فلسفه حج اور اتحاد بين المسلمين

سب سے پھلے مرحلہ میں اتحاد بین المسلمین کا فریضہ ھر مسلمان پر واجب ہے یعنی اتحاد اسی وقت مکمل طور پر نمایاں ہو گا جب امت اسلامیہ کی ایک ایک فرد اس فریضہ پر عمل پیرا ہو۔ اس لئے کہ اتحاد بین المسلمین کا فریضہ واجب کفائی نھیں ہے جو کسی ایک خاص فرد یاگروہ کے عمل کرنے کے ذریعہ ادا ہو جائے

تمام تعریفیں اس ذات بے ھمتا سے مخصوص ھیں جو کریم اور رحیم ہے ۔جس نے اپنے حبیب محمد کو مصطفیٰ بنا کر مبعوث بہ ر سالت فرمایا اور ان کے دین کو (ان الدین عند اللہ الاسلام) کی بے نظیر سند سے نوازا ۔ یہ سند شرف ،فضیلت، کرامت،عزت ،اخوت اور وحدت کی سند ہے ،جس کے زیر سایہ آکرفرزندان توحید سر فرازی کے ساتھ یہ نعرہ بلند کرتے ہیں کہ ”ھم مسلمان ھیں “۔یہ نعرہ وہ قرآنی نعرہ ہے جس کی تعلیم خود خدائے منان نے مسلمانوں کو دی ہے (وانّ ھذہ امتکم امةًواحدة وانا ربّکم فاتقون) ۔(۱)یہ شعار وھی قرآنی شعار ہے جس کی آغوش عطوفت میں مسلمانوں کی اخوت پروان چڑھی ہے( انما المؤمنون اخوة) ۔(۲)

اگر مسلمانان عالم کے درمیان شمع اخوت و وحدت فروزاں رہے گی، تو یقیناان کے اردگرد پروانہ عزت وکرامت کا طواف ہوگا اور اگر ان کی مختصر سی غفلت کی وجہ سے یہ شمع وحدت بجھی، تو پروانۂ عزت بیگانہ چراغ کی طرف رخ کرلے گا ۔ اسی وجہ سے قرآن مجید نے مسلمانوں کو صدر اسلام میں ھی ہوشیار کر دیا کہ (یا ایھاالذین آمنوا اتقوا اللہ حق تقاتہ ولا تموتنّ الاّوانتم مسلمون واعتصموا بحبل اللہ جمیعاًولا تفرقوا) ۔(۳)

”اے ایمان والو !خدا کا ایسا تقویٰ اختیار کرو جو اس کے تقوے کا حق ہے اور موت کو گلے نہ لگاو مگر یہ کہ حالت اسلام میں اور خدا کی رسّی کو تھام لو اور تفرقہ نہ کرو “

خدائے واحد، قرآن مجید میں مسلمانوں کی وحدت کے علل و اسباب کو اپنی طرف منسوب کر رہا ہے اور پیغمبر اسلام کو اس بات سے آگاہ کررہاہے کہ اے رسول!اگر صرف اور صرف آپ یہ چاھتے کہ ان لوگوں کے قلوب میں بذر اتحاد بو دیں، تو تمام وسائل و اسباب اور دولت و ثروت کے باوجود بھی یہ کام آپ کے بس میں نہ تھا(والّف بین قلوبھم لو انفقت ما فی الارض جمیعاًما الفت بین قلوبھم ولکن اللہ الّف بینھم انّہ عزیز حکیم)(۴)

”اور ان کے دلوں میں محبت پیدا کر دی ہے کہ اگر آپ ساری دنیا خرچ کر دیتے تو بھی ان کے دلوں میں باھمی الفت پیدا نھیں کر سکتے تہے لیکن خدا نے یہ الفت اور محبت پیدا کر دی ہے کہ وہ ھر شئی پر غالب اور صاحب حکمت ہے“۔

اسی وجہ سے پیغمبر اسلام نے خداوند عالم کے لطف و کرم کے نتیجہ میں مسلمانوں کے درمیان عقد اخوت پڑھا اور امت مسلمہ کے ما بین ایک الھی رابطہ قائم کر دیا ۔ مسلمان بھی اس گرانقدر رابطہ میں خود کو گرہ لگا کر توحید ،نبوت ،معاد،قرآن اور کعبہ کے مشترک عقیدہ پر گامزن ہو گئے، جس کی وجہ سے انکی وحدت شھرہ آفاق بن گئی اور ان کی ہےبت سے مرکز کفر کانپ اٹھا ۔

قرآن میں اتحاد کی قسمیں

قرآن مجید نے اتحاد کو چند قسموں میں تقسیم کیا ہے:

(۱)امت کا اتحاد :(انّ ھذہ امتکم امة واحدة وانا ربکم فاعبدون)(۵)

”بے شک یہ تمھارادین ایک ھی دین اسلام ہے اور میں تم سب کا پروردگار ہوں لھذا میری ھی عبادت کیا کرو۔“

(۲)آسمانی ادیان کے پیرو کاروں کا اتحاد 🙁 قل یا اھل الکتاب تعالوا لیٰ کلمة سواء بیننا و بینکم الاّنعبد الاّ اللہ ولا نشرک بہ شیئاً)(۶)

