قبلہ كى تبديلي

بعثت كے بعد تيرہ سال تك مكہ ميں اور چند ماہ تك مدينہ ميں پيغمبر اسلام (ص) حكم خدا سے بيت المقدس كى طرف رخ كركے نماز پڑھتے رہے ليكن اس كے بعد قبلہ بدل گيا اور مسلمانوں كو حكم ديا گيا كہ وہ مكہ كى طرف رخ كركے نماز پڑھيں_

مدينہ ميں كتنے ماہ بيت المقدس كى طرف رخ كركے نماز پڑھى جاتى رہي؟ اس سلسلے ميں مفسرين ميں اختلاف ہے، يہ مدت سات ماہ سے لے كر سترہ ماہ تك بيان كى گئي ہے ليكن يہ جتنا عرصہ بھى تھا اس دوران يہودى مسلمانوں كو طعنہ زنى كرتے رہے كيونكہ بيت المقدس دراصل يہوديوں كا قبلہ تھا وہ مسلمانوں سے كہتے تھے كہ ان كا اپنا كوئي قبلہ نہيں بلكہ ہمارے قبلہ كى طرف رخ كركے نماز پڑھتے ہيں اور يہ اس امر كى دليل ہے كہ ہم حق پر ہيں _

يہ باتيں پيغمبر اكرم (ص) اور مسلمانوں كے لئے ناگوار تھيں ايك طرف وہ فرمان الہى كے مطيع تھے اور دوسرى طرف يہوديوں كے طعنے ختم نہ ہوتے تھے، اسى لئے پيغمبر اكرم (ص) آسمان كى طرف ديكھتے تھے گويا وحى الہى كے منتظر تھے_

پيغمبر اكرم (ص) كا خانہ كعبہ سے خاص لگائو

پيغمبر اكرم (ص) خصوصيت سے چاہتے تھے كہ قبلہ، كعبہ كى طرف تبديل ہوجائے اور آپ انتظار ميں رہتے تھے كہ خدا كى طرف سے اس سلسلہ ميں كوئي حكم نازل ہو، اس كى وجہ شايد يہ تھى كہ آنحضرت (ص) كو حضرت ابراہيم عليہ السلام اور ان كے آثار سے عشق تھا، علاوہ از ايں كعبہ توحيد كا قديم ترين مركز تھا، آپ (ص) جانتے تھے كہ بيت المقدس تو وقتى قبلہ ہے ليكن آپ كى خواہش تھى كہ حقيقى و آخرى قبلہ جلد معين ہوجائے_

آپ چونكہ حكم خدا كے سامنے سر تسليم خم تھے،پس اپ يہ تقاضا زبان تك نہ لاتے صرف منتظر نگاہيں آسمان كى طرف لگائے ہوئے تھے، جس سے ظاہر ہوتا ہے كہ آپ كو كعبہ سے كس قدر عشق اور لگائو تھا_

اس انتظار ميں ايك عرصہ گذر گيا يہاں تك كہ قبلہ كى تبديلى كا حكم صادر ہوا ايك روز مسجد “”بنى سالم”” ميں پيغمبر نماز ظہر پڑھارہے تھے دوركعتيں پڑھ چكے تھے كہ جبرئيل كو حكم ہوا كہ پيغمبر كا بازو تھام كر ان كارخ انور كعبہ كى طرف پھيرديں_

مسلمانوں نے بھى فوراً اپنى صفوں كا رخ بدل ليا،يہاں تك كہ ايك روايت ميں منقول ہے كہ عورتوں نے اپنى جگہ مردوں كو دى اور مردوں نے اپنے جگہ عورتوں كو ديدى ،(توجہ رہے كہ بيت المقدس شمالى سمت ميں تھا ، اور خانہ كعبہ جنوبى سمت ميں تھا_)

اس واقعے سے يہودى بہت پريشان ہوئے اور اپنے پرانے طريقہ كے مطابق ،ڈھٹائي، بہانہ سازى اور طعنہ بازى كا مظاہرہ كرنے لگے پہلے تو كہتے تھے كہ ہم مسلمانوں سے بہتر ہيں كيونكہ ان كا كوئي اپنا قبلہ نہيں، يہ ہمارے پيروكار ہيں ليكن جب خدا كى طرف سے قبلہ كى تبديلى كا حكم نازل ہوا تو انہوں نے پھر زبان اعتراض درازكى چنانچہ قرآن كہتا ہے_

“”بہت جلد كم عقل لوك كہيں گے ان (مسلمانوں) كو كس چيز نے اس قبلہ سے پھيرديا جس پر وہ پہلے تھے””_

