آج لوگوں کے معنوی اعتماد اور امید کا مرکز علماء ہیں

اگر ہم تبلیغ نہ کریں، حقائق بیان نہ کریں، اسلامی تعلیمات کا صحیح دفاع نہ کریں، توحید، حکومت الہی، خدا کے سامنے انسان کی عبودیت کے التزام اور احکام خدا کے سامنے انسان کے تسلیم ہونے کی ضرورت کو جو اصلی بنیادیں ہیں، بیان نہ کریں تو یہ بیان نہ کرنے، صحیح دفاع نہ کرنے اور استدلال کے ساتھ ان کو ثابت نہ کرنے کا جو نقصان ہوگا وہ کسی خاص حد تک محدود نہیں رہے گا بلکہ سب کو اپنی لپیٹ میں لےگا۔

اب یہاں سے میں، عالم دین کی حیثیت سے اپنے بالخصوص آئمہ جعمہ کے فرائض کی طرف آنا چاہتا ہوں۔ میری نظر میں یہ بہت سنگین فریضہ ہے۔ آئمہ جمعہ حضرات کو جو کام کرنا ہے وہ بہت بڑا اور عظیم ہے۔ نہ سرسری طور پر اس سے گزرنا چاہئے اور نہ ہی اس کو آسان سمجھنا چاہئے۔

البتہ بعض حضرات کے ذہن میں جو بات آ سکتی ہے وہ میرے ذہن میں بھی ہے۔ ممکن ہے کہ بعض حضرات کہیں کہ ہم کتنی ہی تبلیغ کر لیں، دوسری طرف ریڈیو، ٹیلیویزن اور ایسے مراکز ہیں جو ہمارے خلاف پروپیگنڈہ کرتے ہیں۔ میں اس سے کسی حد تک اتفاق کرتا ہوں تاہم میں اسے فطری طور پر سو فیصد قبول نہیں کر سکتا۔ ہاں منفی اور مسموم پروپیگنڈے وہاں ہیں لیکن میں مسائل کو ایک دوسرے سے الگ کر سکتا ہوں۔ میں کہتا ہوں کہ دو مسئلے ہیں۔ 

ایک مسئلہ یہ ہے کہ دیکھیں کہ ہمارا غیر جو ہمارے خلاف پروپیگنڈہ کرتا ہے وہ کیا ہے۔ اس کا تدارک کریں۔ اس میں شک نہیں ہے۔ لیکن یہ کام صحیح تدبیر کے ساتھ ہونا چاہئے۔ انشاء اللہ امید ہے کہ اس کی اصلاح ہوگی۔ اس پر کام ہو رہا ہے۔

دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ اسی صورتحال کو مد نظر رکھتے ہوئے اور اس بات پر توجہ دیتے ہوئے کہ ہمارا ریڈیو اور ٹیلیویزن کا ادارہ، اسلامی ماحول کے لئے اعلا مطلوبہ سطح پر نہیں ہے، کرنا کیا چاہئے؟ کیا اس صورتحال کی وجہ سے ہمارے کندھوں سے فریضے کا بوجھ ہٹ جاتا ہے؟ کیا ہمارے علماء کی برادری یہ دعوا کر سکتی ہے کہ اس معاشرے کے نوجوانوں ، عورتوں اور مردوں کو متوجہ کرنے کے لئے، تمام ضروری کام اور کوششیں انجام دے رہی ہے؟ یہ وہ سوال ہے کہ جس کا ہمیں جواب دینا ہے۔ اس منزل پر میں خود کو بھی، آپ کی طرح ایک عالم کی حیثیت سے جواب دہ سمجھتا ہوں۔ البتہ دیگر فرائض بھی ہیں جن پر اپنی جگہ پر عمل ہونا چاہئے۔ امید ہے کہ عمل ہوگا۔

بیان کے سلسلے میں کیا ہے؟ میں کہتا ہوں کہ ایک شہر میں نماز جمعہ کے منبر سے جو توقع ہے وہ صرف یہ نہیں ہے کہ ہم کچھ چیزیں تیار کریں اور جاکے منبر سے بیان کر دیں۔ توقع اس سے زیادہ ہے۔ توقع یہ ہے کہ ہم ایک طبیب کی طرح ہوں جو بیماری کے تجسس میں رہتا ہے، اس کا پتہ لگاتا ہے اور محنت سے اس کی دوا تیار کرتا ہے، زخم پر لگاتا ہے یا بیمار کو کھلاتا ہے۔

