قرآن کو فرقان کہنے کہ وجہ

تورات وانجیل کے ذکر کے بعد آیت کے اس حصّے میں نزول قرآن کا تذکرہ ہے ۔ قرآن کو فرقان کہنے کہ وجہ یہ ہے کہ ”فرقان“ لغت میں ” حق کی باطل سے تمیز کا ذریعہ “ کے معنی میں ہے اور ہروہ چیز جو حق کو باطل سے ممتاز کردے اسے فرقان کہتے ہیں اسی لئے جنگ بدر کے روز کو قرآن نے ” یوم الفرقان “

 (انفال ۴۱)قراردیا ہے ، کیونکہ اس دن ایک بے سرو سامان چھوٹا سالشکر اپنے سے کئی گنا بڑے کیل کانٹے سے لیس اور طاقتور دشمن پر کامیاب و کامران ہوا ۔ اِس طرح حضرت موسیٰ (ع) کے دس معجزات کو بھی فرقان (بقرہ ۵۳)کہاگیا ہے ک، یونہی عقل و خرد اور روشن فکری ک وبھی فرقان کہا جاتا ہے ۔

(” اِنْ تَتقوا اللہ یجعل لکم فرقاً“انفال ۲۹) محل بحث آیت میں بھی اسی جہت سے فرقان کہا گیاہے کہ قرآن حق کو باطل سے ممتاز کرنے کا ایک ذریعہ ہے ۔ 

بعض اسلامی روایات سے معلوم ہوتا ہے قرآن پوری آسمانی کتاب کا نام ہے جب کہ فرقان اس کی ان آیات کے مجموعے کو کہتے ہیں جن میں عملی احکام ، حلال و حرام اور انفرادی و اجتماعی منصوبوں کو ذکر ہے ۔ ۱

۴۔ إِنَّ الَّذِینَ کَفَرُوا بِآیَاتِ اللهِ لَھُمْ عَذَابٌ شَدِیدٌ وَاللهُ عَزِیزٌ ذُو انْتِقَامٍ ۔(آیت نمبر۴ کا ابتدائی حصہ پہلی آیت کے ضمن میں ذکر ہو چکا ہے ) ۔

ترجمہ 

۴۔ جو لوگ آیات الہٰی کے منکر ہو گئے ہیں ان کے لئے سخت عذاب ہے اور خدا بد کاروں اور سر کش کافروں کو عذاب دینے کی قدرت رکھتا ہے اور وہ انتقام لینے والا ہے ۔ 

تفسیر

اتمام حجت ، خدا کی طرف کے نزول اور انبیاء کے دعویٰ کی صداقت پر عقل و فطرت کی گواہی کے بعد بلا شبہ انہیں قبول کرلینا چاہئیے ، لہٰذا جو لوگ تمام امور کے باوجود مخالفت کرتے ہیں تو اس کا سبب ہٹ دھرمی اور سرکشی کے علاوہ کچھ نہیں اور عقل و وجدان انہیں مستحق عذاب قرار دیتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اس آیت میں منکرین آیات کو شدید اور دردناک عذاب کی تہدید کرتا ہے ۔ 

”وَاللهُ عَزِیزٌ ذُو انْتِقَامٍ “

لغت میں ”عزیز “ہر مشکل چیز کے معنی میں ہے ۔ وہ سر زمین جسے عبور کرنا سخت مشکل ہو اسے ”عزاز“ کہتے ہیں ۔ جو چیز کمیابی کی وجہ سے مشکل سے ملتی ہو اسے ” عزیز “ کہتے ہیں اور اس کی وجہ یہ ہے کہ کوئی شخص اس پر غلبہ کی قدرت نہیں رکھتا اور ہر کوئی اس کا ارادہ کرکے رہ جاتا ہے ۔

کافروں کو آگاہ کرنے کے لئے یہ تہدید اور دھمکی بالکل حقیقی اور حتمی ہے اس آیت میں فرمایا گیا ہے کہ خدا قادر ہے اس لئے کوئی شخص اس کی دھمکیوں پر عمل در آمد کی راہ میں حائل نہیں ہوسکتا کیونکہ جیسے وہ رحیم اور مہربان ہے جو لوگ رحمت کے قابل نہیں ان کے لئے اس کے پاس عذاب شدید ہے اور ان کے لئے وہ صاحب انتقام ہے ۔ 

