مسلمانوںکے اتحاد کی راہ میں اندرونی رکاوٹیں

مسلمانوں کے اتحاد اور یکجہتی کی راہ میں ہمیشہ مشکلات آتی رہتی ہیں۔ ان مشکلات میں بعض داخلی اور بعض خارجی ہیں ۔ داخل مسائل وہ ہيں جو خود مسلمانوں کےپیداکئےہوئے ہیں اور ان کے اعمال اورتنگ نظری اور سطحی نظرکا نتیجہ ہیں۔بیرونی مشکلات سامراجی طاقتوں اور ان کے آلہ کاروں کی سازشوں کانتیجہ ہیں کیونکہ سامراجی طاقتوں کے لئے مسلمانوں کا اتحاد اور بھائي چارہ نہایت دردناک اور برداشت کے قابل نہیں ہے۔سامراج کی ہمیشہ سے یہ کوشش رہی ہےکہ مسلمانوں میں تفرقہ اور تنازعات پیداکرکے انہیں ترقی کرنےسے روکے اور انہيں کبھی بھی امۃ واحدہ بننے نہ دے۔

عالم اسلام کےخلاف سامراجی ملکوں کی خفیہ اور اعلانیہ سازشوں اور دشمنیوں کے مقابلے کےلئے علمی اور عملی روشیں اپنانے کی ضرورت ہےاوریہ ایک ناگزیر ضرورت ہے۔ اس سلسلےمیں کسی طرح کی غفلت اور کوتاہی کو برداشت نہیں کیا جاسکتا۔ دشمنوں کی سازشوں سے کہیں بڑھ کر مسلمانوں کے داخلی مسائل ہیں اور ان کے خطرے کہیں زیادہ المناک ہیں کیونکہ ہر قوم اور ملت جو اندرونی طورپراختلافات اور تنازعات کا شکارہوجائے وہ مضمحل اور نابود ہوجاتی ہے۔ اسی وجہ سے ہم دیکھتے ہیں کہ مسلمانوں کے دشمنوں کوجن میں کفر وشرک و نفاق کے سربراہوں کو جنہیں سامراج سے تعبیر کیا جاتاہے مسلمانوں کے درمیان اختلاف اور تفرقہ ڈالنے کےلئے بڑے بڑے بجٹ مختص کرنے اورطاقت اور فوج کا استعمال کرنے کی ضرورت پیش نہيں آتی ۔اھل نظر اور امت کا درد رکھنے والوں کا کہنا ہے کہ مسلمانوں کو جوخود ہرطرح کے اختلافات کا شکارہیں کسی کی دشمنی کی ضرورت ہی نہیں ہے وہ خود اپنے ہاتھوں ہلاک اور نابود ہورہےہیں۔

مسلم فرقوں میں اتحاد اور بھائي چارے کے مقدس ہدف جسے ہم تحریک تقریب کہتےہیں اسے علمی شکل دینے کے لئے ہمیں اپنے اندرونی مسائل کا جائزہ لینا پڑے گا کہ وہ کونسے مسائل ہیں جو تقریب و اتحادکی راہ میں رکاوٹ بنےہوئے ہیں اور ان کا موثر طریقوں سے علاج کرنا ہوگا۔ آیت اللہ شہید مرتضی مطہری نے مسلمانوں کے اتحاد کی راہ میں موجود رکاوٹوں کےبارےمیں تحقیق کی ہے اور ان کا راہ حل بھی پیش کیا ہے ۔ وہ مسلمانوں کو دعوت دیتےہیں کہ ان مسائل پرغور کریں اور انہیں دورکرنے کی کوشش کریں۔ شہید مطہری کہتےہیں کہ “غلط فہمیاں”مسلمانوں کے اتحادمیں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں۔ شہید مطہری سب سے پہلے غلط فہمی کی تعریف کرتےہوئے کہتےہیں کہ غلط فہمی ایک دوسرے کا غلط ادراک ہے اور اس کے مقابل حسن تفاہم یا ایک دوسرے کو اچھی طرح سے سمجھناہے ۔ وہ کہتےہیں اچھی طرح سے ایک دوسرے کا ادارک کرنا یہ ہےکہ ہم اپنے مدمقابل کو اسطرح سمجھیں جیسا کہ وہ ہے اور غلط فہمی بھی اسی طرح ہےیعنی اپنے مدمقابل کو اس طرح سے نہ سمجھاجائے جیسے وہ ہے ۔ بلکہ اسکے بارےمیں بدگمانی اور توھمات کا شکار ہواجائے ۔ غلط فہمی ہرشخص اور ہرمسئلہ کے بارےمیں ایک انتھائي منفی چیزہے کیونکہ یہ گمراہی کا سبب بنتی ہے ۔

