”میرا حجاب۔ میرا انتخاب”

سچ پوچھئے توموجودہ حالات میں سوال یہ کیا جاناچاہئے تھا کہ ”خواتین کے لئے حجاب کیوںنہیں؟”مگرتہذیب کے ٹھیکیداروہی سوال لے کربیٹھ گئے کہ ”اسلامی حجاب کیوں؟” اب ان کی عقل پرماتم نہ کریں توکیا کریں ؟ کیا انہیں سماج میں بڑھتی ہوئی جنسی اباحیّت اورفحاشی کا اندازہ نہیں ؟عورتوں کے خلاف بڑھتے جرائم کا احساس نہیں؟ جنسی بیماریوں کی لعنت سے متاثرہ سماج کی فکرنہیں؟ ٹوٹتے بکھرتے خاندانی نظام کے اثرات ونتائج کا خوف نہیں؟ سماج میںعورت کی بے وقعتی ‘بے عصمتی اورلٹتے ہوئے وقاروعظمت کا کچھ پاس ہے ؟توپھر وہ یہ سوال کتنی مرتبہ دہرائیںگے ؟ آخرکس لئے وہ اس پراصرار کررہے ہیں؟ اوراس کے پیچھے کونسے گھناؤنے مقاصد کارفرماہیں؟

اسلامی حجاب ہمیشہ ہی سے اعتراضات کا نشانہ بنایاجاتا رہا ہے۔ اس پراٹھائے جانے والے سوالات کی نوعیت البتہ بدلتی رہی ہے۔ پہلے یہ صرف عورت کی مظلومیت اورغلامی کی علامت قرار دیاجاتا رہا۔ پھراسے اسلامی شناخت کا مظہرقرار دے کراس کی مذمت کی گئی۔ اب اْسے شدت پسندی اور دہشت گردی سے بھی جوڑا جانے لگا ہے۔ مسلم خواتین نے جب حجاب میںرہ کر ہروہ کام کارنامہ انجام دیا جوان کی بے پردہ ہم جنسوں نے انجام دیاتھا ‘سوائے آبروباختگی کے توغلامی اورمظلومیت والے الزام کی دھجیاں اڑگئیں۔ اب صرف شناخت اورشدت پسندی یا اس سے بھی آگے بڑھ کردہشت گردی کی علامت کا مسئلہ باقی رہ گیاہے۔ جن ملکوں’ خصوصاً یورپ میںجہاں عورت اورعریانیت ہم معنی ہوکررہ گئے ہیں’ جبکہ مرد خودتین ‘تین تہہ لباس کی چڑھائے پھرتے ہیں ان کے پہلومیں عورتیں بے چاری مکمل لباس سے بھی محروم رہتی ہیںموسم کی شدت بھی انہیں لباس پہننے کا حق نہیںدے سکتی ‘اس لئے کہ عورت کے لئے جسم کی نمائش لازمی ہوکر رہ گئی ہے۔ اس کے لئے جسم ڈھانکنا معیوب بنا کررکھ دیا گیاہے ‘ تاکہ وہ جنسی بھیڑیوںکی تسکین کا سامان فراہم کرتی رہے۔ یہی نہیں اس کے جسم کی ساخت ایک مخصوص پیمائش پرقائم رہے خواہ وہ عمرکے کسی مرحلے میںکیوںنہ ہو اپنے جسم کے نشیب وفراز کوقابومیںرکھے۔ اوراس کی برابر نمائش جاری رکھے تاکہ تہذیب کے ٹھیکیدار جائزہ لیتے رہیںکہ وہ ان کے تشکیل دیئے ہوئے معیارپرپوری اْترتی ہے کہ نہیں؟ ورنہ اسے قدموںمیںاسی طرح روندڈالا جائے گا جس طرح خشک پھولوں کوروندا جاتا ہے ؟ اس کے برعکس خواتین اگر اپنے جسم کی نمائش سے انکارکردیں۔اپنے جسم کے نشیب وفراز کی پیمائش کرنے والوں کی نگاہوںسے محفو ظ رہ کر’اپنے جسم اورحسن کی بجائے اپنی صلاحیتوں کے ذریعہ سماج میںاپنا لوہا منوالیں اور اباحیت زدہ سماج کی خدمت کرنے کی بجائے معاشرہ کی بنیادی یونٹ یعنی خاندان کو مستحکم کرنے کی کوشش کریں توان پرغلامی کی پھبتی کس دی جائے اور انہیںمطعون کیاجائے۔ تعجب تو ہمیںاس بات پرہوتا ہے کہ جس سماج کے ذریعہ عورت کوجنسی استحصال سے بچانے کے لئے کوئی تحفظ فراہم نہیں کیاجاتا وہ اس سے حیا کی وہ چادربھی چھیننا چاہتا ہے جواس کے وقار تحفظ اورعفت مآبی کی علامت ہے۔

