کربلا اور اصلاح معاشرہ

 

حمد و ثنا پروردگار عالم ایک جو لائق حمد ہے ، درود سلام ہو محمد و آل محمد پر جو درود و سلام کے مستحق ہیں ۔ میرا سلام ہو شہیدان کربلا پر کہ جنہوں نے اپنے خون سے شجر اسلام کی آبیاری کی اور دنیا کے انسانوں کو درس حریت و آزادی دیا۔

اس مختصر مقالے کا موضوع : کربلا اور اصلاح معاشرہ ہے کہ جسے قلم و قرطاس کے ذریعے بیان نہیں کیا جاسکتا اس میں کربلا کی حقیقت اور کربلا سے درس لیتے ہوئے معاشرہ کی کیسے اصلاح ہوسکتی ہے ،کو بیان کیا گیا ہے کربلا ایک حقیقت ابدی ہے جسے چند گھنٹوں کی جنگ نہیں کہا جاسکتا ہے بلکہ یہ حق و باطل کا معرکہ ہے اور یہ انبیاء علیہم السلام کی تحریک کا تسلسل ہے کربلا ایک اسوہٴ ہے ایک نور اور چراغ ہدایت ہے جس سے انسانیت درس لیتے رہے گی۔ اس میں دنیا کے تمام تشنگان عشق و وفا کے لئے درس ہے۔

آپ نے اس وقت قیام کیا جب ہر طرف ظلم وستم کی گھٹائےں چھائی ہوئی تھےں انسانیت ظلم و ستم میں پس رہی تھی عدالت سسک رہی تھی زبانوں پر تالے پڑے ہوئے تھے۔ آواز حق بلند کرنے پر پابندی تھی آمریت کی منحوس زنجیروں میں انسانیت جکڑی ہوئی تھی ۔ انسانی اقدار کے بے حرمتی تھی کتاب خدا کو پس پشت ڈا ل دیا گیا اور سنت رسول کو بدل دیا گیا ۔ایسے عالم میں امام حق عشق و وفا کا پیکر او ردکھی انسانیت کے مسیحا اٹھا جو درد انسانیت کا مداوا اپنے خون سے کرگیا ۔ امام علی مقام نے انسانیت کو حقانیت ،شجاعت، حریت ،صداقت ، دیانت ،فداکاری، مردانگی، جوانبازی ،ایثار و سرفروشی کا درس دیا اور دنیا کے مصلحین کے لئے ایک مشعل رہنمائی روشن کر گئے کہ جس سے قیامت تک انسان فیضیاب ہوتے رہیں گے۔

ہم اللہ تعالیٰ سے دعاگو ہیں کہ وہ منتقم خون حسین – کا جلدی ظہور فرمائے تاکہ د نیا سے ظلم و ستم ختم ہو ،عدل وانصاف کا دور دورہ ہو اور معصوم کی قیات میں عالمی و الہٰی حکومت قائم ہو اور اصلاح معاشرہ کی تکمیل ہوسکے۔

اصلاح معاشرہ کا مفہوم

اصلاح اور اصلاح معاشرہ ایسی بحثےں ہیں جن کا سابقہ بہت پرانا ہے اور دینی رہنماؤں نے اپنا تعارف جامعہ انسانی کے بہت بڑے مصلح کے طور پر کروایا بہت سے مصلحین اس فریضہ کو انجام دیتے ہوئے ۔ا صلاح کا مفہوم علماء نے کچھ اس طرح بیان کیا ہے:

مرحوم شیخ طوسی ۺ فرماتے ہیں: الا صلاح : جعل الشیء عن الاستقامة(نفسیرالبیان، ج۱،ص۷۵) یعنی فساد اشیاء کا حد اعتدال سے خارج ہونا اور اصلاح اس کا نقطہ مثابل استعمال ہوتاہے اشیاء کا حد اعتدال پہ ہونا۔

علامہ راغب اصفہانی فرماتے ہیں: لفساد خروج الشیء عن الاعتدال (مفردات الفاظ القرآن مادہ فسد)

علامہ طباطبائی اصلاح و فساد کایک دور کے مدمقابل دوصفات ہیں فساد ہر چیز کو اس کی اصی طبیعیت سے تغیر دینا اور اصلاحی ک ہر چیز اپنے اصلی محور اور طبیعت پر باقی رہے۔ (المیزان ، ج۱،ص ۱۲۲)

شہید مطہری: فان الاصلاح والفساد شانان متقابلان ( نہضت ہای صد سالہ اخیر، ص۹) فساد اصلاح دو قرآنی متضاد چیزےں ایک دوسرے کے قریب اس وجہ سے باین ہوتی ہیں اگر ایک کی نفی ہو تو دوسرا اس کی جگہ لے سکے ۔ اصلاح اور فساد ا سی نوح سے ہیں۔ 

