منافقين سے مقابلہ كرنے كي راہ و روش

روشن فكري و افشا گرى

منافقين سے مقابلہ و مبارزہ كرنے كي راہ و روش ايك مفصل اور طولاني بحث ھے، يھاں بطور اجمال اشارہ كيا جارھا ھے، منافقين سے مقابلہ كے طريقوں ميں زيادہ وہ طريقے قابل بحث ھيں جو منافقين كے سياسي و ثقافتي فعاليت كو مسدود كرسكيں اور ان كے شوم اھداف كے حصول كو ناكام بناسكيں۔

منافقين سے مقابلہ اور مبارزہ كے سلسلہ ميں پھلا مطلب يہ ھے كہ تحريك نفاق، ان كے اھداف نيز ان كے طور طريقہ اور روش كے سلسلہ ميں روشن فكر ھونا چاھئے، نفاق كے چھروں كا تعارف نيز ان كے اعمال و افعال كا افشا كرنا نفاق و منافقين سے مقابلے و مبارزہ كے سلسلہ ميں ايك مؤثر قدم ھوسكتا ھے۔

بطور مقدمہ اس مطلب كي ياد دھاني بھي ضروري ھے كہ دوسروں كے گناہ، اسرار كا افشا اور عيب جوئي كو اسلام ميں شدت سے منع كيا گيا ھے۔

بعض روايات و احاديث ميں دوسروں كي معصيت و گناہ كو فاش كرنے كا گناہ، اسي معصيت و گناہ كے مطابق ھے، صاحبان ايمان كو نصيحت كي گئي ھے اگر تم چاھتے ھوكہ خداوند عالم قيامت ميں تمھارے عيوب پر پردہ ڈالے رھے تو دنيا ميں دوسروں كے عيوب كي پردہ پوشي كرتے رھو۔

رسول اكرم صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم ايك سوال كے جواب ميں، جس نے سوال كيا تھا ھم كون سا فعل انجام ديں كہ اللہ قيامت ميں ھمارے عيوب كو ظاھر نہ كرے، آپ فرماتے ھيں:

((استر عيوب اخوانك يستر اللہ عليك عيوبك)) ۱

اپنے (ديني) برادران كے عيوب كو پوشيدہ ركھو تاكہ اللہ بھي تمھارے عيوب كو پوشيدہ اور چھپائے ركھے۔

امير المومنين حضرت علي نھج البلاغہ ميں فرماتے ھيں:

جو لوگ گناھوں سے محفوظ ھيں اور خدا نے ان كو گناھوں كي آلودگي سے پاك ركھا ھے ان كے شايان شان يھي ھے كہ گناھگاروں اور خطا كاروں پر رحم كريں اور اس حوالے سے خدا كي بارگاہ ميں شكر گزار ھوں كيوں كہ ان كا شكر كرنا ھي ان كو عيب جوئي سے محفوظ ركھ سكتا ھے، چہ جائيكہ انسان خود عيب دار ھو اور اپنے بھائي كا عيب بيان كرے اور اس كے عيب كي بنا پر اس كي سرزنش بھي كرے، يہ شخص يہ كيوں نھيں فكر كرتا ھے كہ پروردگار نے اس كے جن عيوب كو چھپاكر ركھا ھے وہ اس سے بڑے ھيں جن پر يہ سرزنش كر رھا ھے اور اس عيب پر كس طرح مذمت كررھا ھے جس كا خود مرتكب ھوتا ھے اور اگر بعينہ اس گناہ كا مرتكب نھيں ھوا ھے تو اس كے علاوہ دوسرے گناہ كرتا ھے جو اس سے بھي عظيم تر ھيں اور خدا كي قسم! اگر اس سے عظيم تر نھيں بھي ھيں تو كمتر تو ضرور ھي ھيں اور ايسي صورت ميں برائي كرنے اور سرزنش كرنے كي جرأت بھر حال اس سے بھي عظيم تر ھے۔

اے بندہ خدا! دوسرے كے عيب بيان كرنے ميں جلد بازي سے كام نہ لے خدا نے اسے معاف كرديا ھو اور اپنے نفس كو معمولي گناہ كے بارے ميں محفوظ تصور نہ كر شايد كہ خداوند عالم اسي پر عذاب كردے ھر شخص كو چاھئے كہ دوسرے كے عيب بيان كرنے سے پرھيز كرے كيونكہ اسے اپنا عيب بھي معلوم ھے اور اگر عيب سے محفوظ ھے تو اس سلامتي كے شكريہ ھي ميں مشغول رھے۲

