میاں بیوی کے باہمی حقوق

درحقیقت خاندان ایک چھوٹامعاشرہ ہے جودوافراد یعنی میاں بیوی کے ذریعے قائم ہے اورمعاشرہ لوگوں کی کثرت کانام نہیں ہے بلکہ ان باہمی تعلقات کانام ہے جن کا ہدف ایک ہو۔

زوجہ کے حقوق

درحقیقت خاندان ایک چھوٹامعاشرہ ہے جودوافراد یعنی میاں بیوی کے ذریعے قائم ہے اورمعاشرہ لوگوں کی کثرت کانام نہیں ہے بلکہ ان باہمی تعلقات کانام ہے جن کا ہدف ایک ہو۔

قرآن کریم نے ان کے درمیان محبت والفت کاہدف اطمینان اورسکون کوقراردیاہے فرماتاہے :

ومن آیاتہ ان خلق لکم من انفسکم ازواجا لتسکنوا الیھا وجعل بینکم مودة ورحمة ان فی ذلک لآیات لقوم یتفکرون۔

”اوراس کی آیات میں سے ہے کہ اس نے تمہارے لئے تمہارے نفوس سے تمہاری بیویاں پیداکیں تاکہ تم ان کے ساتھ سکون حاصل کرسکو اورتمہارے درمیان محبت ورحمت پیداکردی بیشک اس میں نشانیاں ہیں اس قوم کے لئے جوسوچتے ہیں“[38]۔

اوریہ معاشرہ ایک ایسے عقد کے ذریعے وجودمیں آتاہے کہ جس میں نہایت واضح الفاظ کے ساتھ طرفین کی طرف سے اس بات کااظہارہوتاہے کہ وہ اس عقد کے مفہوم اوراس کے حقوق وفرائض کوقبول کرتے ہیں ۔

 

اللہ تعالی فرماتاہے :

فانکحوھن باذن اھلھن وآتوھن اجورھن بالمعروف محصنات غیر مسافحات

”پس مالکوں کی اجازت سے لونڈیوں سے نکاح کرو اوران کامہرحسن سلوک سے انہیں دے دوان سے جوعفت کے ساتھ تمہاری پابند رہیں کھلے عام زنانہ کریں“ [39]۔

اس اوردیگرآیات کی روشنی میں فقہا کے نزدیک باکرہ لڑکی کے لئے سرپرست کی اجازت شرط ہے تاکہ عورت کاشوہرکواختیارکرنے کاحق محفوظ رہے اوریہ اجازت اسکی ہتک حرمت کے لئے نہیں ہے بلکہ یہ ایک احتیاطی تدبیرہے تاکہ لڑکی کسی شخص سے نفسیاتی طورپرمتاثرہوکریاجذباتی لگاؤکی وجہ سے شادی کرنے میں جلدی نہ کرے۔ اجازت کے بعد عورت کادوسراحق مہرہے تاکہ اسے یہ احساس رہے کہ وہ مطلوبہ ہے نہ طالبہ یہ احساس اسے اس حیاسے بھی حاصل رہتاہے جواس کی جبلت میں ودیعت کی گئی ہے اوربیوی کومہردینے کامطلب یہ نہیں ہے کہ وہ شوہرکی غلام بن گئی ہے بلکہ اللہ تعالی فرماتاہے :

وآتوالنساء صدقاتھن نحلة۔

”اورعورتوں کوان کے مہرخوشی خوشی دیدو“ [40]۔

بیوی ایسی شریک حیات ہے جس نے مرد کے ساتھ حقوق وفرائض پرمبنی مشترک زندگی کاعہد کررکھاہے ولھن مثل الذی علیھن بالمعروف…) اورعورتوں کے لئے شریعت کے مطابق اس کی مثل حق ہے جوان پرہے [41]۔

عورت کے حقوق کے سلسلے میں قرآن کے اس واضح موقف کے باوجود بعض دشمنان قرآن اس بارے میں قرآن پربعض ناروااتہامات لگاتے ہیں۔

مثال کے طورپرکہتے ہیں قرآن نے عورت پرپردہ واجب کرکے اس کی آزادی کو محدود کردیاہے، گھرکی سرداری مرد کے ہاتھ میں دے دی ہے اوروراثت میں مرد کوعورت سے دوگناحصہ دیاہے یہ لوگ جوحقوق زن کے سلسلے میں مگرمچھ کے آنسوبہاتے ہیں درحقیقت قرآن کے آسمانی کتاب اورشریعت اسلامیہ کامنبع ہونے پرطعن کرتے ہیں اوراشاروں میں کہتے ہیں یہ کتاب مقدس فرسودہ ہوچکی ہے اورترقی یافتہ دورکے تقاضے پورے نہیں کرتی ۔ لیکن تھوڑا ساغوروفکر کریں تویہ اعتراضات تارعنکبوت سے بھی زیادہ کمزور نظرآنے لگیں گے۔

لیکن اس کے لئے قرآن، اس کے طرزکلام اورعترت طاہرہ کی طرف رجوع کرنا ضروری ہے کہ جوقرآن کے حقیقی ترجمان ہیں۔

آپ دیکھیں گے کہ قرآن نے اس وقت عورت کوانسانی حق دیاجب اسے بہت ہی پست اورگھٹیا سمجھاجاتاتھا اوراس میں کسی وشک شبہ کی گنجائش نہیں ہے جب کہ ادیان سماویہ کے علاوہ دیگرادیان عورت کوایک پست مادہ سے پیداہونے والی مخلوق سمجھتے تھے اورمرد کواعلی عنصرسے پیداہونے والا، بعض لوگ تویہاں تک کہنے لگے عورت پلیدگی سے پیداہوئی ہے اوراس کاخالق، خالق شرہے اوردورجاہلیت میں عرب عورت کوجانورسمجھتے تھے اوراسے انسانی صورت میں اس لئے پیداکیاگیاتاکہ مرد کی خدمت کرسکے اوراس کی جنسی خواہشات کوپوراکرسکے۔

