آدم(علیه السلام) کا عبرت آموز امتحان اور اس کا انجام

قرآنی آیات سے بخوبی استفادہ ہوتا ہے کہ آدم زمین پر زندگی بسر کرنے کے لئے پیدا ہوئے ہیں ۔ سورہٴ بقرہ کی آیت ۳۰ میں ارشاد فرماتاہے: ”اِنِّیْ جَاعِلٌ فِی الْاٴَرْضِ خَلِیفَة؛میں زمین پر اپنا خلیفہ بنانا چاہتا ہوں“

پھر خداوندسبحان نے آدم کو ایک گھر میں رہائش عطا کی جس میں ان کی زندگی کو نعمتوں سے مال مال اور گوارا کردیا تھا، ان کی جگہ کو پُر امن و امان بنادیا تھا، ان کو ابلیس کی عداوت اور دشمنی سے خبردار کردیا تھا، لیکن (آخر کار) ان کے دشمن نے ان کو فریب دیا چونکہ وہ ان سے حسد کرتا تھا اور اس بات پر شدت سے ناراض تھا کہ انہیں ہمیشگی مقام پر نیک حضرات کا ہم نشین بنادیا گیا ہے ۔

آدم نے اپنے یقین کو اس کے شک و تردید سے معاملہ کرلیا اور اپنے مضبوط فیصلہ اور ارادے کو اُس کی بے جان بات سے بدلہ کرلیا ۔ اسی بات کی خاطر انہوں نے اپنی خوشی کو خوف اور وحشت میں بدل دیا ، شیطانی فریب سے اُنہیں پشیمانی نصیب ہوئی ، اس کے بعد خداوند سبحان نے ان کے لئے توبہ کا دامن بچھایا اور رحمت کے کلمات اُنہیں سکھائے، واپس بہشت میں لانے کا وعدہ دیا اور انہیں آزمائش کے مقام (دنیا) ، اولاد کی پیدائش اور نسل بڑھانے کے مقام پر بھیجدیا ۔

شرح اور تفسیر

گذشتہ کلام میں فرشتوں اور ابلیس کی آزمائش و امتحان کی بات تھی لیکن یہاں پر اس کلام میں، در حقیقت آدم کے امتحان اور اس امتحان کے انجام کی گفتگوہے ۔

قرآنی آیات سے بخوبی استفادہ ہوتا ہے کہ آدم زمین پر زندگی بسر کرنے کے لئے پیدا ہوئے ہیں ۔ سورہٴ بقرہ کی آیت ۳۰ میں ارشاد فرماتاہے: ”اِنِّیْ جَاعِلٌ فِی الْاٴَرْضِ خَلِیفَة؛میں زمین پر اپنا خلیفہ بنانا چاہتا ہوں“اور قرآنی آیات سے یہ بھی استفادہ ہوتا ہے کہ یہاں پر زمین سے مراد بہشت کے علاوہ کوئی اور جگہ ہے (بہشت کوئی بھی معنی میں ہو)اس لئے کہ سورہٴ بقرہ کی آیت ۳۶ میں ہم پڑھتے ہیں: ”قُلْنَا اھْبِطُوا بَعْضُکُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ وَلَکُمْ فِی الْاٴَرْضِ مُسْتَقَرٌّ وَمَتَاعٌ إِلیٰ حِین؛ان (آدم ان کی زوجہ اور شیطان) سے ہم نے کہا سب کے سب (زمین پر) اتر جاؤ، حالانکہ تم میں سے بعض ایک دوسرے کے دشمن ہوجاوٴگے اور زمین تمہارے لئے معین مدت تک قیامگاہ ہوگی“۔

لیکن بہرحال ضروری تھا کہ آدم ، الٰہی آزمائش اور امتحان کے ایک دور کا تجربہ کریں، امر ونہی، تکلیف ، اطاعت ، عصیان، پشیمانی اور توبہ جیسے مطالب سے آشنا ہوجائیں اور عملی میدان میں اپنے دشمن کو نجوبی پہچان لیں، لہٰذا خداوند عالم نے انہیں جنت میں بھیجا اور وہاں کی عالی نعمتوںسے استفادہ کرنا اُن کے لئے مباح قرار دیا، فقط ایک درخت کے قریب جانے سے انھیں منع کیا، لیکن شیطانی وسوسے اور اس کے مکرو فریب، آخر کار موٴثر ثابت ہوئے اور آدم، ترک اولیٰ کے مرتکب ہوئے، شجر ممنوعہ سے کھایا اور بہشتی لباس سے نکل گئے، یہ چیز ان کی بیداری اور اللہ جلّ سبحانہ کی جانب بازگشت کا سبب ہوئی اور توبہ کے دروازے سے پلٹ آئے، لطف الٰہی ان کے شامل حال ہوا، انہیں توبہ کرنے کی کیفیت تعلیم دی اور پھر ان کی توبہ کو قبول کیا اور نعمتوں سے مالا مال اور خوشحال زندگی سے زمین کی رنج و غم اور پر زحمت زندگی کی طرف بھیج دیا ۔