ہمارا فرض یہ نہیں ہے کہ ہم یہ کہیں کہ ” ہم نے تو بتا دیا اب جو چاہے عمل کرے” یہ بات اس دور کے لئے کہ جب حکومت مسلمانوں کے پاس ہے، صحیح نہیں ہے۔ اس دور میں حکومت چلانے کی ذمہ داری ہمارے پاس ہے اور دشمن پوری کوشش کر رہا ہے کہ ذہنوں سے اسلامی باتوں کو بالکل نکال دے۔ ہمارا فریضہ صرف یہ نہیں ہے کہ ہم نے اپنی بات کہہ دی، ہوا ہوا نہ ہوا نہ سہی۔ ہمیں اپنی بات کہنی چاہئے، لیکن یہی کافی نہیں ہے۔ ہمیں اپنی بات دلوں تک پہنچانی ہے۔ ” وما علی الرسول الاالبلاغ ” (5) یہ بات قابل قبول نہیں ہے کہ ہوا میں پھینک دیا کسی نے سمجھا تو سمجھا اور اگر کسی نے نہ سمجھا تو نہ سمجھا۔ جس تک بات پہنچی پہنچی، جس تک نہ پہنچی نہ پہنچی۔ میں اس کو ایک مشکل کی حیثیت سے دیکھتا ہوں۔ 

البتہ میں جانتا ہوں کہ حضرات، کوشش کرتے ہیں محنت کرتے ہیں۔ ہر شہر میں امام جمعہ کے پاس لوگ آتے ہیں، اس سے ان کی توقعات ہوتی ہیں۔ اس کے پاس دفتری، سیاسی اور عوامی امور ہوتے ہیں۔ عوام بہت سی مشکلات کا حل اس سے طلب کرتے ہیں۔ حتی صرف اس بنا پر کہ وہ صاحب عمامہ ہے اور بعض حکام بھی صاحب عمامہ ہیں، بعض تنگ نظر، مشکلات کا سبب اس کو سمجھتے ہیں۔ میں ان باتوں کو جانتا ہوں۔ لیکن ان مشکلات کو حل کرنا اور اپنے حقیقی فریضے تک پہنچنا ضروری ہے۔

بھائیو! آج اگر کسی شہر میں امام جمعہ، بالفرض، دو سرکاری افسروں کا اختلاف حل نہ کر سکا تو آسمان زمین پر نہیں آجائے گا۔ البتہ اگر اصلاح کر سکا تو بہت بہتر ہے لیکن اگر میں کسی شہر میں رہوں، دین خدا کے بیان کا یہ عظیم منبر اور پلیٹ فارم میرے پاس ہو اور نوجوان، گروہ در گروہ بے دین ہوتے جا رہے ہوں تو یہ المیہ ہے۔ 

ہمیں سب سے پہلے یہ فکر کرنی چاہئے کہ نوجوانوں کو نماز جمعہ میں کیسے لایا جائے۔ میں پورے ملک حتی بعض چھوٹے شہروں اور قصبوں کی نماز جمعہ کی رپورٹوں کو دیکھتا ہوں۔ ان رپورٹوں سے میرے ذہن میں جو بات آتی ہے وہ یہ ہے کہ اس مسئلے پر غور و فکر کرنا چاہئے۔ سارا قصور دوسرے کی گردن پر ڈال دینا بہت آسان ہے۔ یہ کہہ دیں کہ اقتصادی حالت یہ ہے، گرانی ایسی ہے، فٹبال کی حالت یہ ہے، اس لئے لوگ نہیں آتے ۔ یہ کہا جا سکتا ہے لیکن صحیح نہیں ہے۔

یہ گوشہ و کنار میں موجود عوامل ہیں جو موثر بھی ہیں ، بے تاثیر نہیں ہیں لیکن نماز جمعہ میں نوجوانوں کے نہ آنے، یا کم آنے یا شوق سے نہ آنے کا عامل یہ نہیں ہے۔ اصل معاملہ یہ ہے کہ اس مرکز میں کشش ہونی چاہئے تاکہ انہیں اپنی طرف کھینچا جا سکے۔ اگر کشش ہو تو کھینچے گی حتی ہر قسم کے لوگوں کو ٹیلیویژن چھوڑ کر اٹھنے پر بھی مجبور کر دے گی۔

حضرات اس مسئلے پر فکر کریں۔ میری درخواست اور توقع یہ ہے کہ حضرات ان جلسوں میں اس مسئلے پر غور کریں کہ اس مسئلے کے لئے کن عوامل کو بروئے کار لایا جا سکتا ہے۔ کون سا طرز بیان اختیار کیا جائے۔ کشش پیدا کرنے اور لوگوں کو اپنی طرف لانے کے لئے کیا کیا جائے۔ ممکن ہے کہ بعض حضرات کے پاس صحیح اسلوب بیان کی شناخت کے لئے ضروری جدت عمل نہ ہو۔ بیٹھیں اور جو کہنا ہے اس کو بہترین انداز بیان کے ساتھ (تحریری شکل میں) تیار کریں اور سب کو دیں۔ 