شہید مطہری اس کےبعد مسلمانون کے درمیاں پائي جانے والی غلط فہمیوں اور ان سے ہونے والے نقصانات منجملہ افتراق واختلافات کی طرف اشارہ کرتےہوئے کہتےہیں کہ مسلمانوں کی ایک بڑی مصیبت یہ ہےکہ وہ متعدد فرقوں مین بٹنے کے علاوہ ایک دوسرےکے خلاف بہت زیادہ غلط فہمیوں کا شکاربھی ہیں یعنی عقیدےکےلحاظ سے مختلف دھڑوں میں تقسیم ہونے کے ساتھ ساتھ ایک دوسرے کے خلاف بہت سے غلط توھمات کا شکاربھی ہیں ۔ وہ کہتےہیں کہ ماضی اور حال میں فتنے پھیلانے والے ایسے افراد موجود تھےاورہیں جن کا مقصدمسلمانوں میں ایک دوسرےکےخلاف نفرت اور بدگمانی پھیلاناتھا ۔ شہید مرتضی مطہری کہتےہیں کہ غلط فہمیوں اور ایک دوسرے کودرک نہ کرنے کا خطرہ مذھبی اختلافات سے کہيں بڑھ کرہے ۔

شہید مطہری نے اس عبارت میں تین اہم مسائل پرتوجہ کی ہے

اول : غلط فہمیاں اور ایک دوسرے کو اچھی طرح سے نہ سمجھنا اور ایک دوسرے کی باتوں سے غلط معنی نکالنا مسلمانوں کی ایک بڑی مصیبت ہے ۔

مصیبت جس کو شہید مطہری ابتلاکہتےہيں کوئي چھوٹا مسئلہ نہيں ہے بلکہ اس سے مسلمانوں میں بڑے بڑے مسائل پیداہوتےہیں جس سے وہ مزید مصیبت میں مبتلاہوجاتےہیں اور ان کی اسلامی سرزمینوں کو شدید نقصان پہنچتاہے اور اس کے المناک اثرات ایک لمبی مدت تک باقی رہتےہیں۔ ان ہی مصیبتوں کےتحت مسلمان ایک دوسرے سے جدا ہوجاتےہیں ان کے وسائل اور ذخائر عبث اور بے تکے مقاصد میں خرچ ہوجاتےہیں جن کا انہيں کوئي فائدہ نہیں ہوتا۔

دویم : مسلمانون کے درمیاں تمام چھڑپوں اور جھگڑوں میں فساد پھیلانے والے اور فتنہ انگيز عناصر کا ہاتھ صاف دکھائي دیتاہے۔ یہ عناصر یہ چاہتےہيں کہ تفرقہ کی آگ جہاں تک ممکن ہوسکے پھیل جائے اور سب کچھ جلاکر راکھ کردے ۔ یہ عناصر اختلافات اور تنازعات کو آخری حدتک لے جانےکی فکر میں رہتےہیں اور اس ھدف کے حاصل کرنے کے لئے کوئي دقیقہ فروگذاشت نہیں کرتے۔ ان کا کام ہی جلتی پرتیل چھڑکناہوتاہے وہ اپنے پروپگینڈوں فریبکاریوں اور جھوٹی باتوں سے اختلافات اور تنازعات کی آگ کو ایسا بھڑکاتےہیں کہ اس سے شاید ہی کوئي بچ سکے۔ ان اقدامات سے مسلمانوں کےدرمیان بدگمانیاں اور غلط فہمیاں اس حدتک بڑھ جاتی ہیں کہ ان کی مفاہمت اور اتحاد و بھائي چارے کے سارے راستے بند ہوجاتےہیں ۔

سویم : مسلمانوں کے درمیاں غلط فہمیوں کا نقصان مذھبی اختلافات سے کہيں زیادہ اور خطرناک ہے، اسی بناپر غلط فہمیوں کم نہیں سمجھنا چاہیے اور انہیں آسانی سے فراموش نہیں کردیناچاہیے بلکہ جس طرح سے مذھبی اختلافات ختم کرنا ہر مسلمان کی ذمہ داری ہےاسی طرح غلط فہمیوں کا مقابلہ کرنے کے لئے بھی نہایت سوچ سمجھ کرقدم اٹھانا چاہیے تاکہ مسلمانون کے درمیان اتحاد کی فضا ہموار ہوسکے ۔

