پیغمبر كی شرافت و بلند ھمتی اور اخلاق حسنہ

احمد عابدینی
مترجم: سید اطھر عباس رضوی

اس نوشتہ كا اصلی مقصد پیغمبر اكرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم كی آپ كی ازواج كے ساتھ ساز گاری موافقت كو بیان كرنا ھے تاكہ روشن ھو كہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنی ازواج كے ساتھ كس طرح رھتے تھے كہ وہ آپ سے راضی تھیں اور آپ كا زیادہ وقت نہیں لیتی تھیں، تاكہ آپ عبادت و تہجد، تبلیغ دین، رسالت الٰھی كی ادائیگی اور لوگوں پر حكومت و نظارت كے فرائض كو باحسن وجہ انجام دے سكیں۔

مبادا كوئی تصور كرے كہ پیغمبر كی ساری بیبیاں اچھی تھیں اور ان كے درمیان آپس میں كوئی نزاع نہیں تھا بلكہ دست بدست فرائض كی تكمیل اور وظائف كی انجام دھی میں آپ كی مدد كرتی تھیں، پہلی اور دوسری فصل میں ازواج پیغمبر كی ناسازگاری كے واقعات بیان ھوئے اور معلوم ھوا كہ اچھی بیوبیاں جیسے زینب بنت جحش جو پیغمبر كے لئے شھد كا شربت تیار كرتی تھیں اور دوسری بیویوں پر افتخار كرتی تھیں كہ خدا نے ان كا عقد پڑھا ھے جب كسی سفر میں جناب صفیہ كا اونٹ چلنے سے انكار كردیتا ھے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم حضرت زینب سے درخواست كرتے ھیں كہ وہ جناب صفیہ كو اپنے اونٹ پر سوار كرلیں تو جواب دیتی ھیں كہ كیا میں آپ كی یہودی بیوی كو اپنے اونٹ پر سوار كرلوں؟ ایسا ھرگز نہیں ھوگا۔ 1

البتہ یہ ایك نمونہ وہ بھی پیغمبر كی اچھی بیویوں میں سے ایك كی جانب سے سامنے آیا ھم اس فصل میں دوسروں كے ساتھ پیغمبر كے طرز معاشرت اور سلوك كا جائزہ لیں گے تاكہ اس سے اپنی روز مرہ كی زندگی میں درس عبرت لیں۔

دوسروں كے ساتھ سلوك پیغمبر(ص) كے نمونے

افراد كی شخصیت كو جاننے اور پہچاننے كی ایك راہ اس كے تربیت یافتہ لوگوں كی شناسائی ھے۔ اگر ھم پیغمبر(ص) كی شخصیت اور آپ كی شرافت و بزرگی كا اس زاویے سے جائزہ لیں، تو ھمیں بہت اچھے نتائج ھاتھ آئیں گے۔ 

1۔ پیغمبر كے آرام كی خاطر اپنی جان قربان كرنا

پیغمبر كے پروردہ اور عاشق افراد میں ایك نام ابو رافع ھیں۔ وہ پیغمبر كے چچا عباس بن عبد المطلب كے غلام تھے۔ عباس نے انھیں پیغمبر كو بخش دیا اور وہ اسلام لے آئے۔ اس كے بعد پہلے آپ نے حبشہ اور پھر مدینہ كی طرف ھجرت كی۔ نیز پیغمبر كی بیعتوں میں موجود تھے اور آپ سے عہد كیا اور بالآخر جب جناب عباس كے اسلام لانے كی خبر پیغمبر كے گوش گزار كی تو آپ(ص) نے ان كو آزاد كردیا۔ 

ابو رافع جو كہ پیغمبر كے اخلاق و عادات كے عاشق تھے آپ سے جدا نہ ھوئے اور مسلسل گھر میں آپ كی خدمت گزاری میں مشغول رھتے تھے اور اس كو آزادی پر ترجیح دیا۔ ایك روز وہ پیغمبر كے پاس آئے كیا دیكھا كہ آپ استراحت فرما رھے ھیں اور ایك سانپ آپ كی جانب چلا آرھا ھے۔ سوچنے لگے كہ اگر سانپ كو ماریں تو ممكن ھے پیغمبر خواب سے بیدار ھوجائیں اور اگر كوئی اقدام نہ كریں تو ممكن ھے سانپ پیغمبر كو ڈس لے۔ اس لئے پیغمبر كی جان كی حفاظت اور آپ كے خواب میں خلل نہ پڑنے كی خاطر پیغمبر اور سانپ كے درمیان لیٹ گئے تاكہ آنحضرت كی سپر ھوجائیں۔ كچھ دیر بعد پیغمبر خواب سے بیدا ھوئے اس حال میں كہ آپ آیہ(انَّما وَلِیُّكُمُ اللہ وَرَسُولہ) كی تلاوت فرما رھے تھے اور ابو رافع كو اپنی بغل میں دیكھا۔

سوال كیا اے ابو رافع یہاں پر كیا كر رھے ھو؟ كیوں یہاں پر لیٹے ھو۔ ابو رافع نے ماجرا بیان كیا۔ حضرت نے فرمایا: اٹھو اور سانپ كو مار دو 2 شایان ذكر ھے كہ آیہ انّما وَلِیُّكُمُ اللہ وَرَسُولہ حضرت علی علیہ السلام كی ولایت كے بارے میں ھے اور سورہ مایدہ كی آیات میں سے ھے اور پیغمبر كی عمر كے آخری ایام میں نازل ھوئی ھے۔ اور جناب عباس كا اسلام لانے كا قصہ حتما اس سے پہلے كا ھے بنا بر این ابو رافع اس وقت غلام نہ تھے بلكہ آزاد تھے۔ بدیھی ھے كہ ایسا انسان اپنی حیات اور زندگی كو ھر چیز پر مقدم ركھے كیونكہ استقلال و آزادی كا مزہ پہلی بات منھ كو لگ رھا ھے۔ لیكن ابو رافع نہ صرف یہ كہ پیغمبر كی جان كی حفاظت كو اپنی زندگی پر ترجیح دیتے ھیں بلكہ اس فكر میں ھیں كہ اپنی جان كو پیغمبر كے آرام پر فدا كردیں، اس وجہ سے پیغمبر اور سانپ كے درمیان فاصلہ ھوجاتے ھیں تاكہ خود موت كی آغوش میں میٹھی نیند سوجائیں اور پیغمبر اسلام كے آرام اور نیند میں كوئی خلل واقع نہ ھو۔ 

