۔اکابر اھل سنت کی ایک جماعت مثلاابن حجر عسقلانی نے الا صابة میں

۷۔اکابر اھل سنت کی ایک جماعت مثلاابن حجر عسقلانی نے الا صابة میں[87]، ابن اثیر نےاسد الغابة میں[88] اور دیگر علماء نے اس حدیث کو نقل کیا ھے۔ھم ابن اثیر کی روایت پر اکتفا کرتے ھیں :

”ابو اسحاق کہتا ھے :میرے لئے اس حدیث کو بیان کرنے والوں کی تعداد اتنی زیادہ ھے کہ میں بیان نھیں کرسکتا، کہ علی(ع) نے رحبہ کے  مقام پر رسول خدا(ص) کے اس قول ((من کنت مولاہ فعلی مولاہ اللّٰھم وال من والاہ وعاد من عاداہ))کو سننے والوں کو طلب کیا، ایک گروہ نے اٹھ کر گواھی دی کہ انهوں نے اسے رسول خدا(ص) سے سنا ھے،جب کہ کچھ لوگوںنے اسے چھپایا اور جنهوں نے وھاں گواھی نہ دی تھی،اندھے هونے اور آفت میں گرفتار هونے سے پھلے نہ مرے۔“

حضرت علی(ع) کا اس روایت کے ذریعے اتمام حجت کرنا اور گواھی کے لئے لوگوں کو طلب کرنا اس بات کا کھلا ثبوت ھے کہ حدیث میں، منصب ِولایت ِامر اور زعامت ِامت ھی مراد ھے۔

۸۔ولایت علی ابن ابی طالب(ع) کو بیان کرنے سے پھلے آنحضرت(ص) نے فرمایا: ”خدا میر ا مولاھے اور میں ھر مومن کا مولاهوں۔“ خدا آپ(ص)کا مولاھے یعنی  خدا کے علاوہ کسی اور کو آنحضرت(ص) پر ولایت حاصل نھیں اور جس طرح سے خدا آپ(ص) کا مولاھے، آپ بھی اسی طرح ھر مومن کے مولاھیں اور اھل ایمان پر جو ولایت آنحضرت(ص) کو حاصل ھے حضرت علی(ع) کو بھی وھی ولایت حاصل ھے۔ اور واضح وروشن ھے کہ اس ولایت سے رسول خدا(ص) کی خلافت مراد ھے۔

۹۔حضرت علی(ع) کا اس طرح تعارف کرانے سے پھلے آپ(ص)نے اس جملے کے ذریعے اعتراف واقرار لیا کہ ((اٴلست اٴولی بکم)) سب نے کھا:ھاں یارسول اللہ، اور یہ وھی اولویت ھے جسے خداوند متعال نے قرآن میں فرمایا ھے ہِمْ>[89]

اور اس کے بعد یہ فرمایا: ”جس جس کا میں مولاهوں، علی بھی اس کے مولاھیں“،اور جملہٴ ((اٴلست اٴولی بکم))کو پھلے ذکر فرما کر کلمہٴ ولی کے بارے میں تمام شبھات کو برطرف کر دیا، اور اس طرح یہ مطلب واضح کر دیا کہ مومنین کی نسبت جو اولیت آپ(ص) کو حاصل ھے، حضرت علی علیہ السلام کے لئے بھی وھی الوھیت ثابت ھے۔

حدیث چھارم:

چوتھی حدیث جناب ختمی مرتبت(ص) کا وہ فرمان ھے جس میں آپ نے جناب امیرعلیہ السلام سے یوں فرمایا: ”انت منی وانا منک“[90] اس حدیث کو بخاری کے علاوہ دیگر اکابر ائمہ حدیث نے بھی نقل کیا ھے۔

اس میں کوئی شک نھیں کہ کمال عالم ھستی، عقل ،علم، عبودیت اور اپنے اختیار سے اطاعتِ الٰھی کی بنا ء پر ھے۔ اور انسان کی خلقت کا امتیازی پھلو بھی اسی عقل اور اپنے اختیار سے اطاعت الٰھی کے  سبب ھے۔ نیز انسان کی خلقت کا ھدف و مقصد بھی یھی ھے۔

