کیوں بعض قرآنی آیات متشابہ ھیں؟

 

8۔کیوں بعض قرآنی آیات متشابہ ھیں؟

لیکن اب سوال یہ پیدا ھوتا ھے کہ قرآن مجید میں متشابہ آیات کی وجہ کیا ھے؟ جبکہ قرآن مجید نور، روشنی، کلام حق اور واضح ھے نیزلوگوں کی ھدایت کے لئے نازل ھوا ھے تو پھر قرآن مجید میں اس طرح کی متشابہ آیات کیوں ھیں اور قرآن مجید کی بعض آیات کا مفھوم پیچیدہ کیوں ھے کہ بعض اوقات شرپسندوں کو ناجائز فائدہ اٹھانے کا مو قع مل جا تا ھے ؟

یہ موضوع در حقیقت بہت اھم ھے جس پر بھر پورتوجہ کرنے کی ضرورت ھے، کلی طور پر درج ذیل چیزیں قرآن میںمتشابہ آیات کا راز اور وجہ ھو سکتی ھیں:

۱۔ انسان جو الفاظ اور جملے استعمال کرتا ھے وہ صرف روز مرّہ کی ضرورت کے تحت ھوتے ھیں ، اسی وجہ سے جب ھم انسان کی مادی حدود سے باھر نکلتے ھیں مثلاً خداوندعالم جو ھر لحاظ سے نامحدود ھے، اگر اس کے بارے میں گفتگو کر تے ھیںتو ھم واضح طور پر دیکھتے ھیں کہ ھمارے الفاظ ان معانی کے لئے کما حقہ پورے نھیں اترتے، لیکن مجبوراً ان کو استعمال کرتے ھیں ، کہ الفاظ کی یھی نارسائی قرآن مجید کی بہت سی متشابہ آیات کا سرچشمہ ھیں ، [40] یا [41] یا [42] یہ آیات اس چیز کا نمونہ ھیں نیز ”سمیع“ اور ”بَصِیرٌ“ جیسے الفاظ بھی اسی طرح ھیں کہ آیات محکمات پر رجوع کرنے سے ان الفاظ اور آیات متشابھات کے معنی بخوبی واضح اور روشن ھوجاتے ھیں۔

۲۔ بہت سے حقائق دوسرے عالم یا ماورائے طبیعت سے متعلق ھوتے ھیں جن کو ھم سمجھنے سے قاصر ھیں، چونکہ ھم زمان و مکان میں مقید ھیں لہٰذا ان کی گھرائی کو سمجھنے سے قاصر ھیں، اورھمارے افکار کی نارسائی اور ان معانی کا بلند و بالا ھونا ان آیات کے تشابہ کا باعث ھے جیسا کہ قیامت وغیرہ سے متعلق بعض آیات موجود ھیں۔

یہ بالکل اسی طرح ھے کہ اگر کوئی شخص شکم مادر میں موجود بچہ کو اس دنیا کے مسائل کی تفصیل بتانا چاھے، تو بہت ھی اختصار اور مجمل طریقہ سے بیان کرنے ھوں گے کیونکہ اس میں صلاحیت اور استعداد نھیں ھے۔

۳۔ قرآن مجید میں متشابہ آیات کا ایک راز یہ ھو سکتا ھے کہ اس طرح کا کلام اس لئے پیش کیا گیا تاکہ لوگوں کی فکر و نظر میں اضافہ ھو ، اور یہ دقیق علمی اور پیچیدہ مسائل کی طرح ھیں تاکہ دانشوروں کے سامنے بیان کئے جائیںاور ان کے افکار پختہ ھوں اور مسائل کی مزید تحقیق کریں ۔