مسلمانوںنے اس سے كيوں اعراض كيا ہے جو گذشتہ زمانہ ميںانبيائے ماسلف كا قبلہ رہا ہے، اگر  پہلا قبلہ صحيح تھا تو اس تبديلى كا كيا مقصد،اور اگر دوسرا صحيح ہے تو پھرتير ہ سال اور پندرہ ماہ بيت المقدس كى طرف رخ كركے كيوں نماز پڑھتے رہے ہيں_؟

چنانچہ خدا وند عالم نے اپنے پيغمبر كو حكم ديا:

“”ان سے كہہ دو عالم كے مشرق ومغرب اللہ كے لئے ہيں وہ جسے چاہتا ہے سيدھے راستے كى ہدايت كرتا ہے””_

تبديلى قبلہ كا راز

بيت المقدس سے خانہ كعبہ كى طرف قبلہ كى تبديلى ان سب كے لئے اعتراض كا موجب بنى جن كا گمان تھا كہ ہر حكم كو مستقل رہنا چاہئے تھااگر ہمارے لئے ضرورى تھا كہ كعبہ كى طرف نماز پڑھيں تو پہلے دن يہ حكم كيوں نہ ديا گيا اور اگر بيت المقدس مقدم ہے جو گذشتہ انبياء كا بھى قبلہ شمار ہوتا ہے توپھراسے كيوں بدلاگيا_؟

دشمنوں كے ہاتھ بھى طعنہ زنى كا موقع آگيا، شايد وہ كہتے تھے كہ پہلے تو انبياء ماسبق كے قبلہ كى طرف نماز پڑھتا تھا ليكن كاميابيوں كے بعد اس پر قبيلہ پرستى نے غلبہ كرليا ہے لہذا اپنى قوم اور قبيلے كے قبلہ كى طرف پلٹ گيا ہے ياكہتے تھے كہ اس نے دھوكا دينے اور يہودو نصارى كى توجہ اپنى طرف مبذول كرنے كے لئے پہلے بيت المقدس كو قبول كرليا اور جب يہ بات كار گرنہ ہوسكى تو اب كعبہ كى طرف رخ كرليا ہے _

واضح ہے كہ ايسے وسوسے اور وہ بھى ايسے معاشرے ميں جہاں ابھى نور علم نہ پھيلا ہو اور جہاں شرك وبت پرستى كى رسميں موجود ہوں كيسا تذبذب واضطراب پيدا كرديتے ہيں اسى لئے قرآن صراحت سے كہتا ہے كہ”” يہ مومنين اورمشركين ميں امتياز پيدا كرنے والى ايك عظيم آزمائشے تھي””_

ممكن ہے كہ قبلہ كى تبديلى كے اہم اسباب ميں سے درج ذيل مسئلہ بھى ہو خانہ كعبہ اس وقت مشركين كے بتوں كا مركز بنا ہوا تھا لہذا حكم ديا گيا كہ مسلمان وقتى طور پر بيت المقدس كى طرف رخ كركے نمازپڑھ ليا كريں تاكہ اس طرح مشركين سے اپنى صفيں الگ كرسكيں_

ليكن جب مدينہ كى طرف ہجرت كے بعد اسلامى حكومت وملت كى تشكيل ہوگئي اور مسلمانوں كى صفيں دوسروں سے مكمل طور پر ممتاز ہوگئيں تو اب يہ كيفيت برقرار ركھنا ضرورى نہ رہا ، لہذا اس وقت كعبہ كى طرف رخ كرليا گيا جو قديم ترين مركز توحيد اور انبياء كا بہت پرانا مركز تھا _

ايسے ميں ظاہر ہے كہ جو كعبہ كو اپنا خاندانى معنوى اور روحانى سرمايہ سمجھتے تھے بيت المقدس كى طرف نماز پڑھنا ان كے لئے مشكل تھا اور اسى طرح بيت المقدس كے بعد كعبہ كى طرف پلٹنا، لہذا اس ميں مسلمانوں كى سخت آزمائشے تھى تاكہ شرك كے جتنے آثار ان ميں باقى رہ گئے تھے اس كٹھالى ميں پڑكر جل جائيں اور ان كے گذشتہ شرك آلود رشتے ناتے ٹوٹ جائيں_

جيسا كہ ہم پہلے كہہ چكے ہيں اصولى طور پر تو خدا كے لئے مكان نہيں ہے قبلہ تو صرف وحدت اور صفوں ميں اتحاد كا ايك رمزہے اور اس كى تبديلى كسى چيز كود گرگوں نہيں كرسكتى ، اہم ترين امر تو خدا كے حكم كے سامنے سر تسليم خم كرنا ہے اور تعصب اورہٹ دھرمى كے بتوں كو توڑنا ہے _

تبصرے
Loading...