کبیرہ اور صغیرہ کے معنی

گذشتہ مطالب سے یہ واضح ہوا کہ گناہ کی دو قسمیں ہوتی ہیں؛کبیرہ اور صغیرہ۔کبیرہ گناہ کے خواص اور اس کے ترک یا مرتکب ہونے سے جو اثرات مرتب ہوتے ہیں وہ معلوم ہوئے ۔اب ہم گناہ کبیرہ سے مراد اور ان کی تعداد بیان کریں گے ۔

اس موضوع پر علمائے کرام کے اقوال ایک دوسرے سے مختلف ہیں ۔ان تمام اختلافات اور اعتراضات کو بیان کرنے سے اس کتاب کی شکل ہی بدل جائے گی ۔ چوں کہ ہماری غرض اختصار اور عام لوگوں کو فائدہ پہنچانا ہے ،لہٰذا تفصیل کے خواہش مند حضرات کتاب شرح کافی اور اربعین شیخ بہائی کی طرف رجوع کریں۔

اس مسئلہ میں علمائے کرام اور مراجع تقلید کی تحقیق کے مطابق مستند وجامع قول وہی ہے جو کہ اہل بیت آیة فقیہ اہل ِ بیت آیة اللہ العظمیٰ السیّد محمد کاظم طباطبائی یزدی طاب ثراہ نے باب شرائط امام جماعت عروة الوثقٰی میں بیان فرمائے ہیں۔ ہم اسی پ راکتفا کرتے ہوئے سید موصوف کے فرمودات کا خلاصہ یہاں ذکر کرتے ہیں۔ انہوں نے گناہ کبیرہ کے تعیّن کے چار طریقے اس طرح بتائے ہیں:

گناہ کبیرہ کیا ہے؟

(۱) کبیرہ ہر وہ گناہ ہے جو قرآن و حدیث میں صریحاً کبیرہ قرار دیا گیا ہو۔ اس قسم کے گناہوں کی تعداد چالیس سے زیادہ ہے جن کو اہل بیت عصمت (علیہم السلام) کی احادیث میں واضح طور پر بیان کیا گیا ہے۔ اب ہم ان روایات کی تشریح و تجزیہ کرتے ہیں۔

(۲) کبیرہ ہر وہ گناہ ہے کہ قرآن مجید اور سنّت معتبرہ میں جس کے مرتکب شخص کے لیے واضح طور پر جہنم کی وعید دی گئی ہو یا یہ کہ واضح طور پر قرآن و حدیث میں آتش جہنم کا وعدہ ذکر نہیں مگر ضمناً مذکور ہے۔ مثلاً قول ِ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ) :

“جس نے جان بوجھ کر نماز ترک کی یقیناً وہ اللہ تعالیٰ اور اس کے پیغمبر کے ذمے سے بری ہوتا ہے۔”

اس روایت میں اشارتاً آتش جہنم کا وعدہ ہے مگر واضح الفاظ میں ذکر نہیں۔ لیکن دوسری روایتوں سے ان مبہم نکات کی وضاحت کے لیے روشن دلیلیں ملتی ہیں۔ جیسا کہ حضرت امام محمد باقر اور امام جعفر صادق + نے فرمایا:

الکَبَائِرُ کُلُّ مَا اَوْعَدَ اللّٰہُ عَلَیْہِ النَّارْ۔

“گناہ کبیرہ ہر وہ گناہ ہے کہ جس پر خدائے تعالیٰ نے جہنم کا وعدہ کیا ہے۔”

اور وہ روایت صحیحہ جو امام زادہ عبدالعظیم حسنی / سے منقول ہے ، آگے ذکر ہو گی۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ عذاب ِ الٰہی کا وعدہ خواہ قرآن میں ہو یا سنّت و اخبار میں ، کوئی فرق نہیں۔

(۳) ہر وہ گناہ جو قرآن یا سنّت معتبرہ کی رو سے مسلمہ طور پر گناہ کبیرہ ہو۔ اگر اس کے مقابل کوئی دوسرا گناہ اس سے زیادہ بڑا شمار کریں تو وہ بھی گناہ ہے۔ مثلاً قتل نفس گناہان ِ کبیرہ میں سے ہے اور قرآن و سنّت دونوں سے ثابت ہے۔ چنانچہ ابن محبوب کی صحیح حدیث میں ’ نفس محترم ‘ کا قتل واضح عبارت میں گناہ کبیرہ محسوب کیا گیا ہے۔ اور قرآن مجید میں قاتل کے لیے عذاب کا وعدہ دیا ہو ا ہے۔ پس اگر قرآن پاک میں یا ایسی سنّت جسے معتبر سمجھا جائے اس کے کے معنی سے یہ واضح ہو جائے کہ فلاں گناہ قتل نفس سے بڑا گناہ ہے اس صورت میں وہ گناہ بھی گناہ کبیرہ ہی ہو گا۔ مثلاً فتنہ انگیزی کے بارے میں قرآن مجید میں ارشاد ِ ربّانی ہے کہ وہ قتل نفس سے بھی بڑا گناہ ہے:

وَالْفِتْنَةُ اَکْبَرُ مِن الْقَتْلِ

اس سے ہمیں یقین پیدا ہوتا ہے کہ فتنہ بھی گناہان کبیرہ میں محسوب ہوتا ہے۔

(۴) کبیرہ وہ گناہ ہے جو د ین دار اور شریعت پسند افراد کے نزدیک بڑا گناہ ہو۔ اس طرح کہ یہ یقین حاصل ہو جائے کہ مثلاً فلاں گناہ اس وقت سے لے کر زمانہٴ معصوم (علیہ السلام) تک سارے متدینیین مسلسل گناہ کبیرہ شمار کرتے آئے ہیں ۔ جیسا کہ عقلاً اور مسئلہ جانتے ہوئے خانہٴ خدا کی بے حرمتی کے قصد سے مسجد بجس کرنا یا نعوذباللہ قرآن مجید دور پھینک دینا وغیرہ وغیرہ گناہ کبیرہ میں شمار ہوتے ہیں۔