پیغمبر اسلام كا طرز رفتار اور سلوك كیسا تھا كہ آپ كا غلام یا بہر حال ایك انسان آپ كا اس طرح عاشق ھوجاتا ھے اور آپ كے تھوڑی دیر كے آرام كے لئے اپنی جان كی قربانی دیتا ھوا نظر آتا ھے در آنحالیكہ كسی رخ سے یہ نہیں كہا جاسكتا كہ دنیاوی امور یا انعام كی لالچ وغیرہ نے ابو رافع كو ایسا كرنے پر مجبور كیا ھے یہاں پر ھم آپ كی ایك خصوصیت كی طرف جو اس داستان میں سرسری طور پر نظر آتی ھے اشارہ كر رھے ھیں۔

اچھے كام كے عوض بڑی جزا كا بڑا بدلا

جیسا كہ گزر چكا ھے ابو رافع جناب عباس كے غلام تھے اور آپ نے انھیں پیغمبر(ص) كو بخش دیا تھا اور جب ابو رافع نے جناب عباس كے مسلمان ھونے كی خبر پیغمبر اكرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تك پہونچائی تو آپ(ص) نے انھیں آزاد كردیا اس سے پتہ چلتا ھے كہ پیغمبر(ص) اچھے كام كو ھر چند چھوٹا ھو نظر انداز نہیں فرماتے تھے اور اس كے مقابلے میں زیادہ اجر و پاداش ادا كرتے تھے۔

جب ایك انسان كے اسلام لانے كی خبر كی اتنی بڑی جزا ھو اور یہ بھی روشن ھے كہ انسان احسان كا بندہ ھے اس سے ابو رافع كے پیغمبر(ص) سے عشق كا راز معلوم ھوتا ھے۔

البتہ یہ تنہا ایك علت ھے جو اس ماجرا میں منظر عام پر آئی ھے اور ھم تك پہونچتی ھے؛ یقینا آپ بے شمار خصوصیات كے مالك تھے جنھوں نے ابو رافع كو آپ كا عاشق اور گرویدہ بنا ركھا تھا كہ شاید ھم اس نوشتہ میں آپ كی بعض خصوصیات كی طرف اشارہ كرسكیں۔

چنانچہ ھر شخص خود سے سوال كرتا ھے كہ اگر جناب عباس كے اسلام لانے كی خبر كی ایسی جزا ھے تو پھر سانپ كے اور آپ كے درمیان حائل ھونے اور سانپ كو مارنے كی كیا جزا ھوگی؟ ابو رافع اس طرح نقل كرتے ھیں: 

جب میں نے سانپ كو مارا تو آنحضرت(ص) نے میرا ھاتھ پكڑا اور فرمایا: اے ابو رافع! جس وقت ایك گروہ علی(ع) سے جنگ كرے گا جنكہ وہ حق پر ھونگے اور وہ گروہ باطل پر ھوگا تمھاری كیا حالت ھوگی اور تمھارا موقف كیا ھوگا؟ میں نے آنحضرت(ص) سے درخواست كی كہ میرے لئے دعا فرمائیے كہ اگر میں امام كے دشمنوں كو دیكھوں تو خدا مجھكو ان سے لڑنے كی قوت عطا كرے اور آنحضرت(ص) نے دعا فرمائی اس كے بعد میرا ھاتھ پكڑا اور مجھے لیكر لوگوں كے درمیان آئے اور فرمایا: جو شخص چاھتا ھے كہ میری جان اور میرے اھلبیت كے سلسلے میں میرے مورد اعتماد شخص كی طرف دیكھے تو ابو رافع كی طرف دیكھے كہ وہ میری جان كا امین ھے۔ 3 

ابو رافع كے دو عمل (پیغمبر كے اور سانپ كے درمیان حائل ھونا اور سانپ كا مارنا) اور پیغمر اكرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم كی بڑی جزا حضرت علی(ع) اور مخالفین كے درمیان ھونے والی جنگ كی پیشین گوئی اور حضرت علی(ع) كا حق پر ھونا اور آپ كی نصرت كا واجب ھونا اور ابو رافع كے حق میں پیغمبر كا دعا كرنا) اس روایت كا مضمون ھے یہی وجہ ھے كہ ابو رافع جنگوں میں حضرت علی(ع) كی خدمت میں تھے اور حضرت علی علیہ السلام كی شھادت كے بعد كوفے میں اپنے گھر كو فروخت كركے حضرت امام حسن علیہ السلام كے ھمراہ مدینہ چلے آئے اور آپ كی خدمت میں رھے۔ 4

اگر اس نكتہ كی طرف توجہ مركوز رھے كہ لوگ ھر زمانے میں ایڑی چوٹی كا زور لگاتے ھیں اور اس بات كی كوشش كرتے ھیں كہ كسی عالی رتبہ مقام كے حامل شخص سے اپنے بارے میں كوئی تائید حاصل كریں تو روشن ھوگا كہ پیغمبر(ص) نے ابو رافع كے سلسلے میں كیا لطف و عنایت كی ھے۔ آپ اپنی عمر كے آخری ایام میں درانحالیكہ تمام جزیرۂ نمائے عرب پر آپ كی حكومت تھی اور آپ لوگوں كے دلوں پر حكومت كر رھے تھے ابو رافع كو كتنی اھم سند عطا فرماتے ھیں اور ان كو مجمع عام میں اپنے اور اپنے اھلبیت كے امین كی حیثیت سے متعارف كراتے ھیں اور وہ بھی اس سے مادی اور دنیاوی فائدہ اٹھانے كے بجائے صحیح اور درست راہ كا انتخاب كرتے ھیں اور اس كی پیروی كرتے ھیں۔

2۔ زید بن حارثہ، قیدی سے منھ بولا بیٹا بننے تك

زید، حارثہ كے بیٹے شراحیل كے پوتے اور اپنے خانوادے میں بہت محبوب شخص تھے وہ اپنی ماں “سُعدیٰ” كے ھمراہ قبیلۂ طی كی ایك شاخ بنی لعن(جو ان كی ماں كا قبیلہ تھا) كی زیارت كو جارھے تھے كہ بنی القین كے لشكر نے بنی معن پر حملہ كردیا اور اسیروں كے درمیان زید كو بھی اسیر كرلیا اور بازار عكاظ میں ان كو فروخت كرنے كے لئے لائے، حكیم بن حزام نے ان كو اپنی پھوپھی حضرت خدیجہ كے لئے خرید لیا اور حضرت خدیجہ نے ان كو پیغمبر كی بعثت سے پہلے جب كہ وہ ابھی آٹھ سال كے تھے آپ(ص) كو بخش دیا۔ باپ نے بیٹے كی جدائی میں بہت غمناك اشعار كہے جن سے بیٹے كے تئیں ان كی گہری محبت كا پتہ چلتا ھے۔

