وحدت اسلامی، معاصر اسلامی قیادت کے نقطہ نظر سے

اسلام آفاقی دین ہے اس کی بنیادی تعلیمات آفاقی ہیں ۔ اس کی بنیادی تعلیمات نہ کسی خاص علاقے سے متعلق ہیں نہ کسی خاص زمانے سے تعلق رکھتی ہیں بلکہ یہ ہر علاقے اور ہر دور کے لیے عام ہیں ۔ اس کائنات کا ایک روحانی پہلو بھیہے اس کا خالق یکتا ہے، اکیلا ہے اور احد ہے ۔ اس نے انسان کو فاعل مختار بنایا ہے اور انسانی تخلیق اسی کے گرد گھومتی ہے ۔ انسان فرشتوں اور دیگر اقوام سے افضل ہے، اسے عقل سے نوازا گیا، قوت اظہار و گویائی کی صفت عطا ہوئی اور اسے سوچنے، سمجھنے اور تسخیر کرنے کی طرف بلایا گیا ۔ انسان کی سرشت میں اچھائی اور برائی دونوں کو رکھا گیا ۔ اس کے ساتھ ساتھ اس کی بھلائی کے لیے نہ صرف انبیاءبھیجے گئے بلکہ ان انبیاءپر کتابیں بھی نازل کی گئیں ۔ یوں اللہ نے ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاءکو اپنا نائب اور جانشین بنا کر انسانیت کی رشد و ہدایت کے لئے بھیجا ۔

ابنا: اسلام دین فطرت ہے اور مرسل اعظم ص نے دین اسلام کے ذریعے ہی توحید کے بھولے ہوئے پیغامات کو دہرایا، جس کی حضرت آدم علیہ السلام سے لیکر خاتم النبیین مرسل اعظم ص تک تمام الہی نمائندوں نے تبلیغ و ترویج کی ہے ۔ اچھائی کی نصیحت برائی کی ممانعت، خدا اور اس کے اولیائ سے عقیدت و محبت کے عنوانات سے ایک کامل منصوبہ اللہ کا ہی تیار کیا ہوا ہے ۔ اسلامی اعتقادات، عبادات اور معاملات سب انسانی فطرت پر مبنی ہیں ۔ اسلام کی تعلیمات آسان فہم ہیں وقت کے ساتھ ساتھ ان تعلیمات کی تعبیریں بدلتی ہیں کیونکہ ہر وقت کی اپنی اپنی ضروریات ہوتی ہیں ۔ اسلام روز ازل سے ہی آزادی اظہار و رائے کا قائل ہے اور اسلام ببانگ دہل ”لا اکراہ فی الدین“ کا اعلان کرتا ہے ۔ آنحضور ص نے بھی اتحاد امت، وحدت انسانی اور

کیرن آرم سٹرانگ اپنی کتاب ”خدا کی تاریخ “میں بیان کرتی ہیں:

جب ایک عیسائی ورقہ بن نوفل نے حضرت محمد ص کو ایک سچّے رسول کی حیثیت سے تسلیم کیا تو نہ اس نے اور نہ ہی حضرت محمد ص نے یہ توقع کی کہ وہ مذہبِ اسلام قبول کر لے ۔ حضرت محمد ص نے یہودیوں یا عیسائیوں سے کبھی یہ نہیں کہا کہ وہ ان کے اللہ کے مذہب کو قبول کر لیں سوائے ان کے، جنھوں نے خود ان سے درخواست کی، کیوں کہ ان کے پاس وحءالٰہی کے حامل اپنے پیغمبر تھے ۔ قرآنِ پاک میں بھی الہام کا مطلب پیش رو پیغمبروں پر ہونے والے الہام اور وحی کو مسترد کرکے اپنا پیغام دینا نہیں، بلکہ اِس کے بجائے اِس بات پر زور دیا گیا ہے کہ انسانوں کے مذہبی تجربات میں ایک تسلسل پایا جاتا ہے ۔ یہ بہت اہم بات ہے کہ ہم اِس نقطے پر غور کریں کہ مغرب کے اکثر لوگ اِس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ اسلام دیگر ادیان سے موافقت نہیں کرتا اور ان سے بنا کر نہیں رکھتا، حالاں کہ ایسا نہیں ہے اور مسلمان ابتدا ہی سے یہودیوں اور عیسائیوں کی بہ نسبت وحی کو صرف اپنے پیغمبر تک محدود نہیں سمجھتے تھے ۔