گناہ کبیرہ کے تعیّن کرنے کے چار طریقے جیسا کہ سیّد نے فرمایا، بیان کیے گئے۔ جن میں پہلی قسم وہ گناہان کبیرہ ہیں جن کے بارے میں نص موجود ہے۔ باقی تین طریقوں میں سے کسی ایک طریقے سے کبیرہ ہونا ثابت ہو اس کی تفصیل ذیل میں بیان کی جاتی ہے۔

مذکورہ چار طریقوں سے متعلّق عروة الوثقیٰ کی اصل عبارت

(۱) الْمَعْصِیَةُ الْکَبِیْرة، ھِیَ کُلُّ مَعْصِیَةٍ وُرِدَا النَّصُّ بِکَوْنِھَا کَبِیْرَةٌ کجُمْلَةٍ مِن المعًاصِیْ الْمَذْکُوْرَةِ فِیْ مَحِلْھَا۔

“کبیرہ ہر وہ گناہ ہے جو قرآن و سنّت میں صریحاً کبیرہ ثابت ہو چکا ہو اس قسم کے گناہان ِ کبیرہ (کی تعداد چالیس سے زیادہ ہے) ہر ایک کا ذکر اپنے موضوع کے تحت ہو گا۔”

 

(۲) اَوْوُرِدَالتوْ عِیْدُ بِالنَّارِ عَلَیْھَا فی الْکِتَابِ اَوْ السُّنَّةِ صَرِیْحاً اَوْضِمْناً۔

“یا کبیرہ ہو وہ گناہ ہے کہ قرآن اور سنّت معتبرہ میں جس کے مرتکب شخص کے لیے واضح طور پر ضمناً وعید دی گئی ہو۔”

(۳) اَوْ وُرِدَ فِی الْکِتَابِ اَوِ السُنّةِ کوْنُہُ اَعْظَمَ مِنْ اَحَدِ الْکَبَائِر الْمَنصُوْصَةِ اَوِالْمَوْعُوْدُ عَلَیْھَا بِالنَّارِ۔

“یا ہر وہ گناہ جو قرآن مجید یا سنّت ِ معتبرہ میں کسی ایک گناہ کو صراحتاً دوسرے گناہ سے بڑا شمار کیا گیا ہے یا جس پرآتش جہنم کا وعدہ کیا گیا ہو۔”

(۴) اَوْکَانَ عَظِیْمةً فِیْ اَنْفُسِ اَھْلِ الشَّرْعِ۔

“یا کبیرہ ہر وہ گناہ ہے جسے اہل شرع بڑا گناہ محسوب کریں۔”

اب ہم تبرکاً گناہانِ کبیرہ کے مدارک اور ان سے متّعلق روایات نقل کرتے ہیں اور ہر ایک کی تشریح اپنی جگہ تفصیل کے ساتھ ہوگی۔

پہلی روایت

قَالَ الصَّدُوْقُ فِیْ عُیُوْنِ الْاَخْبَارِ عَنْ عَبْدِ الْعَظِیْمِ بْنِ عَبْدِاللّٰہِ الحَسَنِیْ قَالَ حَدَّ ثَنِیْ اَبُوْ جَعْفَر الثَّانِیْ قَالَ سَمِعْتُ اَبِیْ یَقُوْلُ: سَمِعْتُ اَبِیْ مُوْسیٰ بْنِ جَعْفَرٍ (ع) یَقُوْلُ دَخَلَ عَمْرُو بْن عُبَیْدٍ علی اَبی عَبْدُاللّٰہِ عَلَیْہِ السَّلاَمُ فَلَمَا سَلَّمَ وَجَلَسَ تَلاٰ ھٰذِہ الْآیَةَ ((الَّذِیْنَ یَجْتَنِبُوْنَ کَبَائِرَ الْاِثْمِ وَالْفَوَاحِشَ۔ ثُمَّ اَمْسَکَ ؟ قَالَ اُحِبُّ اَنْ اَعْرِفَ الْکَبَائِرِ مِنْ کِتَابِ اللّٰہِ تَعَالٰی وَمَنْ یُّشْرِکْ باللّٰہِ فَقَدْ حَرَّمَ اللّٰہُ عَلَیْہِ الجَنَّةَ۔(سورہ۵۔آیت۷۲)

“صدوق نے عیون الأخبار میں(امام زادہ) حضرت عبدالعظیم بن عبداللہ الحسنی کے حوالے سے یہ روایت نقل فرمائی ہے کہ آپ نے فرمایا: میں نے ابو جعفر ثانی (امام محمد تقی ) سے سنا اور انہوں نے کہا کہ میں نے اپنے والد بزرگوار حضرت امام رضا (علیہ السلام) سے سنا اور انہوں نے کہا کہ میں حضرت امام موسیٰ کاظم (علیہ السلام) سے سنا، وہ فرماتے تھے کہ ایک دن عمروبن عبید حضرت ابی عبداللہ جعفر صادق (علیہ السلام) کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ جب وہ سلام کر کے بیٹھ گئے تو عمرو بن عبید نے اس آیت کی تلاوت فرما ئی :

“وہ لوگ جو گناہانِ کبیرہ اور بے حیائیوں سے پرہیز کرتے ہیں ۔” اس کے بعد تھوڑی دیر خاموش رہے تو امام جعفر صادق (علیہ السلام) نے فرمایا: آپ خاموش کیوں ہو گئے؟ عرض کیا میں کتاب خدا سے گناہان کبیرہ جاننا اور اخذ کرنا چاہتا تھا۔ اس کے بعد ارشاد فرمایا: اے عمرو تمام گناہانِ کبیرہ میں سے بزرگ ترین گناہ اللہ تعالیٰ کا شریک قرار دینا ہے۔ جیسا کہ خود فرمایا ہے، ” یاد رکھو جس نے خدا کا شریک بنایا اس پر خدا نے بہشت کو حرام کردیا۔”

