قوموں کے زوال کے اسباب(نھج البلاغہ کے آئینہ میں)

جسطرح مختلف عوامل کے تحت تأثیر ہونے سے ایک انسان  کے منحرف ہو نے کا خطرح ہو تا ہے اسی طرح سے متعدد عوامل کے تحت مختلف اوقات میں ایک معاشرہ اور ایک قوم کے منحرف  کا خطرح لا حق ہو تا ہے ایک قوم اور ملت کے کامیابی کے جسطرح مختلف وجوہات ہو سکتے ہیں اسی طرح سے اسکے زوال کے بھی اسباب متعدد ہو سکتے ہیں نہج البلاغہ نے جہاں ایک قوم ، ملت اور معاشرے کے کامیابی کے اسباب کی طرف اشارہ کیا ہے وہیں ایک قوم اور معاشرے کے زوال اور انحلال کے طرف بھی مختلف اوقات میں اشارہ کیا ہے اس مختصر سیے مقالے میں اتنی گنجایش نہیں ہے کہ ہم اسکو دونوں زاویے سے مورد مطالعہ قرار دیں لہذا صرف قوموں کے زوال اور انحطاط کے عوامل کی طرف اشارہ کریں گے اور کوشش یہی رہے گی کہ ان میں سے بھی اہم ملاک اور اسباب کی طرف اشارہ کیا جائے ۔

ایک ملت اور قوم جو مختلف افراد سے وجود میں آتاہے خاص  شرائط اور عوامل کے بنیاد پر اور اجتماعی وضعیت کی وجہ سے زوال کی طرف نزول کرتا ہے بہ قول امام علی علیہ السلام ایک ایسا ماحول پیدا ہو جاتا ہے کہ جس میں افق تاریک اور راہیں اجنبی ہو جاتی ہیں لوگوں کے بدن ایک دوسرے کے کنارے توہوتے ہیں لیکن ان کے تمایلات ایک جسے نہیں ہوتے ۔ ایسے ماحول میں لوگ دنیا کی مستی اور خوسی سے اپنے آپ سے بیگانہ ہو تے ہیں سخن حق کے دروازے انکے اوپر بند ہوجاتے ہیں لہذا سرگردانی میں مبتلا ہو جاتے ہیںگو یا انکے دل ایسی آفت میں مبتلا ہو تے ہیں کہ جس میں سوچنے اور فکر کرنے کی قدرت ہی نہیں رہتی ہے ۔نہ ہی راز کی محفلوں میں ہمراز پیدا کیا جا سلتا ہے اور نہ ہی معاشرے کے ادارے کے لئے مختلف قدرتیں پیدا ہوتی ہیں ایسے ماحول میں بہرے کا ن والے ، گونگے زبان والے اور اندھی آنکھیں رکھنے والے پیدا ہو تے ہیں کہ نہ ہی انکے رفتار میں صداقت پائی جاتی ہے اورنہ بھائیوں کے مصیبت کے وقت مورد اعتماد ہیں(خطبہ ٣٤  و ٩٧  کا ایک حصہ)۔

ہم ان عوامل اور اسباب کو دو حصوں میں تقسیم کر سکتے ہیں ۔ سیاسی اسباب اور ثقافتی اسباب

الف: سیاسی اسباب۔یعنی وہ سیاسی عوامل اور اسباب جو قوموں کے زوال ، انحلال اور انحطاط کے باعث بنے ہیں جن کی طرف امام علی علیہ السلام نے اشارہ کیا ہے وہ اسطرح سے ہیں۔