خلقت میں مساوی ہونا اور ذمہ داریاں

 

قرآن حکیم نے ان کھوکھلے عقائد کورد کیاہے اورزوردے کرکہاہے کہ اصل خلقت میں مرد وعورت برابرہیں نہ تومردہی اعلی عنصرسے پیداہواہے اورنہ عورت گھٹیا عنصرسے بلکہ ایک ہی عنصریعنی مٹی سے اورایک نفس سے پیداہوئے ہیں چنانچہ فرماتاہے :

یاایھاالناس اتقوا ربکم الذی خلقکم من نفس واحدة وخلق منھا زوجھا وبث منھما رجالاکثیرا ونساء [42]۔

”اے لوگوں اپنے اس رب سے ڈرو جس نے تمہیں ایک نفس سے پیداکیااوراسی سے جوڑا خلق کیااوران دوسے بہت سارے مرد اورعورتیں پھیلادئیے“۔

یوں قرآن کریم نے اصل پیدائش میں عورت کومرد کے برابرقراردے کراس کی شان بڑھادی اوراسے انسانی عزت فراہم کی۔

نیزقرآن ذمہ داری کے لحاظ سے بھی مرد اورعورت کومساوی سمجھتاہے۔ فرماتا ہے :

من عمل صالحا من ذکراوانثی وہومومن فلنحییہ حیاة طیبة…)۔

”جوبھی نیک عمل کرے مردہویاعورت درحالیکہ وہ مومن ہوپس ہم ضروراسے پاکیزگی عطاکریں گے [43]۔

لیکن مرد اورعورت کے پیدائش،شرافت اورذمہ داری میں برابرہونے کے باوجودان کے درمیان طبیعی اختلاف موجودہے جوان کے حقوق وفرائض کے اختلاف کاسبب بنتاہے لذا عدل کاتقاضایہ ہے کہ مرد اوراس کے فرائض کے درمیان مساوات ہونہ مرد اورعورت کے حقوق وفرائض کے درمیان، وراثت میں مرد کوترجیح دیناعدالت کے خلاف نہیں بلکہ عین عدالت ہے مرد کے اوپرشادی کے آغازہی میں مہرہے اورپھرآخرتک اس کے اوپرنان ونفقہ واجب ہے اسی قرآن نے عورت پرحجاب کوواجب کرکے اس کی آزادی کومحدود نہیں کیابلکہ خود اسے اورمعاشرے میں اس کے احترام کومحفوظ کیاہے قرآن چاہتاہے کہ جب عورت معاشرے میں نکلے تومردوں کے جذبات کوبرانگیختہ نہ کرے لذا اپنی حفاظت کرے اوردوسروں کونقصان نہ پہنچائے۔

اورقرآن نے عورت کوفکر وعمل کاحق بھی دیاہے اورسے ممکن حقوق دئیے ہیں لہذا عورت کوحق ہے کہ مالک نے،ھبہ کرے، رہن رکھے، بیچے خریدے وغیرہ وغیرہ اسی طرح اسے حق تعلیم بھی حاصل ہے پس عورت اعلی علمی مراتبے تک پہنچ سکتی ہے اورقرآن نے عورت پرظلم وزیادتی کوبھی ناحق قراردیاہے۔

قرآن ہمارے لئے فرعون کی بیوی آسیہ کی مثال پیش کرتاہے جس نے تنگ فضا کے باوجود اپنے عقیدہ توحید کی حفاظت کی اورقابل تقلید نمونہ ٹھہریں۔

فرماتاہے :وضرب اللہ مثلا للذین آمنوا، امراة فرعون اذ قالت رب ابن لی عندک بیتا فی الجنة ونجنی من فرعون وعملہ ونجنی من القوم الظالمین

” اوراللہ نے مومنین کے لئے مثال بیان کی ہے فرعون کی بیوی کی جب اس نے کہا میرے پروردگار میرے لئے اپنے وہاں جنت میں ایک گھربنااورمجھے فرعون اوراس کے عمل سے نجات دے اورمجھے ظالم قوم سے بخش“ [44]۔

یہ ایسا قطعی موقف ہے جس میں کوئی لچک نہیں ہے اوریہ مومن آل فرعون کے نرم اورمتواضع موقف سے مختلف ہے۔

یوں قرآن نے ہمیں یہ بھی بتایاہے اگرعورت ایمان اورفکرسلیم رکھتی ہوتوکس قدرمضبوط اورپختہ ارادے کی مالک ہوسکتی ہے اوراس کے برعکس نوح کی بیوی کی مثال ذکرکی ہے جوراہ ہدایت سے بھٹک کرجذبات وخواہشات کاشکارہوگئی۔ اورسنت نبویہ نے بھی عورت کے ماں یابیوی کی حیثیت والے حقوق کوخاص اہمیت دی ہے پیغمبر فرماتے ہیں :

مازال جبرئیل یوصینی بالمراة حتی ظننت انہ لاینبغی طلاقھاالامن فاحشة مبینة۔

”جبرئیل مجھے مسلسل عورت کے بارے میں وصیت کرتے رہے یہاں تک کہ میں یہ سمجھنے لگاکہ اسے طلاق دیناجائزنہیں ہے مگرکھلی بے حیائی کے بعد“ [45]۔

اورپھرشوہرپرعورت کے تین بنیادی حقوق بیان کئے گئے ہیں اسے وافرخوراک مہیاکرنا، اس کے شایان شان لباس دینااوراس کے ساتھ حسن سلوک کرنا۔

حدیث میں ہے :حق المراة علی زوجھا: ان یسد جوعھا وان یسترعورتھاولایقبح لھاوجھا۔

”عورت کاشوہرپرحق ہے کہ اس کی بھوک کاسدباب کرے اس کے جسم کوڈھانپے اوراس کے ساتھ ترش روئی سے پیش نہ آئے“ [46]۔