فرانس کے صدرنے پردہ پرتازہ اعتراض کرکے بنیادی انسانی حقوق ‘اپنے مذہب پرعمل کرنے کی آزادی اورخواتین کے لئے تحفظ عصمت کے حق کو چھیننے کی کوشش کی ہے۔ اسے محض شناخت کا مسئلہ کہہ کرسیاسی مقاصدکے لئے استعمال نہیں کیاجاسکتا۔ جوخواتین مسلم ہوتے ہوئے حجاب سے گریزکرتی ہیںہم ان کی ہدایت کے لئے دعا کرتے ہوئے اس بات پراصرار کرتے رہیںگے کہ یہ براہ ِ راست عقیدہ کا معاملہ ہے۔ اوربرقعہ کی کسی بھی شکل پراعتراض مذہبی آزادی کے خلاف ہے۔ ہم یہاں اس بحث میں نہیںپڑناچاہتے کہ اسلام خواتین کوچہرہ کھولنے کی آزادی کن شرائط کے ساتھ دیتا ہے ‘مگر یہ ضرورکہیں گے کہ اگرکوئی عورت ہرحال میں چہرہ چھپانا چاہتی ہے تو اسے مجبورنہیں کیاجاناچاہئے۔ اوریقیناً یہ فرانس کے صدرنہیں طے کرسکتے کہ ان کوکس قسم کا برقعہ پہنناچاہئے۔ انہیں کارلابرونی کے ساتھ اباحیّت زدہ زندگی مبارک ہو۔ وہ چاہے جتنا اسے سماج میں بے لباس کرتے پھریں اوران کے سابقہ جنسی تعلقات کی فرانس کے ہی نہیںدنیابھرکے اخبارات میں تشہیر کرتے پھریںکہ ان کی حیوانیت اوروحشت زدہ تہذیب اس سے زیادہ کچھ اور سکھابھی نہیںسکتی۔ مگرپردہ پراعتراضات سے قبل وہ سومرتبہ سوچ لیتے توبہترہوتا۔

فرانس وہ ملک ہے جس نے سب سے پہلے یعنی ٤ دسمبر ٣٠٠٢ئ میںپبلک اسکولوںاورتعلیمی اداروںمیں حجاب پہننے پرباقاعدہ قانون بنا کر پابندی لگائی۔ اس وقت فرانس کے صدرڑاک شیراک تھے۔ جنہوںنے فرینج کا ونسل فاردی مسلم یوتھ کو حکم دیاتھا کہ ”ان کی آوازوہی ہونی چاہئے جوروشن خیال نظریہ کی ہے !”

ہم اس روشن خیالی کا تذکرہ اوپر کی سطر میں کرچکے ہیں۔ شیراک نے ایک قدم آگے بڑھ کر حجاب اورریڈیکل اسلام کو ”صہیون مخالف” بھی قرار دیاتھا’ جس کی منطق پہلے ہماری سمجھ میںنہیں آئی مگر پھریہ بنیادی بات ذہن میں آئی کہ حق توہرباطل کا مخالف ہوتاہے۔ آج یورپ کی ہرمملکت میںمسلمانوںکی تعداد یہودیوںسے کہیں زیادہ ہے۔ اوروہ ہربڑے یورپی ملک کی دوسری سب سے بڑی اکثریت ہیں۔ یہ بات یہودیوں کے لئے قابلِ برداشت کیسے ہوسکتی ہے ؟دوسری اہم بات یہ کہ عالمی اقتصادیات پراب بھی سودخور ‘منافع کی ہوڑ میں لگے یہودیوں کی گرفت بہت مضبوط ہے اوراسلامی حجاب بازارکی اس تہذیب کے خلاف ایک چیلنج ہے جوعورت کونہ صرف جنس بازار بلکہ بازاری معیشت کے فروغ کے لئے ایک حربہ کے طورپر انتہائی غیرانسانی اندازمیں استعمال کرتا ہے۔ حجاب کی مخالفت کی ایک اوربنیادی وجہ یہ بھی ہے کہ یورپ میں اسلام کے فروغ میںجن عناصر کا سب سے زیادہ رول رہا ہے’ ان میںپردہ اوراسلام کا خاندانی نظام سرفہرست ہیں۔ چونکہ اسلام یورپ ہی نہیںسارے مغرب میںسب سے زیادہ تیزرفتاری سے پھیلنے والا مذہب ہے اوران اسلام قبول کرنے والوں میںاکثریت خواتین کی ہے جومغرب کی مادرپدر آزاد تہذیب کی وحشت سے خودکوبچانے کیلئے اسلام کے دامن ِ رحمت میں پناہ لیتی جارہی ہیں۔