آج کی اصطلاح میں ” انتقام “ زیادہ تر ایسے مواقع پر استعمال ہوتا ہے جہاںلوگ خلاف ورزیوں کے مقابلے میں معاف نہیں کرتے یا دوسرے اشتباہات کی بناء پر ویسا ہی بدلہ لینے کی بجائے انسان کو عفو و در گزر کا راستہ اختیار کرنا چاہئیے لیکن حقیقت میں انتقام لغوی طور پر اس معنی میں نہیں ہے بلکہ گناہگار کو سزا دینے کے معنی میں ہے اور مسلم ہے کہ مغرور، ستمگروں ، گناہگاروں کو سزا دینا نہ صرف پسندیدہ کام ہے بلکہ ان سے صرف ِ نظر کرنا عدالت و حکمت کے خلات ہے ۔ 

۵۔ إِنَّ اللهَ لاَیَخْفَی عَلَیْہِ شَیْءٌ فِی الْاٴَرْضِ وَلاَفِی السَّمَاءِ ۔

ترجمہ 

۵۔ زمین و آسمان میں کوئی چیز بھی خدا پر مخفی نہیں رہتی ( اس لئے ان کی تدبیرکرنا بھی اس کے لئے مشکل نہیں ہے ) ۔ 

تفسیر 

یہ آیت در حقیقت گذشتہ آیات کے مفاہیم کی تکمیل کرتی ہے کیونکہ ہم گذشتہ آیات میں پڑھ چکے ہیں کہ خدا جاوداں اور قیوم ہے ۔ جہانِ ہستی کی تدبیر اور انتقام اس کے ہاتھ میں ہے ۔ مسلم ہے کہ یہ کام قدرت و علم کامحتاج ہے لہٰذا گذشتہ آیت کے آخر میں اس کی قدرت مطلقہ کی طرف اشارہ ہوا ہے اور یہ آیت اس کے بے پایاں علم کی طرف اشارہ کرتی ہے اور کہتی ہے: زمین و آسمان کی کوئی چیز اللہ کے لئے مخفی اور مستور نہیں ۔ یہی مضمون قرآن کی دیگر بہت سی آیات میں بھی آیا ہے ۔ 

پروردگار کے وسعت علم کی دلیل واضح ہے کیونکہ وہ ہر جگہ حاضر و ناظر ہے اس لئے کہ اس کا وجود بے پایاں وغیرمحدود ہے کوئی جگہ اس سے خالی نہیں ہے لہٰذا اگر چہ وہ محل و مقام نہیں رکھتا ہے ، تمام چیزوں پر محیط ہے ۔ خدا کا یہ احاطہٴ وجودی اور ہر جگہ پر اس کے حاضر ہونے کا حتمی نتیجہ یہ ہے کہ تمام چیزوں اور جگہوں کے متعلق اس کا علم کامل ہے اور وہ بھی علم حضوری نہ کہ علم حصولی ۔2

۶۔ ہُوَ الَّذِی یُصَوِّرُکُمْ فِی الْاٴَرْحَامِ کَیْفَ یَشَاءُ لاَإِلَہَ إِلاَّ ہُوَ الْعَزِیزُ الْحَکِیمُ ۔

ترجمہ 

۶۔ وہ ذات ہے جو ماوٴں کے رحم میں رحم جیسی چاہتا ہے تمہاری صورت بناتا ہے ( اس لئے ) اس توانا اور حکیم خدا کے علاوہ کوئی معبود نہیں ہے ۔ 

تفسیر 

اِس آیت میں خدا کی قدرت ، دانائی اور حکمت کا شاہکار بیان کیا گیا ہے اور وہ یہ ہے کہ وہ شکم مادر میں انسا ن کی صورت بناتا ہے ۔ واقعاً یہ امر تعجب خیز اور حیرت انگیز ہے کہ رحم کے اندر خدا انسان کے مختلف خط و خال بناتا ہے طرح طرح کی استعداد پیدا کرتا ہے ، کئی قسم کی صفات عطا کرتا ہے اور جبلت و سر شت کی تشکیل کرتا ہے

  1تفسیر نور الثقلین ، ج د ، ص ۳۱۰ بحوالہ اصول کافی ۔)

2 علم حضور کا مطلب ہے کہ جس کا علم ہے یا جو معلوم ہے اس کی ذات عالم کے سامنے حاضر ہو لیکن علم حضوری میں معلوم کی شکل و صورت اور نقش و نگار عام کے پاس حاضر ہوتے ہیں ۔ مثلاً اپنی ذات کے متعلق ہمارا علم علم حضوری ہے کیونکہ ہماری ذات خود ہمارے سامنے حاضر ہے لیکن باقی موجودات کے بارے میں ہمارا علم علم حصولی ہے کیونکہ ہمارے سامنے تو ان کا فقط نقش و نگار اور شکل و صورت ہی حاضر ہے ۔

تبصرے
Loading...