دیکھئے اس حدیث نے بیوی کے حقوق کولباس اورخوراک جیسی مادی ضروریات تک محدود نہیں کیابلکہ اس کے ساتھ سات اسے حسن سلوک کاحق بھی دیا ہے اورعورت شریک حیات ہے لذااس کے ساتھ وسیلہ خدمت جیسا سلوک کرنایاتحکمانہ رویہ اپنانا کسی طرح بھی صحیح نہیں ہے۔

اورپیغمبر نے عورت کے ساتھ انسانی سلوک کرنے کاحکم دیاہے اوریہ کہ اگرشوہراس کی رائے کوقبول نہ کرناچاہتاہوتب بھی اس سے مشورہ کرے اورعقل وشرع دونوں اس پرزوردیتے ہیں۔

عورت کاایک اورمعنوی حق جواس کے مادی حقوق کی تکمیل کرتاہے یہ ہے کہ اس کااحترام کرے اس کی قدردانی کرے، اس سے بات کرتے وقت مہذب جملوں کاانتخاب کرے،گھرکے اندراطمینان کی فضاقائم کرے اورمحبت کی شمع روشن کرے پیغمبر فرماتے ہیں :

قول الرجل للمراة: انی احبک، لایذھب من قلبھاابدا۔

”مرد کاعورت سے یہ کہناکہ میں تم سے محبت کرتاہوں عورت کے دل سے کبھی نہیں جاتا“۔

امام زین العابدین اوپرذکرکئے گئے حقوق کی تاکیدکرتے ہوئے فرماتے ہیں :

واما حق زوجتک، فان تعلم انااللہ عزوجل جعلھالک سکنا وانسا، فتعلم ان ذلک نعمة من اللہ عزوجل علیک،فتکرمھا،وترفق بھا، ان کان حقک علیھا اوجب، فان لھا علیک ان ترحمھا، لانھا اسیرتک ،وتطعمھاوتکسوھا،واذا جھلت عفوت عنھا [47]۔

 

”بہرحال بیوی کاحق تومعلوم ہی ہوناچاہئے کہ اللہ تعالی نے اسے تمہارے لئے باعث انس وسکون بنایاہے اوروہ تم پراللہ کی ایک نعمت ہے اس کااحترام کرو اوراس کمے ساتھ نرمی سے پیش آؤاگرچہ تمہارا حق اس پرزیادہ ضروری ہے لیکن عورت کابھی حق ہے کہ تم اس پررحم کرو کیونکہ وہ تمہاری مطیع وپابند ہے،اس لباس وطعام فراہم کرو اوراگرکسی جہالت کاارتکاب کرے تواسے معاف کرو“۔

اورعورت کااحترام کرنا،اس کی معمولی لغزشوں کومعاف کردیناہی رشتہ زوجیت کوبرقراررکھنے کی واحدضمانت ہے اوریہی اس کے لئے مثالی راستہ ہے اوران چیزوں کاخیال رکھنے بغیرخاندانی عمارت ریت کے گھروندے کی طرح بے ثبات ہے اوراسی وجہ سے طلاق کے اکثرواقعات کاسبب معمولی ہوتاہے چنانچہ ایک قاضی نے میاں بیوی کے چالیس ہزرا اختلافی واقعات کونمٹانے کے بعدکہاتھا”میاں بیوی کے دل میں ہرقسم کی بدبختی دونوں کاکردار ہوتاہے“۔

اگرمیاں بیوی صبرکادامن تھامے رکھیں اورلاشعوری طور پرسرزد ہونے والی غلطیوں سے چشم پوشی کرلیں توازدواجی زندگی کوبرباد ہونے سے بچایاجاسکتاہے۔ امام زین العابدین اپنے رسالہ حقوق میں اس پرمزید روشنی ڈالتے ہوئے فرماتے ہیں:

واماحق رعیتک بملک النکاح، فان تعلم ان اللہ جعلھا سکناومستراحا وانساوواقیة، وکذالک کل واحدمنکما یجب ان یحمداللہ علی صاحبہ، ویعلم ان ذلک نعمة منہ علیہ، ووجب ان یحسن صحبة نعمة اللہ ویکرمھاویرفق بھا،وان کان حقک علیھا اغلظ وطاعتک بھاالزم،فیما احببتوکرھت مالم تکن معصیة فان لھا حق الرحمة والموانسة ولاقوة الاباللہ [48]۔

”نکاح کے ذریعے تمہاری رعایہ بننے والی کاحق تویہ تمہیں معلوناہوناچاہئے کہ اللہ تعالی نے اسے تمہارے لئے سکون،استراحت،انس اوراطمینان کاذریعہ بنایاہے لذا تم میں سے ہرایک کواپنے ساتھی کے حصول پرخدائے تعالی کی حمدکرنی چاہئے اورباورکرناچاہئے کہ یہ اللہ تعالی کی طرف سے اس پرایک نعمت ہے پس اللہ کی نعمت کے ساتھ حسن سلوک کرناچاہئے، اس کی عزت اورقدردانی کرنی چاہئے اوراس کے ساتھ اچھارویہ اپناناچاہئے اگرچہ اس پرتمہارا حق زیادہ ہے اورپسند ناپسندمیںمعصیت الہی کومدنظررکھتے ہوئے اس کے لئے تمہاری اطاعت کرناضروری ہے کیونکہ اس کابھی انس وشفقت کاحق ہے اوراللہ کے سواکوئی صاحب قدرت نہیں ہے“۔

ان سطروں میں غورکرنے سے پتہ چلتاہے کہ رشتہ ازدواج ایک عظیم نعمت ہے اوراس پرہمیں شکرخداوندی کرناچاہئے اوراس کے ساتھ نرمی اورحقیقی صداقت کارویہ اپناکرشکرکاعملی ثبوت فراہم کیاجاناچاہئے۔

