واقعہ کربلا کے بعد جناب زینب سلام اللہ علیہا کا تاریخی کردار

تاریخ اسلام پر نظر رکھنے والا ہر شخص جانتا ہے کہ حسینی انقلاب کے اتمام و اکمال کی ذمہ داری سید سجاد (ع) اور حضرت زینب سلام اللہ علیہا نے مخدرات کربلا کی معیت میں انجام دی ہے اگر اسیروں نے اپنی ہدایت و آگہی کا فریضہ بخوبی انجام نہ دیا ہوتا تو شہدائے کربلا کی محنتیں اس قدر جلدی بارآور ہونا بہت مشکل تھا واقعۂ کربلا کے دوران مصلحت پروردگار کے تحت مریض و لاغر سید سجاد نے شہادت حسینی کے بعد تقریبا” 34 ، 35 سال تک دین اسلام اور حسینی تحریک کی جس طرح حفاظت و قیادت کی ہے اور دنیا کے تمام حریت نوازوں کو خون شہداء کی پیغام رسانی کے راز و رموز تعلیم دئے ہیں وہ کسی بھی انقلاب کی کامیابی و کامرانی کے بنیادی رکن کہے جا سکتے ہیں ۔امام زین العابدین علیہ السلام اور ان کی پھوپھی حضرت زینب سلام اللہ علیہا نے اپنی انقلابی حکمت عملی ثبات و استقامت کے ساتھ حقائق کی افشاگری پر استوار کی اور اپنے انقلابی ۔ عرفانی افکار کے ذریعہ خوابیدہ ذہنوں کو بیدار و ہوشیار کیا اور ظلم و استبداد کے ہجوم میں حقیقی اسلامی نظریات اشک و دعا کے انداز میں پیش کرکے اموی منافقین کے چہروں پر پڑے نقاب الٹ دئے اور کوفہ و شام جیسی مردہ زمینوں میں شہادت اور ایثار و قربانی کے بیج چھڑک کر اسلام و قرآن کے بلند و بالا سرسبز و شاداب تناور درخت کھڑے کردئے ۔اسیری کے عالم میں کوفہ و شام کے در و دیوار پر اور قید سے چھوٹ کر مدینہ اور مکہ کی فضاؤں میں حسینی شہادت کے ایک ایک واقعے نقش کردئے اور یزیدی ظلم و استبداد کے تمام غیر انسانی المیے برملا کردئے امام حسین (ع) کی شہادت اور اہل حرم کی اسیری کے جواز میں اموی ٹکسال سے ڈھلنے والے تمام دعووں اور فتووں کے منہ توڑ جواب دے کر مظلومیت کے محاذ سے جابرانہ ملوکیت کے پڑخچے اڑادئے اور یزیدی مجرموں کو اپنی کامرانی پر فخر و انبساط کے ماحول میں ،ذلت و پشیمانی کا احساس کرتے ہوئے اپنے جرائم ماتحتوں کے سر منڈھنے پر مجبور ہونا پڑا ۔معتبر روایات کے مطابق اہل حرم کو قید کرکے جس وقت کوفہ لے گئے شہر میں داخلے سے قبل ایک رات اسیروں کو بیرون شہر روک دیا گیا پسر سعد مرصع خیمے میں بیٹھ کر ساتھیوں کے ساتھ عیش و نوش میں مشغول تھا اور اہل حرم زیر آسمان بھوکے اور پیاسے بچوں کے ساتھ یہ اذیت بھری شب تمام ہونے کے منتظر تھے ، صبح ہوئی تو نیزوں پر آگے آگے شہدا کے سر اور پیچھے پیچھے رسن بستہ رسول زادیوں کے ساتھ سید سجاد ، سرور شادمانی کے طبل بجاتا لشکر اسیروں کے ساتھ شہر کوفہ میں داخل ہوا تو یکے بعد دیگرے حسین (ع) کی بیٹی فاطمہ (ع) ، علی (ع) کی بیٹی ام کلثوم (ع) اور سید سجاد (ع) کے خطبوں نے کوفیوں کے دلوں میں ہلچل پیدا کردی وہ عالم ہوا کہ تماشے کے لئے جمع کئے گئے وفا کے دشمن دغا بازوں میں بھی گریہ و زاری سے کہرام پڑگیا ۔