قیامِ حسینی کی پھوٹتی کرنیں

اِنْ کانَ دین محمدٍ لمْ یستقمْ          اِلَّا بِقتلی فیا سیوف خُذینی

”اگر دین محمد ۖ !

کی بقا ء میرے قتل کے بغیر ممکن نہیں

، تو اے تلوارو ! آگے بڑھو اور مجھ (حسین  ) کو قتل کرڈالو”

گزشتہ کی تاریخ ایسے حالات و واقعات کو معکوس کرتی ہے جس پر غور و خوض کرنے کے بعد انسان متحیر ہو کر رہ جا تا ہے ابھی حضرت ختمی مرتبت  ۖ کی شہادت کو پورے ٥٠ سال بھی نہیں گزرے تھے کہ ایسی منزل آگئی کے جو لوگ حامیٔ اسلام سمجھے جاتے تھے وہ اپنے عہدو پیمان سے پھر گئے اور اپنے آبائی مذہب” کفر و الحاد” کی طرف پلٹنے لگے ،اپنی جہالت کے نئے نئے طریقے ایجاد و رائج کرنے لگے، حرام خدا کو حلال اور حلال خدا کو حرام سمجھ بیٹھے ، بے دینی کا رواج قائم کیا جانے لگا ،قوم پرستی ہونے لگی ، اسلام مبین کے ساتھ کھلواڑ ہونے لگا ! خدا و رسول ۖ پر افترا پردازی ہونے لگی ، قومی عصبیت کوابھارا جانے لگا،کتاب خدا کے عہد و پیمان کو توڑا جانے لگا ، لوگ تلواروں کو کاندھوں پر اٹھائے پھر نے لگے ، انسان برائیوں کو نیکیوں پر ترجیح دینے لگا،لوگوں نے افتراق پر اتحاد اور اتحاد پر افتراق کر لیا ، فتنہ و فساد اور ظلم و ستم کی آندھیاں چلنے لگیں ، صاحبان ِ علم و حکمت کو ذلیل سمجھا جانے لگا حق کی حمایت کرنے والوں کے خون سے ہولی کھیلی جانے لگی، ہر سو جہالت کا معرفت پر غلبہ ،بد سرشتی اور بد اخلاقی کی شدت، کسی میں اظہار حق کی جرأت نہیں! آدمیت دم توڑ رہی تھی ، انسانیت سسک رہی تھی، قریب تھا کہ وہ مشن جس کی خاطر ختم رُسل حضرت محمد مصطفیۖ نے ہزارہا زحمتیں برداشت کیں تھیں اور وہ شجرِ اسلام جسے آپۖ نے اپنے خونِ جگر سے سینچا تھا وہ مٹ جا ئے ! اس لیے کہ کل لوگوں کی برتری کا معیار تنہا تقوائے الہی تھا لیکن آج ان کی بزرگی و برتری زرِّین لباس ظلم و فساد ،بے حیائی ،برائی اور حرام خوری کو قرار دیا جا نے لگا !

ہوائے نفس عبودیت و بندگی پر غالب آچکی تھی سامراجیت عروج پر تھی … بنی امیہ نے اسلام کے خلاف علم ِبغاوت بلند کردیا تھا ، اس کے حدود کو توڑ کر اس کے عہد و پیمان کو پارہ پارہ کر دیاتھا ! اسلام نبوی ۖ پر اسلام اموی کا لبادہ ڈال دیا گیا تھا ! ظلم و بربریت، درندگی و بہیمیت ، نکبت و رسوائی لوگوںکا مقدر بن چکی تھی ، وہ اسلام میں جاہلیت کے احکام نافذ کرنے لگے تھے، کفر و شرک اور نفاق جیسی موذی مرض کو ہوا دینے لگے تھے ہرطرف ایک دہشت و خوف کا عالم تھا ایسا لگ رہا تھا جیسے زمین و آسمان سب کچھ متغیّر ہو کر رہ گیا ہو! تاریخ کہتی ہے کہ: ابوسفیان ( ملعو ن ) سید الشہدا ء حضرت حمزہ کی قبر پر ٹھوکر مار کر تمسخر و استہزاء آمیز لہجہ میں کہتا ہے کہ : ”ان الامر الذی اجتلدنا علیہ بالسیف امسیٰ فی ید غلمانناالیوم یتلعبون بہ ” اسلام کا زمام اب ہمارے ہاتھ میں ہے وہ حکومت (جس کے ہم اور ہمارے لوگ متمنی تھے ) جسے ہم نیزہ و تلوار کے ذریعے تم سے حاصل نہ کر پا ئے تھے اور تم نے ہمیں صدر اسلام میں بدر و احد جیسی جنگوں میں ذلیل و رسوا کیا تھا آج وہ ہمارے بچوں کے ہاتھ میں آگئی ! اٹھو اے بنی ہاشم کے بزرگو!دیکھو وہ کس طرح اس سے کھیل رہے ہیں . . .  ”تلقَّفوھا تلقَّفَ الکرہ”.جیسے گیند بازی میں ایک دوسرے کو پاس دیتے ہیں اسی طرح یہ بھی حکومت کو اپنے بعد ایک دوسرے کے سپرد کر رہے ہیں ! ”ان الامر،امر عالمیة (ولکن)و الملک ،ملک الجاہلیة۔’ ‘ یہ صحیح ہے کہ حکومت ، حکومت اسلامی ہے لیکن بادشاہت جاہلیت کی ہے” فجعل اوتادا الارض بنی امیة۔”پس فوراً(اے عثمان ! تو ) تمام حکومتی مسائل و مقامات پر بنی امیہ کے افراد کو جاگزین کردے ،دیر نہ کر کہ کہیں! یہ آئی ہو ئی حکومت ہمارے ہاتھ سے نکل نہ جا ئے ! (علی  و شہر بی آرمان ص٢٦)

جب ان کے نامۂ اعمال کا ایک ایک حرف ناقابل ِبرداشت بوجھ بن گیا اور نظامِ دین و ثقافت جہالت کا شکار بننے لگا تو محسنِ انسانیت ، وارث ِ انبیاء  ، فرزند رسولۖ ،حسین بن علی  نے اپنے طرزِ عمل سے ان سارے فتنوں کو ایسا خاموش کردیا کہ بانی شر کی جھوٹی انا کابُت پاش پاش ہو کر رہ گیا ، ان کے تمام اہداف و مقاصد کو نقش بر آب کر دیا ،اپنی سلجھی ہو ئی منطق و زبان اور مہذب عادات و اطوار سے انھیں اور ان کے قوم و قبیلہ کو دنیا کے سامنے ایسا شرمندہ کر دیا کہ دنیا کے سارے لوگ، وہ چاہے کسی قوم و قبیلہ سے وابستہ ہوں وہ آج بھی ظلم وستم سے بیزاری کا اظہار کرتے اورشہید انسانیت نواسۂ رسولۖ حسین بن علی  کی باعظمت چوکھٹ پر اپنی جبیں جھکاتے نظر آتے ہیں ۔

محافظِ اسلام و قرآن حسین بن علی  نے اپنے قیام سے پہلے لوگوں کو بنی امیہ کی سازشوں سے آشنا کیا پھر یزید بن معاویہ ملعون کی بیعت نہ کرنے کی وجہ بتاتے ہو ئے دنیا کے سامنے یزید بن معاویہ ملعون  کے متنفر وجود کو پہچنوا کے ابنائے اسلام کی ضمیروں کو جھنجوڑ کر رکھ دیا پھر آواز دی کہ اے لوگو!مجھے اور یزید فاسق و فاجر کو پہچانو میں! کہاں صاحب لولاک کا بیٹا اور کہاں یابن الطلقائ،کہاں راکب دوش رسول ۖ اور کہاں لاعب کلوب ،کہاں فرزند دنیٰ فتدلّٰیاور کہاں فسق و فجور کا پروندہ،کہاں صاحب حکمت و فراست اور کہاں حامل خباثت و کثافت ، کہا ںآغوش ِ رسالتۖ میں پرورش پانے والا!اور کہاں شام کے اندھیروں کا پروردہ ! ”انا اہل بیت النبوة و معدن الرسالة و مختلف الملائکة و بنا فتح اللّٰہ و بنا ختم اللّٰہ ۔ہم خاندان نبوت و معدن رسالت ہیں ہمارا گھر فرشتوں کے آمدو رفت کی جگہ ہے ہم سے خدا کا فیض شروع ہوتا ہے اور ہم ہی پر اس کا فیض ختم ہوتاہے ۔