بَكیتُ علی زَیدٍ وَلَمۡ أدۡرِ ما فَعَل أحَیٌّ یُرجٰی أم أَتیٰ دونہ الأجَل

فَوَاللہِ ما ادری واِن كنتُ سائلاً أغالَكَ سَھۡلُ الأرضِ أمۡ غالَكَ الجَبَل

فیالیتَ شعری ھَلۡ لَكَ الدَّھر رَجعۃٌ فَحَسبی مِنَ الدُّنیا رُجوعَكَ لی مَجَل۔ 5

“میں نے زید پر آنسو بہائے اور مجھے نہیں معلوم میرا بیٹا كیا ھوا، آیا زندہ ھے جس سے ملنے كی امید ھے یا موت كی آغوش میں میٹھی نیند سوگیا ھے۔ 

بخدا نہیں معلوم اگر چہ میں نے اس كے بارے میں سب سے پوچھا اس كو زمین كھا گئی یا آسمان نكل گیا۔

اے كاش مجھے معلوم ھوتا كہ زمانے میں تیرے پلٹنے كی امید ھے دنیا سے تیرا تنہا پلٹنا ھی میرے لئے كافی ھے”۔

زمانہ گذرا یہاں تك كہ قبیلۂ نبی كلب كے ایك گروہ نے فریضۂ حج انجام دیا اور وھاں پر زید كو دیكھا اور پہچان لیا اور زید نے بھی ان لوگوں كو پہچان لیا اور كہا: میں جانتا ھوں انھوں(ماں باپ) نے میری جدائی میں بہت جزع و فزع كیا ھے” اور چند اشعار كے ضمن میں اپنی سلامتی اور اپنے راضی ھونے كی خبر دی اور خدا كی حمد و ثنا كی كہ اس نے مجھے ایسے پیغمبر كے گھر میں جگہ دی ھے جو اھل كرم و بزرگی ھے۔ 

فَانّی بحَمدِ اللہِ فی خَیرِ اُسۡرَة كرامٍ مَعَدٍّ كابراً بَعد كابرٍ۔ 6

طائفہ بنی كلب نے زید كے زندہ ھونے اور ان كے حالات كی خبر ان كے باپ تك پہونچائی زید كے باپ اور چچا فدیہ دینے اور زید كو آزاد كرانے كے لئے پیغمبر كی خدمت میں آئے اور عرض كیا “اے عبد المطلب كے فرزند! اے ھاشم كے فرزند! اے اپنی قوم كے سردار كے بیٹے! ھم اس لئے آئے ھیں تاكہ آپ سے اپنے بیٹے كے سلسلے میں گفتگو كریں۔ ھم پر منت و احسان كیجئے اور فدیہ لے كر ھمارے بیٹے كو آزاد كردیجئے”۔

پیغمبر اكرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: كس كو؟ 

انھوں نے كہا: زید بن حارثہ كو۔ 

فرمایا: كوئی دوسری تجویز كیوں نہیں پیش كرتے؟ 

انھوں نے كہا كونسی تجویز؟ 

پیغمبر نے فرمایا: “اس كو بلاؤ اور اسے اختیار دے دو۔ اگر اس نے تمھارا انتخاب كیا تو تمھارا ھے اسے لے جاؤ(میں كوئی فدیہ نہیں لوں گا) اور اگر مجھے انتخاب كیا، تو خدا كی قسم جو مجھ كو ترجیح دے میں اس كو كسی صورت كسی چیز سے معاملہ نہیں كروں گا”۔

انھوں نے كہا۔ “آپ نے بڑے انصاف سے گفتگو كی اور ھم پر احسان كیا” 

پیغمبر نے زید كو آواز دی اور فرمایا: ان لوگوں كو پہچان رھے ھو؟ 

كہا: ھاں یہ میرے والد اور یہ میرے چچا ھیں۔ 

پیغمبر نے فرمایا: “میں وھی ھوں جسے تم پہچانتے ھو اور میری ھم نشینی تمھاری نگاھوں كے سامنے ھے ھم میں سے كس كو انتخاب و اختیار كرتے ھو جسے انتخاب كرنا چاھو انتخاب كرلو”۔

زید نے كہا: میں ان لوگوں كو آپ پر ترجیح نہیں دوں گا آپ ھی میرے لئے باپ اور چچا ھیں زید كے باپ اور چچا نے كہا: اے زید تجھ پر وائے ھو كیا تو غلامی كو آزادی پر، باپ، چچا اور اپنے گھر والوں پر ترجیح دے گا؟ 

زید نے جواب دیا: ھاں آپ(ص) میں ایسے خصوصیات اور خوبیاں ھیں كہ میں كسی كو بھی آپ(ص) پر ترجیح نہیں دوں گا

جب رسول اسلام(ص) نے یہ مشاھدہ كیا تو زید كو حجر اسماعیل پر لے كر گئے اور اعلان كیا اے حاضرین گواہ رھنا كہ زید میرا بیٹا ھے وہ میری میراث پائے گا اور میں اس كی میراث پاؤں گا”

جب زید كے باپ اور چچا نے یہ مشاھدہ كیا تو خوش ھوگئے اور آسودہ خاطر ھوكر خوشی خوشی اپنے وطن لوٹ گئے۔ 7

زید كی داستان سے پتہ چلتا ھے كہ زید اپنے خاندان میں كافی محبوب تھے تبھی تو ان كے فقدان اور جدائی میں اشعار لكھے اور ان كو ڈھونڈھنے كے لئے چاروں طرف افراد روانہ كئے اور فدیہ دے كر ان كو آزاد كرانے كے لئے تضرع و زاری اور التماس كیا۔ 

عرب میں نسب كی اھمیت

اگر زید كے كام اور اس كام كے درمیان جو زیاد بن عبید اور اس كے بیٹے عبید اللہ بن زیاد نے حسب و نسب كے حصول كے لئے انجام دیا موازنہ كیا جائے تو حسب و نسب كی قدر و قیمت روشن ھوجائے گی اور اس وقت صراحت كے ساتھ یہ اعلان كیا جاسكتا ھے كہ ھم ابھی تك پیغمبر كے اخلاق اور آپ كے افكار و نظریات كے ادراك سے عاجز ھیں اور یہ نہیں سمجھ سكتے كہ آپ نے كس طرح ایسے عاشقوں اور چاھنے والوں كی تربیت كی۔