(۲) وَبَعْدُہُ الْیَاْسُ مِنْ رَّوْح اللّٰہِ تَعَالٰی لِاَنَّ اللّٰہَ تَعَالٰی یَقُوْلُ: یَایْئَسُ مِنْ رَّوحِ اللّٰہِ اِلاَّ الْقَوْمُ الْکَافِرُوْن۔ (سورہ ۱۲۔آیت۸۷)

“اور اس کے بعد اللہ تعالیٰ کی رحمت سے نا امید ہونا بھی گناہ کبیرہ ہے۔ کیونکہ خدائے تعالیٰ خود فرماتا ہے کہ اللہ کی رحمت سے سوائے گروہ کافروں کے اور کوئی نا امید نہیں ہو کرتا۔”

(۳) ثُمَّ الْاَمْنُ مِنْ مَکْرِ اللّٰہِ لِاَنَّ عَزَّوَجلَّ یَقُوْلُ فَلاَ یَاْمَنُ مَکْرَ اللّٰہِ اِلاَّ الْقَوْمُ الخَاسِرُوْن (سورہ ۷۔آیت۹۹)

“اللہ تعالیٰ کے مکر (یعنی ناگہانی انتقام و قہر) سے نہ ڈرنا گناہ ِ کبیرہ ہے۔ چنانچہ خدائے بزرگ و برتر کا ارشاد ہے : یاد رہے کہ خدا کے داؤ سے صرف گھاٹا اٹھانے والے ہی نڈر ہو بیٹھتے ہیں۔”

(۴)وَمِنْھَا عقوقِ الوَالِدَینِ لِاَنَّ اللّٰہَ سُبْحَانَہ جَعَلَ الْعَاقَ جَبَّاراًشَقِیّاً

“گناہان کبیرہ میں سے ایک عاق والدین ہے کیونکہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا :

“وَبَرّاًبِوَالِدَیہِ وَلَمْ یَکُنْ جَبَّاراً عَصِیّاً”

’یعنی اپنے ماں باپ کے حق میں سعادت مند تھے اور سرکش و نافرمان نہ تھے۔ ‘

یہاں ماں باپ کے نافرمان کو سرکش اور شقی فرمایا۔”

(۵) وَقَتْلُ النَّفْسِ الَّتِیْ حَرَّمَ اللّٰہُ اِلاَّ بِالْحَقِّ لِاَن اللّٰہَ عَزَّوَجَلَّ یَقُوْلُ ((فَجَزَاوٴْ جَھَنَّمُ خَالِداً فِیْھَا))۔

“کسی مومن کو نا حق قتل کرنا (گناہ کبیرہ) حرام ہے۔ کیونکہ اس بارے میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

وَمَنْ یَقْتُلْ مُوٴْمِناً مُّتَعَمِّداً فَجَزَآءُ ہُ جَھَنَّمُ خَالِداً فِیْھَا وَغَضِبَ اللّٰہَ عَلَیْہِ وَلَعَنَہ وَاَعَدَّ لَہ عَذَاباً عَظِیماً

“اور جو شخص کسی مومن کو جان بوجھ کر مار ڈالے (تو اس کا کوئی کفّارہ نہیں بلکہ) اس کی سزا دوزخ ہے اور وہ ہمیشہ اس میں رہے گا۔ اس پر خدا نے اپنا غضب ڈھایا اور لعنت کی ہے اور اس کے لیے بڑا سخت عذاب تیّار کر رکھا ہے۔”(سورہ۴۔آیت۹۳)

(۶)وَقَذْفُ الْمُحْصَنَاتِ۔ لِاَنَّ تَعَالٰی یَقُوْلُ اِنَّمَا یَاْکُلُوْنَ فِیْ بُطُوْنِھِمْ نَاراً وَسَیَصْلَوْنَ سَعِیْراً۔

“کسی پاکدامن مرد یا عورت کو زنا یا لواطہ کی طرف نسبت دینا گناہ کبیرہ ہے۔ جس کی دلیل اللہ تعالیٰ کا یہ قول ہے:

اِنَّ الَّذِیْنَ یَرْمُوْنَ الْمُحْصَنَاتِ الْغَافِلَاتِ الْمُوٴمِنَاتِ لُعِنُوْا فِیْ الدُّنََیَا وَالْآخِرَةِ وَلَھُمْ عَذَابٌ عَظِیْمٌ۔ (سورہ۲۴۔آیت۲۳)

“بے شک جو لوگ پاکدامن ، بے خبر اور ایمان دار عورتوں پر (زنا کی) تہمت لگاتے ہیں ان پر دنیا اور آخرت میں (خدا کی) لعنت ہے۔ اور ان پر بڑا (سخت ) عذاب ہو گا۔”

(۷)وَاَکْلُ مَالِ الْیَتِیْمِ لِاَنَّ اللّٰہِ تَعَالٰی یَقُوْلُ ((اِنَّمَا یَاْکُلُوْنَ فِیْ بُطُوْنِھِمْ نَاراً وَّسَیَصْلَوْنَ سَعِیْرًا۔

“اور مال یتیم کھانا گناہ کبیرہ ہے۔ جیسا کہ خداوند عالم نے فرمایا:

اِنَّ الَّذِیْنَ یَاْکُلُوْنَ اَمْوَالَ الْیَتَامٰی ظُلْماً اِنَّمَا یَاْکُلُوْنَ فِیْ بُطُوْنِھِمْ نَاراً ط وَسَیَصْلَوْنَ سَعِیْراً (سورہ۴۔آیت۱۰)