حضرت علي عليہ السلام كي فرمايش كے مطابق نہ صرف يہ كہ افراد كو چاھئے كہ اپنے ديني اور انساني برادران كے اسرار كو فاش نہ كريں اور ان كي بے حرمتي نہ كريں بلكہ حضرت كي فرمايش و نصيحت يہ ھے كہ اگر حكومت بھى، سماج و معاشرہ كے جن افراد كے اسرار و عيوب كو جانتي ھے تو اس كو چاھئے، ان كے عيوب كو پوشيدہ ركھے ان كي خطاؤں سے جھاں تك ممكن ھے چشم پوشي كرے، حضرت ايك نامہ كے ذريعہ مالك اشتر كو لكھتے ھيں:

((وليكن ابعد رعيتك منك واشنأھم عندك اطلبھم لمعائب الناس فان في الناس عيوبا الوالي احق من سترھا فلا تكشفنّ عما غاب عنك منھا فانّما عليك تطھير ما ظھر لك واللہ يحكم علي ما غاب عنك فاستر العورة ما استطعت يستر اللہ منك ما تحبّ سترہ من رعيتك)) ۳

رعايا ميں سب سے زيادہ دور اور تمھارے نزديك مبغوض وہ شخص ھونا چاھئے جو زيادہ سے زيادہ لوگوں كے عيوب كو تلاش كرنے والا ھو اس لئے كہ لوگوں ميں بھر حال كمزورياں پائي جاتي ھيں ان كي پردہ پوشي كي سب سے بڑي ذمہ دارى، والي پر ھے لھذا خبردار جو عيب تمھارے سامنے نھيں ھے اس كا انكشاف نہ كرنا تمھاري ذمہ داري صرف عيوب كي اصلاح كرنا ھے اور غائبات كا فيصلہ كرنے والا پروردگار ھے جھاں تك ممكن ھو لوگوں كے ان تمام عيوب كي پردہ پوشي كرتے رھو كہ جن كے سلسلہ ميں اپنے عيوب كي پردہ پوشي كي پروردگار سے تمنا كرتے ھو۔

البتہ گناہ و معصيت كو پوشيدہ ركھنے اور فاش نہ كرنے كا حكم اور دستور وھاں تك ھے جب تك گناہ فردي و شخصي ھو اور سماج و معاشرے يا اسلامي نظام كے مصالح كے لئے ضرر و زيان كا باعث نہ ھو ليكن اگر كسي فرد نے بيت المال ميں خيانت كي ھے، عمومي اموال و افراد كے حقوق ضائع كئے ھيں يا اسلامي نظام كے خلاف سازش اور فعاليت انجام دي ھے، تو اس كے افعال و رفتار كي خبر ديني چاھئے اور اس كو بيت المال كي خيانت و افراد كے حقوق ضائع كرنے كي بنا پر محاكمہ اور سزا ديني چاھئے۔

امير المومنين حضرت علي عليہ السلام اپنے تعيين كردہ امراء اور كارندوں كے افعال و رفتار كي تحقيق و نظارت كے لئے بھت سے مقام پر اپنے تفتيش كرنے والوں كو بھيجا كرتے تھے، اور جب كبھي ان كار گزاروں كي طرف سے خطا و نافرماني كي خبر ملتي تھي ان كو حاضر كر كے شديد توبيخ كرتے اور سزا ديتے تھے۔

امير المومنين حضرت علي عليہ السلام بيت المال كے خيانت كاروں اور اموال عمومي كو ضائع كرنے والوں سے قاطعانہ طور پر باز پرس كرتے تھے آپ كے دوران خلافت و حكومت ميں يہ مسئلہ بطور كامل مشھود ھے۔

منافقين كے عيوب و معصيت كے لئے يہ دونوں طريقے يقيني طور پر قابل اجرا ھيں، اگر ان كے گناہ، فسق و فجور فردي ھيں تو چشم پوشي سے كام لينا چاھئے ليكن اگر ان كي سرگرمي و فعاليت دشمن اسلام كے مانند ھو ان كا ھدف اسلام اور اسلامي نظام كي بنياد كو اكھاڑ پھينكنا ھو تو ايسي صورت ميں ان كي حركت كو فاش كرنا چاھئے ان كے افراد و اركان كا تعارف كرانا چاھئے تاكہ امنيت كا فائدہ اٹھاتے ھوئے تخريبي حركتيں انجام نہ ديں، جيسا كہ اس سے قبل عرض كيا گيا قرآن مجيد نے تين سو آيات كے ذريعہ منافقين كي افشا گري كرتے ھوئے ان كي تخريبي فعاليت كي نشاندھي كي ھے اور ان كي صفات كو بطور دقيق بيان كيا گيا ھے، نفاق كي تحريك اور منافقين جماعت كي افشا گري چند بنيادي فوائد ركھتے ھيں۔