شہید مطہری مزید وضاحت کے ساتھ کہتےہیں کہ ” مسلمانوں کے مذھبی اختلافات ایسے نہیں ہیں کہ وہ انماالمومنون اخوۃ کے مصداق نہ بن سکیں کیونکہ سب خداےواحد کی پرستش کرتےہیں اور سب لاالہ الااللہ کا اقرارکرتےہیں، سارے مسلمان محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رسالت اور ان کے خاتم النبیین ہونے کا اقرارکرتےہیں اور انکے دین کو خاتم ادیان سجھتے ہیں اسی طرح سارےمسلمان قرآن کو خداکی مقدس اور آخری کتاب سمجھتےہیں اور اس پرایمان رکھتےہیں اور اسی کی تلاوت کرتےہیں، اور سب ملکر ایک ہی قبلہ کی طرف جوکعبہ ہے نماز اداکرتےہیں اور ایک ہی اذان پرنماز کے لئےتیارہوجاتےہیں اور ایک ہی مہینے میں روزہ رکھتےہیں اور ایک ساتھ حج بیت اللہ کرتےہیں اور حرم خدامیں جمع ہوتےہیں اور سب کے سب خاندان نبوت ورسالت سے محبت کرتےہیں اور ان کے دلوں میں اھل بیت علیھم السلام کا احترام ہے ۔ یہ ساری باتیں کیا کافی نہیں ہیں کہ مسلمانوں کے درمیاں اتحاد و براداری پیداکرسکیں؟لیکن غلط فہمیاں اور تصوارت باطل اور توھمات اپنا کام کرجاتےہیں اور مسلمانوں کےاتحاد کے راستے میں کانٹے بودیتےہیں ۔

ایک اور دلیل جو ہم اس بارےمیں پیش کرسکتےہیں کہ مذھبی عقائد اور اصول پراختلافات سے زیادہ باطل تصورات اور غلط فہمیاں نقصان دہ ہیں یہ ہےکہ ہرزمانے میں مذھبی اختلافات رہےہیں اوران میں کوئي کمی بیشی نہیں آئي ہے یہ ایک مسلمہ اور ثابت امر ہے لیکن غلط فہمیاں اور باطل تصورات میں نشیب وفراز آتارہتاہے اور ان کے نتیجے میں پیداہونے والے تنازعات اور جھگڑوں کی آگ میں بھی شدت آتی رہتی ہے۔اسی وجہ سے امت میں اختلافات ڈالنے والےعناصر عقیدتی اصولوں کو نہيں چھیڑتےبلکہ غلط فہمیوں کو شدت بخشتےہیں نئي نئي غلط فہمیاں ایجاد کرنے میں لگ جاتےہیں بنابریں اسلامی اتحاد کی راہ میں موجود رکاوٹوں کو ختم کرنے کےلئے سب سے پہلے غلط فہمیوں کو ختم کرنا ہوگا۔ شہید مطہری اس مقدس ھدف کے حصول کے لئے کچھ تجویزیں پیش کرتےہیں جو حسب ذیل ہیں ۔

1۔شیعوں کےخلاف پائےجانے والی غلط فہمیوں کا جائزہ لیاجائے۔

2۔ اھل سنت کے بارےمیں موجود غلط فمہیوں کا جائزہ لیاجائے اور ان دونون فرقوں کے درمیاں موجود غلط فہمیوں کے ازالے کےلئے موثر اور عملی اقدامات کئےجائيں ۔

ان راہ ہائے حل کے فکر اور علمی اور عینی اور عملی پہلوہیں اور ان پرخلوص اور فکری آزادی سے عمل کیا جانا چاہایے اور ہرطرح کے تعصب اور سطحی فکر سے پرہیزکرتےہوئے ان پرعمل کرنے کی کوشش کی جانی چاہیے ۔ ان امور پرعمل کرنے کےلئے عالم اسلام کے علماء اور درد رکھنے والے دانشوروں اور آگاہ او بابصیرت لوگوں کو ساتھ لیاجائے اور ضروری ہے کہ دشمن کی سازشوں کو نظراندازنہ کیا جائے ۔

تبصرے
Loading...