اوراگراس کے ساتھ ترش روئی سے پیش آئے اورہروقت اسے جھڑکتارہے توآہستہ آہستہ محبت ومودت کی رگیں کٹتی چلی جائیں گی اورآخرکار یہ چیز چھری کی دھار کی طرح ازدواج کے اس مقدس رشتے کوکاٹ دے گی۔

امام صادق اس روش کوبیان کرتے ہیں :”جس کے ذریعہ شوہراپنی بیوی کوخوش رکھ سکتاہے اورمحبت کی رسی کوٹوٹنے سے بچاسکتاہے فرماتے ہیں :

لاغنی بالزوج عن ثلاثة اشیاء فیما بینہ وبین زوجتہ،وہی : الموافقة، لیجتلب بھاموافقتھا ومحبتھا وھواھا، وحسن خلقہ معھا، واستعمالہ استعمالة قلبھا بالھیة الحسنة فی عینھا وتوسعتہ علیھا [49]۔

شوہرکے لئے اپنے اوربیوی کے معاملات میں تین چیزوں کاخیال رکھناضروری ہے ہم آھنگی تاکہ اس کے ذریعے بیوی کی محبت اوردلی جھکاؤ کوحاصل کرسکے،اس کے ساتھ حسن اخلاق سے پیش آنا اوراپنے دلی میلان کااس طرح استعمال کرناجواسے اچھالگے اوراس پرکھلے دل سے خرچ کرنا“۔

اس چیزپرتنبیہ کرناضروری ہے کہ یہ فرامین ہوامیں بکھرے ہوئے خالی الفاظ نہیں ہیں کہ جنہیں آئمہ نصیحت کرتے وقت زبان پرجاری کرتے تھے بلکہ انہوں نے عملی طورپرانجام دے کربتایاہے اوران کے یہاں علم وعمل میں کوئی جدائی نہیں ہے۔

حسن بن جہم روایت کرتاہے کہ میں نے امام ابوالحسن کوخضاب لگائے ہوئے دیکھا توعرض کیاآپ پرقربان ہوجاؤں آپنے خضاب لگایاہے :

فقال : نعم، ان التھیة ممایزیدفی عفة النساء، ولقدترک النساء العفہ بترک ازواجھن التھیة… ایسرک ان تراھا علی ماتراک علیہ اذا کنت علی غیرتہیة؟ قلت: لا، قال : فھوذلک۔

”توفرمایاہاں ایسی چیزوں کواہمیت دینے سے عورت کی پاکدامنی میں آضافہ ہوتاہے اورشوہروں کے ان چیزوں کوترک کردینے کی وجہ سے بیویاں اپنی عفت ترک کردیتی ہیں کیاتجھے اچھالگے گاکہ اگرتوتیارنہ ہوتووہ بھی تیارنہ ہواورگندی ہومیں نے کہانہیں فرمایا: وہ بھی ایسے ہی ہے [50]۔

توامام درک کرچکے تھے کہ ازدواجی زندگی کامرکزی نقطہ دلی میلان ہے لہذا بیوی کے حق کاخیال رکھتے ہوئے اس کے قلبی میلان کوحاصل کرنے کی کوشش کی جائے کیونکہ عدم توافق ازدواجی زندگی میں رخنہ اندازی کاایک بڑاسبب ہے صحیح ہے کہ اسلام میں شادی محض جنسی شہوت کوسیرکرنے کانام نہیں ہے بلکہ اس کا ہدف ایسی صالح اولاد کاپیداکرناہے جس کی وجہ سے زندگی مستمررہے ورنہ توجنسی خواہشات کاسیرکرنااس کے لئے ایک ذریعہ ہے لیکن اس کامطلب یہ بھی نہیں ہے کہ بیوی کے حق میں کوتاہی کرے بلکہ شریعت اسلامی چارماہ سے زیادہ عرصے تک مباشرت نہ کرنے کوجائز قرار نہیں دیتی۔

شوہرکے حقوق

کشتی ازدواج کوکامیابی کے ساحل تک پہنچانے کے لئے اس کے ناخدا کوپورے پورے حقوق دیناضروری ہیں اورشاید خدائے تعالی کی طرف سے شوہرکو عطاکیاگیاپہلاحق حاکم ہوناہے فرماتاہے :

الرجال قوامون علی النساء بمافضل اللہ بعضھم علی بعض وبماانفقوا من اموالھم۔

”مرد عورتوں پرحاکم ہیں کیونکہ خدانے بعض آدمیوں (مردوں) کو بعض آدمیوں (عورتوں) پرفضیلت دی ہے اورمردوں نے اپنامال خرچ کیاہے“ [51]۔

اورمرد کویہ حق حاکمیت اس کی پیدائشی بالادستی اوراخراجات برداست کرنے کی وجہ سے حاصل ہواہے لیکن مرد کے حاکم ہونے کامطلب یہ نہیں ہے کہ کلی طور پر عورت پرمسلط ہو تاکہ وہ اپنی ذمہ داریوں کوچھوڑ کراس کے ساتھ بے جاسختی کرنے لگے کیونکہ یہ چیزعورت کے حسن سلوک والے حق سے متصادم ہے کہ جسے قرآن نے صراحت کے ساتھ ذکرکیاہے :

وعاشروھن بالمعروف [52]۔”اوران کے ساتھ اچھے طریقے سے زندگی گزارو“۔

بلاشک اسلام نے عقلی اورشرعی لحاظ سے جائز تمام کاموں میں بیوی کوشوہرکی اطاعت کرنے کاحکم دیاہے لیکن اسلام اس چیزکوپسند نہیں کرتاکہ حاکمیت کوبیوی کوذلیل کرنے اوراس کی ہتک حرمت کے لئے ہتھیار کے طورپراستعمال کرے۔

