محترم مہینے اور ہماری ذمہ داری

چنانچہ اس مہینہ کی واقعی حرمت کا پاس و لحاظ تو اس وقت ہوگا جب ہم اس مہینہ میں برادر مومن کی حرمت کا بھی پاس و لحاظ رکھیں گے ۔

اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی۔ابنا۔/ثقافتی اوراق

بقلم: سید نجیب الحسن زیدی
 جس طرح مسجد الحرام اور مسجد نبوی کو محترم کہا جاتا ہے اور ان مقامات پر جنگ و خونریزی جدل و جھگڑا  اور فساد حرام ہے اسی طرح سال کے چار مہینے ایسے ہیں جنہیں محترم کہا جاتا ہے ، قرآن کریم نے ان چار مہینوں کی حرمت کا تذخرہ کرتے ہوئے فرمایا:ا ِنَّ عِدَّةَ الشُّہُورِ عِنْدَ اللَّہِ اثْنا عَشَرَ شَہْراً فی کِتابِ اللَّہِ یَوْمَ خَلَقَ السَّماواتِ وَ الْأَرْضَ مِنْہا أَرْبَعَة حُرُم ذلِکَ الدِّینُ الْقَیِّمُ فَلا تَظْلِمُوا فیہِنَّ أَنْفُسَکُمْ وَ قاتِلُوا الْمُشْرِکینَ کَافَّةً کَما یُقاتِلُونَکُمْ کَافَّةً وَ اعْلَمُوا أَنَّ اللَّہَ مَعَ الْمُتَّقینَ (36) توبہ
جس دن سے اللہ نے زمین و آسمان کو خلق کیا ہے مہینوں کی تعدا د اس کے نزدیک  بارہ ہے  جن میں سے چار مہینے ماہ ہائے حرام ہیں ( جن میں جنگ کرنا حرام ہے ) یہ ہمیشہ باقی رہنے والا آئین ہے لہذا تم ان مہینوں میں اپنے اوپر ظلم نہ کرو اورتمام مشرکین سے جنگ کرو جس طرح وہ تم سے لڑتے ہیں اور جان لو کے اللہ متقین کے ساتھ ہے ۔  
وجہ تسمیہ اور سبب حرمت :
”رجب ،  ذی قعدہ ، ذی الحجہ ، اور محرم الحرام ” ان چار مہینوں کو حرام اس لئے کہا جاتا ہے  کہ ان مہینوں میں جنگ اور خوں ریزی حرام ہے ۔ یہ حرمت زمانہ جاہلیت میں بھی موجود تھی اسلام سے پہلے بھی مشرکین ان مہینوں میں جنگ کو حرام سمجھتے تھے حتی بعض مفسرین نے اس حرمت کو جناب ابراہیم  کے دور سے چلی آ رہی حرمت بیان کیا ہے  یہ اور با ت ہے کہ بعض مشرکین اپنے مفادات کی خاطر حرام مہینوں کو آگے پیچھے کر لیتے تھے مثلا سال گزشتہ محرم حرام تھا تو اسے اس سال جنگ کی خاطر صفر میں قرار دے دیا یہ رواج اسلام کے آنے تک جاری رہا یہاں تک کے یہ آیہ کریمہ نازل ہوئی ۔
ِانَّمَا النَّسیء ُ زِیادَة فِی الْکُفْرِ یُضَلُّ بِہِ الَّذینَ کَفَرُوا یُحِلُّونَہُ عاماً وَ یُحَرِّمُونَہُ عاماً لِیُواطِؤُا عِدَّةَ ما حَرَّمَ اللَّہُ فَیُحِلُّوا ما حَرَّمَ اللَّہُ زُیِّنَ لَہُمْ سُوء ُ أَعْمالِہِمْ وَ اللَّہُ لا یَہْدِی الْقَوْمَ الْکافِرینَ (37)توبہ
 محترم مہینوں میں تقدم و تاخر کفر میں ایک قسم کی زیادتی ہے جس کے ذریعہ کفار کو گمراہ کیا جاتا ہے کہ وہ ایک سال اسے حلال بنا لیتے ہیں اور دوسرے سال حرام قرار دے دیتے ہیں تاکہ اتنی تعداد برابر ہو جتنی خدا نے حرام کی اور حرام خدا بھی حلال ہو جائے