’جو لوگ یتیموں کے مال نا حق چٹ کر جایا کرتے ہیں وہ اپنے پیٹ میں بس انگارے بھرتے ہیں اور عنقریب واصل جہنم ہو ں گے۔ “

(۸)وَالْفرَارُ مِنَ الزَّحْفِ لِاَنَّ اللّٰہَ تَعَالٰی یَقُوْلُ وَمَنْ یَوَلّھِمْ یَوْمَئِذٍدُبْرَہ اِلاَّ مُتَحَرِّفاً لِقِتَالٍ اَوْمُتَحَیِّزاً اِلٰی فِٴَةٍ فَقَدْ بَآءَ بَغَضَبٍ مِّنَ اللّٰہِ وَمَاْوٰہُ جَھَنَّمُ وَبِئسَ الْمَصِیْرُ

(سورہ۸۔ آیت۱۶)

جہاد میں پیش قدمی کرنے کی بجائے بھاگ جانا گناہ کبیرہ ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے “اور (یاد رہے) اس شخص کے سوا جو لڑائی میں کترائے یا کسی جماعت کے پاس جا کر (اور) جو شخص بھی اس دن ان کفّار کی طرف سے اپنی پیٹھ پھیرے گا وہ یقینی (ہر پھر کے) خدا کے غضب میں آگیا اور اس کا ٹھکانہ جہنم ہی ہے اور وہ (کیا) بُرا ٹھکانہ ہے۔”

(۹)وَاَکْلُ الرِّبْوا لِاَنَّ اللّٰہَ تَعَالٰی یَقُوْلُ: اَلَّذِیْنَ یَاْکُلُوْنَ الرِّبْوا یَقُوْمُوْنَ اِلاَّکَمَایَقُوْمُ الَّذِیْ یَتَخَبَّطُہُ الشَّیْطٰنُ مِنَ الْمَسِّ۔

“گناہانِ کبیرہ میں سے ایک سود خوری ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:

“جو لوگ سود کھاتے ہیں وہ قیامت کے دن کھڑے نہ ہو سکیں گے مگر اس شخص کی طرح کھڑے ہوں گے جس کو شیطان نے لپٹ کر مخبوط الحواس بنا دیا ہو۔‘

ذٰلِکَ بِاَنَّھُمْ قَالُوْ اِنَّما الْبَیْعُ مِثْلُ الرِّبوْا ط وَاَحَلَّ اللّٰہُ الْبَیْعَ وَحَرَّمَ الرِّبْوا۔

“یہ اس وجہ سے کہ وہ اس کے قائل ہو گئے کہ جیسا بِکری کا معاملہ ویسا ہی سود کا معاملہ ، حالانکہ بِکری کو تو خدا نے حلال قرار دیا اور سود کو حرام کر دیا۔”

(۱۰)وَالْسِّحرُ لِاَنَّ تَعَالٰی وَلَقَدْ عَمِلُوْا لَمَن اِشْتَراہُ مَالَہُ فِیْ الْآخِرَةِ مِنْ خَلَاقٍ ط

“اور سحر (جادو) گناہ کبیرہ ہے۔ “چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے “وہ یقینا جان چکے تھے کہ جو شخص ان (جادو کی برائیوں ) کا خریدار ہوا وہ آخرت میں بے نصیب ہے۔”

وَلَبِئسَ مَاشَرَوُا اَنْفُسِھِمْ لَوْکَانُوْایَعْلَمُوْنَ

’اور بے شبہ (معاوضہ ) بہت ہی بڑا ہے جس کے بدلے انہوں نے اپنی جانوں کو بیچا۔ کاش کچھ سمجھتے ہوتے۔”

(۱۱)وَالزِّنَالِاَنَّ اللّٰہَ تَعَالٰی یَقُوْلُ وَمَنْ یَّفْعَلْ ذٰلِکَ یَلْقَ اَثَاماً یُصنَاعَفْ لَہ الْعَذَابُ یَوْمَ الِْیَامَة، وَیَخْلُدْفِیہِ مُھَاناً

گناہان کبیرہ میں سے ایک ’زنا‘ ہے۔ چونکہ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

وَالَّذِیْنَ لَایَدْعُوْنَ مَعَ اللّٰہِ الٰھاً آخَرَ وَلَا یَقْتُلُوْنَ النَّفْسَ الَّتِیْ حَرَّمَ اللّٰہُ الاَّ بالْحَقِّ وَلَایَزْنُوْنَ وَمَنْ یَّفْعَلْ ذٰلِکَ یَلْقَ اثاماً یُّضاعَفْ لَہ الْعَذابُ وَیَخْلُدُ فِیْہِ مُھَاناً۔

(سورہ۱۹ آیت۶۸،۶۹)

“اور وہ لوگ جو خدا کے ساتھ دوسرے معبود کی پرستش نہیں کرتے اور جس جان کے مارنے کو خدا نے حرام کردیا ہے اس کو نا حق قتل نہیں کرتے اور نہ زنا کرتے ہیں ۔ اور جو شخص ایسا کرے گا وہ آپ اپنے گناہ کی سزا بھگتے گا۔ قیامت کے دن اس کے لیے عذاب دو گنا کر دیا جائے گا اور اس میں ہمیشہ ذلیل و خوار رہے گا۔”

(۱۲)وَالیَمِیْنِ الْغَمُوسِ الْفَاجِرَةِ لِاَنَّ اللّٰہ تَعَالٰی یُقوْلُ: اِنَّ اَلَّذِیْنَ یَشْتَرُوْنَ بِعَھْدِ اللّٰہِ وَاَیْمَانِھِم ثَمَناً قَلِیلاً اُوْلئِٓکَ لَاخَلَاقَ لَھُمْ فِیْ الْآخِرةِ وَلَایُکَلِمُھُمُ اللّٰہُ وَلَایَنْظُرُ الَیْہِمْ یَوْمَ اَلقیٰامَةِ لَایُزَکِیْھِمْ وَلَھُمْ عَذَابٌ اَلَیْمٌ (سورہ۳۔آیت۷۷)