1۔ منافق جماعت كے ذريعہ فريب كے شكار ھوئے افراد خواب غفلت سے بيدار ھوكر حق كے دامن ميں واپس آجائيں گے۔

2۔ دوسرے وہ افراد جو تحريك نفاق سے آشنائي نھيں ركھتے وہ ھوشيار ھوجائيں گے اور اس كے خلاف موقف اختيار كريں گے ان كے موقف كي بنا پر حزب نفاق كے افراد كنارہ كش اور خلوت نشين ھوجائيں گے۔

3۔ تيسرے منافقين كي جاني امنيت اور مالي حيثيت، افشا گري كي بنا پر خطرہ سے مواجہ ھوجائيں گي اور ان كي فعاليت ميں خاصي كمي واقع ھوجائے گي۔

نفاق كے وسائل سے مقابلہ

منافقين سے مقابلہ كے سلسلہ ميں دوسرا نكتہ يہ ھے كہ نفاق كے وسايل و حربے نيز ان كي راہ و روش كي شناخت ھے، پھلے منافقين كي تخريبي فعاليت كے وسايل اور اھداف كي شناخت ھونا چاھئے پھر ان سے مقابلہ كرنا چاھئے۔

نفاق كي شناخت كے لئے ضروري ترين امر، ان كي سياسي و ثقافتي فعاليت كي روش اور طريقہ كي شناسائي ھے، يہ شناخت نفاق ستيزي كے لئے بنيادي ركن كي حيثيت ركھتي ھے، اس لئے كہ جب تك دشمن اور اس كے وسايل و حربے شناختہ شدہ نہ ھوں تو مبارزہ و مقابلہ كي بساط كھيں كي نھيں ھوتي ھے۔

يھاں پر وسائل نفاق سے مقابلہ و مبارزہ كے لئے چند اساسي و بنيادي طريقہ كو بيان كيا جارھا ھے ، البتہ دشمن كے ھجومي اور ھر قسم كے تخريبي حملے سے مقابلہ كے لئے كچھ خاص طريقۂ كار كي ضرورت ھے كہ جس كا يھاں احصا ممكن نھيں۔

1) صحيح اطلاع فراھم كرنا

اس سے قبل اشارہ كيا جاچكا ھے كہ منافقين كا ايك اور حربہ و وسيلہ افواہ كي ايجاد ھے، اس حربہ سے مقابلہ كے لئے بھترين طريقۂ كار صحيح اور موقع سے اطلاع كا فراھم كرنا ھے، افواہ پھيلانے والے افراد، نظام اطلاعات كے خلاء سے فائدہ اٹھاتے ھوئے افواھوں كا بازار گرم كرتے ھيں، اگر اخبار و اطلاعات بہ موقع، صحيح اور دقيق، افراد و اشخاص اور معاشرے كے حوالہ كي جائے تو اس ميں كوئي شك نھيں كہ افواہ و شايعات اپنے اثرات كھو بيٹھيں گے۔

اميرالمومنين حضرت علي عليہ االسلام نھج البلاغہ ميں حاكموں پر عوام كے حقوق ميں سے ايك حق، ملك كے حالات سے عوام كو آگاہ كرنا بتاتے ھيں، آپ فرماتےھيں:

((ألا و انّ لكم عندي ان لا احتجز دونكم سراً الا في حرب)) ۴

ياد ركھو! مجھ پر تمھارا ايك حق يہ بھي ھے كہ جنگ كے علاوہ كسي بھي موقع پر كسي راز كو تم سے چھپاكر نہ ركھوں۔

مذكورہ كلام ميں جنگ كے مسائل و فوجي و نظامي اسرار كا ذكر كسي خصوصيت كا حامل نھيں، صرف ايك نمونہ كا ذكر ھے، نظامي اسرار اور اطلاعات كے سلسلہ ميں عدم افشا كا معيار معاشرہ اور حكومت كے لئے ايك مصلحت تصور كرنا چاھئے، لھذا اسي اصل پر توجہ كرتے ھوئے اور اموي مشيزي كي افواہ سازي كے حربہ كو ناكام بنانے كے لئے آپ نے جنگ صفين كے اتمام كے بعد مختلف شھروں ميں خطوط بھيجے اور ان خطوط ميں جنگ صفين كے تمام تفصيلات بيان كئے، معاويہ اور اس كے افراد كي جنگ طلبي كي وجہ اور علت كو تحرير فرمايا اور دونوں گروہ كے مذاكرات كي تفصيل بھي مرقوم فرمائى۵