اسلام امن و سلامتی اور بھائی چارے کا دین ہے ۔ یہ اپنے ماننے والوں کو اخوت، برابری، بھائی چارے کا درس دیتا ہے ۔ نبی آخر الزمان نے بارہا مسلمانوں کو پیار، محبت اور امن و امان سے زندگی گزارنے کی تلقین کی۔ ہمارے اس بیان کی تائید یہ حدیث مبارکہ کرتی ہے:

مسلمان وہ ہے محفوظ رہیں تمام مسلمان جس کی زبان اور ہاتھ سے ۔

مدینہ میں رہنے والے قبائل عرصہ دراز سے ایک دوسرے سے اختلاف و جھگڑا رکھتے تھے اور یہودیوں نے ان کے اختلافات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ان پر سیاسی غلبہ و تسلط حاصل کر لیا تھا، پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مدینہ منورہ ہجرت کرنے اور لوگوں کی قیادت و رہبری قبول کرنے کے بعد ان کے درمیان اخوت و برادری کا معاہدہ قائم کیا ۔

ڈاکٹر محمد حسین ہیکل نے اپنی کتاب ”حیات پیغمبر“ میں لکھا ہے:

یہاں حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی زندگی کا نیا مرحلہ شروع ہوتا ہے، جس کی نظیر گزشتہ انبیاءکے یہاں نظر نہیں آتی۔ انھوں نے اپنے دوستوں اور ساتھیوں سے مشورہ کیا اور سب سے پہلا موضوع جس پر آپ نے توجہ فرمائی یہ تھا کہ تمام مسلمانوں کو آپس میں بھائی بھائی بنا دیا ۔

حسین ہیکل مزید لکھتے ہیں:”اگر ہم اس بات کو مد نظر رکھیں کہ منافقوں نے قبائل اوس، خزرج اور مہاجر و انصار کے درمیان تفرقہ پیدا کرنے کی کس قدر کوششیں کیں تو ہمیں معلوم ہو گا کہ پیغمبر اکرم ص نے اس سلسلہ میں کس قدر دقت نظر، حسن ظن اور دور اندیشی سے کام لیا تھا“۔

”تم سب اللہ کی رسی (قرآن و اسلام و تمام وسائل اتحاد) مضبوطی سے پکڑے رہو اور متفرق و پراگندہ نہ ہو اور خدا کی اس نعمت کو یاد کرو کہ کس طرح تم ایک دوسرے کے دشمن تھے، اس نے تمھارے دلوں میں محبت پیدا کر دی اور اس نعمت کی برکت سے تم ایک دوسرے کے بھائی ہو گئے ۔ تم آگ کے گڑھے کے دہانے پر تھے کہ خدا نے تمھیں اس سے نجات عطا کر دی“۔(عمران: ۱۰۳)

کہو ہم اللہ پر ایمان لائے ہیں اور جو کچھ ہم پر اتارا گیا ہے اور جو کچھ ابراہیم اور اسماعیل اور اسحاق اور یعقوب (علیہم السلام) اور ان کی اولاد پر اتارا گیا ہے اور جو کچھ موسٰی اور عیسٰی اور جملہ انبیاء(علیہم السلام) کو ان کے رب کی طرف سے عطا کیا گیا ہے (سب پر ایمان لائے ہیں)، ہم اِن میں سے کسی پر بھی ایمان میں فرق نہیں کرتے اور ہم اسی کے لیے اسلام لائے ہیں 

حضرت علی علیہ السلام نہج البلاغہ میں ارشاد فرماتے ہیں :

