قيام عاشورا سے درس ( تيسرا حصّہ )

حضرت امام حسين عليہ السلام نے  اللہ پر بھروسہ کرتے ہوۓ اپنے سفر کا آغاز کيا اور  عاشورا کي صبح جب دشمن نے حملے کا آغاز کيا تو انہوں نے درگاہ الہي کے سامنے حاضري دي اور اپنے خدا کے  ساتھ  کچھ اس طرح سے راز ونياز کيا –

اللھم انت ثقتي في کل کرب و انت رجائي في کل شدّۃ  و انت لي في کل امر نزل بي ثقۃ و عدّۃ  (1)

” اے ميرے خدا ! تمام پيش آنے والے ناگوار واقعات ميں ميرا تکيہ گاہ تو ہے اور ہر مشکل کام ميں ميري اميد تو ہے اور ہر آنے والي کيفيت ميں  مجھے پناہ دينے والا  اور ميرا مددگار تو ہے – “

اور اسي طرح روز عاشورہ کے موقع پر اپنے ايک خطبہ ميں آپ عليہ السلام نےفرمايا !

 انّي توکلت علي اللہ ربي و ربکم  (2)

 “ميں نے خدا پر توکل کيا ہے جو ميرا اور  تمہارا پروردگار ہے “

4-  شجاعت و رشادت

 خاندان رسول صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم کے اوصاف ميں شجاعت ، استحکام ، ارادہ اور قوّت شامل شامل ہيں – امام سجاد عليہ السلام نے  مسجد شام ميں اپنے ايک خطبے ميں فرمايا !

اوتينا العلم و الحلم و الصلابۃ و الشّجاعۃ (3)

 “ہميں خاندان رسالت کو دانش و بردباري و بخشندگي و شجاعت دي گئي ہے “

عاشورا   کے روز حضرت امام حسين عليہ السلام کي بہادري نے ذہنوں ميں اپنے والد بزرگوار کي بہادري کي ياد تازہ کر دي – واقعہ کربلا کو بيان کرنے والے جناب حميد بن مسلم اس بارے ميں يوں کہتے ہيں کہ

” خدا کي قسم ! ميں نے  لوگوں کے اتنے بڑے ہجوم ميں محاصرہ ہوۓ کسي کو نہيں ديکھا کہ جس ميں امام عليہ السلام کے  فرزندان، خاندان اور عزيز و اقارب  شہيد ہوۓ اور حسين بن علي عليہ السلام کي طرح مضبوط دل کا  مالک ، استوار اور بہادر نہيں ديکھا  –  دشمنوں نے ان کا محاصرہ کيا ہوا تھا اور وہ تلوار کے ساتھ دشمن پر حملہ کرتے اور  سب دائيں بائيں بھاگ جاتے ” (4)

انہوں نے مکہ مکرمہ سے روانگي سے قبل روز ( ترويھ )  ميں خطاب کيا اور ان کي مجلس ميں صحابہ اور تابعداروں کي ايک بڑي تعداد موجود تھي – آپ نے فرمايا !

من کان باذلا فينا مھجتھ  و مو طئا علي لقاء اللہ نفسھ فلير حل معنا  ( 5)

”  جو کوئي بھي اپنا خون ہمارے راستے پر نثار کرنا چاہتا ہے اور لقاءاللہ کے ليۓ تيار ہے ، وہ کل ہمارے ساتھ کوچ کرے -“

5- وفا اور معاھدے کي پاسداري

پيمان اور ميثاق الہي پر عمل پيرا ہونا ايماندار لوگوں کي نشاني ہوتي ہے – قرآن مجيد مومنين کي صفات بيان کرتے ہو ۓ فرماتا ہے کہ

وَالَّذِينَ هُمْ لِأَمَانَاتِهِمْ وَعَهْدِهِمْ رَاعُونَ

 ” اور وہ جو اپني امانتوں اور معاہدوں کا پاس رکھنے والے ہيں- ” (6)

حوالہ جات :

1- ارشاد ، شيخ مفيد ، ج 2 ، ص 96

2- بحارالانوار ، ج 45 ، ص 91

3- مقتل خوارزمي ، ج 2 ، ص 69

4-  واللہ ما رآيت مکسور قد قتل ولدہ و اھل بيتھ و اصحابھ اربط جاشا و لا امضي جنانا منھ عليہ السلام

5- لھوف ، سيد بن طاووس : 54 ط ، 1322 ھ ق –

6–  مومنون – 8

تبصرے
Loading...