امام عليہ السلام كے خطوط بھيجنے كي اصل وجہ يہ تھي كہ امام پيش بيني كر رھے تھے كہ معاويہ اور اس كے افراد افواھوں كا بازار گرم كريں گے مسلمانوں كے درميان مسموم تبليغ كے ذريعہ، عمومي افكار كي تخريب كرتے ھوئے علوي حكومت كے خلاف عوام كو ورغلائيں گے لھذا امام نے پھل كرتے ھوئے سريع اور صحيح اطلاعات فراھم كرتے ھوئے لوگوں كے افكار اور قضيہ كے ابھامات روشن كرديئے۔

مذكورہ مقام كے علاوہ بھت سے ايسے موارد نھج البلاغہ ميں پائے جاتے ھيں كہ جس ميں حضرت نے مختلف مواقع پر حكومتي امور كي گزارش عوام كے سامنے پيش كي ھے، اور اس عمل كے ذريعہ بھت سي افواہ و شايعات كو وجود ميں آنے سے روك ديا ھے۔

2) شبھات كي جواب دھي اور سياسي و ديني بصيرت كي افزائش

شبہ كا القا ايك دوسري روش ھے جس كے ذريعہ منافقين سوء استفادہ كرتے ھيں، منافقين كے شبھات كا منطقي اور بر محل جواب دے كر ان كو خلع سلاح كرتے ھوئے اثرات كو زائل كيا جاسكتا ھے۔

شبھات كے جواب ميں منطقي استدلال پيش كرنا ايك، مكتب فكر كے قدرت مند اور مستحكم ھونے كي اھم ترين علامت ھے، بحمداللہ اسلام كے حيات بخش آئين كو عقل قوي اور فطرت كي پشت پناھي حاصل ھے، اھل نفاق كے اس حربہ سے مقابلہ كرنے كے لئے لازم ھے كہ اسلامي مكتب فكر سے عميق آشنائي ركھتے ھوئے ايجاد كردہ شبھات كي شناسائي اور ان كے شبھات كو حل كرتے ھوئے ان كو گندے عزائم كي تكميل و تحصيل سے روكنا چاھئے۔

انسان حق پزير فطرت و خصلت كے حامل ھيں اگر ھم حق كي صورت كو شفاف پيش كرنے كي كوشش كريں تو وہ حق كے مقابل تسليم ھوسكتے ھيں، خصوصاً نوجوان افراد جن كے يھاں شناخت كے موانع كمتر اور حقيقت پيدا كرنے كي خواھش شديد تر ھے، وہ حق كو جلد ھي درك كر ليتے ھيں اور حق كے مقابل خاضع ھوجاتے ھيں روايات ميں جواني كے زمانہ كو باليدگي فكر اور بلند ھمتي كا زمانہ كھا گيا ھے اور تاريخي شواھد بھي اس كي تائيد كرتے ھيں۔

حضرت موسي عليہ السلام پر ايمان لانے والے افراد بني اسرائيل سے جوان ھي تھے پيامبر عظيم الشان نے بعثت كے آغاز ميں، مكہ كے سخت شرائط ميں اكثر جوانوں كو ھي اسلام كي طرف جذب كيا تھا۔

دوسرا اصول اور بنيادي طريقہ جو شبہ كے انعقاد كو روكنے ميں مفيد ھے سماج و معاشرہ كي سياسي و ديني بصيرت كو زيادہ سے زيادہ ارتقاء ديا جائے، اگر تمام افراد اچھي طرح سے دين كي شناخت و پھچان ركھتے ھوں اور ان كے اندر شبھات كي تنقيد و تحقيق كي صلاحيت بھي ھو تو منافقين كبھي بھي القا شبہ كے ذريعہ اھل اسلام كو شك ميں نھيں ڈال سكتے ھيں، اور ان كي سازش ابتدائي ھي منزل پر ناكام ھوكر رہ جائے گي۔