۴۔قرآن کریم میں متشابہ آیات کے سلسلہ میں ایک دوسرا نکتہ یہ ھے کہ جس کی تائید اھل بیت علیھم السلام کی احادیث سے بھی ھو تی ھے:قرآن مجید میں اس طرح کی آیات کا موجود ھونا انبیاء اور ائمہ علیھم السلام کی ضرورت کو واضح کرتا ھے تاکہ عوام الناس مشکل مسائل سمجھنے کے لئے ان حضرات کے پاس آئیں، اور ا ن کی رھبری و قیادت کو رسمی طور پر پہچانیں، اور ان کے تعلیم دئے ھوئے دوسرے احکام اور ان کی رھنمائی پر بھی عمل کریں ، اور یہ بالکل اس طرح ھے کہ تعلیمی کتابوں میں بعض مسائل کی وضاحت استاد کے اوپر چھوڑدی جا تی ھے تاکہ شاگرد استاد سے تعلق ختم نہ کرے اور اس ضرورت کے تحت دوسری چیزوں میں استاد کے افکار سے الھام حاصل کرے ، خلاصہ یہ کہ قرآن کے سلسلہ میں پیغمبر اکرم (ص)کی مشھور وصیت کے مصداق پر عمل کریں کہ آنحضرت (ص)نے فرمایا:

إنِّي َتارکٌ فِیکُمُ الثَّقلین کتابَ اللهِ وَ اٴھلَ َبیتي وَ إنّھما لن یَفترقا حتّٰی یَرِدَا عَلیَّ الْحَوضِ“۔

یقینامیں تمھارے درمیان دو گرانقدر چیزیں چھوڑے جارھا ھوں: ایک کتاب خدا اور دوسرے میرے اھل بیت، اور (دیکھو!) یہ دونوں ایک دوسرے سے جدا نھیں ھوںگے یھاں تک کہ حوض کوثر پر میرے پاس پھنچ جائيں“[43]([44])

 

 

9۔ کیا بسم اللہ تمام سوروںکا جز ھے؟

اس مسئلہ میں شیعہ علمااور دانشوروں کے درمیان کوئی اختلاف نھیں ھے کہ ”بسم اللہ “سورہ حمد اور بقیہ دوسرے سوروں کا جز ھے، اور قرآن مجید کے تمام سوروں کے شروع میں ”بسم اللہ “ کا ذکر ھونا خود اس بات پر محکم دلیل ھے، کیونکہ ھم جانتے ھیں کہ قرآن مجید میں کوئی چیز اضافہ نھیں ھوئی ھے، اور پیغمبر اکرم (ص)کے زمانہ سے آج تک ھر سورہ کے شروع میں بسم اللہ کا ذکر ھوتا رھا ھے۔

لیکن اھل سنت علمامیں سے مشھور و معروف موٴلف صاحب تفسیر المنار نے اس سلسلہ میں مختلف علماکے اقوال نقل کئے ھیں:

علماکے درمیان یہ بحث ھے کہ کیا ھر سورے کے شروع میں بسم اللہ سورہ کا جز ھے یا نھیں؟ مکہ کے قدیمعلما (فقھا اور قاریان قرآن) منجملہ ابن کثیر اور اھل کوفہ سے عاصم اور کسائی قاریان قرآن، اور اھل مدینہ میں بعض صحابہ اور تابعین اور اسی طرح امام شافعی اپنی کتاب جدید میں اور ان کے پیروکار ، نیز ثوری اور احمد (بن حنبل) اپنے دوقول میں سے ایک قول میں ؛ اسی نظریہ کے قائل ھیں کہ بسم اللہ تمام سوروں کا جز ھے، اسی طرح شیعہ علمااور (ان کے قول کے مطابق) اصحاب میں (حضرت ) علی، ابن عباس، عبد اللہ بن عمر اور ابوھریرہ ، اور تابعین میں سے سعید بن جبیر، عطاء، زھری اور ابن المبارک نے بھی اسی عقیدہ کو قبول کیا ھے۔