گزشتہ امتیں جب تک باہم اور متحد تھیں پیہم ترقی کی راہ پر گامزن تھیں اور عزت و اقتدار اور زمین کی خلافت و وراثت سے ہمکنار رہیں اور دنیا والوں کی رہبر اور ان پر حاکم رہیں ۔ لیکن جب انھوں نے خدا کو فراموش کر دیا، مادیات کی طرف مائل ہوئے، احساس برتری، قومی و فرقہ وارانہ انتشار و پراگندگی کا شکار ہو گئے، آپس میں لڑنے لگے تو خدا وند عالم نے عزت و بزرگی اور خلافت کا لباس ان کے جسم سے اتار لیا ۔ خیر و برکت اور نعمتوں کی فروانی ان سے سلب کر لی اور ذلت و غلامی میں انھیں مبتلا کر دیا ۔ مثال کے طور پر کسریٰ و قیصر بنی اسرائیل میں تفرقہ کی وجہ سے ان پر مسلط ہو گئے ۔ انھیں اپنا غلام بنا لیا اور آباد زمینوں اور دجلہ و فرات کے سر سبز و شاداب علاقوں سے نکال کر بیابانوں اور بے آب و گیاہ علاقوں میں دھکیل دیا اور انھیں ذلت و فقر، جہالت و انتشار سے دو چار کر دیا ۔ خدا وند عالم نے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور اسلام جیسی نعمتوں کے ذریعہ اولاد اسماعیل ع اور تمام مسلمانوں کو متحد اور بھائی بھائی بنا دیا، انھیں بزرگی عطا فرمائی، اپنی عطاوں کی نہریں ان کی طرف جاری کیں ۔ انھیں نعمت طاقت، عزت و عظمت عطا فرمائی، ایسی پایدار حکومت انھیں نصیب کی کہ کسی کو اسے شکست دینے کی طاقت نہ تھی۔ افسوس ایسی باشکوہ ہجرت کے بعد مسلمان مختلف گروہوں اور فرقوں میں تقسیم ہو گئے ۔

اتحاد بین المسلمین کے لیے آیت اللہ سید حسین بروجردی اور دیگر اکابر علماءنے ادارہ تقریب بین المذاہب الاسلامیہ بنایا اور امت کے اتحاد کے لیے گراں قدر کارہائے نمایاں سرانجام دیئے ۔ اس ادارے نے تمام مسالک کو باہم قریب لانے کے لیے”الرسالہ“ کے نام سے ایک مجلہ کا اجرا کیا ۔ آیت اللہ سید حسین بروجردی نے اتحاد بین المسلمین کے لیے بہت مفید عملی اقدامات کیے ۔

اسی طرح جامعہ الازہر کے سابق سربراہ مفتی اعظم شیخ محمد شلتوت نے جو دنیائے اہل سنت کے سب سے بڑے مرکزِ علم کے سربراہ تھے، شیعہ مذہب کو دنیائے اسلام کے تمام مکاتب فقہ میں سے ایک فقہی مکتب کے عنوان سے تسلیم کیا ۔ جامعہ الازہر میں فقہ جعفریہ کی تدریس شیخ شلتوت ہی کے دور میں شروع ہوئی۔ جس کے نتیجے میں پورے عالم میں اس کے غیرمعمولی اثرات مرتب ہوئے ۔

اتحاد بین المسلمین میں آیت اللہ شیخ جعفر کاشف الغطائکی خدمات بھی لائق تحسین ہیں ۔ امت کے اتحاد و یگانگت کے لیے سید جمال الدین افغانی کا کردار بھی نہایت اہمیت رکھتا ہے ۔ جمال الدین افغانی کے شاگرد محمد عبدہ اور برصغیر کی دو ممتاز شخصیات امت کے اتحاد و بھائی چارے کے لیے ہمہ تن مصروف عمل رہیں ۔ علامہ محمد اقبال کا یہ شعر ان کی امت مسلمہ کے اتحاد کی نیک تمناوں کی بجا تصویر پیش کرتا ہے ۔

ایک ہوں مسلم ہرم کی پاسبانی کے لیے – نیل کے ساحل سے لے کر تابخاک کاشغر

اسی طرح علامہ محمد اقبال امت کو اتحاد و اتفاق کی تلقین کرتے ہوئے کہتے ہیں:

منفعت ایک ہے اس قوم کی نقصان بھی ایک

ایک ہی سب کا نبی دین بھی ایمان بھی ایک

کچھ بڑی بات تھی ہوتے جو مسلمان بھی ایک

فرقہ بندی ہے کہیں اور کہیں ذاتیں ہیں

کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں

اسی طرح قائد اعظم محمد علی جناح نے شیعہ فقہ سے تعلق رکھنے کے باوجود تمام مسلمان قوم کے لیے الگ وطن کا مطالبہ کیا اور اسے سچ کر دکھایا ۔ تحریک پاکستان کے دوران ایک موقع پر تاج برطانیہ نے مسلمانوں میں فرقہ واریت کا آغاز کروانا چاہا، اس سازش کو قائد اعظم محمد علی جناح نے اپنی فراست و دور اندیشی کی بنا پر مکمل نہ ہونے دیا اور قائداعظم کی دعوت پر آیت اللہ زنجانی نے برصغیر کا دورہ کیا اور امت کو باہم متحد رہنے کی تلقین کی۔