”اے پیغمبر! آپ کھہ دیں کہ اھل کتاب آوٴ ایک منصفانہ کلمہ پر اتفاق کر لیں کہ خدا کے علاوہ کسی کی عبادت نہ کریں اور کسی کو اس کا شریک نہ بنائیں ۔“

(۳)تمام ادیان کا اتحاد : (شرع لکم من الدین ما وصیٰ بہ نوحاً والذی اوحینا الیک وما وصینا بہ ابراھیم وموسیٰ وعیسیٰ اٴن اقیموا الدین ولاتتفرقوافیہ) (۷)

”اس نے تمھارے لئے دین میں وہ راستہ مقرر کیا ہے جس کی نصیحت نوح کو کی ہے اور جس کی وحی اے پیغمبر تمھاری طرف بھی کی ہے اور جس کی نصیحت ابراھیم، موسیٰ اور عیسیٰ کو بھی کی ہے کہ دین کو قائم کرو اور تفرقہ نہ کرو“ ْ۔

(۴)تمام انسانوں کا اتحاد:(یا ایھا الناس انا خلقناکم من ذکر و انثیٰ وجعلنا کم شعوباًو قبائل لتعارفوا)(۸)

”اے انسانو! ھم نے تم کو ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا ہے اور پھر تم میں شاخیں اور قبیلے قرار دئے ہیں تاکہ آپس میں ایک دوسرے کو پھچان سکو۔ “

ان آیات کے پیش نظر ھمیں یہ یقین کرنا ہو گا کہ سب سے پھلے مرحلہ میں اتحاد بین المسلمین کا فریضہ ھر مسلمان پر واجب ہے یعنی اتحاد اسی وقت مکمل طور پر نمایاں ہو گا جب امت اسلامیہ کی ایک ایک فرد اس فریضۂ مفروضہ پر عمل پیرا ہو۔ اس لئے کہ اتحاد بین المسلمین کا فریضہ واجب کفائی نھیں ہے جو کسی ایک خاص فرد یاگروہ کے عمل کرنے کے ذریعہ ادا ہو جائے یا دوسروں کی گردن سے اس کا وجوب ساقط ہو جائے، بلکہ اتحاد ایک ایسی حقیقت واحدہ ہے جس کے وجوب کے گہےرے میں ھر ایک فرزند توحید شامل ہے ۔

اسلامی اتحاد اس عمارت کی مانند ہے جس کی ایک ایک اینٹ اسکے قیام اور ثبات میں حصہ دار ہے اور ھر مخالف اتحاد قول و عمل ،اسلامی بنائے اتحاد سے ایک اینٹ کو نابود کرنے کے مساوی ہے جس کی تکرار اس خوبصورت عمارت کو کسی پرانے کھنڈر میں تبدیل کرکے اسے تاریخ کے کسی سسکتے ہوئے گوشے کا نام دے سکتی ہے ۔

اتحاد کی ضرورت

اتحاد بین المسلمین کیوں ضروری ہے ؟ یہ ایک ایسا سوال ہے کہ جس کے جواب کے لئے نہ کسی دانشور کی طرف رجوع کرنا پڑے گا اور نہ ھی کسی کتب خانے میں جاکر کتابوں کی چھان بین کرنی ہوگی، بلکہ آج کا بے چارہ مسلمان اگر اپنے ارد گرد ایک نظر ڈالے تو اسے خود بخود اس اھم سوال کا جواب بآسانی حاصل ہو جائے گا ۔

مملکت کفر تو بھت دور کی بات ہے حتی اسلامی مملکت کہے جانے والے ملکوں میں بھی مسلمان بے بس نظر آرہا ہے ۔لیکن ایسا کیوں؟کیوں ایک مسلمان اپنی ھی اسلامی مملکت میں لاچار ہے؟کیوں ایک مسلمان اپنی ھی اسلامی مملکت میں تبعیض، تحقیراور استحصال کا شکار ہے ؟کیوں ایک مسلمان اپنی ھی اسلامی مملکت میں فقیر ونادار ہے جبکہ دوسرے ادیان کے پیرو کاروں کا اقتصاد کافی مضبوط ہے ؟

ان تمام سوالوں کا جواب وہ استکباری نظام ہے جس کے شیطانی شعلوں سے پوری دنیا بالخصوص عالم اسلام جھلس رہا ہے ۔یہ نظام ایسا ھی ہے جس کا لازمہ مسلمانوں کی تباھی ہے ۔اسلام مخالف عناصر کی مطلق العنان ریشہ دوانیاں دور حاضر میں زندگی بسر کرنے والے کسی شخص سے پوشیدہ نھیںھیں ۔ استکباری طاقتوں کے پے در پے حملوں کی وجہ سے پیکر اسلام کمزور و ناتواں ہوتا چلا جارہا ہے ۔ یہ استکباری نظام جب چاھتا ہے کسی بھی اسلامی ملک پر اقتصادی پابندی عائد کر دیتا ہے ، جب چاھتا ہے اسے جنگ کی دھمکی دے دیتا ہے اور دوسری طرف سے اسلامی ممالک پر اسکی ثقافتی یلغاروں کا سلسلہ بھی اپنی آب و تاب کے ساتھ جاری ہے جس کی طرف نہ صرف یہ کہ بیشتر اسلامی ممالک کی کوئی توجہ نھیں ہے بلکہ افسوسناک بات تو یہ ہے کہ خود یھی ممالک اس زھریلی یلغار میں دشمنان اسلام کے برابر کے سھیم نظر آتے ھیں لیکن یقین کے ساتھ یہ کھا جا سکتا ہے کہ دشمنان اسلام کے مذکورہ تمام اسلام مخالف حربے ان کے اس حربے کے سامنے پھیکے دکھائی دےتے ھیں جس کے ذریعہ انہوں نے سالھاسال مختلف ملکوں کو اپنا غلام بنائے رکھاہے اور وہ حربہ یہ نعرہ ہے ”پہوٹ ڈالو حکومت کرو ۔“

