قرآن مجید کی قرائت کے وقت آہستہ آہستہ بات کرنا

اگر انسان کوکبھی قرائت قرآن مجید کی محفل میں شرکت کرنے کی توفیق حاصل ہوجائے خواہ اس کامقصداور محرک قرآن سے استفادہ کرنا ہویا کسی اور محرک کی وجہ سے مثلاً مجلس ترحیم پسماندگان کو تعزیت و تسلیت کہنے کیلئے قرائت قرآن مجید کی محفل میں شرکت کی ہے تو اسے اس فرصت کو غنیمت سمجھ کر آیات میں تدبر اور ان کے مفاہیم کو سمجھنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ حتی اگر قرآن مجید کی ملکوتی آواز ریڈیو سے نشرہورہی ہے تب بھی خاموشی اور آرام سے تدبر اور اندیشہ میں غرق ہوجائے، تاکہ اس ابدی معجزہ کے مفاہیم کو اپنی روح کی تعمیر اور اسے اخلاقی رذائل سے پاک کرنے اور قابل قدر عادات، جیسے خضوع و خشوع کو ایجاد کرنے میں استفادہ کرے، چنانچہ قرآن مجید فرماتا ہے: 

(اﷲُ نَزَّلَ اَحْسَنَ الْحَدِیثِ کِتَاباً مُتَشَابِھاً مَثَانِیَ تَقْشَعِرُّ مِنْہُ جُلُودُ الَّذِینَ یَخْشَونَ رِبَّھُمْ ثُمَّ تَلِینُ جُلُودُھُمْ وُقُلَوبُھُمْ اِلَی ذِکْرِ اﷲِ…) (زمر٢٣)

”اللہ نے بہترین کلام اس کتاب کی شکل میں نازل کیا ہے جس کی آیتیں آپس میں ملتی جلتی ہیں اور بار بار دہرائی گئی ہیں کہ ان سے خوف خدا رکھنے والوں کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں، اس کے بعد ان کے جسم اور دل یاد خدا کے لئے نرم ہوجاتے ہیں۔”

قرآن مجید کی اس نہایت عمدہ تاثیر کے باوجود اگر انسان قرآن مجید کی قرائت کے دوران آیات کے مفاہیم کی طرف توجہ نہ کرے اور اس کے لئے قرآن مجید کی آواز دوسری آوازوں سے کوئی فرق نہ رکھتی ہو، تو وہ غفلت میں مبتلا ہوجاتا ہے اور اس کی بے رحمی میں اضافہ ہوتا ہے۔

قرآن مجید کی اہمیت، اس کے احترام کے تحفظ اور قدر و منزلت کے پیش نظر خدائے متعال فرماتا ہے: 

(وَاِذَاقُرِیَٔ الْقُراٰنُ فَاسْتَمِعُوالَہُ وََنْصِتُوا لَعَلَّکُمْ تُرْحَمُونَ)(اعراف٢٠٤)

”اور جب قرآن کی تلاوت کی جائے تو خاموش ہو کر غور سے سنو کہ شاید تم پر رحمت نازل ہوجائے۔”

فطری بات ہے کہ جب خدائے متعال نے قرآن مجید کو انسان کی ہدایت اوراندرونی تبدیلینیز خدا کی طرف توجہ کیلئے وسیلہ قرار دیا ہے، اب اگر وہ قرآن مجید کی آواز کی طرف متوجہ نہ ہو اور اس ملکوتی آواز اور دوسری آوازوں کے درمیان کوئی فرق نہ قرار دے اور خدا کے موعظوں اور نصیحتوں کی طرف توجہ نہ دے تو اس نے برا کام انجام دیا ہے اور کفرانِ نعمت کا مرتکب ہو ا ہے کہ اس نے ایک قیمتی فرصت کو گنوا دیا ہے،بلکہ اس کی بے رحمی میں بھی اضافہ ہوا ہے، اور ہدایت کے لئے محدود چانس اور نسبی آماد گی کو بھی کھو دیا ہے۔

قرآن مجید سے بہرہ مند ہونے کے لئے ضروری ہے کہ اس کی تلاوت کے دوران ہم اپنے ہوش و حواس پر کنٹرول کر کے ایسے کان لگا کر سنیں کہ گویا قرآن مجید کی ملکوتی آواز کو خود پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی زبانی سن رہے ہیں، اس صورت میں قرآن مجید ہم میں اثر کرے گا اور تب اس سے بہترین صورت میں ہم استفادہ کرسکتے ہیں۔