”ایھا الناس !اَلاتَرَونَ اَنّ الحَقَّ لَا یُعْمَلُ بِہِ وَاَنَّ البَاطِلَ لاَیُتَناھیٰ عنہُ۔…”اے لوگو! کیا تم یہ نہیں دیکھتے کہ کس طرح حق کو روپوش کیا جا رہا ہے اور نہ ہی باطل پر عمل سے لوگوں کو روکا جا رہا ہے !؟

ایسے حالات میں اے اہل ایمان آؤ! راہ خدا میں شہادت اور اس کی ملاقات کے لیے آمادہ ہو جا ؤ۔

یا درکھو! ابوسفیان کا پوتا معاویہ کا فرزند یزید ملعون !رجل فاسق ، شارب الخمر ،قاتل النفس المحرمة ،ملعن بالفسق و مثلی لایبایع مثلہ۔ ..”ایسا شخص ہے جو شراب کا پینے والا ، لوگوں کو بے گناہ قتل کرنے والا ،کھلے عام فسق وفجور کو انجام دینے والا، مجھ جیسا یزید ملعون جیسوں کی بیعت ہرگز نہیں کرسکتا ! ”اناللّٰہ و انا الیہ راجعون و علی الاسلام السلام اذ قد بلیت الامة براع مثل یزید و لقد سمعت جد یّ رسول اللّٰہ ۖ یقول : الخلافة محرمة علی آل ابی سفیان ۔” ”اناللہ و انا الیہ راجعون۔(ایسے ) اسلام پرفاتحہ پڑھ دینا چاہیے جس کی زمامداری یزید جیسے (فاسق و فاجر شخص ) کے ہاتھوں میں ہو! میں نے اپنے جد امجد (حضرت رسالتمآب ۖ)  سے سنا ہے کہ آپ فرمایا کرتے تھے کہ : آل ابی سفیان پر خلافت حرام ہے ۔” (لہوف ص١١،بحار الانوار ج٤٤ ص٣٢٥)

یہی وہ آگہی و روشنی تھی جس کی قندیلیں کربلا کی تاریکی میں روشن ہوئیں جس کے سہارے توابین؛ مکہ و مدینہ ، کوفہ ، بصرہ اورشام و…سے اٹھے اور بنی امیہ کی سامراجیت کی اینٹ سے اینٹ بجا کر رکھدی۔اور خود کے کربلا میں نہ ہونے کا افسوس ظاہر کرتے ہو ئے یہ اعلان کیا کہ:

”اِنْ کا ن یجبک بدنی عند استغاثتِک فقد اجابک قلبی و سمعی و بصری و رأیی و ھوایَ…”اے محافظ دین ،اے مقام عصمت ،اے حسین بن علی  ، اے فرزند رسولۖ!اگر چہ ہم کربلا میں نہ تھے اور اس روز عظیم میں حضور یابی کی لیاقت نہیں رکھتے تھے لیکن ہم ہر جگہ ہر مقام پر اپنے دل و جان اور ناچیز مال و منال سے کربلا والوں اور آپ کی یاد میں اشک بہایا کرتے ہیں اور آپ کی عزاداری کو منعقد کرتے ہیں ،ہم آپ کے دشمنوں کے دشمن ، آپ کے دوستوں کے دوست اور آپ کے راستوں کی ہدایت کرنے والوں کے ہمراہ ہیں۔(المزار شہید صفحہ١٤٤ بحار الانوار جلد٩٨صفحہ١٦٩)

السلام علیک یا وارث اٰدم صفوة اللّٰہ ،السلام علیک یا وارث نوحٍ نبی اللّٰہ،السلام علیک یا وارث ابراہیم خلیل اللّٰہ…السلام علیک یا وارث امیر المؤمنین ولی اللّٰہ ، السلام علیک یاابن محمدٍ  المصطفیٰ۔

وارثِ آدم  ،تجھے کل آدمیت کا سلام        وارثِ کل انبیا،تجھ کو نبوت کا سلام

وارثِ پیغمبرِ اسلامۖ ،امت کا سلام             والی زین العبا ،روح ِعبادت کا سلام

سجدہ و سجدہ گزارِ ارضِ مقتل السلام     السلام اے کشتۂ جورِ مسلسل السلام

اے بشریت !کو آزادی ٔ فکر کا شعور عطا کرنے والے، اے چراغ ہدایت ،اے کشتی نجات ، اے حسین بن علی  !آپ  کی عظمتوں کو ہمارا سلام ہو اور ہماری جانیں آپ کے قدموں پر نثار ہوں کہ آپ نے کربلاکے میدان میں صرف اسلام و قرآن کو ہی نہیں بلکہ پوری انسانیت کو جلا بخشی ، آپ پرہمارا سلام ہو اے مسیحائے انسانیت !کہ آپ نے انسانیت کو جینے کا سلیقہ سکھا دیا اور کربلا کی درسگاہ سے لوگوں کو وہ لافانی پیغام دیا کہ آج تک وہ لوگوں کے ضمیر کو جھنجوڑ رہا ہے ۔ آپ  نے یک و تنہا مختصر سے وقت میں وہ کارنامے انجام دیئے کہ جس کی نظیر دنیا پیش کرنے سے قاصر ہے

کسی سے اب کو ئی بیعت طلب نہیں کرتا

کہ اہل تخت کے ذہنوں میں ڈر حسین  کا ہے

حسین  اس سورما کا نام ہے جس نے ٦١ہجری میں ظالم و جابر اموی حکومت کا تخت و تاج جوتے کی نوک پرایسا پھینکا کہ دنیا حیرت سے انگشت بدنداں ہو کر رہ گئی اور آج تک درندہ صفت انسان ،یزید ملعون اور اس کے طریقۂ کار کو اپنانے والی (امریکی ، اسرائیلی وغیرہ ) حکومتیں حسین بن علی علیہ السلام کی پیروی کرنے والوںسے خوف زدہ اورحراساں ہیں!

ابو عبد اللہ، حسین بن علی بن ابی طالب  ، شیعوں کے تیسرے امام ، ١٤ معصوموں کی پانچویں کڑی ، علی بن ابیطالب  کے دوسرے فرزند جن کی ولادت باسعادت ٣شعبان المعظم  ٤  ھ کو مدینہ منورہ میں ہو ئی ۔ آپ اپنے جد رسول اکرم ۖ کی آغوش میں پروان چڑھے اور ٧  سال رسول ۖ کے ساتھ رہے۔اور ٣٧ سال کاعرصہ اپنے بابا(علی مرتضیٰ ) اور بقیہ زندگی اپنے بھا ئی (امام حسن مجتبیٰ   ) کے ساتھ گذاری۔آپ  کی کنیت ابو عبدا للہ اور مشہور ترین لقب سید الشہدا ء ہے ۔

آپ  کا قیام یزید بن معاویہ کے خلاف تھا جس کی وجہ یہ تھی کہ یزید بن معاویہ جیسا فاجر و فاسق، ظالم و جابر شیطان صفت انسان بر سر عام، خداو رسول ۖاور قرآن کا مذاق اڑا رہا تھااور خود کوخلیفہ ٔ رسول ثابت کرنے کی غرض سے نمایندہ الہی فرزند رسول حضرت امام حسین علیہ السلام سے تائید و تصدیق کی بھیک مانگ رہا تھا !