بنا بر ایں انسان کا کمال عالم غیب سے اس کے مرتبہٴ اتصال اور نور وحی کے ذریعے اس کی عقل کے نورانی ھونے سے وابستہ ھے اور یھی مرتبہ نبوت ھے۔

اور کمال مرتبہٴ نبوت، خالق کی جانب سے مخلوق کے لئے سفارت الٰھی کے عھدے پر فائز هوکر، ان کی عقول کو نور حکمت الٰھی سے منور کرنے سے وابستہ ھے اور یہ مرتبہٴ رسالت ھے

اور کمال مرتبہٴ رسالت، مرتبہٴ خاتمیت تک رسائی ھے جو تا ابد زندہ رھنے والی شریعت کے ساتھ مبعوث هونے کا مقام ھے اور انسانی کمال کی آخری حد بھی یھی ھے۔ اور اس مرتبے کا مالک خاتم ماسبق اور فاتح مااستقبل ،صاحب اسم اعظم اور مثل اعلی یعنی حضرت محمد مصطفی(ص) ھیں ۔

امیر المومنین علیہ السلام اس ھستی کے مرتبے پر فائز ھیں کہ جن کے بارے میں خداوند تعالی نے فرمایا: ھَوَی>[91]

اور اس ھستی نے آپ علیہ السلام کے بارے میں فرمایا: ”علیّ منی“ (علی مجھ سے ھے) یعنی عالم امکان کے اس گوھر یکتا سے علی کا اشتقاق هوا ھے جو نفس قدسی بھی ھے نینر تخلیق کائنات اور خلافت آدم کی علت غائیہ بھی۔

اور آنحضرت(ص)نے صرف اسی جملے پر اکتفاء نھیں کیا بلکہ اس کے بعد فرمایا: –   ” وانا منہ“ تا کہ اس نکتے کو سمجھا سکیں کہ ختمی مرتبت کے وجود اور ان کی بعثت کا مقصد و ھدف اور اس بعثت کی حفاظت کی بنیاد (یعنی دین قویم و صراط مستقیم کی جانب ابتداء اً و استمراراً ھدایت بجز علی اور ان کی معصوم اولاد کے علاوہ کسی اور کے ذریعے ممکن ھی نھیں۔

بنا بر ایں یہ کس طرح ممکن ھے کہ جو شخص پیغمبر سے اور پیغمبر اس سے هوں اس کے اور پیغمبر کے درمیان کوئی اور خلافت حد فاصل واقع هوجائے ۔

     پانچویں حدیث:

فریقین کے اکابر ائمہٴ حدیث ، اس حدیث کی صحت پر متفق ھیں کہ آنحضرت نے فرمایا:

علی مع القرآن والقرآن مع علی لن یتفرقا حتی یردا علی الحوض۔[92]

اس حدیث کے معنی، قرآن مجید کی شناخت کے بعد ھی واضح هوسکتے ھیں۔ مندرجہ ذیل سطور میں بطور اختصار چند نکات ذکر کئے جارھے ھیں۔

۱۔ آسمانی کتب میں قرآن مجید سے افضل کتاب موجود نھیں  ہًا> [93]

ِٕنَّ ہَذَا الْقُرْآنَ یَہْدِی لِلَّتِی ہِیَ اٴَقْوَمُ>[94]

۲۔ خداوند متعال نے قرآن کریم کو ایسے اوصاف سے متصف فرمایا ھے کہ زبان ان کے بیان سے اور قلم ان کی تحریر سے عاجز ھے ۔

 ۔ فِی لَوْحٍ مَحْفُوظٍ>[95]

ِٕنَّہُ لَقُرْآنٌ کَرِیمٌ فِی کِتَابٍ مَکْنُونٍ >[96]

 [97]

ٓنِ الْحَکِیْمِ>[98]

۳۔ خداوند تعالی نے اپنے آپ کو معلم قرآن قرار دیا ھے۔ٓنَ>[99]