مغربی ممالک نے یہ بھی محسوس کرلیا ہے کہ پردہ پر اعتراضات نے اسلامی تہذیب کے فروغ کے لئے مزیدمواقع فراہم کئے ہیں اورجس قدر ان اعتراضات میںاضافہ ہواہے اسی قدراسلامی پردہ کی مقبولیت بڑھتی چلی گئی ہے۔ ٢١جولائی ٤٠٠٢ئ میں لندن میںہونے والی تحفظ حجاب کا نفرنس کا افتتاح کرتے ہوئے لندن کے میئر KEN LEWING STONE نے فرانس میں حجاب پرپابندی کو مذہبی آزادی کی خلاف ورزی ہی نہیںقرار دیاتھا بلکہ دوسری جنگ عظیم کے بعد کسی بھی یورپی ملک میںپاس کی جانے والی سب سے زیادہ رجعت پسندانہ تجویزبھی قرار دیاتھا’۔ جس کے خلاف دسمبر ٣٠٠٢ئ میںپیرس کی سڑکوںپر تقریباً ٥١ہزار باحجاب خواتین نے زبردست مظاہرہ کیاتھا۔ جہاںفرانسیسی پرچم کے اوپرنمایاں طورسے یہ نعرے لکھے گئے تھے کہ :”میرا حجاب ‘میرا انتخاب ” اورنہ جانے کتنی ہی طالبات نے پبلک اسکولوںمیں تعلیم حاصل کرنا ترک کردیاتھا۔

اب سرکوزی حجاب کی بجائے نقاب پر پابندی لگانے کے لئے سرگرم ہوگئے ہیںاور اس کے لئے انہوںنے تمام سیاسی پارٹیوںکے نمائندوںپرمشتمل ٢٣ رکنی کمیشن تک تشکیل دے ڈالا ہے۔ایک تجزیہ کے مطابق روایتی اندازکا برقع پہننے والوںکی تعداد فرانس میںدوتین سوسے زیادہ نہیںہے۔اگروہ اس میںخودکو ملبوس رکھنے میںسکون محسوس کرتی ہیںتو سر کوزی کوحق نہیں کہ وہ انہیںاس سے بازرکھنے کی کوشش کریں۔ سوال یہ ہے کہ خواتین کے ان ہمدردوں کواپنے سماج میںجنسی دہشت گردی کے تحت کچلی اورروندی جانے والی خواتین کی فکر کیوں نہیںہے ؟ بے پردگی ‘بے حیائی ‘بے حجابی ‘ جنسی درندگی کی شکار عورتوں کی سیکوریٹی کے لئے انہوں نے کوئی اقدامات کیوںنہیںکئے ؟ اورفرانس کے وہ ٠٦ قانون داں جنہوںنے روایتی برقعہ کے خلاف عرضداشت داخل کررکھی ہے وہ Sex symbolکی صورت میں عورتوںکے ہونے والے استحصال کوروکنے کے لئے کیا کوشش کررہے ہیں ؟

ہمیںیقین ہے کہ حجاب یا نقاب کے خلاف اٹھایاجانے والا یہ تازہ طوفان بھی اس کی مزید مقبولیت ‘فہمائش اورفروغ کا ذریعہ بنے گا اورایک مرتبہ پھرمغرب کا پڑھا لکھا طبقہ حجاب کے مقاصد اور اس کے ذریعہ خواتین کوملنے والے تحفظ ‘ وقاروعظمت کا قائل ہوجائے گا۔ اورسارے انسانی سماج کے لئے حجاب وحیا ئ کی سوغات کے حصول کے لئے سرگرداں ہونے سے انشا ئ اللہ انہیں کوئی روک نہیںسکے گا۔ کہا جاتا ہے کہ سرکوزی نے اپنی سیاسی مقبولیت میں اضافہ کے لئے یہ مسئلہ اٹھایا ہے مگرعالم اسلام کواس شر میںبھی خیرکا پہلاپہلونظر آتا ہے۔تاہم اس کا یہ مطلب نہیں کہ ا س سلسلے میں ہم اپنی ذمہ داریوں سے پہلوتہی کریںاورخاموش تماشائی بنے رہیں (یو این این)

تبصرے
Loading...