“گناہانِ کبیرہ میں ایک ’ یمین غموس ‘ جھوٹی قسم ہے۔ جس کے بارے میں خدائے تعالیٰ کا ارشاد ہے:”بے شک جو لوگ اپنے عہد اور قسمیں جو خدا سے کی تھیں اُن کے بدلے تھوڑا (دنیوی) معاوضہ لے لیتے ہیں ، انہیں لوگوں کے واسطے آخرت میں کوئی حصہ نہیں۔ اور قیامت کے دن خدا ان سے بات تک تو کرے گا نہیں اور نہ اُن کی طرف نظر (رحمت) ہی کرے گا۔ اور نہ اُن کو (گناہوں کی گندکی سے) پاک کرے گا۔ اور ان کے لیے دردناک عذاب ہے۔”

(۱۳)وَالْغُلُوْلُ لِاَنَّ اللّٰہَ تَعَالٰی یَقُوْلُ وَمَنْ یّغْلُلُ یَاْتِ بِمَاغَلَّ یَوْمَ الْقِیَامَةِ۔

جن گناہوں کے بارے میں نصوص صریحہ موجود ہیں، ان میں سے ایک، غلول، خیانت ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

وَمَاکَانَ لِنَبیّ اَنْ یَغُلَّط وَمَنْ یَّغْلُلْ یَاْتِ بِمَاغَلَّ یَوْمَ الْقِیَامَةِ ثُمَّ تُوَفّیٰ کُلُّ نَفْسٍ مَّاکَسَبَتْ وَھُمْ لَایُظْلَمُوْنْ اَفَمَنِ اَتَّبَعَ رِضْوَانَ اللّٰہِ کَمَنْ بَآءَ بِسَخَطٍ مِّنَ اللّٰہِ وَمَأ وہُ جَھَنَّمُ ط وَبِئْسَ الْمَصِیْرِ۔ (سورہ۳۔آیت۱۶۱،۱۶۲)

“کسی نبی کے (ہر گز) یہ شایانِ شان نہیں کہ وہ خیانت کرے۔ اور جو خیانت کرے گا تو جو چیز خیانت کی ہے قیامت کے دن وہی چیز (بعینہ خدا کے سامنے) لانی ہو گی۔ اور پھر ہو شخص اپنے کئے کا پورا بدلا پائے گا۔ اور ان کی کسی طرح حق تلفی نہیں کی جائے گی۔ بھلا جو شخص خدا کی کوشنودی کا پابند ہو گیا وہ اس شخص کے برابر ہو سکتا ہے جو خدا کے غضب میں گرفتار ہو اور جس کا ٹھکانہ جہنم ہے اور وہ کیا بُرا ٹھکانہ ہے۔”

(۱۴)وَمَنْعُ الزَّکوٰة، الْمَعرُوْضَةِ لِاَنَّ اللّٰہَ تَعَالٰی یَقُوْلُ فَتُکوْیٰ بِھَاجِبَاھُھُمْ وَجُنُوبُھُمْ وَظُھُوْرُھِمْ۔

“واجب زکوٰة کو روکنا گناہِ کبیرہ ہے۔ جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

وَالَّذِیْنَ یَکْنِزُوْنَ الذَّھَبَ وَالْفِضَّةَ وَلَایُنْفِقُوْنَھَا فی سَبِیْلِ اللّٰہِ فَبَشِرّھُمْ بِعَذَابٍ اَلِیْمٍ۔

“اور جو لوگ سونا اور چاندی جمع کرتے جاتے ہیں اور اس کو خدا کی راہ میں خرچ نہیں کرتے تو اے رسول ان کو دردناک عذاب کی خو ش خبری سنا دو۔”

(۱۵)وَشَھَادَةُ الزُّوْرِ لِاَنَّ اللّٰہَ تَعَالٰی یَقُوْلُ:

وَاجْتَنِبُوا قَوْلَ الزُّوْرِ۔

“اور جھوٹی گواہی دینا گناہ کبیرہ ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :”تم جھوٹی گواہی سے پرہیز کرو۔”

(۱۶)وَکِتْمانُ الشَّھَادَةِ لِاَنَّ اللّٰہَ تَعَالٰی یَقُوْلُ لَاتَکْتُمُوْا الشَّھَادَةَ ط وَمَنْ یَکْتُمْھَا فَاِنَّہُ اٰثِمٌ قَلْبُہ ط وَاللّٰہُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ عَلِیْمٌَ۔

“تم گواہی کو نہ چھپاؤ۔ اور جو چھپائے گا تو بے شک اس کا دل گناہ گار ہے اور تم لوگ جو کرتے ہو خدا اس کو خوب جانتا ہے۔”

(۱۷)وَشُرْبِ الْخَمْرِ لِاَنَّ تَعَالٰی انَھٰی عَنْھَا کَمَا نَھٰی عَنْ عِبَادَةِ الْاَوْثانِ۔

“اور شراب خوری گناہ کبیرہ ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں اس سے منع فرمایا ہے ۔ جیسا کہ بت پرستی سے منع کیا گیا ہے۔ چنانچہ فرمایا ہے:

وَیَسْئَلُوْنَکَ عَنِ الْخَمْرِ وَالْمیَْسِرِط قُلْ فِیْھِمَا اِثْمٌ کَبِیْرٌ وَّمَنَافِعُ لِلنَّاسِ وَاِثمُھُمَا اَکْبَرُ مِنْ نَّفْعِھِمَا (سورہ۲آیت۲۱۹)