صحیح ہے کہ عورت پرسب سے زیادہ حق شوہرکاہے لیکن اس حق کی صحیح تشریح کرنی چاہئے اوراس کی ایسی تشریح نہیں کرنی چاہئے کہ جس کانتیجہ بیوی کوذلیل کرنا ہو۔ عورت ایک نرم ونازک پھول ہے ہرقسم کی سختی اوردر شتی سے یہ مرجھاجاتاہے اوراسے ایک ایسی باڑ کی ضرورت ہے جوآندھیوں سے محفوظ رکھے تاکہ یہ خوشبو پھیلاتارہے اورمہکنے کے موسم میں بے رونق نہ ہوجائے وہ باڑ وہ مردہے جس میں قربانی کی قوت ہے اورہمہ وقت اس کے لئے تیاررہتاہے۔

شوہرکادوسراحق یہ ہے کہ وہ جب چاہے بیوی اسے اپنے آپ پرقدرت دے سوائے ان استثنائی طبیعی حالات کے جوحواکی ہربیٹی پرآتے ہیں۔

پیغمبر فرماتے ہیں :

… ان من خیر(نسائکم)الولود الودود،والستیرة(العفیفہ)،العزیزة فی اھلھاالذلیلة مع بعلھا، الحصان مع غیرہ، التی تسمع لہ وتطیع امرہ، اذا خلابھا بذلت مااراد منھا۔

”بہترین بیوی وہ ہے جوبچے پیداکرے۔ محبت کرے اپنے گھرمیں عزیزاورشوہرکی فرمانبردارہو،نیز شوہرکے سامنے پاکدامن ہو، شوہرکی بات سنتی ہو اوراس کی اطاعت کرتی ہواورجب شوہرکے ساتھ تنہائی میں ہوتووہ جو چاہے اسے دیدے“ [53]۔

نیزفرماتے ہیں : خیرنسائکم التی اذا دخلت مع زوجھا خلعت درع الحیاء۔

”بہترین بیوی وہ ہے جوشوہرکے ساتھ ہوتوحیاکی چادراتاردے“ [54]۔

اوردیگرایسی احادیث ہیںجن میں بیوی کوشوہرکے بسترسے الگ ہونے سے منع کیاگیاہے اورایساکرنے پردنیاہی میں اسے اس کابدلہ ملتاہے اوروہ جب تک شوہرکے پاس نہیں آجاتی فرشتے اس پرلعنت کرتے رہتے ہیں۔

نیز بیوی کے لئے ضروری ہے کہ شوہرکااحترام کرے اورعہد عشق ومحبت میں اس کے ساتھ پوری طرح شریک رہے پیغمبر فرماتے ہیں :

لوامرت احدا ان یسجد لاحد لامرت المراة ان تسجد لزوجھا [55]۔

”اگرمیں کسی کوکسی دوسرے کاسجدہ کرنے کاحکم دیتاتوبیوی کواپنے شوہر کا سجدہ کرنے کاحکم ضروردیتا“۔

پیغمبر کے ان فرامین کی روشنی میں بیوی کے لئے ضروری ہے کہ شوہرکے ساتھ بہت لطیف اورنرم رویہ رکھے اورایسے ایسے الفاظ سے مخاطب کرے جواس کے دل میں اترکراس کے چہرے پررونق بکھیردیں بالخصوص جب وہ سارے دن کے کام کاج سے تھکاماندا واپس آتاہے توبیوی کواس کایوں استقبال کرناچاہئے کہ اس کاچہرہ ہشاس بشاش ہوجائے اوراس پراپنی سب خدمات نچھاور کردینی چاہئے،یوں عورت شوہرکی خشنودی حاصل کرنے میں کامیاب ہوسکتی ہے پیغمبر کافرمان ہے کہ :

(فطوبی لامراة یرضی عنھا زوجھا)

”اس عورت کے لئے خوشخبری ہے جس کاشوہراس سے راضی ہو“ [56]۔

اوراس سلسلے میں امام باقر فرماتے ہیں :

لاشفیع للمراةانجح عندربھا من رضازوجھا،ولماماتت فاطمة قام علیھا امیرالمومنین وقال : اللھم انی راض عن ابنة نبیک، اللھم انھا قداوحشت فانسھا … [57]۔

”بیوی کے لئے پروردگارکے یہاں شوہرکی خوشنودی سے بڑھ کرکوئی سفارش نہیں ہے اورجب حضرت فاطمة دنیاسے رخصت ہوئیں توحضرت علی نے آپ کے پاس کھڑے ہوکرفرمایاتھا ”میرے اللہ میں تیرے نبی کی بیٹی سے راضی ہوں میرے اللہ یہ وحشت زدہ ہے اسے انس عطافرما“۔

گذشتہ بحث کاخلاصہ یہ ہوا کہ شوہرکوحاکمیت اورتمکین وتسلط کاحق حاصل ہے اس سے بھی بڑھ کرچونکہ شوہرکے ہاتھ میں گھرکی قیادت ہے لذا جائز حد تک اسے حق اطاعت بھی حاصل ہے پس بیوی اس کی اجازت کے بغیرگھرسے باہرنہیں جاسکتی ہے حدیث میں آیاہے:

(ولاتخرج من بیتہ الاباذنہ فان فعلت لعنتھا ملائکة السماوات وملائکة الارض، وملائکة الرضا وملائکة الغضب…)۔

”بیوی شوہرکی اجازت کے بغیرگھرسے باہرقدم نہیں رکھ سکتی اوراگرایساکرے توزمین وآسمان اوررضاوغضب کے سب فرشتے اس پرلعنت کرتے ہیں“ [58]۔