یہ بات تاریخ کی اوراق گردانی سے اہل علم کے لئے ثابت ہو جا تی ہے کہ آل ابی سفیان کی حکومت کا اصل ہدف و مقصد اسلام کو مٹا دینا اور قوم و ملت کی گردن پر مسلط ہونا تھا ۔ جیساکہ یزید بے حیا ء کا یہ کہنااس بات کی روشن دلیل اس کا یہ معروف شعر ہے :

لعبت ھاشم بالملک فلا         خبر جاء و لا وحی نزل

”یہ سب بنی ہاشم کا ڈھونگ اور ایک کھیل تماشہ تھا !کون کہتا ہے کہ ! رسول پر ملائکہ نازل ہوا کرتے تھے اور ان پر وحی نازل ہوا کرتی تھی …!”

صاحبانِ علم کے لئے یہ امر روز روشن کی طرح واضح ہے کہ جب معاویہ ابن ابی سفیان نے ٥٦ھ میں یہ قصد کر لیا کہ اپنی جگہ اپنے بیٹے یزید کو اپنی مسند پر جایگزین کرے تو اپنی زندگی ہی میں اسے اس بات سے روشناس کروایا کہ اے یزید! میرے بعد لوگ تیری بیعت تو کر لیں گے مگر کچھ لوگ ہیں جو تجھ جیسے کے ہاتھ پر بیعت کرنا پسند نہیں کریں گے لہذا ان لوگوں(فرزند رسول ۖ امام حسین علیہ السلام ،عبد اللہ بن زبیر اور عبد اللہ بن عمر ) سے ہو شیار رہنا اور کسی بھی طرح ان سے بیعت لے لینا ! لیکن اسے کیا معلوم کہ!

حسین لشکرِ باطل کا غم نہیں کرتا

حسین عزم ہے،ماتھے کو خم نہیں کرتا

حالانکہ معاویہ نے اپنی زندگی میں ہی ان لوگوں کو یزید کی بیعت کی پیش کش کی تھی لیکن ا ن سب نے اس کا منفی جواب دیا تھا ! اور جب معاویہ ٦٠ہجری میں مرا ہے تو یزید ملعون نے اس کی وصیت پر عمل کرتے ہو ئے کچھ لوگوں سے اپنی خلافت کی بیعت طلب کی اورحاکم مدینہ ولید بن عتبہ بن ابی سفیان کے پاس خط ارسال کیا کہ ان لوگوں سے جلد سے جلد بیعت طلب کی جا ئے! مگر ولید اس امر کو انجام نہ دے سکا اور ان اشخاص نے مکہ جانے کا ارادہ کر لیا کیونکہ سرزمین مکہ قرآن کی رو سے وہ جگہ ہے جہاں جنگ جدال حرام ہے اور جو وہاں پناہ گزین ہو جا ئے اس کے لئے امن و امان ہے ۔

تاریخ کے مطابق امام عالی مقام نے ٢٨ رجب المرجب بروز یکشنبہ ٦١ھ کو اپنے اہل و عیال کے ہمراہ بجز محمد حنفیہ کے مدینہ منورہ سے کوچ کیا اور جب لوگوں نے آپ  سے مدینہ کو خیرباد کرنے کی وجہ دریافت کی تو فرمایا :

”خطّ الموت علی ولد آدم مخطّہَ القلادة علی جید الفتاة و ما اولھنی الی اسلافی اشتیاق یعقوب الی یوسف …من کان فینا باذلا مھجتہ موطنا علی لقاء اللّٰہ نفسہ فلیر حل معنا فانی راحل مصبحا ان شاء اللّٰہ ۔”

 

نبی آدم! کے لئے موت کا نوشتہ یوں آویزاں ہے جیسے دوشیزہ کے گلے میں گلوبند ہو تا ہے ۔ مجھے اپنے بزرگوں سے ملنے کا وہی اشتیاق ہے جو یعقوب کو یوسف  سے ملنے کا تھا  میری قتل گاہ معین ہو چکی ہے میں وہاں (ضرور) پہنچوں گا ، گو یا میں بیابانوں کے درندوں(کوفہ کے فوجیوں ) کو اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا ہوں کہ وہ کربلا کی سرزمین پر میرے جسم کے ٹکڑے ٹکڑے کر رہے ہیں . . . تمہیں معلوم ہو نا چاہیئے کہ تم میں سے جو شخص بھی ہماری راہ میں اپنی جان کو قربان کرنے کا جذبہ رکھتا ہے وہ کل صبح ہمارے ساتھ سفر کے لئے تیا ر   ہو جا ئے ۔” (سخنان حسین بن علی  از مدینہ تا کربلا صفحہ ٥٧)

یہ یاد رہے!” انی لم اخرج اشراًو لا بطراً و لا مفسداً و لا ظالماً و انما خرجت لطلب الاصلاح فی امة جدی صلی اللہ علیہ و آلہ ارید ان آمر بالمعروف و انھی عن المنکر و اسیر بسیرة جدی و ابی علی بن ابی طالب ۔” میںکسی تفریح، بڑا بننے، فتنہ و فساد اور ظلم و ستم کے لئے اپنے وطن کو نہیں چھوڑ رہا ہوں بلکہ میرے مدینے سے نکلنے کا مقصد اپنے جد رسول ۖ کی امت کی اصلاح ہے، میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرنا چاہتا ہوں ،اور چاہتا ہوں کہ اپنے نانا اور اپنے بابا علی بن ابی طالب علیہم السلام کی سیرت پر عمل پیراہوں تھی۔” (بحار الانوار جلد ٤٤ صفحہ ٣٢٩صفحہ ٣٣٤)

تاریخ کہتی ہے کہ امام حسین علیہ السلام ٢٨رجب ٦٠ھ کومدینہ سے چلے اور تیسرے یا چوتھے روز مع اہل و عیال کے مکہ پہنچے سر زمین وحی نے بڑھ کر آپ  کے قدموں کا بوسہ لیا اہلِ مکہ نے آپ  کا استقبال کیا اور یہ خبر جب کو فہ پہنچی تو لوگ سلیمان بن صرد خزاعی کے گھر یکجا ہو ئے اور ایک خط امام عالی مقام کو لکھا جس میں مرگ ِ معاویہ کاتذکرہ کرتے ہوئے یہ لکھا کہ:یہ خط حسین بن علی  کوان کے مؤمنین و مسلمین شیعہ کی جانب سے موصول ہو،اے فرزند رسول ۖ !،سارے لوگ آپ کے انتظار میں ہیںہم بغیر امام و رہبر کے ہیں جس کی وجہ یہ ہے کہ لوگوں میں انتشار ہے شاید آپ کے کوفہ تشریف لانے سے خدا انہیں متحد کر دے ! پس آپ جلدی کریں اور جلد سے جلد ہماری خبر لیں! والسلام۔(بحار الانوار جلد٤٤صفحہ ٣٣٤)

اس کے بعد متعدد خط امام  کی خدمت میں ارسال کئے گئے تو امام  نے اپنے بھا ئی جناب مسلم بن عقیل  کو یہ کہہ کر وہاں بھیجا کہ آپ کوفہ جا ئیں اور وہاں کے حالات سے ہمیں جلد سے جلدبا خبر کریں ۔