“اے رسول، تم سے لوگ شراب اور جوئے کے بارے میں پوچھتے ہیں تو تم ان سے کہدو کہ ان دونوں میں بڑا گناہ ہے۔ اور (کچھ فائدے) بھی ہیں۔ اور ان کے فائدے سے ان کا گناہ بڑھا ہو اہے۔”

(۱۸)وَتَرْکُ الصَّلٰوةِ مُتَعَمِّدًا

“اور جان بوجھ کر نماز ترک کرنا گناہ کبیرہ ہے۔”

(۱۹)اَوَشَیْئاً مِمَّا فَرَضَ اللّٰہُ عَزَّوَجَلَّ لِاَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ قَالَ مَنْ تَرَکَ الصَّلوٰةَ مُتَعَمِّدًا فَقَدْ بَرَءَ مِنْ ذِمّةِ اللّٰہِ وَذِمَّةِ رَسُوْلِہِ۔

“یا بعض ضروریات ِ دین جو کہ اللہ تعالیٰ نے واجب قرار دی ہیں عمداً ترک کرنا گناہان ِ کبیرہ میں سے ہے۔ چونکہ حضرت رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے فرمایا جو کوئی جان بوجھ کر نماز چھوڑ دے تو یقینا خداوند عالم اور اس کے رسول کی امان سے خارج ہے۔”

(۲۰)وَنَقْضُ اِلْعَھْدِ

ٍ “یعنی عہد شکنی گناہ کبیرہ میں شمار ہے۔ جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

الَّذِیْنَ یَنْقُضُوْنَ عَھْدَ اللّٰہِ مِنْ بَعْدِ مِیْثَاقِہِ …الخ

(سورہ رعد۔آیت۲۵)

“اور وہ لوگ جو خدا سے عہد و پیمان کو پکا کرنے کے بعد توڑ ڈالتے ہیں۔”

(۲۱)وَقَطِیعَةُ الرَّحِمِ لِاَنَّ اللّٰہ تَعَالٰی یَقُوْلُ وَیَقْطَعُوْنَ مَا اَمَرَاللّٰہُ بِراَنْ یُّوْصَلَ وَیُفْسِدُوْنَ فِیْ الْاَرْضِط اُوْلٰئِکَ لَھُمُ اللَّعْنَہُ وَلَھُمْ سُوْءُ الدَّارِ۔ (سورہ رعد۔آیت۲۵)

“اور رشتہ داروں سے تعلقات قطع کرنا گناہ کبیرہ ہے۔ چنانچہ مذکورہ بالا آیت میں خدائے تعالیٰ فرماتا ہے:

’اور جن (باہمی تعلقات) کے قائم رکھنے کا خدا نے حکم دیا ہے انہیں قطع کرتے ہیں اور روئے زمین میں فساد پھیلاتے پھرتے ہیں۔ ایسے لوگ ہی ہیں جن کے لیے لعنت ہے اور ایسے ہی لوگوں کو واسطے بُرا گھر (جہنم) ہے۔”

جب حضرت ابی عبداللہ جعفر صادق (علیہ السلام) نے گناہان ِ کبیرہ بیان کر کے اپنے کلام اختتام تک پہنچایا تو راوی عمرو بن عبید فریاد اور بکا کے ساتھ یہ کہتا ہوا باہر نکل گیا: “یقینا ہلاکت میں پڑ گیا وہ شخص جو اپنے رائے سے کچھ کہے اور آپ حضرات کے علم و فضل سے انکار کرے۔”

پہلی روایت یہیں پر اختتام کو پہنچی۔

د وسری روا یت

فِی صَحِیْحِ بْنِ مَحبُوْب قَالَ کَتَبَ مَعِیْ بَعْضُ اَصْحَابِنَا اِلٰی اَبِیْ الْحَسَنِ (ع) یَسْئَلُہُ عَن الْکَبَائِرِکَمْ ھِیَ ؟ وَمَاھِی ؟ فَکَتَبَ (ع) الْکَبَائِرَ مَنْ اِجْتَنَبَ مَاوَعَدَ اللّٰہُ عَلَیْہِ النَّارُ کَفَّرَ عَنْہُ سَیّئاتَہُ اِذَا کَانَ مُوْمِناً وَالسَّبْعُ مُوْبِقَاتٍ۔

“ابن محبوب سے صحیح میں یہ روایت نقل کی گئی ہے کہ اس نے کہا: ” میرے بعض رفقاء نے میرے ساتھ حضرت ابی الحسن امام رضا (علیہ السلام) کو خط لکھا جس میں پوچھا گیا تھا کہ گناہان ِ کبیرہ کی تعداد کیا ہے، اور ان کے تعیّن کے لیے حقیقی تعریف کیا ہے؟ آنحضرت (علیہ السلام) نے یوں تحریر فرمایا:

” گناہان کبیرہ وہ گناہ ہیں جن کے مرتکب ہو نے والے شخص کے لیے وعدہٴ آتش دیا گیا ہے۔ اگر کسی مومن نے ان سے پرہیز کیا ( اور توبہ کی) تو اللہ تعالیٰ اس کے گناہ محو کر دیتا ہے۔ جن گناہوں پر عذاب کا وعدہ ہے وہ سات ہیں:

قَتْلُ النَّنَسْ اِلْحَرَام (کسی کو جان سے مارنا جبکہ شرعاً اس کا قتل حرام ہو)

وَعُقُوْقُ الْوَالِدَیْن (اور والدین کا عاق ہونا)

وَاَکلُ الرِبوٰا (اور سود کھانا)

وَالتَّعَرُّبُ بَعْدَ الْھِجْرَة (ہجرت کرنے کے بعد دوبارہ جاہلیت کی طرف پلٹنا)

وَقَذْفُ الْمُحْصِنَةِ (اور پاک دامن عورت پر زنا کی تہمت لگانا)

وَاَکْلُ مَالَ الْیَتِم (اور مال یتیم کھانا)