کیونکہ عورت ایک ایسی قیمتی شی ٴ ہے جسے پرامن جگہ کی ضرورت ہے اوروہ جگہ گھرہے جواس کی حفاظت کرسکتاہے۔ قرآن عورتوں کومخاطب کرتے ہوئے فرماتاہے:

وقرن فی بیوتکن ولاتبرجن تبرج الجاھلیة الاولی [59]۔

اوراپنے گھروں میں بیٹھی رہواورپہلے زمانہ جاہلیت کی طرح اپنابناؤاورسنگھارنہ دکھاتی پھرو“۔

اس کے علاوہ شوہرکے دیگرحقوق بھی ہیں جیسے اس کی عزت کی حفاظت کرنااس کی عدم موجودگی میں اس کے اموال کاخیال رکھنا اس کے راز کوافشانہ کرنا اور بیوی شوہرکی اجازت کے بغیرمستحب روزہ بھی نہیں رکھ سکتی۔

عام طورپرازدواجی زندگی کے پھلنے پھولنے کے لئے باہمی رضا،احترام اورخدمت کی ضرورت ہے جیسے پھول کوکھلے رہنے کے لئے روشنی، پانی اورہوا کی ضرورت ہوتی ہے۔

اس نکتے کی طرف اشارہ کرنابھی ضروری ہے کہ میاں بیوی کاایک دوسرے کے حقوق کاخیال رکھنا فقط ذمہ داری کواداکرنانہیں ہے بلکہ اس پرعظیم ثواب بھی ہے۔

پس اگرمرد اپنی بیوی کوپانی پلائے تواسے اس کابھی اجرملے گا [60]۔

اورجوشخص اپنی بیوی کے ساتھ حسن سلوک کرے اللہ تعالی اس کی عمرمیں اضافہ کرتاہے [61]۔

اوراس کے مقابلے میں جوعورت سات دن تک اپنے شوہرکی خدمت کرے اللہ تعالی اس پرجہنم کے سات دروازے بندکردیتاہے اورجنت کے آٹھ دروازے کھول دیتاہے جس سے چاہے داخل ہوجائے [62]۔

اورجوعورت شوہرکے گھرکی ایک چیزکوایک جگہ سے اٹھاکردوسری جگہ رکھے مرتب کرنے کی خاطر، اللہ تعالی اس کی طرف نظررحمت سے دیکھتاہے اورجس کی طرف اللہ نظررحمت کرے اسے عذاب نہیں دیتا [63]۔

نیزاس بات کی طرف اشارہ کرناضروری ہے کہ انسان کے بنائے گئے قوانین کی نسبت الہی قوانین میں کہیں زیادہ حقوق کی ضمانت دی گئی ہے کیونکہ انسان کے بنائے ہوئے قوانین میں کسی بھی شخص کے لئے حیلے، رشوت،دھونس ودھمکی اورزبردستی وغیرہ کے ذریعے حقوق سے بچ نکلنا ممکن ہوتاہے۔

لیکن قوانین الہیہ توان کے نافذکرنے کے لئے نہ فقط خارجی اسباب موجود ہیں جیسے عدالتیں وغیرہ بلکہ داخلی اسباب بھی ہیں جیسے عذاب الہی اورخداکی ناراضگی یہ عوامل انسان کوان حقوق کے اداکرنے پرمجبورکرتے ہیں آورہرمسلمان دوسروں کے حقوق اداکرکے خدائے متعال کی خشنودی حاصل کرنے کی کوشش کرتاہے اورقرآن کریم دوسروں پرظلم کوآخرکاراپنے پرظلم شمارکرتاہے جیسا کہ ارشاد خداوندی ہے :

ولاتمسکوھن ضرارا لتعتدوا ومن یفعل ذلک فقدظلم نفسہ ۔

”خبردارنقصان پہنچانے کی غرض سے انہیں (بیویوں) نہ روکناکہ ان پرظلم کروکہ جوایساکرے گاوہ خود اپنے نفس پرظلم کرے گا“۔

یوں ایک دینی ماحول حقوق وفرائض کی ادائیگی سے مانع ہرقسم کے شیطانی مکرکولگام دینے کاذریعہ ہے لیکن قانون سازانسان کے یہاں اپنے افکارکو لگام دینے کے فقط دوداخلی عوامل ہیں ضمیراوراخلاق اوریہ بھی اکثراوقات مختلف وجوہات کی بناپرسید ھے راستے سے منحرف ہوجاتے ہیں، اس کے یہاں معیار بدل جاتے ہیں اور برائی نیکی بن جاتی ہے اورنیکی بدی۔

اس کے علاوہ اسلام میں جتماعی اورعبادی پہلوؤں کے درمیان بہت گہرا تعلق ہے لہذا دوسروں کے حقوق کی پروانہ کرکے اجتماعی پہلومیں ہرقسم کی سستی عبادت والے پہلوپربھی منفی اثرڈالتی ہے حدیث نبوی میں اس کی یون وضاحت کی گئی ہے:

من کان لہ امراة تؤذیہ،لم یقبل اللہ صلاتھا، ولاحسنة من عملھا حتی تعینہ وترضیہ وان صامت الدھر… وعلی الرجل مثل ذلک الوزر، اذا کان لھا مؤذیا ظالما [64]۔

”جوبیوی اپنے شوہرکواذیت دے اللہ تعالی اس وقت تک اس کی نماز اورکسی دوسری نیکی کوقبول نہیں کرتاجب تک وہ اس کی مددنہ کرے اوراسے راضی نہ کرے چاہے ساری زندگی روزے رکھتی رہے اوراگرمرد اس پرظلم کرے اوراسے اذیت دے تواس پربھی ایساہی بوجھ ہوگا“۔

خلاصہ یہ کہ میاں بیوی کے ایک دوسرے پرحقوق ہیں جن میں کسی قسم کی غفلت خاندان پرمہلک اثرات ڈالتی ہے اورانہیں اداکرنا اجتماعی وحدت فراہم کرتاہے۔

