۳۰۷ہجری میں آپ کا حجراسود نصب کرنا

  علامہ اربلی لکھتے ہیں کہ زمانہٴ نیابت میں بعہد حسین بن روح ،ابوالقاسم جعفربن محمد بن قولویہ بارادہٴ حج بغداد گئے اوروہ مکہ معظمہ پہنچ کرحج کرنے کافےصلہ کئے ہوئے تھے ۔ لےکن وہ بغداد پہنچ کرسخت علےل ہوگئے ۔ اسی دوران میں آپ نے سناکہ قرامطہ نے حجراسود کونکال لیاہے اوروہ اسے کچھ درست کرکے ایام حج میں پھرنصب کریںگے ۔ کتابوں میںچونکہ پڑھ چکے تھے کہ حجراسود صرف امام زمانہ ہی نصب کرسکتاہے جےساکہ پہلے آنحضرت صلعم نے نصب کیاتھا ،پھرزمانہٴ حجاج میں امام زےن العابدےن نے نصب کیاتھا ۔ اسی بناء پرانھوں نے اپنے ایک کرم فرما” ابن ھشام “ کے ذرےعہ سے ایک خط ارسال کیا اوراسے کہ دیا کہ جوحجراسود نصب کرے اسے یہ خط دےدےنا ۔ نصب حجرکی لوگ سعی کررہے تھے ۔لےکن وہ اپنی جگہ پرقرارنہیں لےتاتھا کہ اتنے میں ایک خوبصورت نوجوان ایک طرف سے سامنے آیا اور اس نے اسے نصب کردیا اوروہ اپنی جگہ پرمستقرہوگیا ۔جب وہ وہاںسے روانہ ہوا توابن ہشام ان کے پےچھے ہولئے ۔راستہ میں انھوںنے پلٹ کرکہا اے ابن ہشام ،توجعفربن محمد کاخط مجھے دےدے ۔دےکھ اس میں اس نے مجھ سے سوال کیاہے کہ وہ کب تک زندہ رہے گا ۔ ا س سے یہ کہدےنا کہ وہ ابھی تےس سال اورزندہ رہے گا یہ کہہ کروہ ونظروں سے غائب ہوگئے ۔ ابن ہشام نے ساراواقعہ بغداد پہنچ کرجعفربن قولویہ سے بیان کردیا ۔ غرضکہ وہ تےس سال کے بعد وفات پاگئے ۔(کشف الغمہ ص۱۳۳) اسی قسم کے کئی واقعات کتاب مذکورمیں موجودہیں ۔

          علامہ عبدالرحمن ملاجامی رقمطرازہیں کہ ایک شخص اسماعےل بن حسن ہرقلی جونواحی حلہ میں مقےم تھا اس کی ران پرایک زخم نمودارہوگیاتھا  جوہرزمانہٴ بحارمیں ابل آتاتھا جس کے علاج سے تمام دنیا کے اطباٴ عاجزاورقاصرہوگئے تھے وہ ایک دن اپنے بےٹے شمس الدےن کوہمراہ لے کرسےدرضی الدےن علی بن طاؤس کی خدمت میں گیا ۔انھوں نے پہلے توبڑی سعی کی ،لےکن کوئی چارہ کارنہ ہوا ہرطبےب یہ کہتاتھا کہ یہ پھوڑا ”رگ اکحل “ پرہے اگراسے نشتر دیاجائے توجان کاخطرہ ہے اس لئے اس کاعلاج ناممکن ہے ۔اسماعےل کابیان ہے کہ  ”چون ازاطباٴماےوس شدم عزےمت مشہدشرےف سرمن رائے کردم“ جب میں تمام اطباء سے ماےوس ہوگیا توسامرہ کے سرداب کے قرےب گیا،اوروہاں پرحضرت صاحب الامرکومتوجہ کیا ،ایک شب دریائے دجلہ سے غسل کرکے واپس آرہاتھا کہ چارسوارنظرآئے ،ان میں سے ایک نے میرے زخم کے قرےب ہاتھ پھےرا اورمیں بالکل اچھا ہوگیا میں ابھی اپنی صحت پرتعجب ہی کررہاتھا کہ ان میں سے ایک سوارنے جوسفےد رےش تھے کہا کہ تعجب کیا ہے تجھے شفادےنے والے امام مہدی علیہ السلام ہیں یہ سن کرمیں نے ان کے قدموں کا بوسہ دیا اوروہ لوگ نظروں سے غائب ہوگئے ۔ (شواہدالنبوت ص۲۱۴وکشف الغمہ ص۱۳۲)

تبصرے
Loading...