وحی کی حقیقت اور اہمیت

وحی کا اصطلاحی مفہوم : لغت میں لفظ ” وحی“ مختلف معانی میں استعمال ہوا ہے ان معانی کے درمیان قدر جامع اور قدر مشترک ” مخفی تفہیم اور القاء“ ہے۔ ۱- دور جاہلیت کے شعراء اس لفظ کو کتابت ‘ اشارے اور مکتوب کے معانی میں بروئے کار لائے ہیں۔ ۲ – دین اسلام میں یہ لفظ ایک خاص معنی میں اس درجہ کثرت سے استعمال ہوا کہ منقول شرعی بن گیا اور شرعی نوعیت اختیار کر گیا اس کے بعد جب بھی یہ لفظ کسی نبی یا پیغمبر کے حوالے سے ذکر ہوا تو اس سے یہی خاص معنی مراد لیا گیا جسے وحی کا اصطلاحی معنی کہا جاتا ہے۔

وحی کا اصطلاحی مفہوم :

لغت میں لفظ ” وحی“ مختلف معانی میں استعمال ہوا ہے ان معانی کے درمیان قدر جامع اور قدر مشترک ” مخفی تفہیم اور القاء“ ہے۔

۱- دور جاہلیت کے شعراء اس لفظ کو کتابت ‘ اشارے اور مکتوب کے معانی میں بروئے کار لائے ہیں۔

۲ – دین اسلام میں یہ لفظ ایک خاص معنی میں اس درجہ کثرت سے استعمال ہوا کہ منقول شرعی بن گیا اور شرعی نوعیت اختیار کر گیا اس کے بعد جب بھی یہ لفظ کسی نبی یا پیغمبر کے حوالے سے ذکر ہوا تو اس سے یہی خاص معنی مراد لیا گیا جسے وحی کا اصطلاحی معنی کہا جاتا ہے۔

لہذا اسلامی متون میں جب یہ لفظ بطور مطلق اور بغیر قرینے کے استعمال ہوتا ہے تو اس سے یہی اصطلاحی خاص معنی خاص مراد ہیں البتہ قرینے کی موجودگی میں دیگر معانی مراد لیے جا سکتے ہیں۔

چوتھی صدی ہجری کے اسلامی متکلم شیخ مفید نے بیان کیا ہے:

”واذا اُضیفَ (الوحی) الی اللہ تعالیٰ کان فیما یخص بہ الرسل خاصةً دون من سواہم علی عُرْفِ الاِسْلٰام و شریعة البنی“

جب وحی کا لفظ اللہ تعالیٰ کے ساتھ آئے تو اس سے مراد شریعت نبی اور اسلام کے عرف میں انبیاء کے ساتھ مخصوص وحی ہے دیگر معانی ہرگز مراد نہیں ہیں۔

تفسیر المنار کے موٴلف نے مذکورہ مطلب کو یوں بیان کیا:

للوحی معنی عام یطلق علی عدة صور من الاعلام الخفی الخاص الموافق لوضع اللغة ولہ معنی خاص ہو احد الاقسام الثلاثة للتکلیم الالہی وغیرھذہ الثلاثة من الوحی العام لایعدمن کلام اللہ تعالیٰ التشریعی (1)

وحی کا عام معنی کا اطلاق مخفی طور پر آگاہ کرنے کی مختلف صورتوں پر ہوتا ہے اوراس کا ایک خاص معنی ہے جس کا اطلاق اللہ تعالیٰ کے تشریعی کلام کے سوا کسی اور معنی پر نہیں ہوتا۔

عصر حاضر کے مفسر علامہ طباطبائی لکھتے ہیں:

وقد قرر الادب الدینی فی الاسلام ان لایطلق الوحی غیر ماعند الانبیاء والرسل من التکلیم الالہی (2)

اسلام میں ادب دینی کا تقاضاہے کہ خدا اور انبیاء کے درمیان گفتگو کے علاوہ کسی اور چیز پر وحی کا اطلاق نہ کیا جائے۔

ڈاکٹر حسن ضیاء الدین عتر، وحی کے اصطلاحی معنی کے بارے میں لکھتے ہیں:

”اقول ومن ھنا نلحظ ان معنی الوحی فی الشرع اخص منہ فی اللغة من جھة مصدرہ وھو اللہ تعالیٰ و من جھة الموحی الیہ و ھم الرسل“ (3)

ہم کہتے ہیں کہ اسی وجہ سے ہم ملاحظہ کر سکتے ہیں کہ وحی کا شرعی معنی اپنے مصدر یعنی اللہ تعالیٰ اور جن کی طرف یہ وحی کی جاتی ہے یعنی رسولوں کے لحاظ سے اپنے لغوی معنی سے اخص ہے۔

مولانا تقی عثمانی کہتے ہیں:

لفظ’ ’وحی“ اپنے اصطلاحی معنی میں اتنا مشہور ہو چکا ہے کہ اب اس کا استعمال پیغمبر کے سوا کسی اور کے لیے درست نہیں ہے (4)

رائج لطفی نے بیان کیاہے:

کذلک یذکر اللغویون لکلمة الوحی معانی کثیرة ثم غلب استعمال الوحی علی مایلقی الی الانبیاء من عنداللہ (5)

اس طرح اہل لغت نے لفظ وحی کے بہت سے معنی ذکر کیے ہیں پھراس کااستعمال ”اللہ تعالیٰ کی طرف سے انبیاء پر القاء کیے جانے والے کلام کے لیے غالب ہو گیا۔

معاصر محقق محمد باقر سعید ی وحی کے خاص معنی کے بارے میں لکھتے ہیں:

درنتیجہ واژہ وحی درحوزہ اصطلاح علم کلام و بلکہ فلسفہ دین در قلمر و ادیان توحیدی‘اخص از مفہوم لغوی آن است (6)

نتیجے کے طور پر علم کلام بلکہ ادیان توحیدی کے افق پر فلسفہ دین میں وحی کا مفہوم اس کے لغوی معنی سے اخص ہے۔ اسی مطلب کو اردو دائرة المعارف اور سعید اکبر آبادی نے ذکرکیا ہے :

وحی کا استعمال اس معنی خاص میں اس کثرت سے ہوا ہے کہ منقول شرعی بن گیا ہے۔ (7)

یہ لفظ اس معنی خاص میں اس درجہ کثرت سے استعمال ہوا ہے کہ یہ ایک شرعی نوعیت اختیار کر گیا ہے۔ (8)

اسلامی مفکرین کے علاوہ مستشرقین نے بھی وحی کے خصوصی معنی کو بیان کیا ہے:

رچرڈبل مقدمہ قرآن میں لکھتے ہیں:

(9) – The verb “awha”and the noun “wahy” have become the technical terms in moslem theology

یعنی فعل ” اوحی“ اور مصدر ”وحی “ اسلام کے اندر اصطلاحی مفہوم میں استعمال ہوتا ہے-

منٹگمری واٹ کہتے ہیں:

The verb here translated “reveal” is” awha”which in much of the Quran is a technical expression for this experience of Mohammad  (10

اس کے مطابق فعل ” اوحی “ اصطلاحی مفہوم میں استعمال ہوا ہے بالخصوص قرآن میں یہ لفظ ”وحی محمدی “کے لیے زیادہ آیا ہے وحی کا یہ خاص او ر اصطلاحی مفہوم کیا ہے؟ اس بارے میں علوم اسلامی کے ماہرین نے جو تعاریف کی ہیں ان کی رو سے وحی کے مفہوم کے لیے تین تعبیریں بیان کی گئی ہیں۔

حوالہ جات:

1- العجاج نے اوحی” کو اشارے کے معنی میں استعمال کیا ہے:

” فاوحت الینا و الانا مل رسلھار و شدھا بالراسیات الثبت

العجاج نے اسی لفظ کو کتابت کے معنی میں اپنے اس شعر میں ذکر کیا ہے:

حتی نحاھم جدنا و الناحی

لقدر کان وحاہ الواحی

(دیوان عجاج،ص۴۳۹)

لبید نے مکتوب کے معنی میں بیان کیا ہے:

وفمدا فع الریان عری رسمھا

خلقا کما ضمن الوحی سلا مھا

2- مفیدمحمد بن نعمان الشیخ المفید تصحیح الاعتقاد، المؤتمر العالمی لالفیة الشیخ المفید،۱۴۱۳ھ ص۱۲۰

3- رشید رضا:تفسیر المنار: ج۱۱ص۱۷۹

4- طباطبائی محمد حسین:المیزان فی تفسیر القرآن:ج۱۲ص۳۱۲

5-  ضیاالدین عترحسن ڈاکٹر: وحی اللہ،دعوة الحق مکہ مکرمہ رجب۱۴۰۴ ہجری ص۵۲

6- عثمانی محمدتقی:علوم القرآن، مکتبہ دارالعلوم کراچی ۱۴۰۸ھ، ص۲۹

7- جمعہ رائج لطفی:القرآن والمستشرقون،قاہرہ۱۳۹۳ھ

8- سعیدی روشن محمدباقر:تحلیل وحی ازدیدگاہ اسلام و مسیحیت“،موٴسسہ فرہنگی اندیشہ ۱۳۷۵ھ ش ص۱۷

9- اکبر آبادی سعید احمد:وحی الہی،مکتبہ عالیہ لاہورص۲۵

10- اردو دائرةالمعارف الاسلامیہ:دانشگاہ پنجاب لاہور ج۱۶ص۳۲۱

۱۲Bell,Richard: Introduction to the Quran;p-32Edinburg 1953-

تبصرے
Loading...