جناب مسلم بن عقیل علیہ السلام ٥ شوال ٦٠ھ کو کوفہ پہنچے، ابتدا میں کوفہ کے رہنے والوںنے ان کا پرزوراستقبال کیا اور ان کے ہاتھ پر ١٨٠٠٠ لوگوں نے بیعت بھی کی لیکن جیسے ہی ابن زیاد نے کو فہ میں  ا پنا قدم رکھا دیکھتے ہی دیکھتے کوفہ کی فضاء ایسی بدلی کہ ہر طرف حاکم شام یزید بن معاویہ کے ظلم و جور کا خوف ودہشت چھانے لگالوگ آپ  سے کٹتے چلے گئے یہاں تک کہ لوگوں نے موت کے خوف سے حضرت مسلم بن عقیل  کویک و تنہا چھوڑ دیا ! پھر اس کے بعد وہاں جو دہشت گردی کی تاریخ رقم کی وہ ناقابل بیان ہے۔ دوست دارانِ اہل بیت پر ظلم و ستم کا شروع ہو نا ، ہانی بن عروة کا قتل ہو نا …یہ تمام چیزیں لوگوں کے لیے خوف وحشت کا سبب بن گئیں !اور جولوگ جناب مسلم بن عقیل کے ساتھ حسینی   تحریک و انقلاب میں سرگرمِ عمل تھے نتیجتاً وہ ان سے جدا ہو تے چلے گئے سر انجام حضرت مسلم  ٨ یا ٩ ذی الحجہ ٦٠ھ کو گرفتار کر لئے گئے اور کوفہ کے دار الامارة کی بلندیوں پر تیغ جفا سے شہید کر دئے گئے ! یہ ناحق خون وہ رنگ لایا کہ دنیا یزید اور اس کے سفاک کار کنان کے ظلم و بربریت جبرو بہیمیت سے ایسی با خبر ہو ئی کہ٦٠ھ سے آج١٤٣٣ھ تک لوگ ظالم و جابر، فاسق و فاجر متکبرین و مستکبرین افراد کے خلاف اور ان کی حکومت کے مد مقابل مظاہرے اور صدائے احتجاج بلند کر کے یہ ثابت کر رہے ہیں کہ

”ظلم پھر ظلم ہے بڑھتا ہے تو گھٹ جا تا ہے !”

تاریخ کربلا ایک ایسی تاریخ ہے جو نہ فقط انسان کے عواطف و احساسات کو ابھارتی ہے کہ ایک دن میں ٧٢ لوگوں نے راہ خدا میں خود کو قربان کردیا اور جام شہادت نوش کر گئے ، نہیں! بلکہ یہ ہمیں ایثار و قربانی، خدا کی راہ میں شہادت طلبی ، ظالم سے برائت فاسقین سے جنگ ، حق کی حمایت ،صبر و استقامت ، دین کا احیاء ،نماز کا قیام اور امر بہ معروف و نہی عن المنکر و… کا درس دیتی ہے ۔

حضرت امام حسین علیہ السلام کے قیام کا فلسفہ واقعاً بڑا پر شکوہ ہے کہ اگر اس پر بحث کی جا ئے تو ہزاروں روز و شب گذر جا ئیں لاکھوں اور کروڑوں اوراق قلم و دوات کے سپرد ہوجائیںپھر بھی اس کا بیان ادھورا رہ جا ئے گا۔

محققین و مؤلفین کے بیان کردہ آراء و افکار اور نظریات کے مطابق جو نتیجہ نکلتا ہے وہ یہ ہے کہ وارثِ شیطان (یزید ملعون ) کا خواب شرمندۂ تعبیر ہوکر رہ گیا یزید ملعون نے یہ سوچا تھا کہ ہم بھی اپنے خبیث النفس باپ معاویہ ا بن سفیان کی طرح (کہ جیسے اس نے امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام سے صلح کی درخواست کی اور جب صلح ہو ئی تو اپنے وعدہ سے مکر گیااور ان کے لئے قتل کا زمینہ فراہم کردیا !) امام حسین علیہ السلام سے بیعت لیکر انہیں دھوکہ سے قتل کر ڈالیں ! لیکن اس اوباش ، شارب الخمر کویہ کہاں معلوم تھاکہ وہ زمانہ اور تھا جس میں صلح کی مصلحت سمجھ کر امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام نے صلح کر لی تھی یہ دور صلح کا نہیں بلکہ قیام باالسیف کا ہے۔ لہذا امام حسین علیہ السلام نے اپنے ابتدا ئے قیام سے آخر وقت تک جہاں سے بھی گذرے لوگوں کو اپنے قیام کا سبب بتا یا کہ یہ دو بادشاہوں کی جنگ نہیں بلکہ آج اسلام کا مقابلہ کفر سے ہے ۔

”الاترون الی الحق لایعمل بہ و الی الباطل لا یتناہی بہ …..فان السنة قد امیت فان تجیبوا دعوتی و تطیعوا امری اھدکم سبیل الرشاد…”کیا تم نہیں دیکھتے !کہ حق پر عمل نہیں کیا جا رہا ہے اور باطل پر عمل سے لوگوں کو روکا نہیں جا رہا ہے ! مگر تم نہیں دیکھتے کہ کس طر ح سنت رسولۖ کوپامال کرکے اس کا مذاق اڑایا جا رہا ! اے لوگو!اے حق کی حمایت کرنے والواُٹھو! اور حق کی حمایت کرو ،آج حق و باطل کی جنگ ہے ،ہمارا قیام کفر و شر سے ہے ،آج ایک طرف فرزند رسول ۖ ہے تو دوسری طرف ابوسفیان کی خباثت کا نمونہ، میں فرزند علی  تمہیں حق کی حمایت اور اعلائے کلمة الحق کی دعوت دیتا ہوں آؤ اور سسکتی اور پسی ہو ئی انسانیت کو نجات دو اسلام دم توڑنے والا ہے اگر اسے یزید ملعون کے چنگل سے نہ نکالا گیا تو عنقریب اسلام کا خاتمہ ہو جا ئے گا ۔ہاں! اگر تم نے ہماری باتوں کی اجابت کی اور ہمارے دعوت پر لبیک کہا تو میں تمہیں راہ راست کی رہنمائی کروں گا ۔ (بحار الانوار جلد٤٤صفحہ ٣٣٩)

”انّی لا اری الموت الا سعادة و الحیاة مع الظالمین الا برماً”یقیناً!میں ان حالات میں موت کو سعادت سمجھتا ہوں اور مجبور ہو کر ظالموں کے ساتھ رہنا زندگی کی توہین سمجھتا ہوں ۔” ”کفیٰ بک ذلّا ان تعیش و ترعما۔””یہ ذلت تمہارے لیے کافی ہے کہ زندہ رہو اور تمہاری ناک رگڑدی  جا ئے! میں حسین بن علی  اس بات کو کبھی گوارا نہیں کر سکتا ،میں عزت کی زندگی کے لیے سر کٹا سکتا ہوں لیکن جس میں سر جھکانا پڑے وہ زندگی میرے لیے کو ئی معنی نہیں رکھتی ۔” (مقتل مطہری صفحہ ٢٥٠)

فکرِ حق سوز یہاں کاشت نہیں کر سکتی

کربلا تاج کو برداشت نہیں کر سکتی

علامہ شیخ محمد عبدہ مصری (شارحِ نہج البلاغہ ، صاحب تفسیر المنار ) فرماتے ہیں کہ: ”اگر دنیا میں کو ئی حکومت موجودہو جو احکام شریعت نافذکرتی ہو اور اس کے مقابلہ میں ایک ظالم و جائر حکومت ہو جو شریعت کو معطل کر رہی ہو تو ہر مسلمان پر واجب ہے کہ اس ظالم و جائر حکومت کے خلاف قیام کرے۔ چنانچہ امام حسین  نے اپنے و قت کے ظالم و جائر حاکم کے خلاف قیام کیا یہ ظالم اور جا ئر حاکم جو مکر و فریب کے ذریعہ مسلمانوں پر مسلط ہو کر حکومت کر رہا تھا یزید ابن معاویہ(لع) تھا ۔ خدا اس کو اور اس کے معاونوں کو ذلیل کرے ۔”(حق و باطل ایک تقابلی جائزہ صفحہ ٥٦)

لہذا حسین بن علی علیہ السلام اور آپ  کے بعد آپ کے نائبین ،راویانِ عاشورا حضرت امام سجاداور جناب زینب و ام کلثوم  نے بنی امیہ کو ایسا بے نقاب کر دیاکہ مراکز اسلامی (حجاز ،عراق اور شام ) جو اس وقت مسلمانوں کے ایک اہم مر اکز تھا : حجاز اپنے اندر مکہ و مدینہ کو شامل کئے ہو ئے تھا ،عراق کوفہ و بصرہ جیسے بڑے شہروں کا مرکز تھا اور شام سوریہ ، ارد ن، فلسطین و…کا مرکز تھا ایک خلفشار مچ گیا اور لوگ یزید بن معاویہ کے خلاف بھڑک اٹھے اور آپ  کی خبرِ شہادت جب ان شہروںمیں پہنچی تو لوگوں نے یزیدِفاسق کے خلاف آوازیں بلند کیں اور مختلف قیام وجود میں آئے ۔