زیاد سمیہ نامی عورت كا بیٹا تھا جو زنا اور بدكاری میں شھرت یافتہ تھی اور اپنی مثال آپ، اسی وجہ سے معلوم نہ ھوسكا كہ زیاد كس كا بیٹا ھے 

آیا اس كا نام عبید ھے یا كوئی دوسرا نام ركھتا ھے؟ 

زیاد مرد مسلمان اور حضرت علی علیہ السلام كی حكومت میں گورنر كے عھدہ پر فائز تھا لیكن چونكہ خامل النسب تھا اس لئے ھمیشہ اپنی گمنامی كی آگ میں جھلستا رھتا تھا۔

معاویہ نے اس كی اس كمزوری سے فائدہ اٹھاتے ھوئے اس سے كہا: اگر اپنی راہ و روش كو چھوڑ كر میری طرف چلے آؤ تو تم كو اپنے باپ ابوسفیان سے ملحق كرلوں گا۔ زیاد ابوسفیان سے ملحق ھونے اور حسب پیدا كرنے كے لئے حق كو اپنے پیروں تلے روندنے پر تیار ھوگیا اور حق كو چھوڑ كر معاویہ سے ملنے كے عوض زیاد بن ابی سفیان پكارا جانے لگا۔ 8

حضرت امام حسین علیہ السلام كے قیام كربلا كے وقت یزید بن معاویہ نے عبید اللہ بن زیاد كے نام خط لكھا كہ یا اس بلا كو دور كرو یا یہ كہ میں تمھیں اپنے اصلی حسب و نسب(عبید) سے ملحق كردوں۔ 

ابن زیاد نے ابو سفیان كے حسب و نسب پر باقی رھنے كے لئے اتنا سنگین اور بھیانك جرم كیا كہ حضرت امام حسین علیہ السلام اور آپ كے اصحاب و انصار با وفا كو كربلا كے تپتے صحرا میں تین دن كا بھوكا پیاسا شھید كردیا اور یہ صرف اس لئے كیا كہ ابو سفیان كے نسب پر باقی رھے مبادا یزید اس كو ابوسفیان كے نسب سے خارج كردے۔

بہر حال اس زمانے كے لوگوں كی نظر میں حسب و نسب كی اتنی اھمیت اور قدر و قیمت تھی كہ اپنے اعتقادات كو بھی اس پر قربان كردیتے تھے چنانچہ فرزند رسول الثقلین حضرت امام حسین علیہ السلام كے قتل كرنے كی ذلت و رسوائی مول لی۔ 

آباء و اجداد كے نام كا یاد ركھنا اور جنگوں میں اشعار كے ضمن میں ان كا نام لیكر مبارز طلبی كرنا اس سے نسب كی اھمیت كی عكاسی اور ترجمانی ھوتی ھے۔ 

پیغمبر كا اخلاق اور زید جیسے غلام كے تئیں آپ كی محبت كتنی اور كیسی تھی كہ وہ ان كے نزدیك غلامی كی زندگی گزارنے اور بے حسب و نسب ھونے كو آزادی اور حسب نسب پر ترجیح دیتے ھیں۔ یہ اسلامی تعلیمات كا اثر تھا یا پیغمبر كے اخلاق حسنہ كا كرشمہ یا كوئی دوسری چیز؟ بہر حال بانی اسلام كردار و صفات اور خصوصیات قابل غور ھیں۔

زید نے جو اشعار اپنے والدین كے پاس بھیجے ھیں اس سے پتہ چلتا ھے كہ وہ كتنے سمجھ دار عقلمند اور قوی ادراك كے مالك تھے۔ اس وجہ سے پیغمبر اكرم(ص) كا انتخاب كرنا اور آپ كے پاس ٹھرنا احساسات یا سادگی كی بناء پر نہیں تھا۔ 

اسی طرح ان جملوں سے جو انھوں نے باپ اور چچا كے سامنے اپنی زبان سے ادا كئے پتہ چلتا ھے كہ واقعاً انھوں نے پیغمبر میں ایسے خصائل محمودہ اور اخلاق پسندیدہ دیكھے تھے جس كو ھر چیز پر ترجیح حاصل ھے اور كوئی چیز اس كا بدل نہیں قرار پاسكتی۔

رسول گرامی اسلام كی شرافت و بزرگی كا ایك نمونہ یہاں پر اور زید كے لئے فدیہ لینے كے ضمن میں مشخص ھوتا ھے جس كی طرف اشارہ كرنا لطف سے خالی نہیں ھے۔

پیغمبر اكرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: “زید كو آزاد چھوڑدو، اگر زید نے تمھارا انتخاب كیا تو زید تمھارا، اور اگر میرا انتخاب كیا تو میرے پاس رھے اس جملہ سے روشن ھوتا ھے كہ اگر زید اپنے باپ اور قبیلہ كو منتخب كرتے تو پیغمبر ان لوگوں سے فدیہ نہ لیتے اور بغیر ان سے كچھ لئے ھوئے زید كو ان كے حوالے كردیتے، اسی وجہ سے وہ لوگ بہت خوشحال ھوئے اور عرض كیا: “آپ نے بے حد انصاف كا ھمارے ساتھ سلوك كیا ھے اور ھم پر احسان كیا ھے”۔

جب زید نے پیغمبر كے پاس رھنے كو انتخاب كیا تو پیغمبر نے زید كی اچھی تشخیص كو بے جواب نہیں ركھا اور اس كے مقابلے میں زید كے اوپر چند احسان اور كئے۔ زید كو آزاد كردیا، مجمع عام میں اپنا بیٹا كہا اس طرح سے كہ اس كے بعد ان كو زید بن محمد كہا جانے لگا۔ یہاں تك كہ ھجرت كے آٹھویں سال آیۂ(اُدۡعُوھُمۡ لآبائِھِمۡ) 9 نے حكم دیا كہ “لوگوں كو ان كے اصلی باپ كے نام سے پكارو”۔ 