نتیجہ : ان تعریفات کے مطباق اگر ایک معاشرہ میں فساد ہے تو اصلاح نہیں ہے او راگر اصلاح ہے تو فساد نہیں ہے ۔ اگر ایک معاشرہ میں اصلاحی خوبیاں زیادہ ہوں گی تو برائیاں کم اور اگر برائیاں زیادہ ہوں گی تو اصلاح کم ۔

اصلاح معاشرہ کی اہمیت

دلائل قرآنی: قرآن کریم انبیاء علیہم السلام کو عظیم مصلح بیان کرتا ہے ۔ اصلاح معاشرہ کے لئے روایات بھی بہت زیادہ ہیں مگر فرمان امام حسین – کو بیان کرتے ہیں کہ امام نے اپنے قیام کا مقصد اصلاح معاشرہ قرار دیا ہے : انما خرجت لطلب الاصلاح فی امة جدی ارید ا ن امر بالمعروف و النہی عن المنکر و سیرة جدی محمد و سیة علی بن ابی طالب(خوارزمی، مقتل الحسین ، ج۱،ص۴۵) میں نے تو صرف اپنے جد کی امت کی اصلاح کے لئے خروج کیا ہے ، میں امر بالمعروف و نہی عن المنکر کرنا چاہتا ہوں او رمیں اپنے جد محمد ﷺ او راپنے باپ علی ابن ابی طالب کی سیرت پر چلنا چاہتا ہوں۔

امام خمینی ۺ اصلاح معاشرہ کی اہمیت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں :سید الشہداء اس کی خاطر میدان میں آئے خود اصحاب و انصار کو قربان کیا تاکہ فرد معاشرے پر قربان ہو اور معاشرے کی اصلاح ہو۔( قیام عاشورہ ، ۴۵)

اصلاح معاشرہ کے لئے قیام کی ضرورت

اصلاح معاشرے کے لئے کیا ہر جگہ قیام کی ضرورت ہے ؟ یا قیام کے بغیر بھی اصلاح معاشرہ ہوسکتی ہے اور قیام مجبوراً کرنا پڑتا ہے ؟ ان سوالوں کا جواب بہت سادہ سا ہے مگر ان سوالوں کے جواب سے چند مقدمات بیان کردینا ضروری ہیں تاکہ جواب بھی آسانی سے مل سکے۔

پہلی دلیل=

انسانی معاشرہ میں اصلاح معاشرہ کی ضرورت اس وجہ سے پیش آتی ہے کیونکہ انسانی معاشرہ میں ابتدا ہی سے دوکرداروں کی جنگ جاری ہے ۔ ایک الہٰی کردار اور دوسرا شیطانی کردار۔ ہر دور اور ہر معاشرہ میں بعض افراد الہی کردا ر کے مالک رہے ہیں انہوں نے الہٰی کردار و انسانی اقدار کی ترویج کی اور دوسرا کردار شیطانی کردار ہے جس نے نہ صرف الہٰی اقدار انسان کی پائمالی کی بلکہ غیر انسانی اقدار کو رائج کرنے کی کوشش کی مثلاً حضرت ابراہیم و نمرود کی جنگ ، موسیٰ اور فرعون کی جنگ، حضرت محمد اور کفار مکہ ،حضرت علی – اور معاویہ ،حضرت امام حسین – اور یزید ، شاعرمشرق علامہ اقبال ان دو کرداروں کی جنگ کو کچھ اس طرح بیان کرتے ہیں :

ستیرہ کاررہا ہے ازل سے تا امروز

چراغ مصطفوی سے شرار بو لہبی

اگر کوئی اصلاح کرنے والا اصلاح کا بیڑا نہ اٹھائے تو ذکر خدا مٹ جائے گا اور معاشرہ میں بہت بڑا فتنہ و فساد برپا ہوگا۔قرآن میں ارشاد ہوتا ہے کہ اگر تم (پیروان حق کی ) مدد نہ کرتے تو زمین پر فتنہ اور بہت بڑا فساد برپا ہوجاتا ( سورہ انفال آیت ۷۳) لہٰذا قیام نہ کرنے کا کیا نتیجہ نکلتا معاشرہ فتنہ و فساد اور گمراہی میں مبتلا ہوجاتا ،یہی وجہ ہے کہ جب فروعون کی آمر انہ ظالمانہ پالیسیوں کا کوئی جواب دینے والا نہیں تھا اس نے زمین میں کیا کر رکھا تھا خدا نے اسے (مفسد فی الارض) کا لقب دیا۔اور قرآن مفسد کی خرابیوں کو اس طرح بیان کرتا ہے فرعون نے زمین پر تکبر کیا، معصوم بچوں کا ناحق قتل کیا اور عورتوں کو کنیزی کے لئے زندہ رکھتا اپنی رعایا کے درمیان نسلی امتیاز قائم کرتا اور ان میں پھوٹ ڈال کر ان پر حکومت کرتا اگر فرعون کو کوئی روکنے والا نہ ہوتا ، اگر حضرت موسی مصلح بن کر نہ اٹھتے تو پورا معاشرہ فرعونی بن جاتا ہر طرف ظلم و ستم او رفتنہ و فساد آتا۔