اس کے بعد مزید بیان کرتے ھیں کہ ان کی سب سے اھم دلیل صحابہ اور ان کے بعد آنے والے حکمران کا اتفاق اور اجماع ھے کہ ان سب لوگوں نے سورہ توبہ کے علاوہ تمام سوروں کے شروع میں ”بسم اللہ“ کو ذکر کیا ھے، جبکہ یہ سبھی حضرات اس بات پر تاکید کرتے تھے کہ جو چیز قرآن مجید کا جز نھیں ھے اس سے قرآن کو محفوظ رکھو ، اور اسی وجہ سے ”آمین“ کو سورہ حمد کے آخر میں ذکر نھیں کیا ھے۔

اس کے بعد (امام) مالک اور ابو حنیفہ کے پیرو نیز دوسرے لوگوں سے نقل کیا ھے کہ وہ لوگ ”بسم اللہ“ کو ایک مستقل آیت مانتے تھے جو ھر سورے کے شروع میں سوروں کے درمیان فاصلہ کرنے کے لئے نازل ھوئی ھے۔

اور احمد (بن حنبل) (اھل سنت کے مشھور و معروف فقیہ) اور بعض کوفی قاریوں سے نقل کرتے ھیں کہ وہ لوگ ”بسم اللہ“ کو صرف سورہ حمد کا جز مانتے تھے نہ کہ دوسرے سوروں کا،[45]

(قارئین کرام!)مذکورہ اقوال سے یہ نتیجہ نکلتا ھے کہ اھل سنت کے علماکی اکثریت بھی اسی نظریہ کی قائل ھے کہ بسم اللہ سورہ کا جز ھے، ھم یھاں شیعہ اور سنی دونوں فریقوں کی کتابوں میں منقول روایات کو بیان کرتے ھیں (اور اس بات کا اعتراف کرتے ھیں کہ ان تمام کا یھاں ذکر کرنا ھماری بحث سے خارج ھے، اور مکمل طور پر ایک فقھی بحث ھے)

۱۔ ”معاویہ بن عمار“ جوامام صادق علیہ السلام کے چاھنے والوں میں سے ھیں، کہتے ھیں کہ میں نے امام علیہ السلام سے سوال کیا کہ جب میں نماز پڑھنے کے لئے تیار ھوجاؤں تو کیاسورہ حمد کے شروع میں بسم اللہ پڑھوں؟ تو امام علیہ السلام نے فرمایا: ھاں، میںنے پھر سوال کیا کہ جس وقت سورہ حمد تمام ھوجائے اور اس کے بعد دوسرا سورہ پڑھنا چاھوں تو کیا بسم اللہ کا پڑھنا ضروری ھے؟ تو آپ نے فرمایا: ھاں۔[46]

۲۔سنی عالم دین دار قطنی صحیح سند کے ساتھ حضرت علی علیہ السلام سے نقل کرتے ھیں کہ ایک شخص نے آپ سے سوال کیا کہ ”السبع المثانی“ سے مراد کیا ھے؟ تو امام علیہ السلام نے فرمایا: اس سے مراد سورہ حمد ھے، تو اس نے سوال کیا کہ سورہ حمد میں تو چھ آیتیں ھیں؟ تو امام علیہ السلام نے فرمایا: بسم اللہ الرحمن الرحیم بھی اس کی ایک آیت ھے۔[47]

۳۔ اھل سنت کے مشھور و معروف عالم بیہقی، صحیح سند کے ساتھ ابن جبیر اور ابن عباس سے اس طرح نقل کرتے ھیں:

استرَقَ الشَّیْطَان مِنَ النَّاسِ، اٴعظم آیة من القرآن بسمِ الله الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ“[48]

شیطان صفت لوگوںنے قرآن کریم کی سب سے بڑی آیت یعنی ”بسمِ الله الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ“کو چوری کرلیا ھے“ (اس بات کی طرف اشارہ ھے کہ سوروں کے شروع میں بسم اللہ نھیں پڑھتے)

