ماه مبارک رمضان کا پيام اعظم

ماہ مبارک رمضان کي اتني ہي زيادہ عظمت و فضيلت ہے کہ انسان اسے بيان کرنے سے قاصر ہے کيونکہ يہ مہينہ خدا کا مہينہ ہے جس طرح ماہ رجب ماہ ولايت (اميرالمومنين ) اور ماہ شعبان ماہ رسالت (رسول اکرم (ص)) ہے اسي طرح سے يہ بابرکت مہينہ بھي ماہ خدا وند عالم ہے جس کي عظمتوں کو ہمارا سلام ہو لہذا اگر کو ئي اسميں داخل ہو نا چاہے تو سب سے پہلے درِولايت سے داخل ہو -اور انسان کے اعمال کي قبوليت بغير ولايت اہلبيت عليہم السلام ميسر ہي نہيں ہے ! اس لئے ضروري ہے کہ انسان عقل سليم سے کام لے اور اس ماہ ميں خدا و رسول (ص) کے ساتھ ساتھ اہلبيت اطہار کي ولايت سے بھي متمسک ہو جا ئے تا کہ اس ميں تزکيہ نفس کي خوي اور خدا شناسي کا شعور اور دعا کرنے کا سليقہ پيدا ہو سکے –

ہم نے ماہ مبارک رمضان ميں شائع ہو نے والے اکثر رسالوں کو ديکھا ہے ان ميں مضامين تو بڑے عمدہ عمدہ شائع ہوا کرتے ہيں ليکن ان ميں دعا وغيرہ کي کمي رہتي ہے لہذا ناچيز نے اس مختصر سے نوشتہ ميں ماہ مبارک رمضان کے مشترک اعمال، دعا وغيرہ عربي عبارات کے ساتھ آپ روزہ داروں کي خدمت ميں پيش کيا تا کہ آپ قرآن و نماز کے ساتھ ساتھ    دعاۆ ں سے بھي کسب فيض حاصل کريں اور اپنے قلوب کو  دعاۆں  کے ذريعہ جلا بخشيں –

دعا کا معني :ارباب لغت نے يوں بيان کيا ہے کہ” دعا” يعني: کسي کو صدا دينا وکسي کو پکارنا -يہ لغوي معني ہے ليکن اصطلاح ميں يہ ايسي شئي کا نام ہے جو انسان اور خدا کے درميان کا ايک وسيلہ ہے انسان راز و نياز کے ذريعہ ہي اپنے معبود حقيقي کي لقاء کو حاصل کرتا ہے روايت ميں ہے کہ رسول اکرم (ص) کے ارد گرد اصحاب جمع تھے ايک دفعہ رسول اسلام (ص) اصحاب کي طرف ر خ کر کے فرماتے ہيں کہ ”کيا ميں تمہيں ايک ايسے اسلحہ کي معرفي نہ کرو ںجو تمہيں تمہارے دشمن سے محفوظ رکھے گا اور تمہارے رزق ميں کشادگي کا سبب بنے گا ؟ آپ (ص) کي بزم ميں جمع شدہ اصحاب نے عرض کيا کيوں نہيں آپ ضرور ہميں اس کي رہنمائي فرما ئيں !پس رسول اکرم (ص) نے فرما يا کہ ”شب و  روز تم اپنے پروردگار کي تسبيح کرو اور اس کا نام لو اور دعا کرو کيونکہ دعا مومن کا اسلحہ ہے ”فان سلاح المومن الدعا ”(اصول کافي جلد 2 باب الدعا ح3)

دعا انسان کو باطني اور روحي توانا ئي عطا کرتا ہے قرآن مجيد ميں ہے کہ خدا وند عالم نے رسول اسلام سے فرما يا کہ اگر تم چا ہتے ہو کہ اس بار سنگين کو پا يہ تکميل تک پہنچا دو تو دعا سے استفادہ کر و-

سورہ بقرہ کي 186 ويں آيت ميں ارشاد رب العزت ہے کہ ”و اذا سالک عبادي عنّي فاني قريب اجيب دعوةالدّاع اذا دعان فليستجيبوالي وليۆمنوا بي لعلھم يرشدون -”اور اے پيغمبر ! اگر ميرے بندے تم سے ميرے بارے ميں سوال کريں تو ميں ان سے قريب ہوں – پکارنے والے کي آواز سنتا ہوں جب بھي وہ پکارتا ہے لہذا مجھ سے طلب قبوليت کريں اور مجھ ہي پر ايمان واعتماد رکھيں کہ شايد اس طرح راہ راست پر آجائيں –