دوسری دلیل=

قیام کی اس وقت ضرورت پیش آتی ہے جب معاشرہ اپنے اصلی مقام سے ہٹ جائے حق و باطل کی تمیز مٹ جائے ، انسانی اقدار کے بجائے شیطانی و جاہلی رسومات غالب آجائیں ، اگر اس وقت معاشرہ میں کوئی مصلح نہ ہو عدالت و مساوات برقرار کرنے والا نہ ہو، نیک امور کی دعوت دینے والا نہ اور برائی سے روکنے والا نہ ہو ۔ یہ معاشرہ انسانی اجتماع نہ ہوگا بلکہ انسان نما حیوانی معاشرہ ہوگا ۔ قرآن مجید میں اللہ فرماتاہے کہ تم میں سے ایک ایسا گروہ ہونا چاہئے جو لوگوں کو نیکی کا حکم دے اور برائیوں سے منع کرے اور یہی لوگ نجات یافتہ ہیں۔ امام عالی مقام حضرت سید الشہدا ء – اپنے قیام کی علت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کیا تم نہیں دےکھ رہے ہو کہ حق پر عمل نہیں ہو رہا ہے اور باطل سے دوری نہیں کی جارہی ہے ۔ ایسی صورت میں مومن کو حق ہے کہ لقائے الہٰی کی طرف رغبت کرے ۔ (خوار زمی ،مقتل الحسین ،ج۱،ص۲۳۴)

یہاں امام نے مومن کا لفظ استعمال کیا ہے اور بتایا ہے کہ مومن جب معاشرہ میں ایسے حالات دےکھے ہر طرف ظلمت و تاریکی ہو حق پائمال ہو رہا ہو اس پر واجب ہوجاتا ہے کہ معاشرہ میں قیام کرے اور لڑتا ہوا شہید ہوجائے یہ درس ہے کربلا کا ، یہ درس ہے حسین – کا، لہٰذا جو بھی اصلاح کرنا چاہتا ہے وہ قیام حسینی سے در س راہنمائی لے ۔ کربلا والوں سے در س ہدایت لے ، درس نورانیت لے اور معاشرہ سے ظلم و ستم کو مٹادے۔

تیسر دلیل =

یہ ہے کہ جب ایک مصلح اور عالم کے پاس حامی و مددگار ہو ں اس پر قیام واجب ہوجاتاہے۔ حضرت علی – فرماتے ہیں: اگر بیعت کرنے والے کی موجودگی اور مدد کرنے والے کے وجود سے مجھ پر حجت تمام نہ ہوگئی ہوتی اور وہ عہد نہ ہوتا جو اللہ نے علماء سے لے رکھا ہے وہ ظالم کی شکم پری اور مظلوم کی گرسنگی پر سکون و قرار سے نہ بیٹھےں ( سید شریف رضی ۺ، نہج البلاغہ خطبہ شقیقیہ) اس فرمان بمارک کی رو سے ایک حقیقی عالم پر اس وقت قیام واجب ہوجاتا ہے جب دےکھے معاشرے میں نا انصافی ہورہی ہے مظلوموں پر ظلم ہورہا ہے بے کسوں کا کوئی پرسان حال نہیں وہ عالم اٹھے اور معاشرے کے بگڑے ہوئے حالات کو بدل ڈالے۔

چوتھی دلیل=

چوتھی دلیل یہ ہے کہ انبیاء کی بعثت کا مقصد اصلاح معاشرہ تھا ۔ امام خمینی ۺ فرماتے ہیں :تمام انبیاء اصلاح معاشرہ کے لئے آئے یہ تمام اس مسئلہ پر یقین رکھتے تھے کہ فرد معاشرہ پر قربان ہوجائے ۔ حضرت سید الشہداء – اس کی خاطر میدان میں آئے اور خود اپنے آپ کو ،اصحاب اور انصار کو قربان کیا تاکہ فرد معاشرہ پر قربان ہوجائے لہذا معاشرہ کی اصلاح ہونی چاہئے۔ ( قیام عاشورہ،ص۴۵)