اس کے علاوہ ھمیشہ مسلمانوں کی یہ سیرت رھی ھے کہ ھر سورے کو شروع کرنے سے پھلے بسم اللہ پڑھتے ھیں اور تواتر کے ساتھ یہ بات ثابت ھے کہ پیغمبر اکرم (ص)بھی ھر سورے کے شروع میں بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھا کرتے تھے، اس صورت میں کیسے ممکن ھے کہ جو چیز قرآن کا حصہ نہ ھو خود پیغمبر اکرم (ص)اور آپ کی امت اسے قرآن کے ساتھ ھمیشہ پڑھا کریں؟!۔

لیکن جیسا کہ بعض لوگوں کا خیال ھے کہ بسم اللہ ایک مستقل آیت ھے اور قرآن کا جز ھے مگر سوروں کا جز نھیں ھے، یہ نظریہ بھی بہت ضعیف ھے، کیونکہ بسم اللہ کے معنی کچھ اس طرح کے ھیں جس سے معلوم ھوتا ھے کہ کام کی ابتدا اور آغاز کے لئے ھے، نہ یہ کہ ایک مستقل اور الگ معنی ، درحقیقت اس طرح کا شدید تعصب کہ اپنی بات پر اڑے رھیں اور کھیں کہ بسم اللہ ایک مستقل آیت ھے، جس کاما قبل مبا لغہ سے کوئی ربط نھیں ھے، لیکن بسم اللہ کے معنی بلند آواز میں یہ اعلان کرتے ھیں کہ بعد میں شروع ھونے والی بحث کا سر آغاز ھے۔

صرف مخالفین کا ایک اعتراض قابل توجہ ھے اور وہ یہ ھے کہ قرآن مجید کے سوروں میں (سورہ حمد کے علاوہ) بسم اللہ کو ایک آیت شمار نھیں کیا جاتا بلکہ اس کے بعد والی آیت کو پھلی آیت شمار کیا جاتا ھے۔

اس اعتراض کا جواب”فخر الدین رازی“ نے اپنی تفسیر کبیر میں واضح کردیا کہ کوئی ممانعت نھیں ھے کہ بسم اللہ صرف سورہ حمد میں ایک آیت شمار کی جائے اور قرآن کے دوسرے سوروں میں پھلی آیت کا ایک حصہ شمار کیا جائے، ( اس لحاظ سے مثلاً سورہ کوثر میں ایک آیت شمار ھو۔

بھر حال یہ مسئلہ اتنا واضح اور روشن ھے کہ تاریخ نے لکھا ھے کہ معاویہ نے اپنی حکومت کے زمانہ میں ایک روز نماز جماعت میں بسم اللہ نھیں پڑھی، تو نماز کے فوراً بعد مھاجرین اور انصار نے مل کر فریاد بلند کی : ”اسرقت اٴم نسیت“ (اے معاویہ! تو نے بسم اللہ کی چوری کی ھے یا بھول گیا ھے؟)[49]([50])

——————————————————————————–

[1] تفسیر آلاء الرحمن صفحہ ۳۵۔

[2] موصوف کی عربی عبارت یہ ھے: ”والشّیعة ھم اٴبداً اٴعدَاء المساجد ولھذا یقل اٴَن یشاھد الضارب فی طول بلادھم و عرضھا مسجداً (الصراع ، جلد ۲، صفحہ ۲۳، علامہ امینی (رہ) کی نقل کے مطابق الغدیر ، جلد ۳، صفحہ ۳۰۰)