امام خمینی رہ کی قیادت میں 20ویں صدی کا عظیم الشان معجزہ ایران کا انقلاب اسلامی 11 فروری 1979ئکو رونما ہوا جسے ”انفجار نور“ قرار دیا گیا ۔ اس اسلامی انقلاب کی لیبیا کے صدر معمر قذافی نے تائید کی، جو اس بات کا منہ بولتا ثبوت تھا کہ امت مسلمہ دراصل ایک اکائی ہے، تھوڑے بہت اختلافات کو بنیاد بنا کر انتشار اور منافرت پھیلانا قطعی درست اقدام نہیں ہے ۔ پاکستان اور ایران کے تعلقات برادرانہ تعلقات قیام پاکستان کے بعد سے ہی استوار ہیں، اگرچہ ایران کے اسلامی انقلاب کے بعد ان تعلقات میں مغرب کی وجہ سے رخنہ ڈالا گیا، مگر دونوں اطراف کی عوام، علماءاور سیاست دان ہر مشکل گھڑی میں یک جان دو قالب نظر آتے ہیں ۔

ایران کے انقلاب اسلامی کے سپریم لیڈر امام خمینی رہ امت مسلمہ کی حالت زار میں بہتری لانے کے لیے شبانہ روز مصروف رہے، جو اس بات کی دلیل ہے کہ وہ کسی ایک خاص مکتب فکر کے لیڈر نہیں تھے بلکہ ان کی سوچ اور فکر کا تعلق تمام امت سے ہے اور وہ عالمی سیاست پر بھی کڑی نگاہ رکھتے تھے ۔ یہی وجہ تھی کہ انہوں نے امت کو جوڑنے کے لیے ہفتہ وحدت کی بنیاد رکھی۔ شیعہ مکتبہ فکر آنحضور ص کا روز ولادت 17 ربیع الاول کو مناتے ہیں جبکہ سنی مکتبہ فکر کے ہاں آنحضرت ص کا جشن ولادت 12 ربیع الاول کو منایا جاتا ہے، اسی وساطت سے امام خمینی رہ نے تمام مسلمانوں کو نبی آخرالزمان ص کا امتی ہونے کے ناتے ہفتہ وحدت منانے کی دعوت دی۔

امام خمینی رہ امت کو بیداری اور اتحاد و یگانگت کی ترویج کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

تمام اسلامی حکومتیں اس پر توجہ رکھیں کہ جو اختلافات عراق میں، ایران میں اور دوسرے ممالک میں کئے جا رہے ہیں، یہ وہ اختلافات ہیں جو ان کی ہستی کو تباہ کر دیں گے ۔ آج آپ ملاحظہ کیجئے استکبار کی پالیسی فلسطینی کو فلسطینی سے لڑانا ہے، عراقی کو عراقی سے لڑانا ہے، شیعہ مسلمان اور سنی مسلمان کو لڑانا ہے، عرب سماج اور غیر عرب سماج کو لڑانا ہے ۔ یہ واضح پالیسیاں ہیں، سب سے پہلے ہم سب ان چیزوں کا خاتمہ کریں، ہم اپنے لحاظ سے امت مسلمہ کے اتحاد کو ایک ضرورت سمجھتے ہیں ۔ پورے عالم اسلام کے مدنظر کہا گیا ہے سارے مسلمان متحد رہنے چاہئیں، ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرنا چاہئے، یہ اسلامی حکومتوں کا فرض بھی ہے اور مسلم عوام کا بھی، نیز یہ کہ اسلامی حکومتیں اس بڑے اتحاد کی ایجاد کے لئے مسلم اقوام کی توانائیوں سے بھی فائدہ اٹھا سکتی ہیں ۔