ہمیں اتنے اہم مرکز کو یونہی نہیں چھوڑ دینا چاہئے۔ ہمارے کام کی بنیاد یہاں ہے۔ نماز جمعہ دلوں کو محکم اور ایمان کو قوی کرتی ہے۔ لوگوں کو اقدام کی ہمت عطا کرتی ہے۔ ان عظیم سپاہیوں اور جنود اللہ کو وقت ضرورت حرکت میں لاتی ہے۔ اگر یہ حربہ کند ہو گیا تو بہت سی مشکلات وجود میں آ جائیں گی۔ 

الہی نظام عوام پر استوار ہے۔ عوام ہر چیز سے زیادہ ، اپنے ایمان اور جذبات کے ساتھ میدان میں آتے ہیں۔ ان کے جذبات کو اپنی طرف موڑنا اور ان کا اعتماد حاصل کرنا ضروری ہے۔ اس سلسلے میں میرے پیش نظر کچھ باتیں ہیں جو آئمہ جمعہ سے ہی مخصوص نہیں ہیں بلکہ ان کا تعلق تمام علماء سے ہے۔ ان باتوں کو ہمیں ایسے اجتماع میں عرض کرنا چاہئے کہ جو صرف آئمہ جمعہ حضرات سے مخصوص نہ ہو کہ گھر کا سارا بوجھ انہیں حضرات پر آ جائے لیکن یہاں جو میں عرض کر سکتا ہوں یہ ہے کہ یہ ایک منبر ہے۔ یہ منبر جو ہمارے اختیار میں ہے، یہ بہت سنگین ذمہ داری ہے۔ اس ذمہ داری کو اس کی تمام خصوصیات اور شرائط کے ساتھ قبول کرنا چاہئے اور اسی انداز میں اس سے استفادہ کرنا چاہئے جو ضروری ہے۔

آج لوگوں کی نگاہیں آپ پر ہیں۔ آج لوگوں کے معنوی اعتماد اور امید کا مرکز علماء ہیں اور ملک میں ہر جگہ آئمہ جمعہ، علمائے دین کے عمومی مظہر ہیں۔ البتہ دینی تعلیم کے مراکز میں اساتذہ اور مراجع ہیں لیکن دینی تعلیم کے مراکز ملک کے چند مخصوص علاقوں میں ہیں۔ جو چیز ملک کے ہر حصے میں عمومیت کے ساتھ موجود ہے وہ امامت جمعہ ہے۔ امامت جمعہ، علمائے دین کی بھی نمائندگی ہے اور نظام کی نمائندگی بھی ہے کیونکہ نظام، اسلامی نظام ہے۔

اس اہم مرکز میں اس نقطہ نگاہ ، اس تاثر اور توجہ کے ساتھ آنا چاہئے اور اسی مناسبت سے موضوع کا انتخاب کرکے عوام کے سامنے بیان کرنا چاہئے۔ میرا خیال ہے کہ اس بنیاد پر کچھ کرنا چاہئے۔ مجھے اس میں کوئی اعتراض نہیں ہے کہ جو کام بھی انجام پائے میں خود بھی اس میں شریک رہوں۔ اگرچہ میری مشغولیت زیادہ ہے لیکن میں اس مسئلے کو بہت اہم سمجھتا ہوں اور میرا نظریہ ہے کہ اس کام کے بارے میں بنیادی فکر کی ضرورت ہے۔

اسلامی مسائل پر مشتمل مسودہ تیار کیا جائے، اسے مناسب انداز میں لکھا جائے، پیش کیا جائے اور ملک میں ہر جگہ اس طرح بیان کیا جائے کہ دلوں اور اذہان میں اتر جائے۔ ایسے اسلامی مسائل سے متعلق باتوں کا انتخاب کیا جائے جن میں موجودہ اور ممکنہ شبہات کا جواب موجود ہو۔ میں جانتا ہوں کہ مختلف وسائل کے ذریعے اس طرح کے شبہات عوام کے مخصوص طبقات میں پھیلائے جاتے ہیں۔

مغرب کے مادہ پرست مفکرین، فلاسفہ اور مصنفین کے افکار آج یونیورسٹیوں کی سطح پر ان کی کتابوں اور ان کے تراجم کی شکل میں موجود ہیں۔ ان کو آنے سے روکا نہیں جا سکتا۔ ممکن نہیں ہے، مصلحت کے خلاف بھی ہے۔ افکار و نظریات آئیں، موجود ہوں۔ ان افکار کے مقابلے میں اکسیر تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔ اس ملک کے علمائے دین نے ملک کے نوجوانوں کو پرکشش مارکسی افکار کے مقابلے مین اکسیر دیکر انہیں ان افکار سے محفوظ بنا دیا ۔ 