ایسے میں علی (ع) کی بیٹی زینب کبریٰ (ع) نے آواز دی ! ” اے کوفہ والو! اے مکر و دغا کے بندو ! تم رو رہے ہو خدا کرے تمہارے یہ آنسو کبھی نہ تھمیں تم یونہی نالے کرتے رہو تمہاری مثال اس بوڑھی عورت کی ہے جو مضبوط دھاگا بٹ کر کھول دے اور فریاد کرے ، تم کوڑے میں اگے ہوئے خس و خاشاک کی مانند ہو ، سید سجاد (ع) نے فرمایا : کوفہ والو ! تم ہمارے مصائب پر روہے ہو آخر ہم پر یہ ظلم کس نے کئے ہیں ؟ ہمارے عزيزوں کو کس نے قتل کیا ہے ؟ ہم کو اسیر کرکے یہاں کون لایا ہے ؟ بچوں کو بھوک سے بیتاب دیکھ کر کچھ عورتوں نے صدقے کے کھجور بچوں کی طرف پھینکے تو ام کلثوم نے ٹوکا : ” خبردار صدقہ ہم آل محمد (ص) پر حرام ہے ۔” یہ سن کر مجمع سے گریہ وبکا کی آواز بلند ہوگئی اور پسر سعد نے حکم دیا کہ اسیروں کو مجمع سے دور کردیا جائے اور جب اہل حرم کو دربار میں لے گئے تو امام سجاد (ع) پر نظر پڑتے ہی ابن زیاد نے سوال کیا قیدیوں میں یہ جوان کون ہے ؟ اس کو زندہ کیوں چھوڑدیا ؟ جواب ملا : یہ حسین (ع) کے بیٹے علی ہیں ،بیماری کے سبب چھوڑ دئے گئے ہیں ابن زیاد نے کہا : کیا حسین (ع) کے بیٹے علی کو خدا نے کربلا میں قتل نہیں کیا ؟ اب سید سجاد خاموش کیسے رہ سکتے تھے : زنجیر سنبھال کر کھڑے ہوگئے اور فرمایا : ہاں میرا ایک اور بھائي علی تھا جس کو تیرے فوجیوں نے شہید کردیا ۔ابن زیاد یہ دنداں شکن جواب سن کر تلملا اٹھا اور کہا : ” نہیں اسے خدا نے قتل کیا ہے ” امام (ع) نے فرمایا: خدا نے سورۂ زمر( کی 42 ویں آیت ) میں فرمایا ہے کہ اللہ موت کے وقت مرنے والے کی روح قبض کرلیتا ہے اس لحاظ سے شہیدوں کی موت بھی الہی ارادۂ تکوینی کے تحت ہے ۔لیکن ارادۂ تشریعی کے تحت نہیں ہے قاتلوں کی پیٹھ قتل کے جرم سے خالی نہیں ہوسکتی ۔” اب ابن زیاد کے پاس کوئی جواب نہیں تھا اس نے چلا کر کہا : ” یہ مجھ سے زبان لڑارہا ہے لے جاؤ اس کی گردن اڑادو ” ( اذہبوا بہ فاضربوا عنقہ ) اب جناب زینب اٹھیں اور جناب سید سجاد کی سپر بن گئیں : اگر اس کی گردن کاٹنی ہے تو پہلے مجھے قتل کردو ” امام (ع) نے پھوپھی کے جذبۂ ایثار کو دیکھتے ہوئے فرمایا پھوپھی ٹہرئے میں اس کو جواب دیتا ہوں اور آگے بڑھ کر کہا : تو مجھے قتل کی دھمکی دیتا ہے کیا تجھے نہیں معلوم ” ان القتل لنا عادۃ و کرامتنا الشہادۃ ” راہ حق میں قتل ہونا ہماری عادت اور شہید ہونا ہماری عزت و سربلندی ہے ۔اس طرح اہل حرم نے کوفہ میں اپنے مختصر قیام کے دوران کوفیوں کے دلوں میں آگ کے وہ شعلے روشن کردئے کہ چند ہی برسوں میں ابوعبیدہ ثقفی اور جناب مختار کی قیادت میں وہ انقلاب برپا ہوئے کہ قاتلان حسین (ع) کے نام و نشان ہی مٹکر رہ گئے ۔ 

تبصرے
Loading...