اسی طرح پیغمبر نے زید كو اپنا وارث اور خود كو زید كا وارث قرار دیا تاكہ منھ بولا بیٹا ھونا فقط رسم ادائیگی نہ ھو اور یہ حكم باقی تھا یہاں تك كہ آیۂ(وَ اوُلُوا الأرۡحامِ بَعۡضُھُمۡ اَوۡلَی ببَعۡضٍ فِی كِتَابِ اللہ) 10 نازل ھوئی 

حضرت زینب كی جناب زید سے شادی 

زید كے ساتھ پیغمبر كی شفقت و محبت كو دوسرے نمونے كے عنوان سے حضرت زینب كے ساتھ ان كی شادی كو كہا جاسكتا ھے۔ زینب، آپ كی پھوپھی زاد بہن تھیں۔ آپ نے ان كی زید سے شادی كرنے كی درخواست كی لیكن زینب مائل نہ تھیں یہاں تك كہ (وَما كانَ لِمُؤمِنٍ وَلا مؤمِنَۃٍ اذا قَضَی اللہُ ورَسُولُہُ أمۡراً أنۡ یَكُونَ لَھُمُ الخِیَرَة مِنۡ أمۡرِھِمۡ وَمَنۡ یَعۡصِ اللہَ وَرَسُولَہُ فَقَدۡ ضَلَّ ضَلالاً مُبیناً) 11 “كسی مومن مرد اور عورت كو یہ حق حاصل نہیں ھے كہ جب خدا اور اس كا رسول كسی چیز كے بارے میں كوئی فیصلہ كردیں تو وہ اس سلسلے میں اپنے اختیار كا استعمال كرے اور جو بھی خدا و رسول كی نافرمانی كرے گا وہ كھلی ھوئی گمراھی میں مبتلا ھوگا” نازل ھوئی اور زینب نے اس شادی پر رضایت دیدی۔ اس سے پتہ چلتا ھے كہ پیغمبر اسلام اس شادی پر زور دے رھے تھے اور اس كی دلیل قرآنی آیت لفظ میں “قضیٰ” كی تعبیر ھے۔ اس سے پتہ چلتا ھے كہ پیغمبر زید كو بہت زیادہ چاھتے تھے تبھی اس شادی پر بہت زیادہ زور دے رھے تھے البتہ یہ اصرار فرمان خدا كے تحت تھا اور اس میں كچھ مصلحتیں تھیں جن كی طرف پیغمبر كی زینب سے شادی كے ذیل میں اشارہ كیا جاچكا ھے۔ 

زید سے پیغمبر كی محبت ایك اور كا نمونہ یہ ھے كہ آپ نے زید كے لئے ام ایمن كو بعنوان زوجہ منتخب كیا ام ایمن كنیز تھیں آپ كے والد ماجد جناب عبد اللہ نے ان كو آزاد كیا تھا۔ ان كا نام بركہ تھا۔ انھوں نے پیغمبر كی حصانت اور پرورش كی ذمہ داری لے ركھی تھی۔ وہ ان لوگوں میں سے تھیں جو ابتداء ھی میں اسلام كی طرف مائل ھوئے اور دونوں ھجرت حبشہ اور مدینہ میں شریك تھیں۔ ام ایمن ایسی خاتون تھیں پیغمبر جن سے ملنے اور ان كی عیادت كرنے ان كے گھر جایا كرتے تھے آنحضرت نے ایسی محبوب اور بلند شخصیت كی مالك عورت سے زید كی شادی كی جس كے نتیجے میں اسامہ بن زید كی ولادت ھوئی جو پیغمبر كی وفات كے وقت اٹھارہ سال كے تھے اور آپ نے اس كو شام كی طرف جانے والے لشكر كا امیر مقرر كیا تھا جبكہ ابوبكر اور عمر جیسی بزرگ ھستیاں اس لشكر میں شامل تھیں 12 تاكہ دوسروں پر ان كی برتری و بلندی كا پتہ چلے۔ 

پیغمبر كی محبتیں

یہاں پر اگر چہ زید كے سلسلے میں گفتگو ھورھی ھے لیكن ام ایمن كے ساتھ آپ كا سلوك اور طرز عمل بھی بہت راہ گشا ھے، كیونكہ یہ نكتہ سامنے آتا ھے كہ آپ ھر شخص كا احترام كرتے تھے اور ان كے اوپر اپنی گوناگوں محبتوں كے موتی نثار كرتے تھے۔ آنحضرت(ص) نے ام ایمن كے بارے میں فرمایا: ام ایمن میری ماں كے بعد میری ماں ھیں۔ 13 اس طرح كے طرز عمل كا سبب آپ كا تواضع خود گذشتگی اور آپ كی جملہ امور میں تواضع و انكساری كی دلیل ھے۔

لوگوں كے دلوں میں الفت و محبت پیدا كرنا بذل و بخشش اور داد و دھش سے مخصوص نہیں ھے بلكہ اس كے لئے وہ دل چاھئے جو لوگوں كے عشق و محبت كے جذبے سے سرشار اور مالا مال ھو اور نامناسب اوقات میں قول و عمل میں اور ھر شخص كی شخصیت كی مناسبت سے ظھور كرے۔ 

جب پیغمبر ام ایمن جیسی عورت كے ساتھ جو عمر میں آپ سے بڑی ھیں ایسا سلوك كریں ان كی عیادت كو جائیں، ان كو اپنی ماں كہیں اور جب زید كے ساتھ آپ كا طرز عمل ایسا ھو اور آپ كو زید كی شادی كی فكر ھو اور جب زید كے باپ اور چچا كا سامنا ھو تو زید كو مخیر كرنے كی تجویز پیش كریں اور جب اسامہ بن زید كی لیاقت كو دیكھیں تو سردار لشكر مقرر كریں وغیرہ یہ سب پیغمبر كے اخلاق حسنہ اور بزرگواری كے نمونے ھیں۔

انس بن مالك 

اخلاق پیغمبر كا دوسرا نمونہ انس بن مالك كے ساتھ آپ كا طرز عمل ھے وہ تقریبا نو سال پیغمبر كی خدمت میں تھے۔ ان كی كوئی خاص خصوصیت یا پیغمبر كی تعریف و توصیف ھم تك نہیں پہونچی، 14 بلكہ شیعہ كتابوں میں ان كی بہت زیادہ مذمت وارد ھوئی ھے مثلا یہ كہ وہ كتمان شھادت كرتے تھے اور اسی وجہ سے امیر المومنین حضرت علی(ع) كی نفریں كے مستحق قرار پائے اور برص كے مرض میں مبتلا ھوئے۔ 15