اگر معاشرے كے تمام افراد سياسي بصيرت كے حامل ھوں اور سياسي حوادث كي تحقيق و تحليل كي توانائي بھي ركھتے ھيں تو منافق كبھي بھي اپني سازش و فتنہ گري كے ذريعہ لوگوں كو فريب دينے ميں كامياب نھيں ھوسكتے ھيں،

اگر امير المومنين حضرت علي عليہ السلام كے ساتھ معركہ صفين ميں جنگ كرنے والے سياسي بصيرت كے حامل ھوتے تو قرآن كو نيزہ پر بلند كئے جانے والے حيلہ اور حربے سے شك و شبہ ميں مبتلاء نھيں ھوسكتے تھے اور معاويہ كي فوج نفاق كے ذريعہ جنگ كو متوقف نھيں كرسكتي تھي۔

معاشرے كے افراد كي ديني و سياسي بصيرت كي ارتقاء، نفاق اور اس كے مختلف وسايل سے مبارزہ اور مقابلہ كے لئے سب سے بنيادي طريقہ ھے معاشرے ميں اگر كافي مقدار ميں صاحبان بصيرت كا وجود ھوتو، منافقين كے مختلف حيلہ و مكر كو خنثي اور ناكام بنايا جاسكتا ھے۔

3) اتحاد و وحدت كا تحفظ

مسلمانوں كے درميان تفرقہ و چند احزاب و گروہ كي ايجاد، منافق جماعت كا اصلي حربہ ھے، اس تحريك نفاق سے مقابلہ كرنے كا طريقہ اسلامي معاشرت كي حريم اور اس كي وحدت كي حفاظت كرنا ھے، اگر اھل اسلام خدا محوري كي بنياد پر حركت كريں، خود محوري كو ترك كرديں، يقيناً منافقين كا تفرقہ اندازي كا حربہ اپنا اثر كھو بيٹھے گا اسلام كا دستور حبل خدا كو مضبوطي سے تھامنے اور تفرقہ سے جدا رھنے كا ھے۔

دين اور احكام اسلامي كي حاكميت كو دل و جان سے قبول كرنا، اسلامي اخلاق و آداب سے خود كو آراستہ كرنا اور خواھشات نفساني كي پيروي سے پرھيز كرنا وغيرہ ايسے اسباب ھيں كہ جس كي وجہ سے ايك متحد سماج اور منظّم معاشرہ عالم ظھور ميں آسكتا ھے، جب تك اسلامي معاشرے و سماج ميں اتحاد وحدت كي ضوفشاني رھے گي ھرگز اسلام كے مخالفين حتي منافقين اپنے اھداف و مقاصد ميں ظفر ياب نھيں ھوسكتے ھيں۔

وحدت و اتحاد كي حفاظت، اختلاف كو ختم كرنے كي جد و جھد قابل قدر و اھميت كي حامل ھيں، لھذا ھر فرد كا وظيفہ بنتا ھے كہ اپني توانائي كے اعتبار سے اس كي كاميابي كے لئے سعي و كوشش كرے۔

پيامبر عظيم الشان اكثر موارد ميں خود حاضر ھوكر افراد اور قبائل كے مابين اختلاف اور ان كي آپسي دشمني كو حل و فصل كراتے تھے ان كو دوستي مساوات اور اسلامي اقدار پر گامزن رھنے كے لئے نصيحت فرمايا كرتے تھے۔

منافقين سے قاطعانہ برتاؤ

منافقين سے مقابلہ كا ايك اور طريقہ ان كے ساتھ قاطعانہ برتاؤ اور غير مصلحت آميز سلوك ھے، جب تك منافقين كي جد وجھد قيل و قال كے مرحلہ ميں ھے اسلامي نظام كو روشن فكري كے ذريعہ سے مقابلہ كرنا چاھئے ليكن جب منافقين تخريبي اعمال و حركات انجام دينے لگيں تو شدت و قوت سے مقابلہ ھونا چاھئے۔

خداوند عالم آخرت ميں منافقين سے قاطعانہ برتاؤ كا اعلان كرتے ھوئے صاحبان ايمان كو بھي ويسے ھي برتاؤ كرنے كا سبق سكھاتا ھے۔

(ان المنافقين في الدرك الا سفل من النار) ۶

بے شك منافقين جھنم كے سب سے نچلے طبقہ ميں ھوں گے۔

اسي بنا خداودند متعال قرآن ميں رسول خدا صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم كو خطاب كرتے ھوئے فرما رھا ھے:

(يا ايھا النبي جاھد الكفار والمنافقين واغلظ عليھم) ۷

پيامبر! آپ كفار اور منافقين سے جھاد كريں اور ان پر سختي كريں۔

كفار كے مقابلہ ميں جھاد كا طريقۂ كار آشكار ھے، يہ جھاد ھر زاويے سے ھے بالخصوص مسلحانہ ھے، ليكن منافقين سے جھاد كا طور و طريقہ مورد بحث ھے اس لئے كہ يہ بات مسلم ھے كہ پيامبر صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم نے منافقين سے مسلحانہ جنگ نھيں كي تھي۔

حضرت امام صادق عليہ السلام فرماتے ھيں:

((ان الرسول اللہ لم يقاتل منافقاً)) ۸

رسول خدا نے منافق سے جنگ نھيں كي تھي۔

منافقين سے جھاد نہ كرنے كي دليل بھي واضح ھے اس لئے كہ منافقين ظواھر اسلام كا اظھار كرتے تھے لھذا تمام اسلامي آثار و فوائد كے مستحق تھے، گر چہ باطن ميں وہ اسلامي آئين كي خلاف ورزي كرتے تھے اسلام كے اظھار كرنے والے سے، كسي كو غير اسلامي رفتار كرنے كا حق نھيں يعني منافق كے ساتھ وہ سلوك نھيں ھونا چاھئے جو غير اسلام (كافر) سے كيا جاتا ھے۔

پيامبر اسلام صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم كے زمانہ ميں كسي منافق نے علي الاعلان اسلام كي مخالفت ميں پرچم بلند نھيں كيا تھا لھذا پيامبر صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم نے بھي مسلحانہ جنگ انجام نھيں دي تھي۔

لھذا قرآن ميں منافق سے جھاد كے دستور كے معني و مفھوم كو جنگ و جھاد كي دوسري اشكال سے تعبير كرنا ھوگا جو غير مسلحانہ ھو، جيسے ان كي سرزنش و توبيخ كرنا مذمت و تھديد سے پيش آنا، رسوا اور ذليل كرنا وغيرہ شايد “واغلظ عليھم” كا مفھوم بھي ان ھي قسم كے برتاؤ پر صادق آتا ھے۔

البتہ يہ احتمال بھي ھوسكتا ھے كہ جب تك منافين كے اندروني اسرار اور خفيہ پروگرام آشكار نہ ھوں نيز ان كي تخريبي حركات سامنے نہ آئے تب تك وہ اسلامي احكام كے تابع ھيں ليكن جب ان كے باطني اسرار فاش ھوں اور يہ واضح ھوجائے كہ اسلام و اسلامي نظام كے سلسلہ ميں تخريبي اعمال انجام دينا چاھتے ھيں تو ان كو سر كوب كرنا ضروري ھے خواہ مسلحانہ طريقہ ھي كيوں نہ اپنانا پڑے۔

بھر حال بني اميہ كي منافق جماعت كے اركان اور اس كے سرغنہ معاويہ سے امير المومنين حضرت علي عليہ السلام كا برتاؤ اور رويہ مذكورہ آيت كا بھترين مصداق ھے۔

جب تك منافقين كا طرز عمل سخن و گفتگو تك محدود تھا آپ نے كوئي فوجي كاروائي نھيں كي بلكہ صرف گفت و شنود اور مذاكرات كے ذريعہ مسئلہ كا حل تلاش كرتے رھے ليكن جب نفاق حرف و كلام سے آگے بڑھ گيا اور حرب و جنگ كي نوبت آگئي تو آپ قاطعانہ و قھر آميز برتاؤ سے پيش آئے۔

آپ نے اپني گفتگو و خطبات كے ذريعہ ان كے افكار و نظريات كو مسمار اور مسلحانہ اقدام كے ذريعہ ان كو ھميشہ كے لئے ذيل و رسوا كركے ركھ ديا۔

(و آخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمين الھم صل علي محمد وآلہ الطاھرين۔

 

 

حوالہ جات

۱۔ميزان الحكمۃ، ج7، ص145۔

۲۔نھج، البالغہ، خطبہ140، خطبہ طولاني ھونے كي بنا پر عربي عبارت نقل كرنے سے صرف نظر كيا گيا۔

۳۔نھج البلاغہ، نامہ53۔

۴۔نھج البلاغہ، نامہ50۔

۵۔نھج البلاغہ، نامہ58۔

۶۔سورہ نساء/145۔

۷۔سورہ توبہ/73، سورہ تحريم/9۔

۸۔مجمع البيان، ج10، ص319۔

تبصرے
Loading...