۴۔ جبروت الٰھی سے جب امور نے اس کتاب میں تجلی کی ھے ان کی جانب اشارہ کرتے هوئے ارشاد پروردگار ھے۔ہَذَا الْقُرْآنَ عَلَی جَبَلٍ لَرَاٴَیْتَہُ خَاشِعًا مُتَصَدِّعًا مِنْ خَشْیَةِ اللهِ>[100]

۵۔ اسراز و رموز کے پردے میں مخفی، خداوند تعالیٰ کے قدرت نے آیات قرآن میں تجلّی کی ھے۔ اس کی نشاندھی کرتے هوئے خداوند تعالی نے فرمایا:ہِ الْجِبَالُ اٴَوْ قُطِّعَتْ بِہِ الْاٴَرْضُ اٴَوْ کُلِّمَ بِہِ الْمَوْتَی>[101]

۶۔ یہ کتاب، مظھر علم و حکمت الٰھی ھے ِٕنَّکَ لَتُلَقَّی الْقُرْآنَ مِنْ لَدُنْ حَکِیمٍ عَلِیمٍ>[102]

ہُدًی وَرَحْمَةً>[103]

 ۷۔ اس کتاب کے نازل کرنے پر خداوند تعالی نے خود اپنی تعریف و تمجید فرمائی ھے۔ ہِ الَّذِی اٴَنزَلَ عَلَی عَبْدِہِ الْکِتَابَ وَلَمْ یَجْعَلْ لَہُ عِوَجَا >[104]

۸۔ اس کتاب عزیز سے تمسک رکھنے کے سلسلے میں آنحضرت فرماتے ھیں: پس جب بھی فتنے اور آشوب تم پر مشتبہ هوکر تمھیں اپنی لپیٹ میں لے لیں تو قرآن کا رخ کرو کیونکہ قرآن یقینا ایسا شفیع ھے کہ جس کی شفاعت قبول کرلی گئی ھے، برائیوں کی خبر دینے والا ایسا مخبر ھے جس کی خبر مصدقہ ھے ۔ جو بھی اسے اپنا رھبر بنائے گا یہ جنت کی جانب اس کی رھبری کرے گا جو بھی اسے پس پشت رکھے گا یہ اسے جھنم کی جانب لے جائے گا قرآن بہترین راهوں کی جانب راھنمائی کرنے والا راھنما ھے۔ یہ وہ کتاب ھے جس میں تفصیل و بیان ھے اور حصول حقائق کا طریقہ یہ حق کو باطل سے جدا کرتی ھے اس کا کلام قطعی اور نپا تلا ھے۔ شوخی و مزاح نھیں۔ اس کا ایک ظاھر ھے اور ایک باطن۔ ا س کا ظاھرحکم اور باطن علم ھے۔ اس کے ظاھر حسین و جمیل اور باطن عمیق اور گھرا ھے ۔ اس کی حدود ھیں اور ان حدود کی بھی حدود ھیں۔ اس کی محیّر العقول باتیں نا قابل شمار ھیں اور اس کے عجائب و جدتیں کبھی پرانی نہ هونگی۔ اس میں ھدایت کے چراغ ھیں۔ نور حکمت کے پرتو اسی سے نکلتے ھیں جو اسے سمجھ لے تو یہ کتاب طریق معرفت کے لئے اس کی دلیل و راھنما ھے-“۔[105]

جی ھاں، خداوند متعال نے اس کتاب میں اپنی مخلوق کے لئے تجلی کی ھے۔ جس ذات نے اس کتاب کو نازل کیا ھے اسی نے قرآنی آیات میں اور جس پر یہ کتاب نازل هوئی ھے اس نے اپنی بالائی سطور میں اس قرآن کی تعریف کی ھے۔ کیا عظیم قدر و منزلت ھے اس شخص کی جسے ختمی مرتبت نے قرآن کے ھمراہ اور قرآن کو اس کے ھمراہ قرار دیا ھے۔

حامل حکمت قرآن هونے کی بناء پر وہ ظاھر قرآن کے ھمراہ اور علم قرآن کا حامل هونے کی بناء پر وہ باطن قرآن کے ھمراہ ھے ۔ یہ ھستی شمار نہ کئے جانے والے عجائبات اور کبھی ختم نہ هونے والے محیّر العقول غرائبات کے ساتھ ھے۔ اور اس معیت و ھمراھی کی بنا ء پر گذشتہ تمام انیباء پر نازل هونے والی حکمت و کتاب، اس کے پاس ھے۔