وہ پیغمبر كے اخلاق كے سلسلے میں كہتا ھے كہ نو سال پیغمبر كی خدمت میں رھا اس مدت میں كبھی مجھ سے یہ نہیں كہا: كہ كیوں ایسا كیا؟ اور كبھی میری عیب جوئی نہیں كی 16 وہ نقل كرتا ھے: 

رسول اكرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دو قسم كی غذا ركھتے تھے، ایك سے افطار كرتے تھے اور ایك كو سحر میں تناول فرماتے تھے اور كبھی ایك ھی غذا ھوتی تھی كہ دودھ ھوتا تھا اور پانی میں بھگوئی ھوئی روٹی۔ 

ایك رات میں نے پیغمبر كے لئے افطار تیار كیا لیكن آنحضرت(ص) كو كسی سبب سے آنے میں دیر ھوئی، میں نے گمان كیا كہ آنحضرت كے كسی صحابی نے آپ كی دعوت كی ھے چنانچہ آپ كے تاخیر سے آنے كے سبب میں نے وہ غذا كھالی۔ آنحضرت(ص) عشاء كے كچھ دیر بعد تشریف لائے میں نے آپ كے ھمراہ آنے والوں میں سے ایك سے پوچھا: كیا پیغمبر كی كسی كے یہاں افطار پر دعوت تھی؟ ان لوگوں نے كہا نہیں یہ سنكر میں غم و اندوہ میں ڈوب گیا كہ اگر پیغمبر نے اپنی غذا مانگی تو میں كیا جواب دوں؟ پیغمبر رات بھر بھوكے رھے اور دوسرے دن بھی آپ نے روزہ ركھا اور اس دن سے لیكر آج تك مجھ سے اس شب كی غذا كے بارے میں كوئی سوال نہیں كیا۔ 17

سامنے كی بات ھے كھانا پانی انسان كی ضروریات میں شامل ھے اور مدینے كی گرم ھوا پر اگر روزہ كا اضافہ كرلیا جائے تو یہ ضرورت دو چند ھوجاتی ھے لیكن اس كے باوجود آپ نے اس سے یہ نہ پوچھا كہ غذا كیا ھوئی؟ 

دوسرے لفظوں میں نہ صرف یہ كہ حضرت نے انس كو توبیخ نہیں كی بلكہ اپنی بھوك اور پیاس كو بھی چھپایا اور یہ اس زمانے میں ھے جب آپ مدینے میں حاكم ھیں كیونكہ انس كی خدمت گزاری مدینہ میں تھی۔

یہاں پر رسول گرامی اسلام كی دوسری خصوصیت نمایاں ھوتی ھے اور وہ حیاء دار ھونے اور عیب جوئی نہ كرنے كے ساتھ ساتھ راز كی پردہ پوشی ھے جو انس كے استعجاب و حیرت كا باعث بنی جو نكتہ ھمارے لئے قابل توجہ ھے وہ پیغمبر كی غذا كا سادہ اور معمولی ھونا ھے كہ وہ غذا، یا دودھ تھا یا پانی میں بھگوئی ھوئی چور روٹی كہ حضرت ان دو میں سے كسی ایك پر اكتفاء كرتے تھے پیغمبر كی اخلاقی خصوصیات اور آپ كے طرز عمل میں گفتگو بہت زیادہ ھے لیكن جیسا كہ پہلے بیان ھوا جو چیز نقل ھو رھی ھے صرف بعنوان نمونہ ھے 

4۔ مرد یہودی اور پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم 

حضرت علی علیہ السلام اس طرح نقل فرماتے ھیں كہ ایك یہودی حضرت سے چند دینار كا طلبگار تھا اور اس نے وہ دنیار حضرت سے طلب كئے۔ آنحضرت نے فرمایا: اے مرد یہودی اس وقت تجھے دینے كے لئے میرے پاس كچھ بھی نہیں ھے۔ یہودی نے كہا: جب ایسا ھے تو میں بھی آپ كو اس وقت تك نہیں چھوڑوں گا جب تك كہ آپ میرا قرض واپس نہ كریں۔ پیغمبر نے فرمایا: كوئی حرج نہیں تیرے پاس بیٹھتا ھوں۔ حضرت وھیں بیٹھ گئے اور اسی جگہ نماز ظھر و عصر و مغرب و عشاء اور دوسرے دن كی صبح كی نماز ادا كی۔ اصحاب نے یہودی كو ڈرایا دھمكایا رسول مقبول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم كی نگاہ اصحاب پر پڑی اور آپ نے فرمایا: كیا كر رھے ھو؟ اصحاب نے فرمایا: اے اللہ كے رسول اس یہودی نے آپ كو قید كر ركھا ھے۔ پیغمبر اكرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: خدا نے مجھے اس لئے مبعوث نہیں كیا كہ میں كسی ذمی یا غیر ذمی پر ظلم ڈھاؤں” 

ابھی دن كاكچھ ھی حصہ گزرا تھا كہ وہ یہودی اقرار شھادتین كركے مسلمان ھوگیا اس كے بعد كہا: میرا آدھا مال راہ خدا میں خرچ كیا جائے ۔ 18

اگر اخلاق پیغمبر كو ایك جملے میں خلاصہ كرنا چاھیں تو اس كلام قرآنی سے بہتر اور كچھ نہیں ھوسكتا (فبما رحمۃ من اللہ لنت لھم ولو كنت فظا غلیظا القلب لا نفضوا من حولك فاعف عنھم واستغفر لھم وشاورھم فی الامر فاذا عزمت فتوكل علی اللہ ان اللہ یحب المتوكلین) 19 “اے پیغمبر یہ اللہ كی مہربانی ھے كہ تم ان لوگوں كے لئے مہربان اور نرم خو ھو۔ اور اگر تم ان كے لئے تند خو اور سخت دل ھوتے تو یہ لوگ تمھارے پاس نہ ركتے اور ادھر ادھر منتشر ھوجاتے” لھذا انھیں معاف كردو اور ان كے لئے استغفار كرو اور (جنگی امور میں) ان سے مشورہ كیا كرو اور جب پختہ ارادہ كرلو تو اللہ پر بھروسہ ركھو یقیناً اللہ توكل (بھروسہ) كرنے والوں كو دوست ركھتا ھے”۔