اسی نعرہ اور حربہ پر عمل کرنے کی وجہ سے ھی ان کا استکباری نظام دنیا پر آج تک قائم و دائم ہے ۔ اسی نعرہ کے رائج اور نافذ ہونے کی وجہ سے آج کا مسلمان علمی، ثقافتی،اقتصادی اور اجتماعی میدانوں میں کافی پیچہے رہ گیا ہے ۔

لھذا اگر مسلمانوں کی پسماندگی کی سب سے اھم وجہ ان کے درمیان پایا جانے والا اختلاف ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اس پسماندگی کو قبر تاریخ میں دفن کرکے ھمہ جھتی ترقیاتی منزلوں تک پہونچنے کا سب سے بھترین اور پر امید راستہ اتحاد ہے ۔

عصر حاضر میں اتحاد بین المسلمین کی اھمیت و ضرورت کو بھتر طور پر سمجھنے کے لئے ضروری ہے کہ ان خطرات پر مزید نظر ڈالی جائے جو عالم اسلام کو عالم استکبار سے لاحق ھیں ۔

خطرات یا استکباری سازشیں

(۱)ثقافتی یلغار:گزشتہ سطور میں اس مھلک حرب کی طرف اشارہ کیا جا چکا ہے ۔ ثقافتی یلغار کے اھم آلات ووسائل درج ذیل ھیں :اخبارات، کتابیں،رسالے،ریڈیو ،ٹیلیویژن،فلمیں اور انٹرنیٹ وغیرہ

(۲)علمی یلغار :مغربی طاقتیں اپنی اخلاقی پسماندگی کے باوجود علم اور ٹکنولوجیکل لحاظ سے مسلسل ترقیاتی منزلوں کو طے کر رھی ہیں جس کی وجہ سے یہ طاقتیں اور حکومتیں دنیائے علم و تمدن کا قبلۂ آمال بنی ہوئی ہیں اور اس کے مقابلے میں ھم مسلمانوں کی پسماندگی اس بات کاباعث بنتی ہے کہ گزشتہ کی طرح آئندہ بھی مغربی طاقتوں کا تسلط ھم پر باقی رہے ۔

(۳)عالم اسلام کے خلاف مغربی طاقتوں کا اتحاد:مغربی ممالک اپنے ما بین موجود ہ تمام اختلافات کے باوجود، مسلمانوں کی تضعیف اور غارتگری کی خاطر ھم پیمان ھیں اور وہ ھمیں علمی ،سیاسی ،اقتصادی اور ثقافتی لحاظ سے کمزور بنانے پر متحد ھیں ۔

(۴)زمینوں پر قبضہ:دشمنان اسلام اور مغربی طاقتوں نے اسلامی سرزمینوں اور ملکوں پر ناجائز طریقہ سے قبضہ کر رکھا ہے اور آج تک ان کا یہ سلسلہ جاری ہے ۔عراق اور فلسطےن کی سلگتی سر زمین اور افغانستان کے مسلمانوں کی بے بسی اسی بات کو واضح کر رھی ہے ۔

(۵)اسلام مخالف فرقوں کا ظہور : ان میں سے بیشتر فرقے دشمنان اسلام کے ناپاک اھداف کے پےدا کردہ ھیں ۔ قادیانیت اور بھائیت جیسے دیگر فرقے دشمنان اسلام کی ناپاک اولادیں ھیں جو مسلمانوں کے درمیان گمراہ کنندہ افکار کی سم افشانی کرتے ھیں اور ایسے اےسے حربوں کا استعمال کرتے ھیں جسکا فریب سب سے پھلے ھمارے جوان کھاتے ھیں ۔

(۶)علماء اور متفکرین اسلام کی غفلت:غیر اسلامی ممالک میں مسلمانوں کی اقلیتیں اور بالخصوص ان کے جوان رفتہ رفتہ دینی اقدار اور شریعت و احکام کو فراموشی کے سپرد کرتے جارہے ھیں اور یہ سب کچہ مسلمانوں کی دوسری امتوں کے ساتھ بلا قید وشرط باھمی تعلقات اور علماء و متفکرین اسلام کی غفلت کی وجہ سے ہو رہا ہے ۔