١) غیر صالح قائد اور رہبر کا ہونا۔کسی بھی قوم یا ملت کی پیشرفت اور ترقی کے لئے ایک صالح قائد اور رہبر کی ضرورت ہو تی ہے اگر یہ قائد صالح اور لائق نہ ہو تو اس قوم کے زوال کے ایام شروع ہو جاتے ہیں یہ ایک ناقابل انکار حقیقت ہے جسکی طرف امام علی علیہ السلام بھی واضح طور پر اشارہ کرتے ہیں ۔بیشک آپ جانتے ہیں کہ ایک رہبر اور قائد کی شان کے خلاف ہے کہ وہ مسلمانوں کے انموس ، جان، غنیمت  ، احکام اور امامت میں بخیل ہو اور انکی ثروت میں حریص ہو اور جاہل بھی قیادت کی صلاحیت نہیں رکھتا ہے کوینکہ وہ اپنی جہالت سے قوم کو گمراہ کرے گا اور ظالم بھی لوگوں کا قائد نہیں بن سکتا ہے کیونکہ وہ ظلم سے لوگوں کے حق کو غصب کرے گا اور انکے عطایا کو قطع کرے گااور جو عادل نہ ہو وہ بھی اس مقام کے لائق نہیں ہے کیونکہ وہ ایک قوم کو دوسرے پر ترجیح دے گا  اور رشوت لینے والا بھی قاضی کی حثیت سے رہبر نہیں بن سکتا کیونکہ وہ قضاوت کے سلسلے میں رشوت لے کے لوگوں کے حقوق کو پامال کرے گا اور جس نے حضرت رسول صلی اللہ علی وآلہ کی سنت کو ضایع کیا ہو وہ بھی قیادت کا حق نہیں رکھتا کیونکہ وہ امت اسلامی کو ہلاکت میں ڈالے گا ۔پس ان مختصر الفاظ میں یہی بیان کرنا چاہتے ہیں کہ ایک نا صالح اوربرے قائد میں یہ صفات پائی جاتی ہیں وہ بخیل ، ظالم ، رشوت خوار ، رسول صلی اللہ علیہ وآلہ کی سنت کو ضایع کرنے والا ، اور نا انصاف ہو تا ہے اگر کسی قوم یا ملت پر ایک ایساحاکم سوار ہو گیا جو ان صفات کا حامل ہوگا وہ قوم کبھی بھی نابود ہو سکتی ہے۔

٢) اختلاف اور تفرقہ۔ ایک ملت اور قوم ترقی اس سے وابستہ افرا د کے درمیان آپسی بھائی چارہ کی وجہ سے ہی ممکن ہے جب تک لوگوں کے مابین اتحاد اور یکجہتی ہے قوم بھی سالم ہے لیکن جیسے ہی یہ اتحاد اور بھائی چارہ ختم ہو جا تا ہے قوم کے تباہی کے دن شروع ہو جاتے ہیں دنیا میں استعمار ی طاقتوں کا سے بڑا ہتھیار یہی اختلاف افکنی ہے وہ کسی بھی قوم کی سا لمیت کو ختم کرنے اور اسکی کامیابی کر راستوں کو روکنے کے لئے تفرقہ ایجاد کرتے ہیں امام علی علیہ السلام  بھی اسی تفرقہ اور اختلاف کو قوم کی ناوبدی کا ایک سب سے بڑا عامل سمجھتے ہیں آپ فرماتے ہیں : ہر اس کام سے پرہیز کرو جس نے گزشتہ امتوں کی ریڑکی ہڈی کو توڑ دیا ہے۔۔۔ انکے کاموں کے انجام کو غور سے دیکھو جب ان میں تفرقہ پیدا ہوا اور ایک دوسرے کے مابین الفت اور اتحاد ختم ہو گیا  اور انکے دل مختلف ہو گئے اختلاف نے انہیں مختلف شاخوں میں بٹھور دیا اور گروہ گروہ ، ایک دوسرے کے سامنے لاکھڑا کیا خدا وند عالم نے کرامت کے لباس کو ان سے نوچ لیا اور بہت سی نعمتوں کو ان سے چھین لیا اور صرف انکا قصہ تمہارے درمیان باقی رکھا تاکہ عبرت لینے والے اس سے عبرت حاصل کرے۔(خطبہ ١٩٢)