آپ  کے ایک انقلاب نے سینکڑوں انقلاب برپا کر دیئے ہر طرف سے فضاء میں ”ھیھات من الذّ لة ” اور” یا لثارات الحسین  ”کی صدائیں گونجنے لگیں ! آپ  کی شہادت کے بعد سب سے پہلا ظلم و جبرکے خلاف ہو نے والا اسلامی انقلاب و قیام کوفہ کا انقلاب ہے پھر شام کا انقلاب اس کے بعد مدینہ و مکہ میں بہت سے قیام یزید فاسق و فاجر و….کے خلاف ہو ئے ۔

حسین عزم کو جب تابناک کرتا ہے         جلا کے خرمن باطل کو خاک کرتا ہے

حسین عزم ہے نمرود سے بغاوت کا        حسین سے نہ اٹھاناسوال بیعت کا

حسین سعی تجلی میں کامیاب ہوا

لہو میں ڈوب کے ابھرا تو آفتاب ہوا

یہ کہنا حق بجانب ہے کہ واقعۂ کربلا ٦١ھکے بعد تا ٦٣ہجری ،مکہ مکرمہ کی تاراجی اور واقعہ حرّہ و…کے بعدسلیمان بن صرد خزاعی،مسیب بن نجبہ ،عبد اللہ بن وال تیمی …. مختار بن عبیدہ ثقفی ، زید بن علی  اور ان کے فرزند یحییٰ  کا انقلاب نہ ہو تا تو بنی امیہ کے کارندے کرب و بلا میں ہونے والی تمام ظلم و ستم اور دہشت گردی کی تاریخ کویکسرے روپوش کر دیتے۔

توابین کامیاب ہو ئے اوراپنی تحریک کے ذریعے مسلمانانِ عالم کو بیدارکیا ، دشمنان اہلبیت کو دنیا کے سامنے ذلیل خوار کیا ، اہلبیت  کے حق کا دفاع کیا (الرضامن آل محمدۖ ) قرآن و سنت کی پیروی کی(انا ندعوا کم الی کتاب اللّٰہ و سنہ نبیہ و الطلب بدماء اہل بیتہ ) امام حسین  کے قاتلوں سے انتقام لیا (یا لثارات الحسین ) اپنی کوتاہی پر پشیمانی اور اپنے گناہوں کا جبران کیا،حق کی ترویج اور باطل کو نابودکیا ، ظلم و بربریت کا خاتمہ و… اورحکومت اسلامی کا قیام کیا اورفرزندان رسول  کی خلافت و امامت کا اعلان کرکے سرخرو ہوگئے ۔

مؤرخین کے بقول واقعہ کربلا کے بعد ٣٠ سال کے اندر بنی امیہ و… کی غاصب ومطلق العنان حکومت کے آگے ٢٠ مختلف انقلابِ اسلامی ایسا سینہ سپر ہو گئے کہ جس کے باعث بنی امیہ کو اپنی بساطِ حکومت لپیٹ دینا پڑا! اور دیکھتے ہی دیکھتے بنی امیہ کے ظلم و جبر کا خاتمہ ہوااور ہر طرف ان کی مخالفت ہو نے لگی۔ اور جو لوگ اہل بصیرت ہیں آج تک ان سے غم و غصہ کا اظہار کرتے ہیں اور ہر ظالم و جابر حکومت و حکمراں کے خلاف”ھل من ناصر ینصرنا ۔” کی تتبع اختیار کرتے ہو ئے صدائے احتجاج بلند کرتے ہیں جو قارئین کرام کے پیش نظر ہے …  ٦١ھ سے ٧١ھ تک اور اس کے بعد کا جو سلسلہ شروع ہوا ایران سے الجزائر اور الجزائر سے انڈونیشیااور یورپ وغیرہ تک امام حسین علیہ السلام کے قیام کو لوگوں نے اپنے لیے نمونہ عمل بنایا اور عصرِحاضر میں عراق ، فلسطین ، لبنا ن ، افغانستان وغیرہ جہاں جہاں بھی لوگوں میں اسلامی شعوربیدار ہو رہاہے وہاں ظلم و ستم کے خلاف لوگ اپنی آواز بلندکررہے ہیں اور ان کا یہ عمل حسینی قیام  ٦٠ھ کے انقلاب کی ترجمانی کر رہا ہے ۔

ہمارے معزز قارئین کرام! اس بات سے اچھی طرح واقف ہیں کہ دنیا والوں نے حسین بن علی  ہی کی تحریک کواپنا لائحہ عمل بنا کر اپنے انقلاب کو مہمیزکیا ہے ۔اور اسی انقلاب و قیام، جدو جہداور شعوری بیداری کی ایک قابلِ رشک روایت اور ایک پھوٹتی کرن٢٠٠٦ ء  ” حزب اللہ” سید حسن نصر اللہ ،لبنا ن کی ٣٣روزہ جنگ کے بعد ١٤ ١٢  ٢٠٠٨کو سرزمینِ بغداد میں دیکھنے کو ملی کہ ایک شیعہ مسلمان نوجوان نے کربلا والوں سے قلبی وابستگی کا ثبوت دیتے ہو ئے ایک سُوپر  پاورطاقت و دہشت کا طلسم توڑ دیا !

اے حسین  اے غیرتِ حق کے امین ذی وقار     اے دیارِ حرمت انساں کے واحد شہر یار

اے بہ منبر نورِیزداں ،اے بہ میداں ذوالفقار             ہاں پکاراپنے محبّوں کو سر میداں پکار

نیند کے روندے ہوئے غفلت شعاروں کو جھنجوڑ

ہو چکی ہے صبح اپنے سوگواروں کو جھنجوڑ

پھر تمدن کی طرف پھنکار کر جھپٹے ہیں ناگ     جل رہا ہے پھر عروسِ زندگانی کا سہاگ

کانپتی راتیں صدائیں دے رہی ہیں آگ آگ

جاگ اے ابن ِعلی  کے نوحہ خوانِ خفتہ جاگ

اٹھ بھڑکتی آگ کو پانی بنا نے کے لئے    کربلا آئی ہے بالیں پر جگانے کے لئے

منتظرزیدی! نے دنیا کی سب سے بڑی بادشاہت کے تاج پر جوتا ہی نہیں مارابلکہ دنیا کی سب سے بڑی طاقت کا گھمنڈ بھی توڑ دیا کہ جو ہر بانی شر بنی امیہ سے جارج واشنگٹن (١٧٨٩ئ) اورجار ج بوش ٢٠٠٩ء اور رہتے امریکہ تک کی صدارتی مسند پر ہر آنے والے فاسق و فاجر ظالم و جابر صدر کے لیے ایک تازیانۂ عبرت ہے کہ جو حق سے ٹکرائے گا وہ چُور چُور ہو جائے گا ۔

یہ جنون اور دیوانہ پن نہیںتھا بلکہ حسینی  قیام کا ہی اثر ہے اور کربلا والوں سے قلبی وابستگی ہی کا نتیجہ ہے کہ جو دشمن خدا و رسول اور ظلم و بربریت کے خلاف سخت نفرت ،بد دلی غم و غصہ ،اور ناپسندیدگی کا اظہار خیال تھا جو حالیہ بغداد میں بروز اتوار ١٤دسمبر ٢٠٠٨ء کو رونما ہونے والا واقعہ پیش آیا جو رہتی دنیا تک لوگوں کے ا ذہان پر نقش رہے گا کہ منتظر زیدی جیسے ایک مذہبی شیعہ نوجوان! نے بغدادپریس کانفرنس میں امریکی صدر جارج بوش کو جوتے مار کر یہ ثابت کر دیا کہ ہم سب کچھ برداشت کرسکتے ہیں ظلم و جبر کے آگے سر نہیں جھکا سکتے اور اس نوجوان کا یہ عمل ، کربلا والوں کی شجاعت ،کرامت ، شہامت وشرافت اور نفاست کا بہترین آئینہ دار ہے ۔ اس لئے کہ کربلا ایک تاریخی قصہ نہیں بلکہ تاریخی ساز واقعہ ہے ،کربلا صرف میدانِ جنگ نہیں بلکہ درسگاہ ِ عمل بھی ہے ، کربلا ایک جذباتی ردِ عمل نہیں بلکہ عقل و شعور کی معراج ہے۔یہ زندگی کے نشیب و فراز میں انسان کو اس کی ذمہ داریاں بتاتی ہے ۔جہالت کی تاریکیوں سے نکال کر علم کی روشنی کی طرف لاتی ہے ۔ لہذا کہنے والے نے کیا خوب کہا ہے کہ:

کربلا ہر تیر گی میں مطلع انوار ہے

ساری دنیا سو رہی ہے کربلا بیدار ہے

حق کی باطل پر کامیابی ایک ایسی کامیابی ہے جس پرصرف عراق والے ہی نہیں بلکہ ساری دنیا کے لوگ شادمان نظر آرہے ہیں اوریہ دنیا کے تمام لوگ خصوصاًعراق کی مظلوم و مقہور عوام کی اعانت اور باطل سے بیزاری کا اعلان بھی ہے ۔

یہ روز روز کے مظاہرے، ریلیاں اور ملک و شہر میں ظلم و ستم کے خلاف لوگوں کے فلک شگاف نعرے ،یہ برائت و بیزاری! ظالم کو اس کے کیے پر شرمندہ ہی تو کرنا ہے کہ اس واقعہ کو ابھی چنددن نہیں گزرے کہ مختلف ملکوں بالخصوص یورپ و امریکہ…. میں لوگوں نے دنیا کے سامنے طنزیہ گیمز(جیسے:Bush Shoe Game,Bush Boot Camp,Sock and awe!)پیش کرکے تماشائیوں کو یہ بتانے کی کوشش کی جارہی ہے کہ ظالم جب اپنی حد سے تجاوز کرنے لگے تو وہ گلدستوں کے بجائے جوتوں کا مستحق ہو تا ہے !”دی لاس آنجلس ٹائمز”کے مطابق:” منتظر زیدی کا جوتا ہزاروں ہینڈگرینڈ (Hand Grenade) کے پھینکے جانے سے زیادہ تاثیر رکھتا تھا۔ ” ا س نے جوتے ہی نہیں مارے بلکہ فکر و نظر کی جدید جنگ کا نقشہ ہی پلٹ کر رکھدیا اور دنیا کی سب سے بڑی عسکری و سیاسی قوت کے ہوش ٹھکانے لگا کر دنیا کو نویدِ امن کے ساتھ ساتھ حسین بن علی  اور ان کے ساتھ کربلا میں ہونے والے شہیدوں کا یہ پیغام دیا کہ ہر صاحبِ اقتدار انسان بڑا ضرور ہو تا ہے لیکن ہر بڑا انسان قابل تعظیم نہیں ہو تا ، ہر بزرگ بزرگوار نہیں ہو تا ۔وہ انسان جو ١١سپتمبر ٢٠٠٢ء کے بعد سے آج تک پوری دنیا میں اپنی قیادت کو منوانے کی کوشش کر رہا تھا خصوصاًافغانستان و عراق کی معصوم عوام کو بم و بارود اور گولیوں کے زور پر خود کو حاکم اور انہیں محکوم سمجھ بیٹھا تھا جو سراپا خباثت و کثافت ، جس کے جاہ و حشم کے آگے دنیا سراپا تسلیم خم نظر آرہی ہے وہ آج اسی جگہ جہاں اس نے لاکھوں بے گناہ افراد کے خون سے ہولی کھیلی تھی ایسا ذلیل رسوا ہوا (کہ بقول شاعر   بڑے بے آبرو ہو کر تیرے کوچے سے ہم نکلے! )

اب تک میڈیا کے مطابق ایک منتظر زیدی ، محب ِحسین بن علی  کی حمایت و اعانت میں دنیا کے تین کروڑ اسّی لاکھ لوگوں نے امریکی صدرجارج بوش کو مختلف طریقوں (انٹرنیٹ و…پر)سے جوتے مارکر دنیا کے سامنے صدرجارج بوش اور اس کی حیوانی و شیطانی حکومت کے مکدر چہرے سے انسان دوستی کے جھوٹے نقاب کوتار تار کر دیا !ہمارا سلام ہو! اس حوصلہ پر جس نے کربلا و الوں سے یہ درس لیا اورحضرت امام موسی کاظم علیہ السلام کی ان فرمائشات( کو جسے امام علیہ السلام نے اپنے شیعوں سے فرمایا : دیکھو!اللہ کے غضب سے ڈرتے رہو ہمیشہ حق بات کہوچاہے اس کا انجام برا ہی کیوں نہ ہو اسی میں تمہاری نجات ہے اور یاد حق کبھی نابودی کا باعث نہیں بنتا بلکہ یہ تمہارا نجات دہندہ ہے ، باطل سے ہمیشہ دور رہو اگر چہ بظاہر اس میں تمہیں نجات نظر آئے ،یاد رکھوکہ ! باطل کبھی تمہیں نجات نہیں دے سکتا! ) کی پیروی کرتے ہو ئے وہ کام کر دیا جو آج تک دنیا کے ایٹمی ہتھیار نہ کر پائے!

وقار و عزم پہ جانیں نثار کرتے ہیں           حسین والے سلیقے سے وار کرتے ہیں

کریں جو غور تو خود ہی سمجھ میں آجائے       در حسین سے کیوں لوگ پیار کرتے ہیں

کچھ ایسے پھول بھی کھلتے ہیں صحن گلشن میں

نگاہ ِ غیر کو جو شرم سار کرتے ہیں

ہمارا سلام ہو! بحرین ،سعودی عرب ،یمن و…کی عوام پر جنہوں نے ظالم و جابر حکام کے خلاف احتجاج کر کے دنیا والوں کو یہ درس دے رہے ہیں کہ ذلت کی زندگی سے عزت کی موت بہتر ہے ۔مسلمان سب کچھ برداشت کر سکتا ہے دین و شریعت کو پائمال ہوتا نہیں دیکھ سکتا…۔

دنیا کے انقلاب وقیام میں سے ایک کامیاب انقلاب ہندوستان کا بھی ہے جس میں ہندوستان کی تحریک آزادی کے عظیم لیڈر مہاتما گاندھی کہتے ہیں کہ:میں نے کربلا کی المناک داستان اس وقت پڑھی جب میں جوان تھا ۔اس نے مجھے دم بخود اور مسحور کر دیا ۔ بحیثیت ایک شہید کے حضرت امام حسین  کی مقدس قربانی میرے دل میں ثنا و صفت کا لازوال جذبہ پیدا کرتی ہے کیونکہ انہوں نے تشنگی کی اذیت کو اپنے لیے اپنے بچوں اور تمام خاندانوں کے لیے گوارا کر لیا لیکن ظالمانہ قوتوں کے سامنے سر نہیں جھکایا . . .