خلاصہ :

اس کتاب کی پہلی فصل سے مندرجہ ذیل نتائج برآمدہوتے ہیں :

۱۔ مکتب اسلام نے دیگرتمام مکاتب سے پہلے حقوق انسانی کوکماحقہ اہمیت دی ہے چنانچہ پیغمبر نے حجة الوداع کے موقع پرانسانوں کے درمیان مساوات کااعلان کیا امیرالمومنین نے اپنے عند حکومت میں مالک اشترکوتاریخی دستاویزتحریرکی اورامام زین العابدین نے پہلی صدی ہجری میں حقوق کے بارے میں ایک جامع رسالہ رقم فرمایا:

اس سب کامقصد ایسے پرامن معاشرے کاقیام تھا جس کی بنیاد حق وعدالت پرہو۔

۲۔ قرآن کریم نے معاشرے کے اجتماعی پہلوکواتنی ہی اہمیت دی ہے جتنی کسی انسان کے اپنے رب کے ساتھ تعلق کواسی لئے افراد کے اوپرایسے بنیادی حقوق عائد کردئیے ہیں جن کاتعلق ان کے وجود اورعزت کے ساتھ ہے۔

مثال کے طورپرحیات،امن سے استفادہ کرنا،عزت،تعلیم،فکراور اظہاررائے جیسے حقوق جوانسان کی انسانیت اورحریت کوبرقراررکھنے کے لئے ضروری ہیں۔

۳۔ مکتب اہل بیت کمزورلوگوں کے مادی اورمعنوی(جیسے عزت واحترام)حقوق اداکرنے پربہت زوردیتاہے۔

۴۔ مکتب اہل بیت نے اخلاقی حقوق اداکرنے پربھی بڑا زوردیاہے جیسے استاد، شاگرد، بھائی،ساتھی اورناصح کے حقوق اوریہ ایسے حقوق ہیں کہ جن سے دیگر مکاتب نے تجاہل برتاہے یاانہیں خاص اہمیت نہیں دی ہے۔

۵۔ اسلام نے معاشرے کے اندرخاندانی تعلق کے بعدہمسائگی کوسب سے زیادہ اہمیت دی ہے چنانچہ جبرئیل نے پیغمبر کوپڑوسی کے حقوق کے بارے میں مسلسل وصیتیں کیں، اہل بیت کی کثیراحادیث پڑوسی کے حقوق کے بارے میں ہیں اور امام زین العابدین کے رسالہ حقوق میں خاص طورپر۔

اورحسن جوارکے بارے میں آئمہ کی دقیق نظرکے بارے میں ہم بھی پہلے اشارہ کرچکے ہیں کہ وہ فقط اذیت کاروکنانہیں ہے بلکہ اذیت پرصبرکرنا بھی ہے اورآئمہ نے اسے عملی کرکے دکھایاہے۔

اوردوسری فصل میں ہم نے تفصیل کے ساتھ خاندانی حقوق کاذکرکیااوراس سے مندرجہ ذیل نتائج برآمدہوتے ہیں :

۱۔ اسلام خاندان کے افراد کے درمیان قائم تعلق اوراجتماعی رشتے کومضبوط کرنے کاخواہشمند ہے چنانچہ والدین کاحق ہے کہ ان کے ساتھ حسن سلوک کیاجائے اوران کاحق اللہ تعالی کے حق کے بعد دوسرے درجے میں رکھاگیاہے۔

۲۔ آئمہ نے حقوق والدین کوبیان کرے کے لئے کئی محوروں پرکام کیاچنانچہ اس سلسلے میں واردہونے والی قرآن کی آیات کی تفسیرکی۔ اولاد کے لئے والدین کے سامنے اخلاقی فضابرقرارکی، والدین کے ساتھ حسن سلوک کرنے کی شرعی حدودکوبیان کیااوراسے سب سے بڑا فریضہ قراردیا اوراس کے فلسفے کے طورپردوام نسل اورصلہ رحمی کاقطع نہ کرناذکرکیا، والدین کی نافرمانی کے دنیوی اوراخروی منفی اثرات کوبیان کیااوراس بارے میں اپنی عملی روش کوبہترین نمونے کے طورپرپیش کیا۔

۳۔ اسلام نے بچے کی ولادت سے پہلے اوربعد کے حقوق کوبیان کیاہے لذا لڑکیوں کوزندہ درگورکرنے سے ممانعت کرکے انہیں حق وجود کی ضمانت دی، شادی کرنے اورباپ بننے کی ترغیب دلائی اورغیرشادی شدہ رہنے اوررہبانیت اختیارکرنے سے منع کیااورپھرصالح اولادپیداکرنے کے لئے شوہرکوصالح بیوی انتخاب کرنے کاحکمم دیااوربیٹے کے باپ کی طرف منسوب ہونے کے حق کومحفوظ کرنے کے لئے ماں پرتمام رذائل سے دوررہنا لازم قراردیا اسی طرح اسلام نے بچے کوولادت کے بعد کے حقوق کی بھی ضمانت دی ہے جیسے زندہ رہنے کاحق چنانچہ اسلام کسی بھی صورت میں اورکسی بھی ذریعے سے ان کی زندگی ختم کرنے کی اجازت نہیں دیتا۔

۴۔ اسلام نے اولاد کویہ حق دیاہے کہ ان کے درمیان عدل ومساوات قائم کی جائے اورلڑکے اورلڑکی کے درمیان امتیاز نہ کیاجائے اورآئمہ کی سیرت بھی اس کی گواہ ہے چنانچہ انہوں نے ہمیشہ لڑکے کے مقابلے میں لڑکی کوکم اہمیت دینے کی فکرکوختم کرنے کے لئے کام کیا۔