(۷)اسلام کو دھشت گرد دین کے نام سے مشہور کرنا : استکباری نظام اور مغربی طاقتیں اسلام کے نام پر دھشت گرد تنظیموں کو وجود میں لاتی ھیں اور ان کو جنگی تربیت دینے کے بعد اسلامی ممالک میں بھیج دیتی ھیں پھر انھیں خود ساختہ تنظیموں سے اپنے ملک پر حملہ کرواتی ہیں تاکہ اسلام اور دھشت گردی کو لازم و ملزوم بنا کر دنیا کے سامنے پیش کر سکیں اور ساتھ ھی اسلامی ملک پر حملہ آور ہو نے کا بھانہ تلاش کر سکیں ۔

اسلامی ممالک کی اندرونی مشکلات

اسلامی ممالک کی مختلف اندرونی مشکلات کے پیش نظر بھی اس پر آشوب ماحول میں اتحاد بین المسلمین اشد ضروری ہے ۔یہ داخلی مشکلات بھی بظاھر داخلی مشکلات ھیں ورنہ انکے اصل اسباب کی بازگشت بھی استکباری نظام اور مغربی طاقتوں کی طرف ہوتی ہے ۔وہ مشکلات مندرجہ ذیل ھیں جن سے اکثر و بیشتر اسلامی ممالک روبرو ھیں :

مسلمانوں کا مغربی تمدن میں ڈھل جانا اور انکی جدید ٹیکنولوجی سے مرعوب ہوجانا ۔

۲۔بعض اسلامی ممالک کی حکومتوں کا مستقل نہ ہونا اور استکباری طاقتوں سے ھم پیمانی کو ، اسلامی عزت واقتدار پر ترجیح دینا ۔

۳۔فقر و غربت کا رواج اور اقتصادیات کی بدترین حالت جسکی وجہ سے علمی اور ثقافتی پسماندگی مسلمانوںکاجزء لاینفک بن گئی ہے نیز روحی ،جسمی اور نفسیاتی امراض بھی غربت اور فقر کا ھی نتیجہ ھیں ۔

۴۔ اسلامی ممالک کے مابین اختلافات کا وجود اور ایک دوسرے کے لئے ان کی سیاسی قدرت نمائیاںیا ایک اسلامی ملک کا دوسرے اسلامی ملک کے خلاف اپنا کاندھا اسلام دشمن عناصر کے حوالے کر دیناتاکہ وہ دشمن اس پر بندوق رکہ کر گولی چلا سکے ۔یہ اسلامی ممالک بجائے اس کے کہ ایک دوسرے کی امداد کرتے ہوئے ظلم و استکبار کا دنداںشکن جواب دیتے ،اسرائیل ، امریکہ ،فرانس ،بر طانیہ اور روس جیسی اسلام مخالف طاقتوں کے سامنے اسلامی ممالک کے خلاف دوستی کا ھاتہ بڑھا دیتے ھیں ۔

۵۔مسلمانوں کے درمیان مذھبی اختلافات کا وجود جو اکثر اوقات علمی بحث و گفتگو سے باھر نکل کر جنگ کے میدان تک پہونچ جاتا ہے اور ھزاروں بے گناہ جانیں چلی جاتی ھیں ، بچے یتیم ،عورتیں بےوہ اور مائیں بے اولاد ہوجاتی ھیں ۔ ایک دوسرے پر کفر وفسق کا الزام لگایا جاتا ہے حتی یہ نادان مسلمان اسقدر اندہے ہو جاتے ھیں کہ مسجدوں اور زیارت گاہوں کو خون سے رنگین کرنے میں بھی ذرا ساتاٴمل نھیں کرتے ۔

بےشک اس طرح کی نادانیاں دشمنان اسلام کی مسرت اور اسلام و مسلمین کی بربادی کا باعث بنتی ہیں ۔اگر مذاھب کے بعض نظریات ایک دوسرے سے مختلف ھیں تو انھیں جدال احسن اور علمی مناظروں اور نشستوں سے برطرف کرنا چاھئے (و جدالھم بالتی ھی احسن )،مسجدوں ،زیارت گاہوں اور امام باڑوں میںخودکش حملوں اور ایک دوسرے پر لعنت وملامت کرنے سے نہ کوئی سنی، شیعہ ہوجائے گا اور نہ کوئی شیعہ سنی بلکہ انتقام کی آگ اور بھی زیادہ شعلہ ور ہوتی جائے گی ۔بعض مسلمانوں کی یہ نادانیاں تو بری ھیں ھی لیکن اس سے زیادہ برا کام وہ دانا مگر غافل مسلمان کر رہے ھیں جو قرآن مجید کی اس آیت پر عمل نھیں کرتے : (وان طائفتان من الموٴمنین اقتتلوافاصلحوابینھمافان بغت احداھما علیٰ الاخریٰ فقاتلوا التی تبغی حتیٰ تفیٴ الیٰ امر اللہ فان فائت فاصلحوا بینھما بالعدل واقسطوا ان اللہ یحب المقسطین)(۹)