پانچوےں دلیل=

پانچوےں دلیل یہ ہے کہ کہ قیام نہ کرنے کا نتیجہ عذاب الہٰی کا نزول ۔ حضرت امام محمد باقر – سے روایت ہےک ہ حضرت شعیب پر وحی ناز ل ہوئی کہ میں قوم تیر قوم پر عذاب نازل کروں گا چالیس ہزار افراد میںسے برے اور شریر ہیں اور ساتھ ہزار نیک لوگ ہیں۔ حضرت شیعب نےعرض کی اے پروردگار چالیس ہزار برے عذاب کے مستحق ہیں اچھے لوگوں پر عذاب کیسے نازل ہوگا؟ اللہ نے جواب دیا نیک لوگوں پر اس وجہ سے عذا ب نازل کروں گا کیونکہ انہوں نے گناہگاروں کے ساتھ ساز باز کر لی تھی اورمیرے غضب کی بناپر ان سے غضبناک نہیں ہوئے۔(مصباح یزدی، آذرخشی از آسمان کربلا، ص۱۵۴) مولائے کائنات نہج البلاغہ میں فرماتے ہیں کونوا للظالم خصما وللمظلوم عونا�(سید شریف رضی، نہج البلاغہ ، نامہ ۴۷) ظالم کے دشمن اور مظلوم کومددگار بنو ۔ ان اقوال کی روشنی میں یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ جب معاشرہ میں ظلم و ستم حد سے بڑھ جائے ، انسانی اجتماعی حیوانی معاشرہ میں تبدیل ہوجائے ، اسلامی معاشرہ میں دور جاہلی کی رسومات پلٹ آئےں کوئی کلمہ حق بلند نہ کرنے والا ہو ۔اس وقت امام حق پر اوران کے پیروکار وں پر ضروری ہوجاتاہ ے کہ وہ اپنے قیام کے ذریعے بگڑی ہوئی صورت حال کو درست کریں۔

اسلامی معاشرہ کا انحراف

بنیادی طور پر اسلام انسانی معاشرہ کی اصلاح کے لئے آیا تاکہ عامة الناس اس کی روشنی وہدایت سے بہرہ مند ہوں لوگ دنیوی و آخروی سعادت سے ہمکنار ہوں معاشرہ میں عادلانہ نظام قائم ہو۔ دنیا میں بھائی چارہ، اخوت، انسان دوستی، توحید پرستی ارو حق کی پاسداری جس میں عالی صفات رائج ہوں مگر یہی اسلامی معاشرہ جس کے بانی کو اس دنیاسے رائج ہوں مگر یہی اسلامی معاشرہ جس کے بانی کو اس دنیا سے گئے ہوئے چندسال گزرے تھے ،اپنے معاشرہ حقیقی ارو اصلی راستے سے ہٹ گیا اور انحطاط اس حد تک پہنچ گیا تھا کہ پچاس سال کے مختصر عرصہ میں فرزند رسول اور ان کے انصار کو کس بے دردی سے ساتھ شہید کردیا گیا ۔

اگر اس انحراف کا تاریخی جائزہ لیں تو یہ پیغمبر اکرم (ص)کی رحلت کے فورا بعد شرورع ہوجاتا ہے ۔مثلاً خلافت رسول کی ملوکیت کے فورا ً بعد شروع ہوجاتا ہے ،مثلاً خلافت رسول کی ملوکیت میں تبدیلی ، تحریف عقائد ،اسلامی معاشرہ کا انحطاط اور پستی ،بیت المال کی غیر عادلانہ تقسیم وغیرہ۔

تحریف عقاید

آنحضرت کی رحلت کے بعد با لخصوص بنی امیہ کے درو میں مرموز طور پر اسلام کے بنیادی عقاید میں تحریفانہ ہوئےں۔ بنی امیہ نے اپنے عیب چھپانے کے لئے نئے نئے انحرافی عقاید پھیلائے جس کے نتیجہ میں کئی فرقے وجود میں آئے۔ مثلاً قدریہ، جبریہ اور مرجئہ، انہوں نے ایک نہایت ہی خطرناک عقیدہ پھیلایا کہ حکومت خدا کا عطیہ اور تحفہ ہے خداوندجسے چاہتا ہے حکومت دیتا ہے حاکم خواہ کیسے ہی منتخبہو وہ سایہ خدا ہے وہ خلیفة الرسول ہے لہذا عوام کو اس کے افعال پر اعرتاض نہیں کرنا چاہے، حتیٰ جب حضرت عائشہ نے یزید کی ولی عہدی پر اعتراض کیا تو معاویہ نے جواب دیا : ان امر یزید قضاء من القضاء و لیس للعباد و الخیرة من امر ہم ( رسول جعفریان، تاملی در نہضت عاشورہ ،ص۴۹) یعنی خدا نے اسے خلیفہ بنایا، معاذاللہ من ذلک۔

