمیت فرات کے کنارہ کو معلیٰ بناکر وہاں ہمیشہ کےلیے سفر کی تھکان سے چھٹکارا پالیتے ہیں تو وہاں سے کاروان کی سالاری آپ علیہ السلام کے بیٹے علی ابن حسین اور بہادر بہن زینب علیہما السلام  کو مل جاتی ہے اور انہی مقاصد کی تکمیل کے لئے کوفہ وشام کی اسیری میں  اپنی الہی ذمہ داریوں کو ادا کرتے ہیں۔

اس کاروان کی اکثریت زن و بچے پر مشتمل ہے۔ اور ان کے اطراف میں عرب کے پست ترین، شقی ترین اور سفاک ترین انسان  ہیں جنہیں نہ اس کاروان میں موجود ضعیف و ناتواں بیماروں پر رحم آتا ہے اور نہ ان معصوم بچے اور بچیوں کے سر پر دست شفت رکھتے ہیں۔ بلکہ ہر موڑ پر اپنی درندگی وپستی  کا اظہار کرتے ہوئے اس قافلے کو مختلف بازاروں اور درباروں میں پھراتے ہیں۔

یہ کاروان اہل بیت  ظاہرا  اسیری کی حالت میں ہیں مگر اپنے خاندان کی شجاعت وبہادری کا بھرپور اظہار کرتے ہیں۔جس میں امام زین العابدین اور سیدہ زینب علیھماالسلام کے خطبات آج بھی فتح کی علامت بن کر تاریخ کے اوراق پر موجود ہیں۔
اور نہ فقط بڑوں نے شجاعانہ سفر جاری رکھا بلکہ پورے سفر کے دوران کسی ایک بچے نے بھی کمزوری نہیں دکھائی نہ کسی سے رحم وکرم کی التجاء کی اور نہ کسی سے بیچارگی کا اظہار کیا جسکی مثال ایک ہی نہی بلکہ تاریخ ان مثالوں سے بھری پڑی ہے۔
بہر حال اس کاروان کو کوفہ  دربار ابن زیاد (دارالامارہ) میں اور شام  یزید کے دربار (دارالخلافہ) میں لے جایا گیا جس کا مقصد اہل بیت  علیہم السلام سے دشمنی اور اپنی جیت کا اظہار کرنا تھا۔

لیکن وقت بہترین قاضی ہوا کرتا ہے
اور وقت نے آئینہ دکھا دیا کہ کون رسوا ہوگئے اور جیت کس کی ہوگئی ۔

جب یہ کاروان کوفہ کے دربار میں داخل ہوا تو اس دربار میں سونے کی تخت پر نشے میں مست ابن زیاد خوشی کے عالم میں سوال کرتا ہے کہ خدا نے تمہارے خاندان کے ساتھ کیا کیا اور تمہیں کتنا ذلیل کردیا؟ تو شجاعت حیدری کی مالکن نے جواب میں ایسا جملہ کہا: *“مارایتُ اِلّا جمیلاً”* اور اسی ایک جملہ نے ابن زیاد کی خوشی کو غم میں اور جیت کو شکست میں بدل کر، سارے غرور کو خاک میں ملا دیا یوں کوفہ کی فضا بدلنے میں زینب کامیاب ہوگئی۔
اسی طرح دربار شام  جوکہ دربار کوفہ سے دو گنا زیادہ سجا کر مختلف مہمانوں سے بھرا ہوا تھا جس میں اہل بیت  علیہم السلام کو گھنٹوں انتظار کی اذیت سہنے کے بعد داخلے کی اجازت مل گئی ۔ اس دربار میں بھی یزید شراب کے نشہ میں شعر و شاعری کے ذریعے کبھی اپنی جیت کی گن گاتا تو کبھی اپنے آباء واجداد کو بلاتا اور بدر کے کافرین کو خطاب کرتے ہوئے کہتا کہ آج میرے باپ دادا ہوتے تو مجھے شاباش کہتے۔
*لَاَھلُّوا واستاھلُّوا فرحاً*
مگر یزید کیا جانے کہ وہ کس کے سامنے منہ کھول رہا ہے؟ حضرت زینب علیہا السلام نے یزید کی باتوں اور تنزیہ کلمات کا وہی جواب دیا جو جواب معاویہ کو امیرالمومنین نے دیا تھا “اے معاویہ تمہارا یہ کہنا کہ تمھارے پاس میرے اور میرے اصحاب کےلئے تلوار کے علاوہ کچھ نہیں ہے تو یہ کہہ کر تم نے رونے کو ہنسایا ہے۔ بھلا تم نے اولاد عبدالمطلب کو کب دشمنوں سے پیچھے ہٹتے یا تلوار سے خوفزدہ ہوتے دیکھا ہے؟(نہج البلاغہ، مکتوب29)
یزید کو لسان اللہ کے لہجہ میں بنت حیدر کرار نے زبان علی سے خطاب کرنا شروع کیا تو انقلاب حسینی کی شعائیں دربار یزید میں پھیلنا شروع ہو گئیں اور آج بھی وہی شعائیں برق کی رفتار میں ہر جگہ پہنچ رہی ہیں۔