امام علی علیہ السلام  اتحاد کی اہمیت بیان کرتے ہوئے اسے ریڑ کی ہڈی سے تشبیہ کرتے ہیں ” اس خطبہ (قاصعہ) کا اساسی محور اتحاد اور اختلاف ہے کہ جس پر ایک قوم اور معاشرے کی کامیابی اور زوال کا دارومدار ہوتا ہے ایک اہم نقطہ جو اس خطبے میں قابل توجہ ہے وہ ان دو مسئلوں کا استکبار سے مرتبط ہوناہے ایک طبیعی اتحاد اسی وقت ممکن ہے جب ایک قو م اور ایک معاشرے کے قائد اور رہبر ، استکبار  ، خودمحوری اور انانیت سے مبراہوں لوگوں سے دوستانہ تعلقات ہوں اور خدمت خلق کے علاوہ کوئی دوسرا ہدف انکے لئے مطرح نہ ہواور اسی طرح تمام صنفی ، شخصی اور طبقاتی اہداف جن کو اختلاف کا اصلی مقدمہ مانا جا تا ہے ، خدا پرستی کے اہداف میں تبدیل ہو جائیں گیاور اگر ایسا نہ ہو تو استکبار اسی طرح سے اختلاف کا مقدمہ بنتا رہے گا”(فرھنگ آفتاب ، ج١ ، ص  ٤٦٣ )

٣) صراط مستقیم سے منحرف ہونا۔صحیح اور سیدھا راستہ صرف انبیاء علیھم السلام کے توسط ایک قوم اور ملت کے لئے مشخص ہوا ہو جو بھی قوم اس مستقیم راہ پر گامزن رہی اس نے کبھی بھی شکست کا سامنا نہیں کیا امام علی علیہ السلام بھی تاکید کرتے ہیں کہ اس راستے سے منحرف نہیں ہونا چاہیے آپ فرماتے ہیں : داہنااور بایاں گمراہی ہے بیچ والی راہ مستقیم اور سیدھی راہ ہے قرآن اور نبوت کے آثار بھی اسی کی وصیت کرتے ہیں۔ یہ سنت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ کی گزرگاہ ہے اور  آخر کا ر سبھوں کو اسی طرف آنا ہے ۔(خطبہ ١٦) اس کا مطلب یہی ہوتا ہے کہ چونکہ یہ راستہ انبیاء کا راستہ ہے اسلئے اس راستے پر چلنے سے انسان نہ توکبھی گمراہ ہو سکتاہے اور نہ ہی شکست سے دوچار ہو سکتا ہے اور جس قوم کے افراد اس راستے کو انتخاب کریں گے وہ ہمیشہ سربلند ہے کبھی بھی نابود نہیں ہوگی۔

٤)ڈکٹیٹر شپ۔ صرف ایک فرد حاکم بنے اور یہ کہے کہ میں سب کچھ ہوں میری اطاعت سب کو کرنی چاہیے اسے ڈکٹیٹر شپ کہتے ہیں جو ہمیشہ استبداد اور استعار ہے ساتھ ہوتی ہے امام علی علیہ السلام اپنی حکومت کے دوران اپنے سبھی گورنروں کو اس با ت کا حکم دیتے ہیں کہ دیکھو من مانی سے کام نہیں لینا آپ فرماتے ہیں: لوگوں سے مت کہو کہ مجھے چونکہ حکم دیا گیا ہے لہذا میں بھی حکم ہی کروں گا  پس میری اطاعت لازم ہے ایسا تکبر دل کو فاسد اور دین کو مرجا دیتا ہے اور نعمت کے زائل ہو نے کا سبب بنتا ہے (خط ٥٣ )

نہج البلاغہ کے عصر حاضر کے معروف مترجم اور شارح مرحوم دشتی قدس سرہ اس بارے میںفرماتے ہیں :یہ جملہ absolutism (استبدادی حکومت ) کی نفی کرتا ہے ۔ (نہج البلاغہ ، محمد دشتی ، ص ٥٦٧)

پس یہ کچھ ایسے سیاسی عوامل تھے جن کی وجہ سے ایک قوم نابود ہو سکتی ہے تاریخ کا مطالعہ کرنے سے بھی یہی ہاتھ آتا ہے کہ ایک قوم اور ملت کے زوال اور انحطاط میں یہ سب سے اہم اور موثر عوامل ثابت ہوے ہیں اور ہوتے ہیں آج کے دور میں بھی اگر دیکھا جائے توسیاسی اعتبار قوموں کے انحطاط کے اسباب میں مذکورہ عوامل سر فہرست ہیں