لہذا میرے لئے اب یہ روشن و آشکار ہو گیا ہے کہ اگر ہندوستان فتح یابی چاہتا ہے تو اس کے لئے ضروری ہے کہ حسین بن علی علیہ السلام کی پیروی کرے ۔” نیز وہ کہتے ہیں کہ: ”میں ملت ہند کے لئے کو ئی سوغات لے کر نہیں آیا مگر کربلا سے جو درس حاصل کیا ہے ۔” (درسی کہ حسین  بہ انسانھا آموخت و این است مذہب من مہاتما گاندھی صفحہ ١)    یہ سچ ہے کہ جب تک( ”ان لقتل الحسین حرارةً فی قلوب المؤمنین لن تبردابداً۔”) مؤمنین کے قلوب میں ڈھڑکنیں باقی ہیں یہ احتجاج ، یہ مظاہرے ،یہ قیام و انقلاب برپاہو تا رہے گا۔ چاہے ظالم لاکھ اپنے ظلم کی نمائش کرے لوگوں کو سرد دل نہیں بنا سکتا ! لہذا عصر حاضر میں ہماراشرعی فریضہ یہ ہے کہ ہم اپنی خلقت کے ہدف کو پہچانتے ہو ئے اولیا ئے الہی کی آواز پر لبیک کہیں اور امریکہ و اسرائیل و…کے بجا ئے اپنے دینی رہنماؤں کے بتا ئے ہو ئے راستے کو اپنا لائحہ عمل قرار دیں ۔ اس لیے کہ ہم ہی اپنی نئی نسل کے ضامن اور آپ ہی ان کے منجی ہیں! آپ انہیں امام حسین  کے خطبات( اور بالخصوص امام کا وہ جملہ کہ:” ہم نے مدینہ کو امر بالمعروف ، نہی عن المنکراوراصلاح امت کے لئے ترک کیا ہے !” انھیں امر بالعروف اور نہی عن المنکرو… ) اور اس کے شرائط سے آگاہ کریں ۔کیونکہ اسلام عقلی تخیلات کا نام نہیں ہے بلکہ الہی ارشادات پر ایمان کا نام ہے ۔

حضرت امیر مولا علی علیہ السلام فرماتے ہیں کہ: ”ارکب الحق خالف و ان ھواک و لا تبع آخرتک بدنیاک ” یعنی :حق کی پیروی کرتے رہو چاہے خواہشات نفس تمہاری مخالفت کرتا رہے اور ہر گزآخرت کو دنیا سے نہ بیچو۔

حق کی حمایت اور باطل کے خلاف قیام کریں ۔ اور اگر قیام ممکن نہ ہو تو وہ راستے  اپنا ئیں جسے سید سجاد علیہ السلام اور جناب زینب علیہاالسلام نے اپنا یا تھا!یعنی: عزاداری حسین بن علی ،معارف حسینی ،پیام کربلا جو در اصل اسلام کے ستونوں میں سے ایک اہم ستون ہے اسے متزلزل ہونے سے بچائیں رکھیں !تا کہ امام حسین علیہ السلام کی تحریک ہمیشہ زندہ و جاوید رہے ۔

آج دنیا کے گوشے گوشے یورپ و امریکہ ،مصرو مراکش ، تیونس ،یمن،بحرین، الجزائر ، سوریہ ، لبنا ن ،ترکیہ ، آلبانی ، آذربایجان ، افغانستان ،پاکستان چین و ہندوستان ، عراق و ایران و.. میں لوگ باطل کی سفّا کی اور اس کے فریب و مکاری سے اچھی طرح واقف ہو چکے ہیں جس سے دشمن خوف زدہ ہے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ دنیااس کے سر پر امنڈ کر چلی آئے لہذا وہ چیزیں جو قیام حسینی کی یاد کو تازہ کرتی ہیں ان پر پردہ ڈالنے اور انہیں مسخ کرنے کی حتی الامکان کو شش کر رہا ہے لیکن ساتھ ہی ساتھ اسے یہ اچھی طرح معلوم ہے اور وہ یہ خوب جانتا ہے کہ 

نقشہ کبھی گلوں کا بگڑتا ہے خوار سے ؟       چھپتانہیں ہے چاند زمیں کے غبار سے

رہبر انقلاب جمہوری اسلامی ایران آیة اللہ العظمی حضرت امام خمینی فرماتے ہیں کہ: ”ہماری اسلامی تحریک کی کامیابی عزاداری سید الشہداء  کی مرہون منت ہے۔  عزاداری کی مخالفت کرنے والے،نادان ہی نہیں بلکہ سازش اور غیر کے آلہ کار بھی ہو سکتے ہیں حسین بن علی کی عزاداری ہمارے مذہب کی بنیاد ہے اور غم حسین  میں گریہ کرنا ہمارے مذہب کی علامت ہے ، ہم چاہتے ہیں کہ عزاداری کے ذریعہ دین کا تحفظ کریں ۔” (حق و باطل کا ایک تقابلی جائزہ صفحہ ٥٠)

عزاداری ٔحسین  بن علی  ! ہمیں نہ فقط رزقِ حیات بلکہ حق و باطل میں امتیاز پیدا کرنے کی صلاحیت ،حریت و آزادی اور انسان دوستی کا درس دیتی ہے ۔اوربلاشک و تردید! عہدِ حاضر میں تمام مشکلوں کا حل صرف کربلا اور حسین بن علی  ہی ہیں کہ اگر انسان کربلا والوں کو اپنے لیے نمونۂ عمل بنا لے تو اس کے سارے مسائل حل ہو جائیں اور دنیا امن و امان کا مسکن بن جا ئے .

جیسا کہ ولی امر مسلمین حضرت آیة اللہ خامنہ ای دام ظلہ العالی فرماتے ہیں : ”ہمارے پاس جو کچھ بھی ہے وہ کربلا والوں کا ہی دیا ہوا ہے…۔”

ٹوماس مازریک ”Thomas Masaryk”کہتا ہے کہ : ہمارے بہت سے مؤرخین عزاداری حسین  اور اس کے رسم و رواج سے واقفیت نہیں رکھتے لہذا وہ جاہلانا گفتگو کرتے ہیں اور عزادار ان حسین  کو پاگل و دیوانہ سمجھتے ہیں حالانکہ وہ ان مطالب کے عمق تک نہیں پہنچتے کہ اس مسئلہ نے عالم اسلام کو تہہ و بالا کر دیا اور جو مذہبی حرکت و تحریک اور انقلاب اس کے ذریعہ معرض ِ وجود میں آئے کسی دوسرے قوم و ملت میں نہیں آ ئے ! (قیام حسین و یارانش ص ٢٠)

فرانس کا معروف مؤرخ ڈاکٹر جوزف”Joseph” اپنی کتاب (”اسلام و اسلامیان”و ”شیعہ و پیشرفتھای محیرالعقول ”) میں لکھتا ہے کہ :جو ترقی و پیش رفت شیعوں نے مختصر سی مدت میں وہ بھی بغیر کسی جبرو اکراہ کے حاصل کی ممکن ہے ایک یا دو قرن کے بعد یہ سارے لوگ تمام فرقِ اسلامی سے زیادہ ہو جا ئیں(اور ہر طرف شیعت کا پرچم لہرانے لگے ) اور اس پیش رفت و ترقی کاسبب عزاداری ٔحسین  ہے در حقیقت علی بن ابی طالب  کے شیعہ ایک دوسرے کو یہ پیغام دیتے ہیں کہ اگر تم واقعاًحسین بن علی  کے پیرو ہو اور صاحب فضائل و کرامت . …ہو تو ہر گز یزید ( ملعون)جیسوں کی مطلق العنانی کو قبول نہ کرو بلکہ عزت کی موت کو ذلت و رسوائی کی زندگی پر ترجیح دو۔