”اور اگر مومنین کے دو گروہ آپس میں جھگڑا کریں تو تم سب ان کے درمیان صلح کراوٴ اور اس کے بعد اگر ایک گروہ دوسرے پر ظلم کرے تو سب مل کر اس سے جنگ کرو جو زیادتی کرنے والا گروہ ہے یھاں تک کہ وہ بھی حکم خدا کی طرف واپس آجائے پھر اگر پلٹ آئے تو عدل وانصاف کے ساتھ اصلاح کرو اور انصاف سے کام لو کہ خدا انصاف کرنے والوں کو پسند کرتا ہے ۔ “

مذکورہ آیت ھر مسلمان کو حکم دے رھی ہے کہ مسلمانوں کے دو مختلف گروہوںکے درمیان اختلاف کی صورت میں ان کے درمیان صلح برقرار کرو ۔

کیا اسلام اور مسلمین کی ٹھیکہ داری کا دم بھرنے والے لوگ اس آےت پر عمل کر رہے ھیں ؟ کیا دو اسلامی ملکوں کے باھمی اختلافات کو ختم کرنے کی غرض سے کوئی تیسرا سلامی ملک ثالثی کرنے کو تیار ہے ؟یا یہ کہ ھر مسلمان ،ھر اسلامی ملک اور ھر اسلامی گروہ صرف اپنے شخصی و ذاتی مفاد کو مد نظر رکہے ہوئے ہے؟

۶۔اسلام دشمن عناصر کے جانب سے مختلف ذرائع ابلاغ کے ذریعہ مسلمانوں کے درمیان قومیت پرستی کی آگ کو شعلہ ور کرنا ۔اس مرحلے میں بھی مسلمان فریب کا شکار ہو چکا ہے جو اپنے آپ میں ایک زھریلی بیماری ہے جبکہ اسلام نے کسی طرح کیبرتری کو فضیلت شمار نھیں کیا ہے بلکہ فضیلت اور برتری کا معیار صرف اورصرف تقویٰ الھی کو جانا ہے ۔(ان اکرمکم عنداللہ اتقیٰکم) ۔

اے کاش !یہ مسلمان عصر حاضر کے تقاضوں کو درک کرلیتا اور قوم پرستی اور نسلی و نژادی تعصبات سے کنارہ گیری اختیار کرکے اسلامی غیرت کو اپنا سرمایۂ حیات بنالیتا !!

۷۔اسلامی معاشروں میں طبقاتی فاصلوں کا وجود اور اسی طرح کی دیگر مشکلات۔

ہماری ذمہ داریاں

تمام مسلمانوں اور خصوصاً علمائے اسلام کے کاندہوں پر تو بھت سی ذمہ داریاں ھیں جنکو اگر نبھایا جائے تو مسلمان ھر درد و غم سے نجات پا سکتا ہے لیکن اس مقام پر صرف چند وظائف کی طرف اشارہ کیا جا رہا ہے :

(۱)مسلمانوں کے امور کی طرف توجہ دینا اور اس سلسلہ میں چارہ اندیشی کرنا :پیغمبر اسلام فرماتے ھیں : من اصبح ولم یھتم باٴمور المسلمین فلیس منیےعنی جو مسلمان اس حالت میں رات گذار دے کہ مسلمانوں کے امور کے سلسلہ میں چارہ اندیشی نہ کرے تو وہ مجھ سے نھیں ہے ۔

لھذا ھر مسلمان کا فریضہ ہے کہ دوسرے مسلمان کے ھر طرح کے اقتصادی ، علمی ،ثقافتی اور سیاسی امور میں اپنی توانائی کے مطابق امداد کرے ۔ اس سلسلہ میں علماء اور دانشوران اسلام کی ذمہ داری عام مسلمان کے وظائف سے کھیں زیادہ ہے ۔

(۲)بیان شدہ اندرونی اور بیرونی مشکلات سے مقابلے کے لئے علماء، دانشوروں اور بارسوخ شخصیتوں کی اپنے بیانات ،مضامین ، تحریروں اور مختلف تحریکوں کے ذریعہ سعی و کوشش ۔

(۳)مسلمانوں کے مثبت نکات، انکی اسلامی غےرت اور دینی جذبات سے مکمل طور پراستفادہ کرتے ہوئے انھیں اسلام مخالف سیاستوں سے آگاہ کرنا اور قرآن و اسلام کے احکام پر صحیح طریقہ سے عمل کرنے کی دعوت دینا ۔

(۴)چوتھی ذمہ داری جو سب سے اھم ہے اور جسکا بیشتر تعلق علماء اور بااثر ورسوخ شخصیتوں سے ہے وہ یہ ہے کہ وہ لوگ مسلمانو ں کو اختلافات پر اکسانے کے بجائے ان کے درمیان محبت و دوستی اور اتحاد کا بیج بونے کی مسلسل کوشش کرتے رہیں اس لئے کہ اتحاد ھی ایسی دوا ہے جس کے ذریعہ مسلمانوں کے ھر طرح کے دردوغم کا مداوا ہو سکتا ہے اور وہ اپنی کہوئی ہوئی عزت اور اقتدار کو دوبارہ حاصل کرسکتے ھیں ۔