سنتوں کی پائمالی اوربد عتوں کا عروج

سنتوں کی پائمالی اور بد عتوں کا ظہور ارو عروج ،رسول اللہ کی رحلت کے بعد شرورع ہوچکا تھا مگر بنی امیہ کے درو حکومت میں سنتےں بالک مٹ چکی تھےں شجرہ خبیثہ دین کو مٹانا چاہتا تھا ان کا ارادہ تھا کہ دین اسلام کو نابود کریں۔ انہوں نے اسلام کے حقیقی و اصلی چہرہ کو بالکل مسخ کردیا ، نمازجمعہ کو بدھ کے دن پڑھایا، معاویہ نے زیادبان ابیہ کو اپنا خونی بھائی قرار دیا اور یزید کو اپنا جانشین بنادیا ایسا لگتا تھا جیسے دور جاہلیت پلٹ آیا ہے۔ حضرت امام حسین – اس طر ف اشارہ فرماتے ہیں: ان السنة قد امیت وان البدعة قد احییت( طبری، تاریخ طبری، ج ۴، ص ۲۶۶)اے لوگوں سنت رسول مٹ چکی ہے اوربدعت زندہ ہوگئی ہے ۔ امام خمینی ۺ ، بنی امیہ کے اس گھناؤنے کردار کی طرف اشارہ فرماتے ہیں ،بنی امیہ کا ارادہ تھااسلام محمدی کو ختم کریں اور اصل و اساس کو جڑ سے اکھار پھینکےں مگر یزید اور یزیدی ختم ہوگئے۔(امام خمینیۺ، قیام عاشورہ،ص۵۸)

خلافت کی ملوکیت میں تبدیلی

اس کی بنیاد و اساس سقیفہ بنی ساعدہ میں رکھی جا چکی تھی۔ معاویہ نے خلافت کی بنیادوں کو کھوکھلا کردیا اس خبیث منصوبے کو اس نے اپنے دور حکومت میں عملی جامہ پہنایا وہ دھونی اوردھونس دھاندلی سے پہلے خود خلیفہ و حکمران بن گیا اور پھر اپنے بعد یزید کو خلیفہ بناگیا اور یہ خلافت کئی سالوں تک اس خاندان کے ہاتھوں میں اسیر رہی مگر مسلمان اس حدیث کو بھول گئے امام حسین – فرماتے ہیں: میں رسول اللہ کو فرماتے ہوئے سنا ہے الخلافة محرمة علی آل ابی سفیان خلافت خاندان سفیان پرحرام ہے۔( خوارزمی، مقتل الحسین ،ج۱،ص۱۸۸)

کربلا کا اصلاحی نظام

تحریک کربلا ایک ایسی حقیقت ہے کربلا مسلسل ہدایت کانام ہے ۔ کربلا ظلم وستم اور باطل کے خلاف ڈٹ جانے کا نام ہے، کربلا بھٹکے ہووں کو منزل مقصود تک پہنچاتا ہے ،دنیا کے تمام انسانوں کے لئے چراغ ہدایت ہے ،اس شمع و چراغ کے ذریعے تمام انسانی معاشروں کی اصلاح و تربیت کی جاسکتی ہے ۔

دوسری طرف کربلا کے فاتح سید الشہداء – میزان حق و باطل ہیں حسین – وہ ہادی برحق ہیں کہ جنہوں نے اپنے خون کے ذریعے آخری قطرہ تک دین کا پیغام سنایا حسین -وہ ہیں جس نے درس غیرت و شجاعت دیا ، حسین – وہ مصلح اعظم ہیں جس نے نوک نیزہ پر دس حیات دیا، آپ ﷼ نے اپنی شہادت کے ذریعے انسانی اقدار کو زندہ کیا ،دینی شعار کا احیاء کیا اور امر بالمعروف ونہی عن المنکر کا احیاء کیا۔