[3] تفسیر نمونہ ، جلد۱۱، صفحہ ۱۸۔

[4] مجمع البیان ، جلد۱۰ ،سورہٴ مدثر ۔

[5] مقدمہ سازمانھای تمدن امپراطوری اسلام۔

[6] مقدمہ سازمانھای تمدن امپرا طوری اسلام، صفحہ ۱۱۱۔

[7] مقدمہ سازمانھای تمدن امپرطوری اسلام، صفحہ ۹۱۔

[8] کتاب ”عذر تقصیر بہ پیش گاہ محمد و قرآن

[9] المعجزة الخالدہ،بنا بر نقل از قرآن بر فراز اعصار۔

[10] پیش رفت سریع اسلام، اعجاز قرآن کے سلسلہ میں مذکورہ بحث میں ”قرآن و آخرین پیامبر“ سے استفادہ کیا گیا ھے۔

[11] تفسیر نمونہ ، جلد ۱، صفحہ ۱۳۵۔

[12] قرآن وآخرین پیغمبر صفحہ۳۰۹۔

[13] تفسیر نمونہ ، جلد ۴، صفحہ ۲۸۔

[14] تفسیر نمونہ ، جلد ۹، صفحہ ۴۲۔

[15] تفسیر فی ظلال ، جلد ۵، صفحہ ۲۸۲۔

[16] تفسیر نمونہ ، جلد ۱۱، صفحہ ۴۱۰۔

[17] تفسیر فی ضلال ، جلد ۴، صفحہ ۴۲۲۔

[18] تفسیر نمونہ ، جلد ۸، صفحہ ۲۸۹

[19] سورہ بقرہ ، آیت ۲۳۔

[20] اعجاز القرآن رافعی۔

[21] قرآن و آخرین پیغمبر ۔

[22] تفسیر نمونہ ، جلد ۱، صفحہ ۱۳۳۔

[23] سورہ ھود ، آیت ۱۔

[24] سورہٴ نمل ، آیت ا۔

[25] سورہٴ لقمان ، آیت ۱و۲۔

[26] سورہٴ اعراف ، آیت ۱و۲۔

[27] تفسیر نمونہ ، جلد اول، صفحہ ۶۱۔

[28] تفسیر نمونہ ، جلد ۶، صفحہ ۷۸۔

[29] تفسیر مجمع البیان ،سورہٴ طہ کی پھلی آیت کے ذیل میں۔

[30] تفسیر نمونہ ، جلد ۱۳، صفحہ ۱۵۷۔

[31] تفسیر المیزان ، جلد ۱۸، صفحہ ۵و۶۔

[32] تفسیر نمونہ ، جلد ۲۰، صفحہ ۳۴۶۔

[33] تاریخ القرآن ، ابو عبداللہ زنجانی صفحہ ۲۴۔

[34] مجمع البیان ، جلد اول، صفحہ ۱۵۔

[35] منتخب کنز العمال ، جلد ۲، صفحہ ۵۲۔

[36] صحیح بخاری ، جلد ۶، صفحہ ۱۰۲۔

[37] تفسیر نمونہ ، جلد اول، صفحہ ۸۔

[38] سورہ آل عمران ، آیت ۷۔

[39] تفسیر نمونہ ، جلد ۲، صفحہ ۳۲۰۔

[40] سورہ فتح۱۰.

[41] سورہ طٰہ۵.

[42] سورہ قیامت۲۳.

[43] مستدرک حاکم ، جلد ۳، صفحہ ۱۴۸۔

[44] تفسیر نمو نہ ، جلد ۲،صفحہ ۳۲۲۔

[45] تفسیر المنار ، جلد ۱ صفحہ۳۹۔۴۰۔

[46] اصول کافی ، ، جلد ۳،صفحہ ۳۱۲۔

[47] الاتقان ، جلد اول، صفحہ ۱۳۶۔

[48] بیہقی ، جلد ۲، صفحہ ۵۰۔

[49] بیہقی نے جزء دوم کے صفحہ ۴۹ پر اور حاکم نے بھی مستدرک میں جزء اول کے صفحہ ۲۳۳ پر اس حدیث کو نقل کیا ھے اور اس حدیث کوصحیح جانا ھے۔

[50] تفسیر نمونہ ، جلد اول، صفحہ ۱۷۔ 

تبصرے
Loading...