اسلام نے اگرچہ کفار کے مہینوں کو آگے پیچھے کرنے کی مذمت کی لیکن ان مہینوں کی حرمت کو باقی رکھتے ہوئے نہ صرف ان انہیں اہمیت دی بلکہ ان کی اہمیت میں اور بھی اضافہ کر دیا ۔
  بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ آئین ابراہیمی کے علاوہ ان مہینوں کی حرمت یہود و عیسائیوں کے یہاں بھی تھی  ”ذالک الدین القیم ” ممکن ہے اسی بات کی طرف اشارہ ہو یعنی پہلے ہی سے تمام ادیان میں ایک ثابت قانون کی حیثیت سے ان مہینوں میں جنگ و خوںریزی حرام ہو ۔
اسلام نے ان چار مہینوں میں جنگ کو حرام کر کے یہ واضح کیا ہے کہ اسلام امن و صلح کا مذہب ہے ۔
ماہ رجب انہیں ماہ ھای حرام میں سے ایک ہے جس کی بہت فضیلت ہے چنانچہ سید ابن طاووس اپنی کتاب ” اقبال” میں لکھتےہیں : کیا یہ درست ہے کہ ہم ماہ رجب میں گناہوں کے مرتکب ہو کر اس کی نافرمانی کر کے  خدا سے اعلان جنگ کریں؟! جبکہ اس مہینے میں مشرک اور بت پرست بھی جنگ سے گریز کیا کرتے تھے، لہذا کسی طرح یہ مناسب نہیں کہ اس مہینے میں معصیت خدا کرتے ہوئے ہم خدا سے جنگ کا اعلان کریں۔
چنانچہ اس مہینہ کی واقعی حرمت کا پاس و لحاظ تو اس وقت ہوگا جب ہم اس مہینہ میں برادر مومن کی حرمت کا بھی پاس و لحاظ رکھیں گے
یہی وجہ ہے کہ ہم کہہ سکتے ہیں اس مہینے کی حرمت کو مد نظر رکھتے ہوئے جہاں خدا سے لڑنے سے اجتناب کرنا چاہئے وہی مخلوق خدا کے ساتھ  جنگ سے پرہیز کرنے کی ضرورت ہے
ماہ رجب کو  «رجب الاَصَب» “یعنی رحمتوں کے نزول کا مہینہ” بھی کہا گیا ہے، نیز اس مہینے کو «رجب الاَصَم» بھی کہا جاتا ہے کیونکہ فضلیت کے اعتبار سے دوسرے مہینوں کی نسبت رجب کا مہینہ بے نظیر ہے۔ (ثواب الاعمال، ص۵۴)
بعض روایتوں میں رجب کو «شهر اللّه» “اللہ کا مہینہ” کے عنوان سے یاد کیا گیا ہے جس طرح شعبان کو رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ اور رمضان المبارک کو امت محمدی[ص] کا مہینہ قرار دیا گیا ہے۔ (زاد المعاد، ص ۱۲)
رجب کے مبارک مہینے میں مسلسل منادی ندا دیتے ہوئے کہتا ہے: کوئی ہے جو توبہ کرے؟ کوئی ہے جو التماس کرے؟ کوئی ہے جو اپنے کئے پر ندامت کا اظہار کرے؟
ہماری ذمہ داری :