امر بالمعروف ونہی عن المنکر کا احیاء

کربلا کی اصلاحی و انقلابی تحریک میں ایک چیز جو نمایا ں طور نظر آتی ہے وہ امر بالمعروف و نہی عن المنکر کا احیاء ہے ۔ امام حسین – نے اپنا ہدف و مقصد اشعار کے ساتھ بلند کیا کہ انما خرجت لطلب الاصلاح فی امة جدی محمد ارید ان امر بالمعروف النہی عن المنکر و اسیر بسیرة جدی محمد و سیرة ابی علی ابن ابی طالب( ابن شعبہ حرّانی، تحف العقول،ص۱۳۹)یعنی میں نے اپنے جد کی ا مت کی اصلاح کے لئے خورج کیا او ر میں امر بالمعروف و نہی عن المنکر کرنا چاہتا ہوں او راپنے جد محمد رسول اللہ اور اپنے باپ علی ابن ابی طالب – کی سیرت پر چلنا چاہتا ہوں۔ ایک اورجگہ اپنے قیام کو واضح کرتے ہوئے فرماتے ہیں : خدایا تو جانتا ہے کہ میرا قیام نہ توسلطنت کے لئے ہے اور نہ حصول دولت کے لئے بلکہ ہم تیرے دین کے معاملے کو پیش کرنا چاہتے ہیں اور تیروں شہروں اصلاح کرنا چاہتے ہیں اور ہم یہ چاہتے ہیں کہ تیرے فرائض سنن اور احکام پر عمل کیا جائے ۔

امر بالمعروف کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا ۔ امام باقر – سے روایت ہے: امر بالمعروف ونہی عن المنکر ایک عظیم فریضہ ہے اس سے فرائض کو قائم کیا جاسکتا ہے اسی سے ظالم کو ظلم کو ختم کیا جاسکتا ہے اسی سے زمین آباد اور امر قائم ہے ۔ واقعاً اس اہمیت کے باوجود اگر کوئی اس ا ہم فریضہ کو انجام نہیں دیتا، کیا اسے انسان کہا جاسکتا ہے؟ مولائے کائنات فرماتے ہیں: اگر کوئی مسلمان نہ دل سے ،نہ زبان سے ،نہ ہاتھ سے امر بالمعروف انجام دے وہ زندوں میں چلتی پھرتی لاش ہے ،تمام نیک اعمال ثواب امر بالمعروف کی نسبت سمندر کے مقابلے میں قرے کی مانند ہے۔(دستغیب، گناہان کبیرہ، ج۲،ص۲۶۶)

امر بالمعروف و نہی عن المنکر جیسا عظیم فریضہ مقصود تھا ۔امت اسلامیہ کے خواص چپ سادھے ہوئے تھے نیک افراد تک اپنی انفرادی عبادت میں مشغول تھے امام عالی مقام نے اس وقت سوئی ہوئی امت کو بیدار کا پیغام دیا مردہ ضمیروں کو جھنجھورا ۔ آپ منیٰ میں علما کو ان کی ذمہ داری بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں تمہیں رعب و دبدبہ اورعزت و تکریم اس لئے عطا ہوئی کہ تم سے راہ خدا میں آواز حق بلندکرنے کی توقع رکھی گئی ہے ،تم اپنے اجداد کی قائم کردہ روایات کی خلافت ورزی سے مضطر و پریشان ہوجاتے ہولےکن اللہ اور رسول کی قائم کردہ روایات اورمتعین کردہ حدود کی خلاف ورزی ،تحقیر و تذلیل سے تم کوئی اثر نہیں لیتے لےکن مجھے خوف ہے کہ تم پر عذاب کی مصیبت نہ آپڑے کیونکہ تم اس منصب پرفائز ہوجودوسروں کو حاصل نہیں امام عالی مقام نے اپنے خون کی قربانی دے کر یہ بتایا کہ حالات کتنے بھی سخت اورکٹھن کیوں نہ ہوں تم کلمہ حق کو بلند کر وہ خواہ تمہیں اپنی جان کا نذرانہ دینا پڑے۔

کتا ب اللہ اور سنت رسول کا احیاء

دور بنی امیہ کتاب خدا کو پس پیش ڈال دیا گیا لوگ قرآن کی تلاوت تو کرتے تھے مگر روح قرآن ختم ہوچکی تھی ، لوگ فقط ثواب کی خاطر قرآن کی تلاوت کرتے تھے مگر قرن پر عمل نہیں کرتے تھے ، اسلامی معاشرہ سے سنت رسول بالکل مردہ ہوچکی تھی ۔ آپ کے قیام کا مقصد یہ تھا کہ نظام قرآن زندہ ہو ۔ قرآن انسانیت کا ہدای اور رہنما ہے ۔ سنت کا احیاء جس پر چل کر انسان اخروی سعادت تک پہنچ سکتا ہے آپ اپنے قیام سے یہ چاہتے تھے کہ دین اسلام کی کھوئی ہوئی عزت و عظمت حاصل ہو، امام عالی مقام کتاب خدا اور سنت رسول کی مظلومیت اور ان کے احیاء کی دعوت دیتے ہوئے فرماتے ہیں، میں کتاب خدا اورسنت نبی کی دعوت دیتا ہوں بے شک سنت مر چکی ہے ارو بدعت زندہ ہورہی ہے اگر تم میرا قول سنو اور میرے امر کی اطاعت کرو میں تمہیں صراط مستقیم کی ہدایت کرو گا۔(طبری، تاریخ طبری ،ج۴،ص ۲۶۶)