وَالْفِرَارُ مِنَ الزَّخفِ (محاذ جنگ سے فرار ہو جانا)

یہاں تک ابن محبوب کی روایت ختم ہوئی۔ (وسائل الشیعہ۔ کتاب جہاد)

تیسری روایت

وَفِیْ رَوَایَةِ اَبِیْ الصَّامت عَنْ اَبِیْ عَبْدِاللّٰہِ (ع) قال: اَکْبَرُا الْکَبَائِرُ الشِّرْکُ بِاللّٰہِ وَقَّتْلُ النَّفْس الَّتِیْ حَرَّمَ اللّٰہُ اِلاَّ بِالْحَقَّ وَاَکْلُ اَمْوَالِ الیَتَامیٰ وَعُقُوْقُ الْوَالِدَیْنِ وَقَذْفُ الْمحصَنَاتِ وَالْفَرارُ مِنَ الزَّحْفِ وَانْکَارُ مَااَنْزَل اللّٰہُ عَزَّوَجَلَّ۔

ابی صامت نے حضرت ابی عبداللہ امام جعفر صادق (علیہ السلام) سے نقل کیا ہے کہ آپ (علیہ السلام) نے فرمایا: گناہان کبیرہ میں سب سے بڑا گناہ (۱) اللہ تعالیٰ کے لیے شریک بنانا (۲) جس کے قتل کواللہ تعالیٰ نے حرام قرار دیا ہے اسے جان سے مار دینا ، مگر وہ شخص جو کہ ازروئے شریعت واجب القتل ہو (۳) یتیموں کا مال کھانا (۴) والدین کا عاق کرنا (۵) پاک دامن عورتوں پر زنا کی تہمت لگانا (۶) محاذ ِ جنگ سے بھاگ جانا (۷) خدائے بزرگ و برتر کی جانب سے اتاری ہوئی ضروریات دین سے انکار کرنا ہے۔”

وَفِیْ روایةِ عبدِالرَّحمٰن بن کثیر عَنْہ (ع) وَاِنْکَارُ حَقِّنَا وَفِی رَوَایَةِ اَبِیْ خَدِیْجَة عَنہ (ع) قال: الْکِذْبُ عَلٰی اللّٰہِ وَعَلٰی رَسُوْلہِ وَعَلٰی الْاَوْصِیَاءِ مِنْ الْکَبَائِرِ۔ وَفِیْ مُرْسَلَةِ الصَّدُوْقِ عُدَّمِنْہُ الْحَیْفُ فِی الْوَصِیَّةِ وَ فِیْ مُرْسَلة کَنْزِالْفَوَائِدِ عُدَّمِنْہُ اِسْتِحْلَالُ بَیْتِ الْحَرَامِ (وسائل۔کتاب الجہاد)

“عبدالرحمٰن ابن کثیر نے آنحضرت (علیہ السلام) سے یہ روایت نقل فرمائی ہے کہ ہم اہل بیت (علیہم السلام) کے حقوق سے انکار گناہ کبیرہ ہے۔ اور ابی خدیجہ نے آنحضرت (علیہ السلام) سے یہ روایت بھی نقل کی ہے کہ آپ نے فرمایا : (۹) اللہ تعالیٰ اور رسول اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ) اور اوصیائے کرام پر جھوٹ باندھنا گناہان کبیرہ میں شمار ہے۔ اور صدوق کی روایت مرسلہ میں (۱۰) وصیّت میں کسی پر ظلم کر کے ارث سے محروم کرنا گناہ کبیرہ میں محسوب کیا گیا ہے۔ (۱۲) اور کتاب کنزالفوائد کی مرسلہ روایت کے مطابق خانہٴ خدا میں بدامنی کو حلال جاننا گناہ کبیرہ ہے(جس کو اللہ تعالیٰ نے جائے امن قرار دیا ہے)۔”

چوتھی روایت

وَفِیْ عُیُوْنِ الْاَخْبَارِ بِاَسَایِنْدِہِ عَنِ الفَفَلِ بِن شَاذَان عَنْ الرَِّضا، فِیْما کَتَبَ الٰی الْمَاْمُوْنِ وَاجْتِنَابِ الْکَبَائِرِ وَھِیَ۔

کتاب عیون الأخبار میں معتبر اسناد کا حوالہ دیتے ہوئے فضل بن شاذان نے حضرت امام رضا (علیہ السلام) کے اس خط کا ذکر کیا ہے جس میں گناہان ِکبیرہ سے پرہیز کے بارے میں مامون کو لکھا تھا۔ آنحضرت (علیہ السلام) کے خط کی مختصر عبارت یہ ہے:

 

(۱)قَتْلُ اِلنَّفْسِ الَّتیْ حَرَّمَ اللہُ تَعَالیٰجن لوگوں کے جان سے مارنے کو اللہ تعالیٰ نے حرام قرار دیا ہے۔

(۲) وَالزِّنَا اور زنا کرنا

(۳) وَالسَّرِقَةُ اور چوری کرنا

(۴) وَ شُربُ الْخَمْرِ اور شراب پینا

(۵) وَعُقُوْقُ الْوالِدَیْنِ اور عاق والدین ہونا

(۶) وَالْفِرَارُمِنَ الزَّحْفِ محاذ جنگ سے بھاگنا

(۷) وَ اَکْلُ مَال الیَتِیمْ ظلم و زیادتی سے مال یتیم کھانا

(۸) وَاکْل ُالْمَیْتَةَ وَ الدَّمَ وَ لَحْمَ الْخِنْزِیْرِ وَ مَااُھِلَّ لِغَیْرِاللّٰہِ مِنْ غَیْرِ ضِرُوْرَةِِاور بغیر مجبوری کے مردار، خون، سوٴر کا گوشت کھانا اور اس ذبیحہ کا گوشت کھانا جس پر غیر خدا کا نام لیا گیا ہو، گناہ کبیرہ ہے۔