ب: ثقافتی عوامل ۔اس سے مراد وہ اسباب ہیں جو  ایک فرد اور ایک معاشرہ سے وابستہ ہیں ۔

١) ہوس اور بدعتیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ایک معاشرے میں فتنہ اور فساد،خواہشات نفس کی پیروی اور بدعتوں کی وجہ سے پید ہو تاہے امام علی علیہ السلام اس بارے میں فرماتے ہیں: فتنہ اور فساد،خواہشات نفس کی پیروی اور بدعتوں کی وجہ سے وجود میں آتے ہیں ایسی بدعتیں کہ جن کی وجہ سے خدا کی کتاب کی مخالفت کی جاتی ہے اور بعض دین خدا کے برخلاف دوسرے گروہ پر حکومت کرتے ہیں۔( خطبہ ٥٠ )

٢) حاکم اور لوگوں کے درمیان رابطے میں نا انصافی۔ یہ ایک مسلم حقیقت ہے کہ حکومت اور لوگوں کے مابین جو رابط ہوتا وہ معتدل ہونا چاہیے نہ ہی افراط سے کام لینا چاہیے اور نہ ہی اس میں تفریط ہونا چاہیے اگر یہ رابطہ اعتدال کی حد سے تجاوز کر جائے تو وہ معاشرہ اور وہ ملت سالم نہیں رہ پاتی ۔ امام علی علیہ السلام اس بارے میں فرماتے ہیں: جب لوگ حکومت پر حاکم ہو جائے یا حاکم اپنی رعیت پر ظلم کرے ،وحدت کلمہ ختم ہو جا تا ہے ظلم کی نشانیاں آشکار ہو جا تی ہے اور دھوکہ بازی دین میں زیادہ ہو جاتی ہے سنت رسول صلی اللہ علیہ و آلہ کی راہ متروک ، ہوا پرستی زیادہ ، دین کے احکام معطل اور دلوں کی بیماری فراوان ہو جاتی ہے معاشرے میں عظمت حق کی فراموشی اور خطرناک باطل کی ترویج کے باعث لوگ نگرانی کا احساس بھی نہیں کرتے ، پس یہاں پر نیک لوگ ذلیل اور بدکار لوگ قدرتمند ہوجاتے ہیں اور خدا کا عذاب بندوں پر بہت بڑا اور درد ناک ہو گا۔(خطبہ ٢١٦)

٣) حق سے بے تفاوتی ۔ ایک اور عامل جو قوم کے انحلال اور زوال کے عامل میں حساب کیا جا تا ہے  حق سے روگردانی اور حق سے بی تفاوت رہنا ہے  ایک معاشرے میں جب حق کی اہمیت ختم ہو جاتی ہے تو وہ معاشرے آہستہ آہستہ اپنے زوال کے اسباب کو خود ہی فراہم کرتا ہے امام علی علیہ السلام نہج البلاغہ میں اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں: اے لوگو! اگر حق کی مدد کرنے سے گریز نہیں کرتے اور باطل کو ذلیل کر نے میں سستی نہیں کرتے ،ہرگز وہ لوگ جو تمہارے برابر نہیں تھے تمہیں نابود کرنے کی چاہت نہیں کرتے اور قدرتمند تم پر کامیاب نہیں ہوتا لیکن امت بنی اسرائیل کی حیرت اور سرگردانی میں مبتلا ہوگئے اپنی جان کی قسم یہ پریشانی میرے بعد زیادہ ہو جائے گی کیونکہ حق کی طرف پیٹ کی ہے اور اپنوں (اصحاب پیغمبر ) سے دوری کی ہے اور بیگانوں کے قریب ہوئے ہو۔(خطبہ ١٦٦)

٤) ظلم سہنا۔ایک قوم کے انحلال کے عوامل میں ایک عامل اس قوم کے افراد کا ظلم سہنا ہے جی ہاں باطل کی اطاعت کرنا ظلم کرنے والوں کے ظلم پر خاموشی برتنا اس بات کی علامت ہے کہ اب یہ قوم آگے نہیں بڑھ سکتی ہے اور یہی پہ رہ کے دب جائے گی امام علی علیہ السلام اس سلسلے میں فرماتے ہیں : بیشک تم سے پہلی والی امتیں ہلاک ہوگیکیونکہ لوگوں کے حقوق سے ممانعت کی پس انہوں نے دنیا کو رشوت دے کے حاصل کیا اور لوگوں کو باطل کی راہ پر لے گئے اور لوگوں نے انکی اطاعت کی۔(خط ٧٩)