حقیقی امام اور خلیفہ رسول کا تعارف

اصلاح معاشرہ اسی وقت مفید اورموثر ہے جب انسانیت کے حقیقی رہنماؤں کا تعارف کروایا جائے جبکہ غاصب اور ظالم حکمرانوں کے ظلم کو بیان کیا جائے تاکہ لوگ حقیقی رہنماؤں سے در س لیں اور ان کی اطاعت کو اپنا اولین فریضہ سمجھےں تاکہ سعادت اخروی حاصل کرسکےں اوران کی راہنمائی میں معاشرہ میں عادلانہ نظام قائم ہوسکے ،امامحسین – نے جہاں اسالمی معاشرہ کی بے حسی اور بنی امیہ کے مظالم کا تذکرہ کیا ہے وہاں اہل بیت اطہار ٪ کا بعنوان حقیقی رہبر تعارف کردیا آپ نے متعدد جگہوں پر اہل بیت اطہار ٪ کو رسول اللہ کا حقیقی جانشین اور ایک صحیح خلیفہ کے طور پر بتلایا ، مثلاً جب ولید نے آپ نے بیعت طلب کی تو آپ نے فرمایا : ہم خاندان نبوت ورسالت کی کان اور ملائکہ کے ا تر نے کی جگہ ہیں جبکہ یزید ایک فاسق و فاجر ،شراب خور، اعلانیہ برائی کرنے والا ہے مجھ جیسا یزید جیسے کی بیعت نہیں کر سکتا ، تم بھی صبح کرو گے ہم بھی صبح کرتے ہیں ، تم بھی انتظار کرو ہم بھی انتظار کرتے ہیں کہ خلافت کا حق دار کون ہے ( بحار الانوار ، ج۴۴،ص۳۲۵) یا یزید کے حاکم ہونے کے بارے میں فرماتے ہیں: علی الاسلام اذقد بیت براع مثل یزید(علامہ مجلسی ۺ، بحا ر الانوار،ج۴۴،ص۳۲۵)اسلام پر فاتحہ پڑھ دینا چاہئے جب یزید جیسا آدمی اس امت کا حکمران بن جائے ۔ یہ تھا یزید کی عدم لیاقت خلافت کو یوں بیان کرتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ کو سب پر فضیلت عطا کی ہے او رانہیں نبوت سے سر فراز کیا ، ہمارا خاندان اولیاء، اوصیاء اور نبی کے ورثاء کا خاندان ہے اس کی جانشینی کے ہم سے سے زیادہ اہل ہیں مگر کیا کریں ایک گروہ نے ہم پر سبقت حاصل کرلی او رہم سے سے یہ حق چھین لیا جبکہ ہم اس حق سے زیادہ مستحق ہیں۔( بحار الانوار ، ج ۴۴،ص ۳۴۰)

دینی بیداری اور شعار الہٰی کا احیاء

امام حسین – نے سخت مشکلات کے باوجود شعار دینی کو زندہ رکھا نوےں محرم کو آپ نے حضرت عباس سے فرمایا جائے ان کے کہہ دو کہ جنگ کل تک موٴخر کریں ۔ کیوں؟ اس کی کیا وجہ تھی؟ فرمایا: انی احب الصلاة لہ تلاوة کتابہ وکثرة الدعاء والاستغفار� (شیخ مفید ۺ، الارشاد،ج۲،ص۹۱)میں نماز سے محبت کرتا ہوں،تلاوت کتاب،کثرت دعااور استغفار سے محبت کرتا ہوں۔

شب عاشورہ آپ اور آپ کے تمام یارو انصار ذکر خدا اور تلاوت قرآن میں مضغول رہے روز عاشور آپ کے ایک صاحبی نے عرض کیا یابن رسول اللہ دل چاہتا ہے کہ آپ کے ساتھ نماز ظہر ادا کروں، آپ نے فرمایا تو نے نماز کو یاد کیا اللہ تجھے نمازوں میں قرار دے ہاں ابھی نماز کا وقت ہے ، جو بھی معاشرہ کی اصلاح کرنا چاہتا ہے پہلے اپنی اصلاح کرے پھر وہ معاشرہ کی اصلاح کر نا چاہتا ہے پہلے اپنی اصلاح کرے پھر وہ معاشرہ کی اصلاح کرنا چاہتا ہے پہلے اپنی اصلاح کرے پھر وہ معاشرہ کی اصلا کرسکتا ہے ، امام خمینی ۺ اس سدی کے عظیم رہبر و مصلح بزرگ ہوئے ہے نماز اور دیگر شعار دینی کو کس قدر اہمیت دیتے تھے ،اصلاح کرنے والو کے لئے یہ پیغام ہے پہلے اپنے نفس کی اصلاح کرے پھر علم اصلاحی بلندکرے۔