فریقین کے اکابر مفسرین و محدثین [106]سے منقول روایات کے مطابق کلام مجید میں مذکور ”اُذُن واعیہ“ (تمام چیزوں کو اچھی طرح سے سننے والا کان) علی ھی ھے۔ جھاں ارشاد قدرت ھے: ”وَ تَعِیہَا اُذُنٌ وَاعِیَةٌ“ [107]

وھی جس نے کھا: (سلونی  فوالله لاتساٴلونی عن شیٴٍ یکون إلی یوم القیامة الاَّ حدثتکم بہ و سلونی عن کتاب الله، فو الله ما من آیة إلاَّ و اٴنا اٴعلم اٴبلیل نزلت اٴم بنھار۔[108]

 اس ھستی کی کیا عظیم منزلت هوگی کہ جسے رسول اکرم(ص) نے قرآن کے ھمراہ قرار دیا هو۔ واضح ھے کہ ھمراھی اور معیت ھمیشہ دو طرفہ هوا کرتی ھے یعنی جب علی قرآن کے ساتھ ھیں تو قرآن بھی یقینا علی کے ساتھ ھے لیکن اس کے باوجود آنحضرت نے علی مع القرآن فرما نے پر اکتفا ء نہ کیا بلکہ آپ علیہ السلام کی عظمت میں اضافہ کرتے هوئے فرمایا: والقرآن مع علی، اور اس نکتے کو صرف اولوالالباب ھی درک کرسکتے ھیں۔

اس حدیث کے پھلے جملے میں علی سے کلام کی ابتداء کرنا اور قرآن پر ختم کرنا نیز دوسرے جملے میں قرآن سے ابتداء اور علی پر جملے کا اختتام کرنا وہ بھی فصیح و بلیغ ترین ھستی کی زبان سے، ایسے باریک و دقیق نکات پر مشتمل ھے کہ جس کی تشریح و تفسیر اس مختصر کتاب میں نھیں کی جاسکتی۔

المختصر یہ کہ انبیاء و مرسلین کے درمیان رسول امین سے افضل کوئی نھیں اور کیونکہ علی علیہ السلام آنحضرت(ص)سے اور آنحضرت(ص)علی علیہ السلام سے ھیں (انت منی و انا منک) لہٰذا خدا کی افضل ترین مخلوق کے بعد بلا فصل آپ علیہ السلام ھی کا رتبہ ھے۔

ادھر دوسری طرف تمام آسمانی کتب میں قرآن مبین سے اعلی و ارفع کوئی کتاب نھیں، اور کیونکہ علی قرآن کے اور قرآن علی کے ساتھ ھے (علیّ مع القرآن والقرآن مع علی ) لہٰذا قلب علی بن ابی طالب علیہ السلام خداوند تعالی کی جانب سے نازل کردہ تمام امور کا آئینہ ھے اب خواہ وہ امر ھدایت هو،نور هو، حکمت هو یا کوئی بھی اور شئے۔

کیا ان تمام صفات سے متصف هونے کے بعد بھی کوئی شک و شبہ باقی رہ جاتا ھے کہ رسول اکرم(ص) کی خلافت اور قرآن عظیم کی تفسیر کے لئے علی علیہ السلام  کی ذات شائستہ ترین ھے؟

 

کیا ان تمام صفات سے متصف هونے کے بعد بھی کوئی شک و شبہ باقی رہ جاتا ھے کہ رسول اکرم(ص) کی خلافت اور قرآن عظیم کی تفسیر کے لئے علی علیہ السلام  کی ذات شائستہ ترین ھے؟

کیا اس بات میں کوئی شک باقی رہ جاتا ھے کہ علی علیہ السلام خدا پر ایمان رکھنے والے ھر انسان کے مولا ھیں کہ جس نے فرمایا: ہُ>[109]  ِٕلاَّ الْبَلاَغُ الْمُبِینُ>[110]

تبصرے
Loading...