حج تجلی گاہ اتحاد

ھجرت کا دوسرا سال تھا ،اسلام نو مولود تھا ،پیغمبر اسلام بیت المقدس کی طرف رخ کرکے نماز بجا لانے میں مصروف تہے کہ جبرئیل امین﷼ نازل ہوئے اور حضور اکرم کا رخ بیت المقدس سے کعبہ کی طرف تبدیل کردیا اور آپ نے اس نماز کی باقی دو رکعتوں کو بیت اللہ الحرام کی طرف رخ کرکے ادا کیا ۔

تاریخ کا یہ عظیم مرحلہ اگر چہ خانۂ کعبہ کی قدر وقیمت اور بزرگی و عظمت کو ثابت کررہا ہے لیکن اس زمانے کے اکثر مسلمانوں کے لئے تبدیلی قبلہ کا فلسفہ اور اسکی حکمت واضح نھیں تھی لیکن آھستہ آھستہ کچھ مدت کے بعد تمام وابستگان ذات احدیت کے لئے یہ امربخوبی آشکار ہو گیا کہ خدائے منان نے کعبۂ معظمہ کو کو اتحادواستقلال کا محورومرکز بنا دیا ہے اور اس ذات دانا نے اس تجلی گاہ اتحاد پر مسلمانان عالم کے اجتماع کو انکی شان و شوکت ،عظمت و جلالت، عزت واقتدار اور معنوی و مادی رشدوکمال کا سرچشمہ قرار دیا ہے ۔

ہاں! کعبہ خلیل اللہ کے قدرت مند ھاتہوں کے ذریعہ تعمیرہوا تاکہ مرکز توحید اور عنوان اتحاد بنے ۔پیغمبر اسلام کے زمانے میں جب کعبہ معظمہ کی تعمیر نو کامرحلہ آیا توایک حد تک دیوار کھڑی کرنے کے بعد حجرالاسود کو نصب کرنے کے سلسلہ میں قبائل عرب میں اختلاف پیدا ہو گیا کہ یہ عظیم افتخار کس قبیلہ کو نصیب ہو۔آخر کار سب نے اس بات پر اتفاق کر لیاکہ اس سلسلہ میں رسالت مآب کا جو نظریہ ہوگا وھی نافذ ہوگا ۔آنحضرت نے حکم فرمایا

کہ ایک عبا زمین پر بچھا کر حجرالاسود کو اس عبا میں رکہ دیا جائے اور ھر قبیلہ اس عبا کے ایک گوشہ کو تھام کر خانہ کعبہ تک لائے ،جب سب نے اس حکم پر عمل کیااور حجرالاسودکعبہ کی دیوارکے نزدیک آگیاتو حضور اکرم نے اپنے دستھائے مبارک سے اسے دیوار کعبہ میں نصب کردیا ۔(۱۰)

پیغمبر اسلام نے اپنے اس خدا پسندانہ عمل سے اپنی امت کو عمومی اتحاد کی طرف دعوت دی ہے ۔آنحضرت کا یہ عمل اتحاد اور ھمدلی کا ایک ایسا درس ہے جسمیں قیامت تک آنے والےفرزندان توحید کے لئے چند اھم نکات پوشیدہ ھیں:

1- دو مختلف قبیلوں یا گروہوں میں اختلاف کی صورت میں مسئلہ کو حل وفصل کرنے کی غرض سے فھیم اور سنجیدہ افراد آگے بڑہیں ۔

2- اختلافی مسائل کو حل کرنے میں عدالت و مساوات کا ضرور خیال رکھا جائے ۔

3- م افراد کی سعی و کوشش، تلخیوں کو حلاوت اور اختلافات کو وحدت میں تبدیل کر سکتی ہیں ۔

4- مقدس اور الھی مقامات سر چشمہ ٴ وحدت واتحاد ہونے چاھئیں نہ کہ مرکز نفرت و اختلاف۔

5- حضرت ختمی مرتبت نے اس درس کے ذریعہ کعبہ معظمہ کو منادی اتحاد کے عنوان سے دنیا کے سامنے پیش کیا ہے ۔یہ خانۂ خدا صرف منادی توحید واتحاد ھی نھیں بلکہ مساوات (سواءً العاکف فیہ والباد)(۱۱)،آزادی واستقلال طلبی (البیت العتیق)(۱۲) ،طھارت وپاکیزگی (طھر بیتی)(۱۳) ،اور قیام اور استواری(قیاماًللناس)(۱۴)،کا کامل مظھر بھی ہے ۔

حضور اکرم نے اپنی اس خوبصورت روش کے ذریعہ سیئات کو حسنات اور نفرتوں کو محبتوں میں تبدیل کر دیا ۔اسی لئے تو آج تک بیت اللہ الحرام سے اتحاد کا ضمضمہ سنائی دیتا ہے، اسکی دیواریں بظاھر خاموش مگر در حقیقت گویا ھیں اور ایک ایک فرزند توحید سے متحد ہونے کی التجا کر رھی ھیں کہ اے مسلمان! متحد ہو جا!اپنی گرانقدر میراث کولٹنے نہ دے! اپنی کہوئی ہوئی عزت کو دوبارہ حاصل کرنے میں کوشاں ہو جا ! بے حیائی کا لباس اتار پھینک ! استکباری نظام کے زیر سایہ نہ رہ اور الھی رنگ میں رنگ جا !