“فبما رحمۃ من اللہ” میں جو فاء ھے اس سے معلوم ھوتا ھے كہ اس آیت كا تعلق ما قبل كی آیات سے ھے جو جنگ احد میں بعض كی بد نظمی، بعض كے فرار اور تیسرے گروہ كی كار شكنی سے مربوط اور پیغمبر كی خوش اخلاقی اور نرم خوئی اور ان كے ساتھ پیغمبر كی مہربانی كو رحمت الہی كا نتیجہ قرار دیا ھے اس كے بعد (حرف شرط امتناعی) كے ذریعے جو كہ امتناع كے لئے استعمال ھوتا ھے فرماتا ھے: “بفرض محال اگر تم تند خو اور بد مزاج ھوتے تو سب تمھارے پاس سے بھاگ كھڑے ھوتے”

پیغمبر اسلام نے اس آیت سے سمجھ لیا كہ انھیں سبھی كے ساتھ حتی كہ ضعیف الایمان، منافقین، جنگ سے فرار كرنے والوں سے نرم خوئی اور مہربانی سے پیش آنا ھے حضرت رسول خدا(ص) كی مرد یہودی كے ساتھ مہربانی اس آیت كریمہ كا مفاد ھے بہر حال یہ آیت گھر كے لوگوں یا كنیز و غلام سے سلوك كے سلسلہ میں نہیں ھے بلكہ ھر چیز سے پہلے اپنے دشمنوں سے بھی محبت آمیز روابط كی سفارش كرتی ھے اور پھر اس كے بعد ارشاد ھوتا ھے كہ اپنے دیگر كاموں میں بھی ان سے مشورہ كریں اور ان كے نظریات معلوم كریں۔ 

5۔ پیغمبر اور زن یہودی كا قصد سوء(ارادۂ قتل) 

سب سے زیادہ اھم اس یہودی عورت كی داستان ھے جس نے پیغمبر كو زھر دینے كا پختہ ارادہ كیا: چنانچہ اس نے گوسفند ذبح كیا اور اس كو زھر سے آلودہ كیا اور چونكہ جانتی تھی كہ پیغمبر اگلا دست زیادہ پسند كرتے ھیں اس لئے اس حصے كو زیادہ زھر سے آلودہ كیا اور گوشت لیكر پیغمبر كی خدمت میں آئی ۔

پیغمبر نے ایك لقمہ منھ میں ركھا اور فورا ھی اس كو باھر تھوك دیا اور فرمایا: “یہ گوشت كہتا ھے كہ میں مسموم ھوں” بشر بن براء نے اس گوشت سے ایك لقمہ كھایا اور ان كی موت واقع ھوگئی۔ یہودی عورت كو حاضر كیا گیا۔ پیغمبر نے اس سے پوچھا: تو نے ایسا كیوں كیا؟ اس نے جواب دیا: “میں نے سوچا اگر پیغمبر خدا ھونگے تو ان كو زھر كوئی نقصان نہیں پہونچائے گا اور اگر بادشاہ ھوئے تو لوگوں كو نجات مل جائے گی”۔ پیغمبر نے اس زن یہودیہ كو معاف كردیا 20 

یہ خبر(حدیث) گوناں گوں اسناد كی مالك ھے اور اس پر ادعاء تواتر كیا جاسكتا ھے۔ لیكن جو چیز یہاں پر اور اخلاقی پہلو سے اھمیت كی حامل ھے وہ یہ ھے كہ پیغمبر اوج قدرت اور خیبر كے یہودیوں پر غلبہ و پیروزی پانے كے بعد ایسی عورت كو معاف كردیتے ھیں جو آنحضرت كے قتل پر كمر بستہ تھی اور اپنے منصوبے كو عملی جامہ پہنایا تھا باوجودیكہ حسب ظاھر شرع جواز بلكہ اس عورت كے قتل كے وجوب پر ساری دلیلیں دلالت كرتی ھیں۔ 

لوگوں كے ساتھ ملاقات اور ملنے جلنے میں یہ پیغمبر كی كرامت و بزرگواری كے نمونے ھیں۔ 

پیغمبر اكرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے لوگوں كے ساتھ مہر و محبت اور عطوفت و مہربانی میں سب كو بہت پیچھے چھوڑ دیا۔ چنانچہ خداوند عالم نے خود اپنے اوصاف میں سے دو وصف كے ساتھ آپ كو یاد كیا ھے۔ (لقد جاءكم رسول من انفسكم عزیز علیہ ما عنتم حریص علیكم بالمومنین رؤوف رحیم) 21 “یقینا تمھارے پاس وہ پیغمبر آیا جو تمھیں میں سے ھے۔ اس پر تمھاری ھر مصیبت شاق اور دشوار ھے تمہاری ھدایت كے بارے میں حریص ھے اور مومنین كے لئے دلسوز اور مہربان ھے 

مرحوم طبرسی مجمع البیان میں فرماتے ھیں: 

بعض قدماء نے كہا ھے: خدا نے اپنے اولیاء اور انبیاء میں سے كسی كے لئے اپنے اسماء میں سے دو اسم كے درمیان جمع نہیں كیا مگر یہ شرف اور فضیلت حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم كو عطا كی ھے چنانچہ فرمایا “بالمومنین رؤوف رحیم” اور خدا نے اپنے بارے میں فرمایا: “ان اللہ بالناس لرؤوف رحیم” 22۔23 

وہ ھمیشہ لوگوں كے درمیان تھے اور انھیں میں سے تھے۔ ان كی مشكلات، پریشانیوں اور جہالت سے آشنا تھے ۔ آپ پر بہت شاق اور دشوار تھا كہ لوگ سختیوں اور مشكلات میں گرفتار ھوں۔ اسی وجہ سے اپنا تمام وقت تمام امكانات كے ساتھ لوگوں كی ھدایت میں صرف كرتے تھے اور ان كی چھوٹی اور بڑی لغزشوں سے در گزر فرماتے تھے۔ لوگوں نے متعدد بار آپ كے قتل كا منصوبہ بنایا اور اس كو اپنی طرف سے عملی جامہ بھی پہنایا لیكن آپ نے سب كو معاف كردیا نہ صرف یہ كہ یہودی عورت كو كوئی سزا نہیں دی بلكہ آپ نے اپنے قتل كا منصوبہ بنانے والوں كے ناموں كو جو بھی صیفۂ راز میں ركھا جو پہاڑ كے دامن میں آپ كے اونٹ كو بھڑكا كر آپ كی شمع حیات كو گل كردینا چاھتے تھے 

