قرآن کریم ایک عظیم معجزہ

مالک کائنات نے اپنے نمائندوں کى نمائندگى کے اثبات کے لیے مختلف ذرايع اختيار کئے ہيں اور ہر نبى کو کوئى نہ کوئي ايسا کمال دے کر بھيجا ہے کہ جس سے اس کا امتياز ثابت ہو جائے اور اس دور کے سارے افراد کو يہ محسوس ہو جائے کہ يہ فوق البشر طاقت کا حامل ہے اور اس کے کمالا

مالک کائنات نے اپنے نمائندوں کى نمائندگى کے اثبات کے لیے مختلف ذرايع اختيار کئے ہيں اور ہر نبى کو کوئى نہ کوئي ايسا کمال دے کر بھيجا ہے کہ جس سے اس کا امتياز ثابت ہو جائے اور اس دور کے سارے افراد کو يہ محسوس ہو جائے کہ يہ فوق البشر طاقت کا حامل ہے اور اس کے کمالات بشرى کمالات نہيں ہیں بلکہ ان کي پشت پر کوئى غيبى طاقت کام کر رہى ہے۔

اسي کار نماياں کا نام معجزہ ہے اور معجزہ کا وجود اسى لیے ضروري ہے کہ نبى يا امام کى نمائندگى ثابت ہو جائے اور سماج کو ان کى عظمت و برترى کا مکمل احساس ہو جائے۔

يہ معجزات ہر دور ميں مختلف انداز کے رہے ہيں اور ان کى جامع صفت يہ رہى ہے کہ جس دور نے جس کمال ميں امتياز پيدا کيا ہے اس دور کے منصب دار کو اسى سے ملتا جلتا معجزہ ديا گيا ہے تاکہ پورے دور کو اندازہ ہو جائے کہ يہ بغير تجربہ و تمرين وہ سب کچھ کر سکتا ہے جو ہزاروں تجربات کے بعد ہم نہيں کر سکتے ہيں۔

سابق انبياء کے معجزات اور ہمارے نبى کريم کے معجزات کا ايک نماياں فرق يہ ہے کہ ان کى نبوتيں ختم ہونے والي تھيں۔ انھيں ايسے معجزات کى ضرورت تھى جو وقتي طور سے ان کى برترى کو ثابت کردے چاہے ان کے بعد ان کا وجود نہ رہ جائے اور ہمارے نبى کى نبوت صبح قيامت تک باقى رہنے والى تھي۔ آپ کو ايسے معجزہ کى ضرورت تھى جس کا سلسلہ صبح محشر تک قائم رہے۔ قرآن حکيم اسى مقصد کى تکميل کے لئے معجزہ بنايا گيا ہے۔

اس کے علاوہ سابق شرائع اور شريعت پيغمبر کا ايک نماياں فرق يہ بھى ہے کہ ان ادوار ميں انسانيت گھٹنيوں چل رہى تھي۔ اس کى ترقى محدود اور طول کے اعتبار سے انتہائى ناقص تھى اور حضور سرور کائنات کا دور شريعت قيامت سے مل جانے کى بناء پر اتنا وسيع ہے کہ اس ميں انسانيت کى ترقى کى رفتار تيز تر ہونے والي اور طولى اعتبار سے آسمانوں سے بات کرنے والى تھي۔ اس لیے آپ کو ايک ايسے معجزہ کى ضرورت تھى جس ميں جملہ علوم وفنون کا ذخيرہ اور بشرى ترقى کا جواب موجود ہو۔ تاکہ آئندہ آنے والى نسليں يہ نہ کہہ سکيں کہ قرآن اس دور ترقى کے لیے بے کار ہے اور اس ميں کوئى افاديت نہيں۔ قرآن مجيد اس ضرورت کى بھى تکميل کرتا ہے۔ اس کے دامن ميں ايسے عظيم مطالب و مفاہيم موجود ہيں جہاں تک ذہن بشر کى رسائى نہيں ہے اور جنکے ادراک سے کمال عقل بھى عاجز ہے اور اسى لیے اس نے اپنے چيلنج کو وقتى نہيں بنايا بلکہ اپنے ہى دامن ميں محفوظ کرليا تاکہ ہر دور ميں يہ آواز باقى رہے اور ہر زمانہ کا انسان اپنى اپني فکرى پرواز کے اعتبار سے اس کى عظمتوں کا اندازہ کرتا رہے۔ کوئى اسے فصاحت و بلاغت کا شاہ کار سمجھ کر اس کى عظمت کے سامنے سر تسليم خم کرے گا، کوئى اس کى غيبى خبروں پر ايمان لائے گا،  کوئى اس کے علمى اکتشافات کے سامنے سر جھکائے گا، کوئى اس کى عصرى ترقى سے بلندى پر اعتماد کرے گا اور اس طرح ہر دور ترقى ميں اس کى عظمت کا احساس برقرار رہے گا۔

کل کے افراد اس حقيقت کا تجربہ کر چکے ہيں اور آج کے انسانوں کے لیے اس کا چيلنج باقى ہے۔ کل کے فصحاء عرب اس کى عظمتوں کے سامنے سر جھکا چکے ہيں اور آج والوں کا سجدہٴ نياز باقى ہے۔ کيا تاريخ اس حقيقت سے انکار کر دے گى کہ جب کتاب حکيم کا جواب تيار کرنے کے لیے بلند ترين اديب کا تقرر کيا گيا تو اس نے بھى کئى دن تک غور کرنے کے بعد يہ اعلان کر ديا کہ يہ کلام بشر نہيں ہے يہ تو ايک جادو معلوم ہوتا ہے۔ جادو کہنا فيصلہ کرنے والے کے ذہن کى پستى ہے ورنہ حقيقت يہ ہے کہ جادو ميں وہ عظمتيں کہاں ہوتى ہیں جو قرآن کى فصاحت و بلاغت ميں پائى جاتى ہيں۔

جادو کى تاثير وقتى ہوتى ہے اور قرآن کريم کى فصاحت و بلاغت کا ڈنکا آج بھى بج رہا ہے۔ جادو کا توڑ عرب کے پاس موجود تھا ليکن معجزہ کا جواب ممکن نہيں تھا ورنہ ديوار کعبہ سے اپنے قصائد نہ اتارے جاتے۔

اتنے واضح حقائق کے ہوتے ہوئے بھى بعض تعصب پيشہ افراد نے عظمت قرآن کو مجروح کر نے کے لیے مختلف اعتراضات و احتمالات قائم کیے ہيں۔ اور سب کى پشت پر ايک ہى جذبہ رہا ہے کہ کسى طرح کتاب کريم کى عظمت پامال ہو جائے اور دنيا اس کى برترى کا اقرار نہ کرسکے۔ ليکن يہاں معاملہ اس کے برعکس ہے ۔ ”واللہ متم نورہ ولو کرہ المشرکون۔“

تبصرے
Loading...