ان افکار و نظریات کے تناظر میں ہمیں اس بات کو ملحوظ خاطر رکھنا چاہیے کہ اس دور میں ہم اورہماری آئندہ آنے والی نئی نسلیں فرزند رسول ۖ  حسین بن علی علیہ السلام کے قیام اور کربلا والوں کے بھیجے ہو ئے پیغامات کے امین ہیں ۔لہذا اب ہمارا فریضہ ہے کہ ہم اسے مٹنے اور تحریف ہو نے سے بچا ئیں تا کہ یہ دست بدست ہماری آئندہ نسلوں تک صحیح و سالم پہنچے تا کہ ان کے لئے یہ مشعل راہ بنے۔اور اس بات کو ذہن نشین کر لینا چاہیے کہ صرف یزید اور یزیدیوں سے فقط زبانی برأت کرنے کا نام، حق کی پیروی نہیں ہے بلکہ ہر انسان کا یہ عملی اور شرعی فریضہ ہے کہ وہ اپنے شہر و علاقہ ،جامعہ اور معاشرہ بالخصوص اپنے گھر اور گھر کے افراد کی صحیح تربیت کرے تا کہ وہ خود اس لائق بن جا ئے کہ حق و باطل میں تمیز دے سکے اور یزیدی افکار کو صفحۂ ہستی سے مٹانے کی سعی و کوشش کرے ۔سچ تو یہی ہے کہ یزیداور اس کے رفقائے کار کو واصل جہنم  ہو ئے صدہا سال گذر گئے لیکن آج بھی اس کے افکار ہمارے درمیان باقی ہیں ! ان کی یہ سازش ہے کہ کربلا صرف ایک قتل گاہ رہے ،درسگاہ نہ بن سکے ، کربلا میں ہونے والے مظالم پر لوگ آنسو تو بہائیں لیکن ظلم سے چشم پوشی کر لیں ،یزیدیت پر لعنت تو کریں لیکن یزیدیت کو بھول کر اس کے اعمال و کردار کو اپنے نمونۂ عمل بنالیں ،شاید یہی وجہ ہے کہ صرف سانحۂ کربلا کے مظلوم چہرے کو تو بیان کیا گیا ،بچوں ،جوانوں ، بوڑھوں اور خواتین کی شجاعت کے قصے تو بیان کئے گئے لیکن ہماری زندگی میں ان کے اثرات پر کو ئی بات نہیں کی گئی ! لہذا مؤمین کرام سے مؤدبانہ التماس ہے کہ سیرت آئمہ معصومین  پربالخصوص سیرت شہدا ئے کربلا علیہم السلام پر عمل کرتے ہو ئے اپنی زندگی کا سر ما یہ ،حسینی  مشن کے لئے خرچ کریں۔اور حسین بن علی  ا ن کے ساتھیوں کا حوصلہ شجاعت، استقامت ،اور صبر لیکر باطل کے خلاف میدان عمل میں آئیں اوراپنے مقدسات کا دفاع کریں۔کیونکہ آج استعمار نے ہمارے معاشرہ میں آزادی ٔ دین (لیبرالیزم ، سکولرایزم وغیرہ یا) Freedom from Religionیا Freedom of Speech آزادیٔ بیان وغیرہ کا جوڈھونگ مچا یا ہے اس کی زد میں پوری نوع بشر ہے !جیسا کہ ہم نے پہلے یہ اشارہ کیا ہے کہ دشمنانِ دین نے لوگوں کو بالخصوص جوانوں کو اس کی طرف دعوت دیکر انھیں اسلامی ثقافت و تمدن سے دور کردیا ہے۔اور کافی حد تک وہ اپنے مقصد میں کا میاب بھی نظر آرہے ہیں !لہذا ایسے حالات میں آپ اپنے قوم کے معصوم بچے اور بچیوں کے لئے کشتیٔ نجات کی صورت اختیار کر لیں اور انھیں حسین بن علی  اور کربلا کے اہداف سے روشناس کراوئیں۔ تا کہ ہماری ماؤں کے گود کے پلے مجاہد بنیں مجاور نہ بنیں ،عزادار بھی ہوں اور دیندار بھی ،انہیں حسین  کی شجاعت و ایثار و قربانی اور مظلومیت کے ساتھ ساتھ حسین بن علی  کی عبادت اور سجدہ بھی یاد رہے ۔

فرزند رسول ۖ!نے مٹتے ہو ئے دین کو بچا کر اصول و فرع دین کو تا ابد زندہ و پایندہ کر دیا، اب ہمارے لئے ضروری ہے کہ ہم انکی پیروی کرتے ہو ئے عزائے حسین  کی محافظت کریں اور قیام امام حسین علیہ السلام سے اظہار جرأت حق، امر بالمعروف و نہی عن المنکر ، تقویٰ و پرہیزگار ی اوردینداری کا درس حاصل کریں اور اپنے جامعہ میں عدل و انصاف کا آئین قائم کریں ۔ کیونکہ امام  کے قیام کا مقصد لوگوں کو دیندار اور آئین الہی کا پائبندبنانا تھا اور عصرِ حاضر میں استعمار کا ہدف اسلامی معاشرہ میں بے دینی پھیلانا اور لوگوں کو احکام الہی  خصوصاً عزائے حسین سے دور کرنا ہے جس کے علل و اسباب آپ قارئین کرام خوب درک کر رہے ہیں !

معاشرہ میں استعمار کی ثقافتی یلغار ہی اس کے آئندہ کے تمام اہداف کی ترجمانی کر رہا ہے اس لئے ہمارے اوپر یہ فرض عائد ہو تا ہے کہ خدا ، رسولۖ، قرآن اور اسلامی مقاصد کے حصول کے لیے اگر قربانیاں بھی دینی پڑیں تو حسین بن علی  کے قیام کو اپنا(اسوۂ حسنہ ) آئیڈیل بناتے ہو ئے ظلم و جور ، بہیمیت و بربریت کے خلاف اپنی جنگ کا اعلان کریں تا کہ مردہ دل شیاطین کو اس بات کی مہلت نہ ملے کہ وہ اسلام و بانیان اسلام و….کی عزت و آبرو پر حملہ کریں ۔

بچا لیں آبرو اپنی ستم شعاروں سے

حسین اب بھی ہمیں ہو شیار کرتے ہیں

خمار اپنے مسائل کا حل ہے کرب و بلا      غمِ حسین  پر ہم انحصار کرتے ہیں

ایک قابل غور نکتہ!قال لہ رجل یابن رسول اللّٰہ: انامن شیعتکم:قال الحسین  اِتَّقِ اللّٰہَ وَلَاتَدَّعِیَنَّ شَیْئاً،یَقُوْلُ اللّٰہُ تَعَالٰی لَکَ :کَذَبْتَ وَ فَجَرْتَ فِی دَعْوَاکَ  اَنَّ شِیعَتَنَا مَنْ سَلُمَتْ قُلُو بُھُمْ مِنْ کُلِّ غِشٍّ وِ غِلٍّ وَ دَغَلٍ وَ لٰکِنْ قُلْ : اَنَا مِنْ مَوَالِیْکُمْ وَ مُحِبِّیْکُمْ ”ایک شخص نے امام حسین کی خدمت میں عرض کیا : ائے فرزند رسول ۖ  میں آپ کا شیعہ اور آپ کا پیرو کارہوں تو امام نے اس سے فرمایا کہ: خدا سے ڈرو اور اس چیز کا دعوا نہ کرو کہ خدا تمہیں جھوٹا کہے کہ تم نے غلط دعوا کیا ہے ۔ کیا تم! جانتے ہو کہ ہمارے شیعہ کون لوگ ہیں کہ جن کا دل ہر خباثت و آلودگی سے پاک ہو۔ ہاں اگر تمہیں کہنا ہے تو یوں کہو کہ میں آپ کے دوستوںاور آپ کے چاہنے والوں میں سے ہوں ۔(تفسیرالعسکری ص٣٠٩)

آخر میں پروردگار عالم کی بارگاہ میں یہ عاجزانہ التما س و دعا ہے کہ میرے مالک ! ہمیں کربلا کے پیغام کو دنیا میں فروغ دینے کی توفیق عطا فرما اور رسول ۖ و آلِ رسول  کے حقیقی شیعوں میں قرار دے ۔

ہمیںحسین بن علی  اور ان کے ساتھیوں کا حوصلہ ، شجاعت و استقامت ، اور صبر عطا کر تا کہ ہم باطل کے خلاف قیام کرنے میںدریغ نہ کریں اور اپنے مقدسات کا دفاع کر نے میں پیش پیش رہیں!اوراپنے حقیقی وارث منتقم خون حسین بن علی  کے ساتھ کربلا میں بہایاجانے والا خون ناحق کا بدلہ لے سکیں اور دشمنان اسلام و اہلبیت علیہم السلام کا قلعہ قمع کرسکیں امید ہے کہ یہ مختصر سا نوشتہ بار گاہ ابدیت اور بارگاہ امام عصراروحنا لہ الفداء میں مورد قبول واقع  ہو گا ۔ (آمین یارب العالمین)

تبصرے
Loading...