حج بھترین موقعہ

دین اسلام نے مسلمانوں کے اجتماع کو کافی اھمیت دی ہے ۔یھاں تک کہ اس دین مبین نے امت مسلمہ کو جماعت واجتماع کی طرف رغبت دلانے کی خاطر باجماعت ادا ہونے والے اعمال و فرائض میں بے انتھا ثواب قرار دیا ہے ۔جو ثواب واجب نمازوں کوبا جماعت ادا کرنے میں قرار دیا گیا ہے اتنا ثواب فرادیٰ نماز کو حاصل نھیں ہے جیسا کہ احادیث میں واردہوا ہے کہ اگر نماز جماعت میں نمازیوں کی تعداد دس افراد سے زیادہ ہوگی تو اس کاثواب خداوند عالم کے علاوہ کسی کے علم میں نھیں ہے ۔(۱۵)اسی طرح اگر یہ نماز عام مسجد میں قائم ہو تو اس کا ثواب اور بھی زےادہ ہے اور اگر وہ مسجد، جامع مسجدہو تو اس کے ثواب کی انتھا نھیں ہے ۔اسی طرح اسلام نے دیگر اعمال و عبادات میں بھی مسلمان کی وحدت اور ان کے اجتماع کو بھت اھمیت دی ہے ۔

لیکن کیا اسلام کایہ حسین قانون صرف معنوی حکمت کا حامل ہے؟نھیں ھرگز نھیں !ھم اسے ایک معنوی پھلو کا نام دیکر محدود نھیں بنا سکتے اسلئے کہ اگر خدا کو اس قدر ثواب دینا تھا تو وہ گھر میں پڑھی جانے والی فرادیٰ نماز میں بھی یہ ثواب قرار دے سکتا تھا ۔اس کے خزانے میں کوئی کمی نھیں ہے لیکن اجتماعی اعمال وافعال میں اس قدر ثواب کے موجود ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اس میں معنوی پھلو کے علاوہ بھی کوئی اھم پھلو ہے جو براہ راست اس اجتماع سے مربوط ہوتا ہے اور وہ ہے اسلام کا سیاسی پھلو یعنی ایسے اجتماعات کا ھدف یہ ہے کہ امت مسلمہ عالم اسلام کے حالات سے آگاہ ہوتی رہے اور اسلام ومسلمین کی چارہ جوئی میں مصروف رہے ۔

اس بات کا کافی حد تک امکان پایا جاتا ہے کہ دین اسلام نے جماعت میں فرادیٰ کی بنسبت زیادہ ثواب رکھا ہے تاکہ اھل خاندان اور پڑوسی ایک جگہ جمع ہوں اور ایک دوسرے کے ا حوال سے آگاہ ہوں ۔ مسجد میں پڑھی جانے والی نماز جماعت کا ثواب گھر میں پڑھی جانے والی نماز جماعت کے ثواب سے زیادہ قرار دیا گیا ہے تاکہ ایک محلہ اور ایک گاوٴں کے مسلمان ایک دوسرے کے احوال سے با خبر ہوں اور در پیش مشکلات کے بارے میں غور وفکر کرنے پر مجبور ہوں ،اسی طرح نماز جمعہ کا ایک فلسفہ یہ ہے کہ قرب و جوار اور اکناف و اطراف کے مسلمان ایک مقام پر اکٹھا ہوں اور اپنی مشکلات کے بارے میں چارہ اندیشی کریں ،اسی سلسلے کو برقرار رکھتے ہوئے اسلام نے پوری دنیا میں پھیلے ہوئے فرزندان توحید کو ایک مقام پر جمع کرنا چاھا تو حج کو واجب کر دیا *تاکہ مسلمانان عالم پوری دنیائے اسلام کے حالات سے باخبر ہوں ،تبادلہ خیال کریں ،اسلام اور مسلمین کو مشکلات کی دلدل سے نکالیں اور توحید کے زیر سایہ آکر اتحاد کا پرچم بلند کریں ۔

لشکر اسلام کا یہ عظیم اجتماع دشمنان اسلام کی تمام کوششوں کو نقش بر آب کرکے پیروان دین مبین کو کائنات ھستی میں دوبارہ سر بلندی عطا کر سکتا ہے مگر ضرورت ہے وحدت و اتحاد، نظم وانسجام ، عزم راسخ اور قلب محکم کی ۔اسی لئے تو اسلام محمدی ھر موحد کو آواز دے رہا ہے:

جھان رنگ و خو کو چہوڑ کر ملت میں گم ہو جا

نہ ایرانی رہے باقی نہ تورانی نہ افغانی

(علامہ اقبال)