قرآن مجید کی مجلسوں، جیسے مجلس ترحیم اور فاتحہ خوانی کی مجلسوں میں قرآن مجید کی تلاوت کا سننا ایک سنّت حسنہ ہے اور اس کی فراوان تاکید کی گئی ہے، افسوس کہ ہم اس نیک سنّت کی رعایت نہیں کرتے، مجلس ترحیم اور فاتحہ خوانی کی مجلسوں میں آپس میں گفتگو کرنے میں مشغول رہتے ہیں، حتی بلند آواز میں باتیں کرتے ہیں، یقینا جس کی توجہ اور فکر باتیں کرنے اور دوسروں کی باتیں سننے میں مشغول ہو، قرآن مجید کی طرف توجہ کرنے سے محروم رہتا ہے، اس لحاظ سے اہل سنت ہم سے آگے ہیں، وہ قرآن مجید کی تلاوت کے لئے خصوصی جلسات منعقد کرتے ہیں اور قرآن مجید کی صوت وقرائت پر شایان شان توجہ دیتے ہیں لیکن دوسری طرف بعض لوگوں کی ان مجلسوں میں شرکت، قرآن مجید کے قاریوں کی ہنرنمائی کا مشاہدہ کرنے اور ان کی تشویق کے لئے ہوتی ہے کہ بیچ بیچ میں ”اللہ اللہ” کہہ کر ان کی ہمت افزائی اورترغیب و تشویق کرتے ہیں۔

درحقیقت ان کی (اہل سنت) توجہ لفظ اور قرآن مجید کی ظاہری صورت کی طرف زیادہ ہوتی ہے اور قرآن مجید کے مفہوم اور نہایت عمدہ اثرات سے عبرت حاصل کرنے کی کوشش نہیں کرتے ہیں۔ افسوس کہ ہم قرآن کی تلاوت سننے کے لئے کم جلسات منعقد کرتے ہیں، قرآن مجید کے ہمارے عمومی جلسات وہی مجالس ترحیم ہیں کہ جو ُمردوں کے لئے منعقد کرتے ہیں۔ ان مجالس میں قاری قرآن پڑھتا ہے، لیکن دوسرے لوگ اپنے کام میں مشغول ہوتے ہیں یا ایک دوسرے سے باتیں کرنے میں مشغول رہتے ہیں! کبھی لائوڈ سپیکرکی آواز کو اتنا بلند کرتے ہیں کہ ہر سننے والے کے لئے اذیت کا سبب بن جائے ، اس لحاظ سے قرآن مجید کی آواز سننے کا شوق ہی نہیں رکھتے۔ یہ اس صورت میں ہے کہ تمام جوانب کی رعایت کی جانی چاہئے اور لائوڈ سپیکر کی آواز ایک ایسی حد میں تنظیم ہونی چاہئے کہ مجلس میں حاضر لوگ مستفید ہو سکیں، مجلس کے اندر اور مجلس سے باہر والے لوگوں کے لئے اذیت و آزار کا سبب نہ ہو۔

قابل توجہ امر ہے کہ یہ طرح کے مرسوم طریقے نادر ست اور ناکافی ہیں:ایک وہ روش جس کو ہم نے اختیار کیا ہے یعنی قرآن مجید کی تلاوت اور اس کے جلسہ منعقد کرنے کی طرف کم توجہ دیتے ہیں، صحیح نہیں ہے اور اہل سنت کی روش بھی کہ صرف قرآن مجید کی تلاوت اور صوت و لحن کے جلسہ و پروگرام منعقد کرتے ہیں اوراس کے مفاہیم و معنی سے سروکار نہیں رکھتے ہیںیہ بھی ناکافی ہے۔ حقیقت میں چاہئے تھا قرآن مجید کے عموی جلسات و سیع پیمانے پر منعقد ہوں اور ان جلسوں میں صوت، لحن اور قرائت قرآن کے علاوہ اس کے معنی و مفاہیم بھی بیان کئے جائیں تاکہ لوگوں میں قرآن مجید سے عبرت حاصل کرنے کی رسم پیدا ہو۔ قرآن مجید کی آیات کی انہماک کے ساتھ حزن آمیز لحن میں تلاوت کی جائے تاکہ سننے والوں کے کے دلوں میں خضوع و خشوع پیدا ہو اور ان کے لئے متنبہ اور بیدار ہونے اور ہوش میں آنے کا وسیلہ و ذریعہ قرار پائے یہ وہ نکتہ ہے جس کی طرف خود قرآن مجید نے اشارہ کیا ہے: 

(”واذاسمعوا ماانزل الی الرسول تریٰ اعینھم تفیض من الدمع…)(مائدہ٨٣)

”اور جب اس کلام کو سنتے ہیں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر نازل ہوا ہے تو تم دیکھتے ہو کہ ان کی آنکھوں سے بیساختہ آنسو جاری ہو جاتے ہیں…”

تبصرے
Loading...