٥) بدکاری۔ ایک معاشرے میں رہنے والے افراد اگر کسی بھی طرح کے برے اعمال کو انجام دیتے ہیں وہ برائی اس معاشرے اور قوم کو بحران میں مبتلا کرتی ہے  امام علی علیہ السلام ان ہی برے اعمال سے بچنے کی اپنے قوم اور ملت کو تلقین کرتے ہیں انہیں گزشتہ امتوں میں پائے جانے والی ایسی صفات سے بچنے کی تاکید کرتے ہیں جو انکی بربادی کا سبب بنا تھا آپ  فرماتے ہیں: اپنے آپ کو ایسی بھلاؤں سے بچاؤ جو گزشتہ امتوں میں انکے برے اعمال کی وجہ سے وارد ہو ئی اور انکے حالات کو خیر اور شر کے دوران یاد کرو اور انکے جیسا بننے سے ڈرو ۔۔۔ اور ہر اس کام سے اجتناب کرو جس سے انکی پشت ٹوٹ گئی اور انکی قدرت برباد ہوگئی ایک دوسرے سے کینہ رکھنے ، حسد اور بخل کرنے سے دل کو صاف کرو اور ایک دوسرے کی طرف پشت کرنے اور ایک دوسرے کی مدد نہ کرنے سے پرہیز کرو۔(خطبہ ١٩٢)

٦) لمبی آرزوئیں ۔ ایک اور عامل جو ایک قوم کی تباہی کا سبب بنتا ہے  وہ اس قوم سے وابستہ افراد کی لمبی لمبی آرزوئیں ہیں امام علی علیہ السلام نے بھی نہج البلاغہ میں اس حقیقت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا ہے : انما ھلک من کان قبلکم بطول آمالکم و تغیب آجالھم حتی نزل بھم الموعود الذی ترد عنہ المعذرة ، و ترفع عنہ التوبة ، و تحل معہ القارعة و النقمة۔(خطبہ ١٤٧)

‘آپ سے پہلے زندگی بسر کرنے والے لمبی آرزؤں کی وجہ سے اور مو ت کے پوشیدہ ہونے کے سبب ہلاک ہو گئے  یہاں تک کہ وہ موت جسکا انہیں وعدہ دیا گیا تھا ، ان کی طرف ایسی صورت میں آیا کہ جو بہانہ قبول نہیں کرتا اور توبہ کے دروازے بند کراتا ہے جو اپنے ساتھ سخت حالات اور موت کے بعد رونما ہونے والے خطرناک مجازات لاتا ہے ‘

٧) گناہوں کا عام ہونا ۔ اگر ایک معاشرہ اور قوم  میں رہنے والے افراد اچھائی سے پیش آتے ہوں اور ہر اچھے کام کو انجام دیتے ہوں وہ معاشرے ضرور ترقی کر تا رہے گا لیکن جس معاشرے یا قوم میں برائی کی ترویج ہو تی ہو اور ہر طرف سے افراد گناہوں میں مبتلا ہوں وہ بربادی کے سامان اپنے لئے مہیا کر تا ہے امام علی علیہ السلام اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں : خدا تم لوگوں پر رحم کرے ! جان لو تم ایسے دور میں زندگی گزار رہے ہو جس میں حق بات کہنے والے بہت کم ہیں زبان سچ کہنے سے عاجز ہے حق کو ڈھونڈنے والے ذلیل ہیں  لوگ گناہوں میں مبتلا ہیں اور چاپلوسی ایک دوسرے کا ساتھ دیتے ہیں  انکے جوان بد اخلاق اور بوڑھے گناہ گار اور جاننے والے منافق اور ساتھ سہنے والے منفعت طلب ہیں نہ چھوٹے بڑوں کا احترام کرتے ہیں اور نہ ہی ثروتمند مجتاجون کی مدد کرتے ہیں ۔

تبصرے
Loading...