آج دنیا كی رسم ھے اطلاعاتی اور جاسوسی ادارے وزیر اعظم یا صدر مملكت كے خلاف احتمالی سازش كے پیش نظر بھی حركت میں آجاتے ھیں اور بہت سارے افراد كو گرفتار كركے جیل میں ڈال دیتے ھیں اور ان پر مختلف قسم كی سختیاں كرتے ھیں اگر ھم آج كی صورتحال كو پیغمبر كے حالات و اخلاق سے موازنہ كریں تو پیغمبر كے كام كی عظمت ھمارے سامنے اجاگر ھوجائے گی جب ھم فقہ میں پڑھتے ھیں كہ جو پیغمبر كو دشنام دے واجب القتل ھے بطریق اولیٰ پیغمبر كو مسموم كرنے والا اور آپ كو قتل كرنے كی ناكام كوشش كرنے والا واجب القتل ھے اس كے باوجود پیغمبر ان لوگوں كو معاف كردیتے ھیں تاكہ اجراء قانون پر عفو و بخشش كی برتری منظر عام پر آئے، خاص طور پر جب حق شخصی ھو اور صاحب حق منصب دار اور اجتماعی پوسٹ كا مالك ھو جس كا عمل دوسروں كے لئے نمونہ عمل ھو 

پیغمبر كی جانب سے اس طرح كے عملی نمونے حقیقی اسلامی رھبروں كی تشخیص كے لئے بہترین معیار ھے 

المختصر پیغمبر كے عملی نمونوں كا (جس كے اخلاق كے كچھ گوشے سابق میں بیان ھوئے) اندرون خانہ اپنی بیویوں كے ساتھ جائزہ لیں تاكہ اس سے درس زندگی حاصل كریں اور بہ لطف خدا اپنی اور خانوادے كی بہت ساری مشكلات كو حل و فصل كریں۔

پیغمبر نے اپنے اخلاق حسنہ كے بل پر اپنی بیویوں كے ساتھ كہ بعض سن و سال كے لحاظ سے پیغمبر سے مختلف تھیں یا بہ اعتبار استعداد و صلاحیت یا بہ اعتبار فہم و ادراك امور شخصی و اجتماعی پیغمبر كے ساتھ میل نہیں كھاتی تھیں بلكہ مختلف جہات سے بہت زیادہ فرق ركھتی تھیں مسالمت آمیز زندگی گزاری اور پیغمبر كے ساتھ رھنے كو ھر چیز پر ترجیح دیتی تھیں جبكہ خانۂ پیغمبر میں مادی مسائل و امكانات، دنیوی مال و متاع پر نعمتوں سے سرشار مستقبل كی كوئی امید نہیں تھی۔ كیونكہ وہ پابند تھیں كہ گھر كی چہار دیواری میں زندگی گزاریں اور پیغمبر كی وفات كے بعد دوسری شادی نہ كریں

اور ایسا بھی نہیں تھا كہ اپنا زیادہ وقت ازواج میں گزارتے تھے كیونكہ تبلیغی سرگرمیوں كے علاوہ مسلمانوں كی رھبری كی ذمہ داری بھی آپ كے كاندھوں پر تھی اور مدینہ جیسے شھر كی حاكمیت میں جہاں طبقاتی نظام رائج تھا زیادہ وقت صرف ھوتا تھا۔ علاوہ بر ایں پیغمبر كا بہت زیادہ وقت عبادت میں بھی گزرتا تھا۔

المختصر جان كلام یہ ھے كہ پیغمبر نے محدود امكانات اور كم وقت میں بھی اخلاق حسنہ كے سایے میں بہت ساری مشكلات پر غلبہ پایا۔ لیكن آج آپ كے بہتیرے پیرو گھریلو مشكلات كا شكار ھیں باوجودیكہ اس زمانے میں امكانات وسیع ھیں اور گھر میں بیٹھ كر گفت و شنید كرنے كے لئے وقت كافی ھے تنہا مشكل جو ھے وہ یہ ھے كہ ھماری رفتار و گفتار اور كردار میں اخلاق پیغمبر كا عكس نمایاں نہیں ھے۔ 

1.دیكھئے: مسند احمد، ج۶ ص۳۳۷؛ و اسد الغابۃ، ج۷، ص۱۶۹۔

2.معجم رجال الحدیث، ج۱، ص۱۷۵۔ ۱۷۶۔

3.معجم رجال الحدیث، ج۱، ص۱۷۶۔

4.معجم رجال الحدیث، ج۱، ص۱۷۶۔ ۱۷۷۔ 

5.استیعاب، ترجمہ، رقم ۸۴۸، الاصابہ، ترجمہ، رقم ۲۸۹۷؛ سیرۂ ابن ھشام، ج۱، ص۲۴۸؛ طبقات، ج۳، ص۲۸۔ 

6.اصابہ، ص۲۸۹۷؛ استیعاب، ص۸۴۸؛ طبقات، ج۳، ص۲۸۔ 

7.اسد الغابۃ، ص۲۵۰۔ ۲۵۲۔ 

8.اسد الغابۃ، ج۲، ص۳۳۶۔ ۳۳۷۔

9.احزاب(۳۳) آیت ۵۔

10.احزاب(۳۳) آیت ۶۔ 

11.احزاب(۳۳) آیت ۳۶۔ 

12.اسد الغابۃ، ج۱، ص۱۹۴ و ج۷، ص۲۹۱۔ 

13.اسد الغابۃ، ج۷، ص۲۹۱۔ 

14.اسد الغابۃ، ج۷، ص۲۹۱۔ 

15.معجم رجال الحدیث، ج۳، ص۲۴۰ و ۲۴۱۔

16.بحار الانوار، ج۱۶، ص۲۳۰۔ 

17.بحار الأنوار، ج۱۶، ص۲۴۷۔ 

18.بحار الأنوار، ج۱۶، ص۲۱۶۔ 

19.آل عمران(۳) ، آیہ ۱۵۹۔ 

20.بحار الأنوار، ج۱۶، ص۲۶۵، مجمع البیان، ج۹، ص۱۲۲۔

21.توبہ(۹) ، آیۂ ۱۲۸۔ 

22.حج(۲۲) ، آیۂ ۶۵۔ بقرہ(۲) ، آیۂ ۱۴۳۔ 

23.مجمع البیان، ج۵ ص۸۶، ذیل آیہ ۱۲۸ سورہ توبہ، بحار الانوار، ج۱۶، ص۳۰۳ 

تبصرے
Loading...