حضرت ا مام جعفر صادق عليہ السلام نے فرمايا کہ”تين چيزيں ايسي ہيں جو انسان کو ضرر نہيں پہنچا تي ہيں:

1-سختي اور پريشاني کي حالت ميںدعا-

2-گناہ کے وقت استغفار –

3-نعمت ملنے کے وقت خدا وند عالم کا شکر -(امالي شيخ طوسي صفحہ ٢ 7 بحار الانوار جلد 9 صفحہ 289)

رسول اکرم (ص) نے فرمايا:”انّ عاجز الناس من عجز عن الدعا -””يعني :عاجزترين شخص وہ ہے جو جو دعا کرنے سے عاجز ہو ! (حوالہ سابقہ صفحہ 87 و صفحہ 291)

سواکرنے والوں نے امام علي بن ابيطالب عليہم السلام سے سوال کيا کہ ”وہ کون سا کلام ہے جو خدا وندا عالم کے نزديک سب سے افضل ہے ؟ آنحضرت (ص) نے فرمايا کہ زيادہ سے زيادہ خدا وندعالم کو ياد کرنا ،گريہ وزاري کرنا اور اسکي بارگاہ ميں زيادہ سے زيادہ اسکي بارگاہ ميں دعا کرنا -(امالي صدوق صفحہ 237 بحار الانوار جلد ٩  صفحہ 29 )

رسول اکرم (ص) نے فرمايا کہ ”ما من شيئٍ اکرم علي اللّٰہ تعالي من الدعا ””يعني :خدا وند عالم کے نزديک دعا سے بہتر کو ئي شئي ہي نہيں ہے -” اگر انسان اس ماہ مبارک ميں ان احاديث کو پيش نظر رکھتے ہو ئے خدا وند عالم کي بارگاہ ميں دعا کرے تو اسکے آثار و برکات ايسے ہيں کہ يقيناً انسان کے وجود سے نور کي شعائيں پھوٹ پڑيں گي اور انسان کے اندر خدا سے راز و نياز کا سليقہ پيدا ہوگا اور جب يہ سليقہ پيدا ہوگا تو اسے خود کي شناخت ہو گي اور جب وہ اپنے آپ کو پہچانے گا تو اسے خدا کي شناخت کے ساتھ ساتھ اسکي معرفت بھي حاصل ہو گي اور جب اسے اس معبود حقيقي کي معرفت حاصل ہو جا ئيگي تو اس کے اندر تواضع کي خوي پيدا ہو گي اور جب وہ تواضع کے لباس ميں ملبوس ہو گا تو اس کے دل ميں ولايت خدا اور ولايت رسول (ص) کے ساتھ ساتھ ولايت اہلبيت سے سرشار ہو جا ئيگا اور جب وہ ان تمام ولايت کے سر چشموں سے مستفيد ہو گا تو اس کادل تمام ہمّ و غم ،شرک ،نفاق ، معاصيت ، بغض و حسد ، کينہ ، تعصب اور گناہ اور تمام بيماريوں سے پاک ہو کر اس حديث کا مصداق ہو کر قلب ِ سليم کا مصداق ہو جا ئيگا.

امام جعفر صادق عليہ السلام نے فرمايا کہ”القلب حرم اللّٰہ فلا تسکن حرم اللّٰہ غير اللّٰہ ” يعني! آپ نے فرمايا کہ ”قلب حرم ِخدا ہے لہذا اس ميں کسي غير خدا کو جگہ نہ دو- ”(بحار الانوار جلد 27 باب حب اللہ .)

لہذا انسان اس ماہ ميں زيادہ سے زيادہ نماز ،قرآن اور دعا کے ذريعہ خدا کے در پر دق الباب کرے کيونکہ قرآن مجيد ميں خود خدا تبارک و تعاليٰ نے فرمايا : ”الابذکر اللّٰہ تطمئنُّ القلوب ”يعني آگاہ ہو جاۆ ياد خدا کے ذريعہ دلوں کو سکون و اطمينان ميسر ہوتا ہے -” (سورہء رعد 28)

 

تبصرے
Loading...