وہابیت کی پیدائش، اس کے اہداف و مقاصد اور نظریات

اس بات میں کوئی شک نہیں کہ شیعہ اور اہلسنت کے درمیان اختلاف تاریخی اور عقیدتی بنیادوں پر مبنی ہے لیکن وہابیوں نے اپنے غلط اور انحرافی افکار کے ساتھ یہ کوشش شروع کر دی کہ وہ شیعت کو عبد اللہ بن سبا کی پیداوار قرار دیں۔ انہوں نے اس آشکارا تہمت کو تقویت پہنچانے کے لیے بعض مستشرقین اور کفار جیسے گلدزیھر یہودی، دوزی، ولہاوزن وغیرہ کے نظریات سے استفادہ کیا۔

اہلبیت(ع) نیوز ایجنسی۔ابنا۔مولف: حجۃ الاسلام و المسلمین عباس جعفری فراہانی(گزشتہ سے پیوستہ)۴: فارسی اور ترکی زبانوں سے آشنائیوہابی مورخین نے اس سلسلے میں کافی حد تک اختلاقی گفتگو کی ہےکہ کیا شیخ محمد عبد الوہاب فارسی اور ترکی زبانوں کو بھی جانتے تھے یا نہیں؟ ایک طرف سے ان کا یہ ماننا ہے کہ ” عربی کے علاوہ کسی دوسری زبان کا جاننا مجبوری کے علاوہ جائز نہیں ہے اس لیے کہ عربی زبان، قرآن، سنت نبوی اور سلف صالح کی زبان ہے اور بعض علمائے سلف صالح جیسے ابن تیمیہ زبان عربی کے علاوہ کسی دوسری زبان کو سیکھنا مکروہ سمجھتے تھے‘‘۔ (۲۹)دوسری طرف سے اس بات کے بھی دعویدار ہیں کہ شیخ محمد بن عبد الوہاب کی تالیفات میں اس سلسلے میں کوئی گفتگو نہیں ہوئی ہے۔ جو چیز اس مسئلہ( عربی کے علاوہ دوسری زبان سیکھنا) کو چھیڑنے کا باعث بنی ہے وہ صاحب اللمع الشھاب کا بیان ہے جس میں انہوں نے یہ کہنا چاہا ہے کہ محمد بن عبد الوہاب کے عقائد اور افکار وحی اور سنت رسول سے ماخوذ نہیں ہیں بلکہ ان میں فلسفی، ریاضی اور صوفی افکار و نظریات کا زیادہ عمل دخل ہے جبکہ محمد بن عبد الوہاب کے عقائد اور آثار اس طرح کی باتوں سے بالکل ہم آہنگ نہیں ہیں۔ڈاکٹر منیر العجلانی کا بھی کہنا ہے: صلاح العقاد، صاحب کتاب اللمع الشھاب کی بات کے منکر ہیں اور یہ کہ محمد بن عبد الوہاب ایران میں سکونت پذیر رہے ہوں اور وہاں انہوں نے فلسفہ اور تصوف کا علم حاصل کیا ہو اس بات کی تردید میں دو دلیلیں موجود ہیں: ایک محمد بن عبد الوہاب فارسی زبان سے بطور مطلق ناآشنا تھے۔ دوسرے ؛ شیخ کے آثار میں فلسفہ اور تصوف سے متعلق کوئی چیز بالکل نظر نہیں آتی اور اس بات کا دعویٰ کرنا بے بنیاد ہے کہ شیخ محمد عبد الوہاب نے اپنی بعض معلومات جیسے فلسفہ اور تصوف کا اظہار نہیں کیا، یہ شیخ پر تمہت ہے۔(۳۰)۵: افکار اور نظریاتشیخ محمد عبد الوہاب کے نظریات کا خلاصہ یوں بیان کیا جا سکتا ہے:الف: شرک کے ساتھ جنگ، خالص توحید اور سلف صالح کے اسلام کی طرف بازگشت۔(۳۱)محمد بن عبد الوہاب کے نظریات میں سے ایک اہم نظریہ یہ تھا کہ عصر حاضر کے مسلمانوں کا عقیدہ خالص توحید پر مبنی نہیں ہے بلکہ ان کے عقائد میں شرک کی آمیزش ہے اس لیے انہوں نے مسلمانوں کو خالص توحید اور شرک اور خرافات سے دوری اختیار کرنے کی طرف دعوت دی۔