۵۔ بچے کی تربیت میں اسلام نے دیگرمکاتب پرسبقت کرنے دئے مرحلہ اورتربیت کی روش کواختیارکیااوربچے کی عمرکوتین حصوں میں تقسیم کیااورہرمرحلے میں بچے کی طاقت کے مطابق اس کی خاص قسم کی تربیت کرنے کاحکم دیا۔

۶۔ لڑکے اورلڑکی کے درمیان وراثت کے فرق والے شبہے کاآئمہ نے یوں جواب دیاکہ یہ فرق عین دل ہے کیونکہ لڑکی پرنہ جہاد ہے اورنہ نان ونفقہ بلکہ اس کا اپناخرچ بھی مرد کے ذمے ہے۔

۷۔ آئمہ نے اولاد کووصیت کرنے کوآنے والی نسلوں تک اپنی روشن افکاراورکامیاب تجارب کے منتقل کرنے کااس مستقل ذریعہ قراردیا۔

اورتیسری فصل جومیاں بیوی کے باہمی حقوق کے بارے میں تھی سے مندرجہ زیل نتائج برآمدہوتے ہیں :

۱۔ اسلام نے بڑی دقت کے ساتھ میاں بیوی کے عقد اورباہمی عہد سے پیداہونے والے حقوق وفرائض کوبیان کیاہے۔

۲۔ بیوی جواصل خلقت اورذمہ داری کے لحاظ سے مرد کے مساوی ہے بعض بنیادی حقوق کی مالک ہے ان میں سے بعض مادی ہیں جومعشیت سے متعلق ہیں اوربعض معنوی ہیں جوحسن معاشرت سے متعلق ہیں۔

۳۔ شوہرکے بھی بیوی پرحقوق ہیں اورسب سے بڑاحق حاکمیت والاہے لیکن اسلام اسے بیوی کوذلیل کرنے کاذریعہ بنانے کوپسند نہیں کرتا اوراجازت نہیں دیتا کہ حاکمیت کے بل بوتے پربیوی کے مقام کوپست کرے اوراس کے حقوق کی پائمالی کرے نیزشوہرکاحق ہے کہ بیوی اس کی اجازت کے بغیرگھر سے نہ نکلے اوراسے اپنے آپ پرکامل تسلط اورتمکین دے۔

اورآخرمیں ہم نتیجہ کے طورپریہ بات عرض کرناچاہتے ہیں کہ قوانین الہی انسان کے بنائے ہوئے قوانین کی نسبت حقوق کی پاسداری کی ضمانت زیادہ دیتے ہیں کیونکہ انسان کے بنائے ہوئے قوانین سے انسان بچ نکلنے میں کامیاب ہوجاتاہے لیکن الہی قوانین میں افراد کوکنٹرول کرنے کے لئے داخلی عوامل ہیں جسے عذاب الہی اورخدا کی ناراضگی اورخارجی عوامل ہیں جیسے سزاکے قوانین ۔

نیزہم نے یہ بھی بیان کیاتھا کہ اسلام اجتماعی اورعبادی پہلوؤں کے درمیان گہرے ارتباط کاقائل ہے اوراجتماعی پہلو میں ہرقسم کی غفلت عبادی پہلوپرمنفی اثرڈالتی ہے۔

والحمدللہ علی ھدایتہ والصلاة والسلام علی اشرف الانبیاء والمرسلین محمد وعلی آلہ الطیبین الطاہرین وصحبہ المخلصین ومن سارعلی نہجھم الی یوم الدین وآخردعوانا ان الحمد للہ رب العالمین

[38] – سورہ روم ۳۰:۲۱۔

[39] – سورہ نساء ۴: ۲۵۔

[40] – سورہ نساء ۴: ۴۔

[41] – سورہ بقرہ ۲: ۲۲۸۔

[42] – سورہ نساء ۴:۱۔

[43] – سورہ نحل ۱۶:۹۷۔

[44] – سورہ تحریم ۶۶:۱۱۔

[45] – بحار ج۱۰۳ص۲۵۳۔

[46] – بحار ج۱۰۳ص۲۵۳۔

[47] – وسائل الشیعہ ۶: ۱۳۴۔

[48] – میزان الحکمة ۱:۱۵۷۔

[49] – بحارالانورا ۷۸:۲۳۷،تحف العقول :۲۳۸۔

[50] – وسائل الشیعہ ۱۴:۱۸۳/باب ۱۴۱ازابواب مقدمات النکاح وآدابہ۔

[51] – سورہ نساء ۴: ۳۴۔

[52] – النساء ۴: ۱۹۔

[53] – مستدرک الوسائل ابواب مقدمات النکاح باب ۵،۱۴:۱۶۱/۱۰۔

[54] – مستدرک الوسائل ابواب مقدمات النکاح باب ۵،۱۴:۱۶۰/۶۔

[55] – وسائل الشیعہ ابواب مقدمات النکاح باب ۸۱،۱۴:۱۱۵/۱۔

[56] ۔بحارالانوارج۱۰۳ص۱۴۶۔

[57] ۔بحارالانوارج۱۰۳ص۲۵۷۔

[58] ۔ مستدرک الوسائل : ابواب مقدمات النکاح باب ۶۰،۱۴:۲۳۷/۱۔

[59] ۔ الاحزاب ۳۳:۳۳۔

[60] ۔ بحارالانوارج۱۰۳ص۲۲۵۔

[61] ۔ امام صادق کے فرمان کااقتباس بحارالانوار ج۱۰۳ ص۲۲۵۔

[62] ۔ امام علی کے فرمان کااقتباس(وسائل الشیعہ ابواب مقدمات النکاح باب ۸۹،۱۴:۱۲۳/۲۔

[63] ۔ امام صادق کے فرمان کااقتباس بحارالانوارج۱۰۳ ص۲۵۱۔

[64] ۔ وسائل الشیعہ ابواب مقدمات النکاح ۱۴،۱۱۶/۱باب ۸۲۔

تبصرے
Loading...