امام خمینی کی نظر میں حج کا سیاسی پھلو

علامہ اقبال اور جمال الدین اسدآبادی جیسے منادیان اتحاد کی فھرست میں ایک درخشاں نام انقلاب اسلامی کے رھبر کبیر حضرت آیة اللہ العظمیٰ روح اللہ موسوی خمینی رحمة اللہ علیہ کا بھی موجود ہے جنکا تا نفس آخر سارا ھم وغم اسلام ومسلمین کی فلاح و بھبودی تھا ۔اسی مقدس ھم وغم کی آہوں نے ھی آپ کے انبیانات کی شکل اختیار کر لی جنکو سن کر ھر با ضمیر مسلمان اپنے اندر ایک عجیب انقلابی کیفیت کا مشاھدہ کرتا ہے اور وہ یہ کھتا ہوا نظر آتا ہے کہ یہ تو میرے ھی دل کی آواز ہے ! ھاں ! یہ ایسا منادی اتحاد تھا جو مومنوں کے قلوب میں پوشیدہ مقدس آرزووٴں اور پاک و طاھر آوازوں کوسمیٹ کر ہویدا کر دیا کرتا تھا تاکہ ھر مسلمان خواب غفلت سے بیدار ہو کر اسلام کی صدائے استغاثہ پر لبیک کہے ۔

حج کے موقعہ پر امام خمینی زائرین بیت اللہ کو ایک پیغام دیتے ھیں جس کا اےک اقتباس ذیل الذکر ہے :

”حج کی انجام دھی کی غرض سے سر زمین وحی پر جمع ہونے والے آپ تمام فرزندان توحید پر واجب ہے کہ اس موقع سے فائدہ اٹھائیں اور چارہ اندیشی کریں ۔مسلمانوں کے مسائل کو حل کرنے کی غرض سے تبادلۂ خیال کریں ۔اس موقعہ پر آپ سبھی پر واجب ہے کہ اسلام کے مقدس اھداف ،شریعت طاھرہ کے عالی مقاصد، مسلمانوں کی ترقی اور اسلامی معاشرہ کی وحدت و ھم دلی کی راہ میں کوشاں ہو جائیں ۔استقلال کے حصول اور استعماری سرطان کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے پر ھم فکر و ھم پیمان ہو جائیں، مختلف مملکتوں سے آئے ہوئے مسلمانوں کی زبان سے ان کی مشکلات کو سنیں اور اسے حل وفصل کرنے میں ذرہ برابرکوتاھی نہ کریںنیزاسلامی مملکت کے غرباء وفقراء کے سلسلہ میں چارہ اندیشی کریں ۔اسلامی سرزمین فلسطین کو اسلام کے سب سے بڑے دشمن صھیونزم کے پنجوں سے نجات دینے کے بارے میں غوروفکر کریں ۔تمام ممالک سے آئے ہوئے علماء اور دانشوروں پر لازم ہے کہ ملت مسلمہ کو بیدار کرنے کے لئے تبادلۂ نظر کے ساتھ مستدل بیانات مسلمانوں کےدرمیان پہےلائیں نیز اپنے ملک کی طرف مراجعت کے بعد ان بیانات کو وھاںبھی منتشر کریں اور اسلامی ممالک کے روٴساء کو اس بات کی تاکید کریںکہ وہ اسلامی اھداف کو اپنا نصب العین قرار دیں ۔(۱۶)

امام خمینی ۻ انھیں امورووسائل کے تناظر میں حج کے سیاسی پھلو پر زیادہ زور دیتے تہے ۔ امت مسلمہ کو خانہ کعبہ کی طرف متوجہ کراتے ہوئے آپ فرماتے ھیں:اے مسلمانان عالم! اپنی عزت اور اپنے اقتدار کو اسلام اور بیت اللہ کے ذریعہ حاصل کرو۔(۱۷)

ھاں !یہ صرف خمینی کبیر کی آواز ھی نھیں بلکہ یہ ایک خوشخبری اور مژدہ بھی ہے ۔ سرفرازی کا مژدہ !سربلندی کا مژدہ !حیات کا مژدھ!نجات کامژدہ!

لیکن یہ خوشخبری اور مژدہ صرف مژدہ ھی بن کر رہے گا اگر مسلمانان عالم نے اتحاد کی طرف قدم نہ بڑھائے ۔اسلامی سماج اسی وقت با حیات نظر آئے گا جب اسکے بے جان جسم میں روح اتحاد پہونکی جائے گی ۔

خدا وند منان تمام مسلمانان عالم کو راہ اتحاد پر گامزن ہونے کی توفیق عطا فرمائے! (آمین)

حوالے

(۱)سورۂمومنون/۵۲ ،

(۲) سورہ ٴ حجرات /۱۰

(۳)سورۂ آل عمران ۱۰۲،۱۰۳

(۴)سورۂ انفال/۳۶

(۵)سورہ ٴانبیاء/۹۲

(۶)سورۂ آل عمران /۶۴

(۷)سورہ ٔشوریٰ /۱۳

(۸)سور ۂ حجرات/۱۳

(۹)سورۂ حجرات/۹

(۱۰)وسائل الشیعة ۔۹/۳۲۹۔۳۳۰

(۱۱)سورہ ٴحج /۲۵ ،

(۱۲)سورۂ حج/۲۹و۳۳،

(۱۳) سورۂ حج /۲۶،

(۱۴)سورہ ٴمائدة/۹۷،

(۱۵)مستدرک الوسائل /ج۱ص۴۸۷

(۱۶) حج کنگرۂ عبادی سیاسی ص ۱۵۔۱۹

(۱۷)صحیفہ ٴ نورج۱۸ ص۷۱

 

 

تبصرے
Loading...