مولائے کائنات علی علیہ السلام کے خطبہ کے اس حصّہ کے مضمون اور آدم کے قصہ کا کلی طور پر یہ ایک خلاصہ اور دور سے ایک جائزہ ہے ۔ اب ہم اصل خطبہ کی طرف واپس پلٹتے ہیں اور اس کے کچھ جملوں کی تفسیر اور شرح کرتے ہیں ۔

سب سے پہلے ارشاد فرماتے ہیں: ”پھر اللہ سبحانہ تبارک و تعالیٰ نے، آدم کو ایک گھر میں رہائش عطا کی جس میں ان کی زندگی کو نعمتوں سے مالا مال اور گوارا کردیا تھا“(ثُمَّ اَسْکَنَ سُبْحَانَہُ آدَمَ دَاراً اٴَرْغَدَ(۱) فِیھَا عَیْشَہُ) ۔

”ان کی جگہ کو پُرامن وامان قرار دیا تھا“ (وَآمَنَ فِیھَا مَحَلَّتَہُ) ۔

اور اس طرح زندگی کے دو اصلی رکن جو امن وامان اور نعمت کی فراوانی ہے، وہاں پر فراہم تھے ۔

اس عبارت میں امام علیہ السلام کی تعبیر اصل میں سورہٴ بقرہ آیت ۳۵ کی جانب اشارہ ہے جس میں خداوندعالم ارشاد فرماتا ہے: ”وَقُلْنَا یَاآدَمُ اسْکُنْ اٴَنْتَ وَزَوْجُکَ الْجَنَّةَ وَکُلَامِنْھَا رَغَدًا حَیْثُ شِئْتُمَا؛“ہم نے آدم سے کہا تم اور تمھاری زوجہ جنت میں ساکن ہوجاوٴ اور اس کی نعمتوں میں جس جگہ سے بھی چاہو پاک اور گوارا کھاوٴ“۔

اور اس عالم اُنھیں خبردار کیا ”اور اُنھیں ابلیس اور اس کی عداوت ودشمنی سے برحذر کیا“ (وَحَذَّرَہُ اِبْلِیْسَ وَعَدَاوَتَہُ) ۔

اسی حال میں اُنھیں سعادت کا راستہ بھی دکھایا اور شقاوت وبدبختی کے کنویں کی بھی نشاندہی کردی اور ہر طرف سے اُن کے اوپر حجت تمام کی، یہ بات اُس چیز کی طرف اشارہ ہے جو سورہٴ طٰہٰ کی آیت ۱۱۷ میں بیان ہوئی ہے جس میں پروردگار ارشاد فرماتا ہے: ”فَقُلْنَا یَاآدَمُ إِنَّ ھٰذَا عَدُوٌّ لَکَ وَلِزَوْجِکَ فَلَایُخْرِجَنَّکُمَا مِنَ الْجَنَّةِ فَتَشْقَی ؛اے آدم! یہ (ابلیس) تمھارا اور تمھاری زوجہ کا دشمن ہے ایسا نہ ہو کہ وہ تمھیں جنت سے باہر نکال دے کہ پھر زحمت اور رنج وغم میں گرفتار ہوجاوٴگے“ مزید اتمام حجت کے لئے یہاں تک کہ وہ درخت بھی دکھادیا جس کے قریب نہیں جانا چاہیے تھا البتّہ دیگر بہشتی درختوں سے استفادہ کرنے کے لئے اُ ن کے لئے راستہ کھلا چھوڑدیا ۔

لیکن راستے کا یہ نیا مسافر جو ّٰشیطان کے فریب اور حیلوں کے بارے میں کافی معلومات نہیں رکھتا تھا آخر کار شیطان کے جال میں گرفتار ہوگیا اور جیسا کہ امام علیہ السلام گفتگو کو جاری رکھتے ہوئے فرماتے ہیں: ”ذشمن نے اُن کو دھوکہ دیا چونکہ وہ اُن سے اس لئے حسد کرتا تھا کہ وہ ہمیشگی مقام پر نیک حضرات (فرشتوں) کے ہم نشین ہیں“ (فَاغْتَرَّہُ عَدُوُّہُ نَفَاسَةً عَلَیہِ بِدَارِ الْمُقَامِ الْاَبْرَار، وَمُرَافِقَةِ) ۔

۱۔ ”ارغد“ کا مصدر ”رغد“ (بروزن ”صَمد“ ہے اصل میں بہترین اور خوشحال زندگی کے معنی میں ہے، انسان اور حیوان کے سلسلہ میں نعمت کی فراوانی کے معنی میں بھی آیا ہے ۔ (مفردات و مقاییس اللغة) ۔

تبصرے
Loading...