فرہنگ شہاد داور شہادت طلبی کا جذبہ

بالاترین مرحلہ جہاد یہ ہے کہ انسان اپنی تمام توانائی اور خلوص کے ساتھ آخری دم تک دشمنان خدا و رسول کے مقابلے میں جنگ کرتے ہوئے شہید ہوجائے یہی چیز ہم کربلا میں دےکھتے ہیں، کربلا والے موت سے کھیلتے ہوئے نظر آتے ہیں یہ موت فرزند آدم کے لئے زینت ہے اکر کوئی معاشرہ میں اصلاح کرنا چاہتا ہے وہ موت سے نہ ڈرے۔ اگر معاشرے کی اصلاح شہادت و جہات میں مضمر ہو تو انسان بلا خوف و خطر میدان میں کود پڑے۔

مگر جب ہم تاریخ پہ نگاہ ڈالتے ہیں اسلامی معاشرہ میں یزید کے ظلم کے خلاف سکوت محض تھا۔ لوگ سہمے ہوئے تھے شہادت کا جذبہ ختم ہوچکا تھا۔ حیرت کی انتہا یہ ہے کہ جب امام نے اپنے قیام کا اعلان کیا بڑے بڑے لوگوں نے آپ کو مشورہ دیا آپ قیام نہ کریںشہید ہوجائیں گے تو آپ نے فرمایا:دین خدا کی نصرت اور اس کی سربلندی کے لئے میں سب سے زیادہ سزاوار ہوں اور اس کے راہ میں جہاد میرے زیادہ ذمہ داری بنتی ہے تاکہ کملة اللہ بلند ہو۔پھر فرمایا : میں موت کی سعادت اور ظالموں کے ساتھ زندگی کی ذلت سمجھتا ہوں۔ایک اور جگہ فرمایا:عجبا ،بیث ابن خبیث(ابن زیادہ) نے مجھے قتل او ر ذلیلانہ زندگی کے درمیان لا کھڑا کیا ہیئات منا الذلة ذلت ہم سے دور ہے ۔( ابن اثیر ، تاریخ الکامل ،ج۳،ص۹۱) خدا کی قسم میں اپنے ہاتھ ان ذلیل ہاتھوں میں نہیں دوں گا اور غلاموں کی طرح فرار کبھی نہیں کروں گا قیام کربلا سے پہلے لوگ قیام کیوں نہیں کرتے؟ اس لئے کہ موت سے ڈڑتے تھے مگر کربلا کے بعد ہم محسوس کرتے ہیں مسلمانوں میں جذبہ حریت و آزادی پیدا ہوا۔

نتیجہ

کربلا میں معاشرہ کی تمام امراض او ردرد کی دوا پوشیدہ ہے ،اس میںکوئی شک و شبہ نہیں کربلا ہمیں ظلم و شتم کے خلاف ڈٹ جانے کا در س دیتی ہے اور اس اسلامی تحریک سے اقوام عالم اپنی اصلاح کرسکتی ہے مگر معاشرہ میں تبدیلی کیسے ہو۔

اللہ تعالیٰ کا اٹل او رحتمی فیصلہ ہے جب کوئی قوم اپنے اندر تبدیلی نہیں کرتی خداوند بھی اس کے حالت کو نہیں بدلتا ،یہ خدا کی سنت ہے اور سنت خدا میں تبدیلی ممکن نہیں ہے ،لہذا ہمیں معاشرہ کی اصلاح خود کرنا ہوگی ملائکہ آکر اصلاح کا فریضہ نہیں انجام دےں گے ، اگر ہم نے کربلاکی روشنی میں معاشرہ میں تبدیلی لانا ہے تو ہمیں ان پہلووں پر ضرور کام کرنا چاہئے، عوام کے افکار میں تبدیلی لائےں ،ان کی سوئی ہوئی اور مردہ ضمیروں کو بیدار کریں استعمار جدید ( امریکہ جو وقت کا یزید ہے ) کے مظالم کو بیان کریں اور اس کے مقابلہ کے لئے آمادہ ہیں۔

اصلاح کرنے والوں کو پہلے اپنی اصلاح کی طرف توجہ دینی چاہئے اور وہ اپنے آپ کو اس قابل بنائےں کہ اگر انہیں اصلاح معاشرہ کے لئے بڑی سے قربانی دینا پڑے تو اس سے دریغ نہ کریں۔

 

تبصرے
Loading...