حضرت زینب علیہا السلام نے ان تمام لوگوں کے سامنے یزیدکی بادشاہت کی اصلیت دکھانا شروع کر دی اور ایسا خطبہ دیا کہ لوگوں کو علی  کابیان ولہجہ یادآگیا ۔ آپ علیھا السلام نے فرمایا *اِنّی لاَستَصغِرُ* اور یہ ایسا جملہ تھا جس نے یزید کے غرور وتکبر کو سب کے سامنے مٹی میں ملادیا۔
اور آپ کی بصیرت نے امام سجاد علیہ السلام کے اس فرمان کی تصدیق کردی کہ آپ نے اپنی پھوپھی سے فرمایا تھا *انکِ عَالِمَۃ غیر معلمۃ* آج کے زمانے میں بڑے بڑے محققین پریشان ہیں کہ علی علیہ السلام کی بیٹی نے ایسا چلینج کیسے کیا کہ *واللہ لا تمحو ذکرنا و تمیت وحینا* نہ تو تم ہمارے ذکر کو روک سکو گے اور نہ ہماری طرف ہونے والی وحی الہی کو مٹاسکو گے۔ بھلا الہام کی مالکن کے علاوہ ایسی گفتگو کون کرسکتا ہے؟

یزید نے اپنی بناوٹی سلطنت کےلیے خطرہ محسوس کیا اور اہلبیت علیہم السلام کو مدینہ واپس بھیجنے کا فیصلہ کیا۔

جب حکم نامہ صادر کیا تو حضرت زینب علیہا السلام نے فرمایا: مجھے ابھی تک اپنے بھائی پر رونے نہیں دیا گیا ہے ہمارے لیے اسی دربار میں جگہ فراھم کریں تاکہ دل کھول کر ہم ماتم کرسکیں اس طرح حضرت زینب نے عزاداری امام حسین علیہ السلام کی بنیاد رکھی اور پیغام عاشورا کو مزید پھیلانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی اور شام کی خواتین کو بنی امیہ کی اسلام دشمنی سمجھا کر انکی صدیوں کی محنت پر پانی پھیر دیا۔

اور جب قافلہ نعمان بن بشیر کی سربراہی میں مدینہ کی طرف جانے لگا تو حسین علیہ السلام کی بہادر بہن نے مطالبہ کیا کہ ہمیں کربلا معلی کی طرف لے جائیں اور کاروان حسینی کے لٹے ہوئے قافلے کا رخ کربلا کی طرف موڑ دیا۔ یوں عزاداری کے ساتھ اربعین حسینی کی ابتداء بھی حضرت زینب علیہا السلام نے کی اور اس میں اتنا خلوص تھا کہ امام حسن عسکری علیہ السلام کے فرمان کے مطابق مومن کی پانچ علامتوں میں سے ایک علامت زیارت اربعین قرار پایا۔ اور کربلاء کی سر زمین پر پہنچ کر سب سے پہلے اپنے بھائی کی قبر پر سر رکھ کر فریاد کی اور دشمنوں کے ایک ایک ظلم و ستم کو بیان کرنے لگی۔ اور فرمایا:
بھیا! آپ کے مشن کو کامیاب بناکر آئی ہوں،
آپ کے دشمن کو رسوا کرکے آئی ہوں اور آپ کی عزاداری کی بنیاد رکھ کر پہنچی ہوں۔

لیکن بھیّا مجھے معاف کرنا کہ آپ کی امانت سکینہ علیہا السلام کو واپس نہ لاسکی۔

تبصرے
Loading...