کیا اس ملک میں مارکسسٹوں نے کم کام کیا ہے۔ کم رسائل شائع کئے ہیں۔ کم بحث کی ہے۔ یہی اسلامی مفکرین اور علمائے دین تھے جو ان کی شیریں، پر کشش اور پر فریب باتوں سے، جن کی دلفریبی باتیں کہیں اور شاذ و نادر ہی نظر آتی ہیں، ہمارے نوجوانوں کو محفوظ رکھنے میں کامیاب رہے۔ ہمارے نوجوانوں میں ایسے افراد بھی تھے جو مارکسسٹوں سے علمی مناظرہ کرتے تھے۔ اب کوئی بھی فکر ہو ان کی فکر جیسی پر کشش تو نہیں ہوگی ۔ 

ہمیں ایسا مسودہ تیار کرنا چاہئے جو ان انحرافات تحریفات اور غلط افکار کے جواب میں ہو جو مختلف کتابوں اور رسائل کے توسط سے ہمارے نوجوانوں میں فکری خوراک کے عنوان سے تقسیم کئے جاتے ہیں۔ حتی کبھی کبھی نا دانستگی میں یونیورسٹیوں کے نصاب کی کتابوں اور کتابچوں نیز ہمارے ذرائع ابلاغ عامہ کی گفتگو میں بھی اس قسم کی باتیں آ جاتی ہیں۔ ہمیں ان کا جواب تیار کرنا چاہئے۔ اچھی فکر کے مالک اور دانشور حضرات وقت دیں اور تیار کریں تاکہ تمام آئمہ جمعہ کے درمیان اس کو تقسیم کیا جائے، اس کا مطالعہ کیا جائے اور اس پر کام کیا جائے۔ باریک بینی کے ساتھ سیاسی تحلیل و تجزیئے تیار کئے جائیں، موجودہ سیاسی مسائل کا دقت نظر اور گہرائی کے ساتھ جائزہ لیا جائے اور انہیں ائمہ جمعہ کے حوالے کیا جائے۔ یہ وہ کام ہیں جو اس مجموعے کو انجام دینا چاہئے۔ یہ مجموعہ، ملکی سطح پر ایک منظم مجموعہ ہے جس کو اپنے کام خود اپنے اندر ہی تیارکرنا چاہئے۔ البتہ مرکز میں لازمی طور پر بعض برادران کے ذمے کچھ فرائض ہیں۔

ان طریقوں کا انتخاب کرنا چاہئے۔ جمعہ کے منبروں کو پر کشش بنانا چاہئے اور نوجوانوں کو اس کی طرف لانا چاہئے۔ ان چیزوں سے پرہیز کرنا چاہئے۔ جو چیزیں لوگوں میں علمائے دین سے اعتماد اٹھ جانے کا باعث ہوں ان سے اجتناب کرنا چاہئے۔ اس اعتماد کی حفاظت کرنا بھی علمائے دین کے اہم فرائض میں شامل ہے۔ کیونکہ علماء پر اعتماد دین پر ایمان کا لازمہ ہے۔ بہت کم لوگ ایسے ملیں گے جو علمائے دین کو قبول نہ کرتے ہوں لیکن دین پر صحیح عقیدہ رکھتے ہوں۔ بعض لوگوں نے یہ دعوا کیا ہے مگر ہمیں بہت کم ملے ہیں۔ لوگوں نے دین کو اسی راستے سے پہچانا ہے۔ دین پر لوگوں کا ایمان اس صنف پر ان کے اعتماد کے ساتھ ہے۔

کمیشنوں میں ان مسائل پر بحث کی گنجائش ہے۔ الحمد للہ چند دنوں کا وقت ہے۔ ان موضوعات کا جائزہ لیا جا سکتا ہے۔ ان پر غور و خوص جا سکتا ہے۔ خلوص کے ساتھ جائزہ لیکر راستہ نکالا جا سکتا ہے۔ خدا بھی مدد کرے گا۔ 

خدا کے فضل سے ملک کے، امامت جمعہ کے ادارے نے اب تک عظیم خدمات انجام دی ہیں۔ ملک اور انقلاب کی حفاظت کی ہے۔ لوگوں میں امید اور شادابی پیدا کی ہے۔ آئندہ بھی انشاء اللہ اسی طرح رہے اور خدا کے فضل سے رہے گا۔ اس کے وسائل ہمارے اختیار میں ہیں۔ ہمیں سعی و کشش کرنی چاہئے۔ تاکہ انشاء اللہ رحمت الہی حاصل ہو۔ امید ہے کہ خدا وند عالم آپ حضرات کو توفیق عنایت فرمائے گا ، ہم سب کی رہنمائی کرے گا اور رشد و ہدایت کے راستے ہمارے لئے کھول دے گا۔

1-بحار الانوار، ج 68 ص 173 2- بحار الانوار، ج 7 ص 322 3-توبہ 67 4-توبہ 71 5- نور 54

 

تبصرے
Loading...