انہوں نے کتاب التوحید کہ جو ۱۱۵۳ ھ ق میں لکھی گئی میں لکھا: ” میں تمہیں توحید اور یکتا پرستی کی دعوت دیتا ہوں اور میں چاہتا ہوں کہ شرک کو مکمل طور پر دور پھینک دیا جائے‘‘۔( ۳۲)عقیدہ توحید کے سلسلے میں ان کے اظہار نظریہ کی وجہ یہ تھی کہ وہ اس بات کے معتقد تھے کہ مسلمان سلف صالح کے عقیدےسے منحرف ہو گئے ہیں ان کے عقائد میں توحید کی نسبت شرک کی آمیزش ہو گئی ہے اور اپنے اعمال اور رسومات میں جہالت اور نادانی کی وجہ سے مشرکانہ امور انجام دیتے ہیں۔ لہذا انہوں نے لوگوں کو خالص توحید اور یکتا پرستی کی طرف دعوت دینے کو اپنا فریضہ سمجھا۔البتہ محمد بن عبد الوہاب کا یہ نظریہ اور شعار بطور کلی اور بذات خود درست اور حق بجانب ہے چونکہ بارہویں صدی ہجری کے مسلمان اکثر و پیشتر علاقوں میں اس قسم کے مسائل اور خرافات کا شکار ہو گئے تھے۔ لیکن ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ محمد بن عبد الوہاب اور ان کے حامی افراد بجائے اس کےکہ مسلمانوں کے درمیان عقیدہ توحید کے سلسلے میں پیدا ہونے والے مسائل اور خرافات کے علل و اسباب کو تلاش کریں اور ان عوامل و اسباب کو سماج سے ختم کریں اوربجائے اس کے کہ دوسرے اسلامی علماء اور دوسرے فرقوں کے علماء سے بیٹھ کر اس بارے میں گفتگو اور مباحثہ کریں اور مذہبی رہنماوں کے ساتھ مل کر اسلامی سماج کی مشکلات کو حل کریں، اپنی ذھنیت کے مطابق دوسرے فرقوں کے عقائد و رسومات کو منجملہ اہلبیت اطہار(ع) کے پیروکاروں کے عقائد کو اپنے حملوں کا نشانہ بنایا اور ان کے سلسلے میں کافر اور مشرک کے الفاظ بڑی آسانی سے استعمال کر کے ان کے مقدسات کی توہین کرنا شروع کر دی۔(۳۳)اس سے بد تر یہ کہ ابن عبد الوہاب اور ان کے حامیوں نے اکثر مسلمانوں کو مشرک اور کافر ہونے کا لقب دے دیا یہاں تک کہ انہیں واجب القتل قرار دے دیا اور مشرک اور کافر مسلمانوں کے ساتھ جنگ کو ”جہاد فی سبیل اللہ‘‘ گردانا۔ ان کا یہ نظریہ اس بات کا باعث بنا کہ تمام عالم اسلام کے اندر خانہ جنگی شروع ہو گئی جنبلی مذھب کے علاوہ جس کےوہ خود ماننے والے تھے تمام مسلمانوں کے ساتھ جنگ کو جہاد کا نام دے دیا! محمد بن عبد الوہاب اور ان کے پیروکاروں نے توحید اور کلمہ لا الہ الا اللہ کی اس طرح تفسیر کرنا شروع کی کہ ان کے علاوہ کوئی دوسرا موحد بن ہی نہیں سکتا تھا۔ انہوں نے کلمہ توحید کی تفسیر کے ساتھ تمام قبور حتی قبر نبی پاک (ص) کی زیارت کرنا، بزرگوں کی قبروں پر گنبد تعمیر کرنا، قبروں پر فاتحہ پڑھنا اورچراغ جلانا، ضریح پیغمبر(ص) کو چومنا، اصحاب اور آل رسول(ص) کی قبروں کی زیارت اور ان کے پاس نماز ادا کرنا، ان سے توسل کرنا اور شفاعت طلب کرنا وغیرہ وغیرہ سب چیزوں کو شرک اور کفر کے مصادیق میں سے قرار دے دیا۔ محمد بن عبد الوہاب نے اپنی کتاب کشف الشبھات میں اپنے ٹولے کے علاوہ تمام مسلمانوں کو مشرک، کافر، بت پرست، مرتد، منافق، دشمن توحید، دشمن خدا، اہل باطل، جاہل اور شیطان جیسے القاب سے نوازا اور ان عناوین سے تمام مسلمانوں کا خون بہانا اور ان کے اموال میں تصرف کرنا جائز قرار دیا۔(۳۴)اگر مسلمان محمد بن عبد الوہاب کی تفسیر کے مطابق دعوت توحید کو قبول کریں تو حریم اسلام میں داخل ہو سکتے اور امان حاصل کرنے کے حقدار بن سکتے ہیں ورنہ انہیں دنیا میں جینے کا کوئی حق حاصل نہیں ہے!محمد بن عبد الوہاب کا یہ عقیدہ تھا: ” مسلمان ہونا، اور اپنی جان و مال کا تحفظ کرنا صرف شہادتین پڑھنے سے ممکن نہیں ہے بلکہ ان تمام چیزوں کو ترک کرنا ہو گا جو قرآن و سنت کی صراحت کے خلاف ہے اور سلف صالح کے فرمودات کے مطابق عمل کرنا ہو گا۔ ورنہ وہ کافر اور مشرک ہے اور اس کی جان و مال حلال ہے۔( یعنی اسے قتل کرنا جائز ہے) اگر چہ شہادتین پڑھتا ہو‘‘۔ (۳۵)جبکہ دوسری جانب عالم اسلام کے بہت سارے اکابر علماء نے محمد بن عبد الوہاب کے ذریعے بیان شدہ اسلامی اور قرآنی عقائد کی تفسیر کو بالکل اسلامی، قرآنی اور سنت نبوی کے واضح اصول کے خلاف جانا اور اس کی شدید مخالفت کی ۔(۳۶)محمد بن عبد الوہاب کے افکار کے پہلے مخالف خود ان کے بھائی سلیمان بن عبد الوہاب ہیں (۳۷) جنہوں نے واضح طور پر کہا: ” آج لوگ ایسے شخص کے پیچھے جا رہے ہیں جو خود کو قرآن اور سنت کی طرف منسوب کرتا ہے اور ان سے نئے نئے علوم کا استخراج کرتا ہے اور اگر کوئی اس کی مخالفت کرے تو اسے خوف نہیں ہوتا وہ اپنے مخالفین کو کافر گردانتا ہے حالانکہ خود اس کے اندر اجتہاد کی کوئی ایک علامت بھی نظر نہیں آتی، خدا کی قسم حتی اجتہاد کی علامتوں کا ایک دسواں حصہ بھی اس میں دکھائی نہیں دیتا اس کے باوجود اس کی باتیں بہت سارے نادان لوگوں پر اثر کر گئی ہیں ایسے حال میں یہی کہنا ہو گا انا للہ و انا الیہ راجعون‘‘۔(۳۸)دوسری جگہ کہتے ہیں:” وہ امور جنہیں وہابی شرک اور کفر کا سبب سمجھتے ہیں اور انہیں بہانہ بنا کر مسلمانوں کے جان و مال کو مباح سمجھتے ہیں وہ ائمہ اسلام کے دور میں موجود تھے لیکن کسی بھی امام سے نہ سنا گیا اور نہ کسی سے نقل ہوا کہ ان اعمال کے انجام دینے والے کافر یا مرتد ہیں اور ان کے خلاف جہاد کا حکم دیا جائے یا بلاد المسلمین کو جیسا وہ کہتے ہیں بلاد شرک و دار الکفر کا نام دے دیا جائے‘‘۔ (۳۹)شیخ سلیمان اپنی دوسری کتاب فصل الخطاب فی الرد علی محمد بن عبد الوہاب میں اپنے بھائی کے افکار و نظریات کی سختی سے تردید کرتے ہیں۔ کہا جاتا ہےکہ ایک دن شیخ سلیمان نے اپنے بھائی محمد سے پوچھا اسلام کے ارکان کتنے ہیں؟ انہوں نے جواب دیا: پانچ ہیں۔ سلیمان نے کہا: لیکن تم نے انہیں چھ قرار دےدیا ہے! چونکہ تم کہتے ہو جو شخص تمہاری پیروی نہ کرے اور تمہارے افکار و نظریات کو نہ مانے وہ کافر ہے۔ (۴۰)بارہ صدی ہجری کے بعد سے اب تک عالم اسلام کے شیعہ سنی اکابر علماء نے شیخ محمد بن عبد الوہاب کے افکار و نظریات کی رد میں دسیوں کتابیں لکھی ہیں اہل مطالعہ ان کی طرف رجوع کرسکتے ہیں ہم یہاں اس مختصر مقالے میں ان کی طرف اشارہ نہیں کر سکتے(۴۱)۔ب: تفسیر قرآن، اجتہاد، فلسفہ، عرفان اور نئی انسانی ایجادات کی مخالفتمحمد بن عبد الوہاب توحید خالص اور سلف صالح کے اسلام کی طرف بازگشت کے حوالے سے اپنے افکار و نظریات میں عقل، فلسفے، اجتہاد، عرفانی مسائل سے تمسک کرنے اور قرآن اور سنت کی تفسیر بیان کرنے کے مخالف ہیں اور اس حدیث کا سہارا لیتے ہوئے کہ كلَّ بِدْعةٍ ضَلالةٌ و كلُّ ضَلالة فى النّارِ (۴۲) اس طرح کے تمام کاموں کو بدعت جانتے ہیں اور ان کے ساتھ مبارزہ کرنے کو واجب سمجھتے ہیں۔ ان خیالات کے باعث وہابی، خشک اور بے وزن قسم کے افکار کے حامل ہو گئے اور دین کے بنیادی مباحث جیسے توحید، ایمان، اسلامی حکومت، توسل، شفاعت، خیرات و صدقات، اعیاد و عزاداری وغیرہ میں انحراف کا شکار ہو گئے ان کی صحیح اور درست وضاحت بیان نہ کر سکے اور نتیجۃ انسان کی نئی ایجادات اور اختراعات جیسے ٹیلیفون، گاڑی، لائٹ، کیمرہ اور دیگر بے شمار نئے ابزار و آلات کی صحیح تفسیر بیان کرنے کے بجائے پہلی فرصت میں ان کا استعمال حرام قرار دے دیا اور ان کے ساتھ جنگ کرنے اٹھ کھڑے ہو گئے۔ جبکہ اسلام اورقرآن انسانی اختراعات کے مخالف نہیں بلکہ تمام انسانوں کو علم حاصل کرنے اور خدادادی زخائر سے جائز استفادہ کرنے کی تشویق دلاتےہیں عقلی علوم فلسفہ و منطق، اور فقہ و اصول، عرفان اور تفسیر قرآن تمام انسانی افکار کی رشد و نمو کے لیے اور معنوی کمالات کے ارتقاء کے لیے اسلام کی نظر میں جائز بلکہ بسا اوقات لازمی ہیں۔محمد بن عبد الوہاب کہتے ہیں: ہم کسی بھی کتاب کو نابود نہیں کرتے لیکن وہ کتابیں جو لوگوں کے عقائد میں شک و تردید پیدا کرنے کا باعث بنیں جیسے علم منطق ۔۔۔ انہیں نابود کر دیتے ہیں‘‘۔(۴۳) حافظ وھبہ (متوفیٰ ۱۳۷۸ ھ ق) لکھتے ہیں: وہابی تصویر بنانے کو حرام سمجھتے ہیں۔۔۔ علم فلسفہ و منطق کو حرام جانتے ہیں، علمائے نجد کے درمیان جو لوگ ان علوم سے آشنائی رکھتے ہوں بہت کم تلاش کئے جا سکتے ہیں۔۔۔ ان کی معلومات زیادہ سے زیادہ پیغمبر اسلام (ص) کی سیرت اور خلفائے راشدین کے حالات کی تک محدود ہوتی ہیں انہیں اس کے علادہ تاریخ اسلام کے دیگر واقعات سے کوئی مطلب نہیں ہوتا۔ اسی وجہ سے جزیرۃ العرب میں کسی نئی چیز کا انکشاف دکھائی نہیں دیتا۔۔۔(۴۴)وہابیوں نے تمام نئی ایجادات کو جو اسلام کی پہلی تین صدیوں میں موجود نہیں تھیں کو بدعت اور حرام سمجھتے تھے! جیسے علم منطق، علم فلسفہ، علم سائنس، تمباکو کا استعمال، سائیکل سواری، (اس لیے کہ وہ سائیکل کو شیطان کا گھوڑا سمجھتے تھے کہ یہ شیطان کے پیروں اور جادوں کی قوت سے چلتی ہے) اور دیگر نئی ایجادات جیسے ٹیلیفون، ٹیلیگراف، کیمرہ،

 

تبصرے
Loading...