کچھ چیزیں اتحاد کی راہ میں رکاوٹ بنتی ہیں، ان میں سب سے بنیادی چیز کج فہمیاں اور ایک دوسرے کی نسبت عدم اطلاعات ہیں، دوسرے کا حال تک پتہ نہیں، لیکن ایک دوسرے سے بدگمانی کرتے ہیں، ایک دوسرے کے عقائد و افکار کے سلسلہ میں غلط فہمی پیدا کرتے ہیں، شیعہ سنی کے سلسلہ میں، سنی شیعہ کے سلسلہ میں، ایک مسلم قوم دوسری مسلم قوم کے سلسلہ میں، ایک پڑوسی دوسرے پڑوسی کے سلسلہ میں، غلط فہمی میں مبتلا ہو جاتا ہے، دشمن ان غلط فہمیوں کا بہت زیادہ سہارا لیتے ہیں، افسوس کہ کچھ لوگ اسی غلط فہمی اور دشمن کی عمومی پالیسی کو نظرانداز کرنیکے نتیجہ میں دشمن کے ہاتھ کا کھلونہ بن جاتے ہیں اور دشمن ان کا استعمال کرتا ہے، بعض دفعہ کوئی چھوٹا سا جذبہ انسان کو کوئی بات کہنے یا کوئی موقف اختیار کرنے پر اکساتا ہے اور دشمن اپنی جامع پالیسی میں اسی بات کا فائدہ اٹھا کر بھائیوں کے درمیان خلیج بڑھا دیتا ہے ۔

آیت اللہ العظمٰی سید علی خامنہ ای کا نظریہ وحدت:

دنیا میں کئی ایسے انقلاب آئے جو اپنے لیڈر کی وفات کے ساتھ ہی تنزل کا شکار ہو گئے مگر انقلاب اسلامی ایران گزشتہ تین دہائیوں سے پوری آب و تاب سے چمک رہا ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ امام خمینی رہ کے جانشین آیت اللہ خامنہ ای نے اپنے پیش رو کے مقاصد و اہداف کو نہ صرف جاری رکھا بلکہ آنے والا ہر دن ایران کی ترقی و ترویج میں ایک سنگ میل ثابت ہوا ۔ آیت اللہ سید علی خامنہ ای نے اتحاد بین المسلمین کے لیے کئی اہم اقدامات کیے اور فتاویٰ صادر کیے، تاکہ امت کو فروعی مسائل میں الجھنے سے بچایا جا سکے اور استعمار کے خلاف صحیح طور متحد ہو کر کام کیا جا سکے ۔

اہل سنت کے مقدسات کے حوالے سے تاریخ ساز فتویٰ:

رہبر انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمٰی سید علی خامنہ ای نے وحدت اسلامی کی حفاظت کے لیے ایک ایسا تاریخی فتویٰ جاری فرمایا ۔ جس نے عالمی شہرت اور پذیرائی حاصل کی ہے ۔ اس سلسلے میں انھوں نے ایک استفتاءکے جواب میں فرمایا:

برادران اہل سنت کی مقدسات کی توہین کرنا حرام ہے، چہ جائیکہ بالخصوص زوجہ رسول ص پر تہمت لگائی جائے، جس سے ان کے شرف و عزت پر حرف آتا ہو، بلکہ تمام انبیاءکی اور خصوصاً سید الانبیائ کی ازواج کی توہین ممنوع ہے ۔

اس فتویٰ کی بازگشت تمام عالم میں سنی گئی اور تمام مکاتب فکر کی جانب سے اس کی توثیق کی گئی۔ جن جید علماء، فقہاءاور رہنماوں نے آیت اللہ العظمٰی سید علی خامنہ ای کے فتویٰ کا پرجوش خیر مقدم و استقبال کیا ان میں مصر کی جامعہ الازہر کے شیخ ڈاکٹر احمد الطیب، آیت اللہ نمازی، محمد رفاعہ طہطاوی جو تقریب بین المذاہب کے محقق ہیں، لبنان کی جماعت علمائے مسلمین کے ترجمان محمد عمرو، لبنان کے شیخ ماہر مزہر، لبنان کے رہنما مصطفٰی علی حسین، لبنان کے امل محاذ، اخوان المسلمین اردن، آیت اللہ العظمیٰ مکارم شیرازی، حوزہ علمیہ قم کے مدرسین کی تنظیم اور آیت اللہ سیستانی کے دفتر نجف اشرف کی توثیقات شامل ہیں ۔

آیت اللہ العظمٰی سید علی خامنہ ای کا وحدت کانفرنس کے شرکاءسے خطاب:

آیت اللہ العظمٰی سید علی خامنہ ای نے وحدت کانفرنس کے شرکاءاور حکومتی عہدیداروں سے خطاب کے دوران امت مسلمہ کو درپیش خطرات کا حل امت کے باہم اتحاد کو قرار دیا ۔ اس موقع پر آپ نے فرمایا:اس وقت عالم اسلام کا اصل علاج اور اصل دوا اتحاد ہے، آپسی اتحاد ہونا چاہئے، مسلم علما و دانشور بیٹھ کر اتحاد اسلامی کا منشور تیار کریں، ایک منشور تیار کریں، تاکہ کوئی کج فہم اور ادھر ادھر سے وابستہ متعصب شخص یا کوئی اسلامی فرقہ پوری آزادی سے مسلمانوں کی ایک بڑی جماعت کو اسلام سے خارج نہ کر سکے، ان کی تکفیر نہ کر سکے، موجودہ دور مسلم علماءاور دانشوروں سے اس منشور کی فراہمی کا تقاضا کر رہا ہے، اگر آپ یہ کام نہیں کریں گے، تو آنے والی نسلیں آپ کا مواخذہ کریں گی۔ دشمنوں کی دشمنی آپ دیکھ رہے ہیں، آپ دیکھ رہے ہیں کہ اسلامی تشخص کے خاتمہ اور امت مسلمہ کے درمیان شگاف پیدا کرنے کے لئے وہ کتنی کوششیں کر رہے ہیں، بیٹھ کے اس کا راہ حل نکالئے، اصول کو فروع پر ترجیح دیجئے، فروع میں ممکن ہے ایک مسلک کے پیروکاروں کا بھی نظریہ ایک جیسا نہ ہو، اس میں کوئی حرج نہیں، مشترک باتیں کافی ہیں، اس مرکز یعنی مشترکات کے مرکز کے گرد سب متحد ہو جائیں، دشمن کی چالوں اور اس کی سازشوں سے ہوشیار رہیں، خواص اپنے درمیان مسلکی بحثیں کریں، لیکن ان بحثوں کو عوام تک نہ لے جائیں، دلوں کو ایک دوسرے سے متنفر نہ کریں، عداوتوں میں اضافہ نہ کریں، نہ اسلامی فرقوں کے درمیان، نہ مسلم اقوام کے درمیان اور نہ یہ ایک قوم کے اندر کے مختلف اسلامی گروہوں کے درمیان۔

آخر میں ہم اپنے موضوع کا اختتام آی? اللہ العظمٰی سید علی خامنہ ای کے اس بیان پر کرتے ہیں، جس میں دور حاضر میں امت کو مغربی استعماری طاقتوں کے خلاف متحد ہو کر کام کرنے پر زور دیا گیا ہے: اس وقت عالم اسلام کو اپنی عزت، استقلال اور علمی و روحانی ترقی کے لئے کوشاں رہنا چاہئے، روحانی ترقی کا مطلب دین سے تمسک، خدا پر توکل اور اس کی مدد پر یقین ہے، اور ”عداتک لعبادک منجز“ یہ خدا کا وعدہ ہے، جو پورا ہو کر رہے گا کہ ”ولینصرن اللہ من ینصرہ“ اس وعدہ الہی پر یقین کے ساتھ عملی میدان میں قدم رکھا جائے، عملی میدان میں قدم رکھنے کا مطلب خالی بندوق اٹھا لینا نہیں، بلکہ فکری عمل، عقلی عمل، علمی عمل، سماجی عمل اور سیاسی عمل ہے ۔

سب خدا کے لئے عالم اسلام کے اتحاد کے لئے کام کریں، اس کا مسلم اقوام کو بھی فائدہ ہو گا اور مسلم حکومتوں کو بھی، اسلامی حکومتیں اگر امت مسلمہ کے ٹھاٹھیں مارتے سمندر سے متصل ہوں تو امریکی سفیر یا کسی امریکی سیاستدان سے وابستگی کی نسبت زیادہ مضبوط ہوں گی، امریکیوں سے وابستگی سے انہیں طاقت نہیں ملے گی، لیکن اگر اسلامی حکومتیں امت مسلمہ اور عالم اسلام کے بحر بےکراں سے وابستہ رہیں گی، تو اس سے وہ مضبوط ہوں گی، انہیں آپسی قربتیں بڑھانا چاہئیں، استکبار میں اتنی سکت ہی کیوں آئے کہ وہ ایک اسلامی حکومت پر حملہ کر کے اسے دوسروں سے الگ کر کے اس کے ساتھ اپنا حساب چکانے لگے اور پھر دوسری حکومت کے پیچھے پڑ جائے، اس مسئلہ پر سب کو غور کرنا چاہئے، اسلامی حکومتوں کو متحد ہونا چاہئے اور یہ جان لینا چاہئے کہ وہ ایسا کر سکتے ہیں ۔

تبصرے
Loading...