یوں تو ان ماہ ھای حرام میں سے ہر ایک کے مقابل ہم ذمہ دار ہیں کہ ان کی حرمت کا پاس و لحاظ رکھیں لیکن ماہ رجب اس لئیے بہت اہم ہے کہ یہ ماہ پہغمبر صلی اللہ علیہ والہ وسلم یعنی ماہ شعبان اور ماہ رحمت و برکت یعنی ماہ صیام کا مقدمہ ہے اس مہینہ کی خاص بات یہ ہے کہ اسی مہینہ میں انسانیت کے ایک عظیم انقلاب کی بنیاد پڑی اور اس میں حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم مبعوث بہ رسالت ہوئے  ۔ بعثت پیغمر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی مناسبت ہم سے تقاضا کرتی ہے کہ اس مہینہ میں اپنے وجود کو اس اخلاق پیغمبر سے آراستہ کریں جس کے لئیے آپکو خلق عظیم پر فائز قرار دیا گیا جس کے بل پر آپ نے کائنات کے سب سے عظیم انقلاب کی بنیاد ڈالی ۔اس مہینہ میں  ہمیں ہرگز زیب نہیں دیتا کہ اس ماہ رحمت و مغفرت کی عظمت کو ہم اپنی بے اعمالیوں و غفلتوں سے ہلکا کریں ، گرچہ یہ مہینہ عظیم ہے اور رب کائنات نے اسے عظمت دی ہے سو یہ عظیم رہے گا لیکن ہمیں بھی خیال رکھنے کی ضرورت ہے کہ ہم سے  کوئی ایسا عمل سرزد نہ ہو جو اس مہینہ کی حرمت کی پامالی کا سبب ہو ،
افسوس جس مہینہ کو عصر جہالت میں بھی احترام کی نظر سے دیکھا جاتا تھا اور جنگجویانہ جاہلی مزاج بھی ان مہینوں میں جنگ و جدال کو ترک کر دیتا تھا متمدن دنیا کا مسلمان اس مہینہ میں بھی ایک دوسرے کے خون کا پیاسہ ہے ، یمن پر مسلسل سعودی عرب کی جانب سے تباہ کن حملے ہو رہے ہیں ،شام کی سرزمین پر دہشت گردوں کو پیچھے کھدیڑ دینے کے کے باجود عالمی طاقتوں کی جانب سے درپردہ انکی پشت پناہی جاری ہے جس کے نتیجہ میں نہ جانے کتنے بے گناہوں کا قتل عام ہو رہا ہے ، اوران طاقتوں کے ساتھ بعض مسلم ممالک کھڑے نظر آ رہے ہیں جو خاص حرمت رکھنے والے مہینوں میں بھی نہ صرف اس مہینہ کی حرمت کے قائل نہیں بلکہ انسانی حرمت کابھی انہیں پاس و لحاظ نہیں ، کیا یہ ایک مارڈن و جدید جہالت نہیں کہ جہاں جاہلیت بھی مسلمانوں کے طرز عمل کو دیکھ کر شرمندہ ہے کہ جو قرآن انسانوں کی حرمت کی بات کرتا ہے جو شہر ہای حرام کی اہمیت کے پیش نظر انہیں اسلام میں اعتبار دیتے ہوئے انکی قداست کا احترام کرتا ہے اسی قرآن کے ماننے والے قرآنی احکامات و آیات کو بھلا کر استعمار کی چالوں میں یوں پھنسے نظر آتے ہیں عالمی سامراج انکی حماقتوں پر خندہ زن ہے اور وہ ایک ہر ایک پیغام امن کو بھلا کر ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہیں
کاش ان مسلمانوں کو اتنی ہی عقل آجاتی جتنی دور جاہلیت کے بدووں کو تھی کہ ان چار مہینوں پر تمام تر جھگڑوں کو بھلا کر وہ جنگ و خونریزی سے ہاتھ کھینچ لیتے تھے ، کیا آج کے دور کے نام نہاد ایک دوسرے کے خون کے پیاسے مسلمانوں کو دور جاہلیت سے زیادہ گیا گزرا کہا جائے تو کچھ غلط ہوگا ؟

تبصرے
Loading...