( ۹) وَاَکْل الرِّبْوابَعْدَالْبَیِّنَةِ واضح اور ثابت ہو نے کے بعد سود کھانا۔

(۱۰) وَالسُّحْتُ اور مال حرام کھانا

(۱۱) وَاْلْمَیْسِرُ وَالْقُمَارُ اور جوا کھیلنا

(۱۲) وَالْبَخْسُ فِی الْمِکْیالِ وَالْمِیْزَانِ اور ناپ تول میں کمی کرنا

(۱۳) وْقَذْفُ الْمُحْصَنَاتِ پاک دامن عورتوں پر زنا کی تہمت لگانا

(۱۴) وَاللِّوَاطُ اور مرد کا مرد کے ساتھ فعل ِ بد کرنا

 

(۱۵) وَالْیَاْسُ مِنْ رَّوْحِ اللّٰہِ اور اللہ تعالیٰ کی رحمت سے مایوس ہونا

(۱۶)وَالْاَمِنُ مِنْ مَّکْرِاللّٰہِ اور اللہ تعالیٰ کے مکر (ناگہانی انتقام اور قہر) سے نہ ڈرنا

(۱۷)وَالْقُنُوْطُ مِنْ رَّحْمَةِاللّٰہِ اور رحمت ِ خدا سے بد گمان ہونا

(۱۸) وَالْمَعُوْنَةُ لِلظَّالِمِیْنِ اور ظالموں سے تعاون کرنا

(۱۹) وَالرّکُوْنُ اِلَیْہِمْ اور ظالموں سے میل جول رکھنا

(۲۰) وَالْیَمِیْنُ الغَمُوْسِ اور جھوٹی قسم کھانا

(۲۱) وَ حَبْسُ الْحُقوْقِ مِنْ غَیْرِعُسْرِِ اور کسی سختی و مجبوری کے بغیر کسی کا حق روکے رکھنا

(۲۲) وَالْکِذْبُ اور جھوٹ بولنا

(۲۳) وَ الْکِبْرُ اور تکبّر کرنا

(۲۴) وَالْاِسْرَافُ حد سے زیادہ خرچ کرنا

(۲۵)وَ التَّبْذِیْرُ غیر اطاعتِ خدا میں مال خرچ کرنا

(۲۶) وَالْخِیَانَةُ اور دھوکہ دینا

(۲۷)وَالْاِسْتِخْفَافُ بِالْحَجِّ اور حج بیت اللہ کو اہمیت نہ دینا

(۲۸)وَالْمُحَارَبَةُ لِاَوْلِیَائِاللّٰہِ اور اللہ کے دوستوں کے ساتھ لڑنا

(۲۹) وَالْاِشْتِغَالُ بِالْمَلَا ہِی اور لہو و لعب میں مشغول رہنا

(۳۰) وَالْاِصْرَارُعَلیٰ الذُّنُوْبِاور گناہوں پر اصرار کرنا۔

انشاء اللہ اِن روایتوں کا ترجمہ اور تشریح نیزدیگر روایتیں گناہانِ کبیرہ کے ضمن میں بیان ہوں گی۔

ایک مشکل مسئلہ کا حل

گناہان کبیرہ کے مو ضوع پر کچھ لوگوں کو اعتراض ہے کہ

(۱) اس قدر اہمیت کے حامل موضوع کو قر آن مجید میں مفصّل بیان کیوں نہیں کیا گیا اور ان کی تعداد معیّن کیوں نہیں کی گئی؟

(۲) اس بارے میں صاحبان عصمت و طہارت کی احادیث واردہ کے درمیان اختلافات کیوں ہے؟بعض روایت میں ان کی تعداد پانچ ،بعض میں سات ،کچھ روایات میں نو، اکیس اور اکتیس بیان کی گئی ہے ۔یہاں تک ابن عباس/سے جو روایات نقل کی گئی ہے اس میں تقریباََسات سو سات گناہانِ کبیرہ شمار کئے گئے ہیں۔اب ہم دونوں سوالوں کے جوابات دیتے ہیں۔

(۱) پہلے اعتراض کا جواب

قرآنِ مجید میں گناہانِ کبیرہ کی تعداد معیّن نہ کر کے گویا اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں پر بڑا لطف وکرم فرمایا ہے اور اس میں بہت حکمت پوشیدہ ہے با لفرض اگر تعداد معیّن ہوتی تو لوگ صرف انہی گناہوں سے اجتناب کرتے جن سے منع کیا گیا ہے۔ ان کے علاوہ جہالت اور خواہشات ِنفسانی کی وجہ سے دوسرے گناہوں کے ارتکاب کی جرأت کرتے اور نادانی سے یہ خیا ل کرتے کہ معدودہ گناہوں کے علاوہ کسی گناہ کے ارتکاب سے کوئی ضرر نہیں پہنچتا۔ اس طرح وہ ہر خرابی اور گناہ کے انجام دینے میں دلیر ہو جاتے اور تمام منہیات میں ملوث ہوتے۔

یاد رکھیئے: وہ بہت برا اور بد کردار بندہ ہے جو اپنے مہربان پروردگارکی حدود میں دلیری اور بے باکی کا مظاہرہ کرے۔ اور جن امور کو ترک کرنے کا حکم ہو اُسے وہ انجام دے بلکہ اس قسم کی دلیری اور بے حیائی گناہ ِ کبیرہ کی طرف قدم بڑھانے کی جرأت پیدا کرتی ہے۔

چونکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو “گناہان ِ صغیرہ” سے منع فرمایا ہے اگر اس بارے میں لاپرواہی برتی گئی تو آہستہ آہستہ گناہان کبیرہ سے بھی بے باک ہو جائے گا

 

تبصرے
Loading...