فضائل ماہ شعبان و شبِ براء ت

بنی آدم پر حق تعالی کا عظیم فضل ہے کہ اس نے مقصد تخلیق سے ان کو آگاہی بخشی، پھر حق کی باطل سے، ھدایت کی گمراہی سے اور علم کی جہالت سے تمیز کرنے کے لئے عقل اور فکر و نظر کی صلاحیتیں بخشیں، الغرض رشد و ھدایت کے جملہ اسباب مہیا کرکے صراط مستقیم سے انہیں آشکار ا کیا، پھر چونکہ یہ سارا عالم اور اسکی نعمتیں اور یہ دنیوی زندگی ان سب سے مقصود انسانوں کی ابتلاء و آزمائش تھی کہ کون ایمان لاکر عمل صالح اختیار کرتا ہے اور کون کفر و شرک میں مبتلا رہتا ہے اسی لئے انہیں اختیار کی آزادی بخشی اور اسی اختیار پر روز حشر جزا و سزا کا تحقق ہوگا، پس انسانیت کی فلاح اسی بات پر موقوف ہے کہ ایمان لاکر حق تعالے کا عرفان حاصل کرے اور اس کی اطاعت و بندگی کی راہ اختیار کرے، یوں تو عبادت مقصد تخلیق انسان ہے جس سے اس کی اہمیت معلوم ہوتی ہے لیکن کچھ خاص مناسبتوں میں مخصوص عبادتیں خصوصی اہمیت والی اور غیر معمولی اجر و ثواب کی حامل ہوتی ہیں اور حق تعالی نے اس امت کو اپنے حبیب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت کے تصدق اس قسم کے مناسبات اور مواقع بخوبی عطا فرمایا تاکہ یہ ان کی قلیل عمروں کی عظیم تلافی بن جائیں۔ پس منجملہ انکے ایک ماہ شعبان المعظم ہے ۔

فضائل ماہ شعبان : ماہ شعبان کے فضل و شرف کے لئے یہ بات کافی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو اپنا مہینہ قرار دیا ، اسی طرح حدیث شریف میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: رجب کا شرف اور فضیلت باقی مہینوں پر ایسی ہے جیسے دوسروں کلاموں پر قرآن مجید کی فضیلت اور تمام مہینوں پر شعبان کی فضیلت ایسی ہے جیسے تمام انبیاء پر میری ہے اور دوسرے مہینوں پر رمضان کی فضیلت ایسی ہے جیسے تمام کائنات پر اللہ کی فضیلت۔ 

ماہ شعبان کے قدردانوں کے لئے انعامات الہیہ: غنیۃ الطالبین وغیرہ میں ہے کہ شعبان میں پانچ حروف ہیں اور پانچوں حروف رب تبارک و تعالی کے پانچ عظیم انعامات کا رمز اور اشارہ ہیں چنانچہ’ ش‘ اشارہ ہے شرف کا ’ع ‘علو یعنی رفعت و بلندی کا، ’ب‘ بر یعنی احسان اور بھلائی کا ، ’ا‘الفت کا اور ’ن‘ نور کا اشارہ ہے۔ پس یہ انعامات الہیہ ماہ شعبان کے قدر دانوں کے لئے مخصوص ہیں جو اس ماہ میں عبادتوں کا اہتمام کیا کرتے ہیں۔

عذاب قبر سے نجات: فضائل رمضان میں حضرت محدث دکن علیہ الرحمۃیہ واقعۂ بیان فرماتے ہیں کہ ’’ ایک بزرگ فرماتے ہیں کہ جب میرے دوست ابو حفص کبیر کا انتقال ہوا تو آٹھ مہینے کے بعد خواب میں کیا دیکھتا ہوں کہ ان کا چہرہ متغیر ہوگیا ہے اور رنگ زرد ہے میں نے سلام کیا، انہوں نے سلام کا جواب نہ دیا، میں نے کہا سبحان اللہ میں سلام کرتا ہوں اور آپ جواب نہیں دیتے، فرمائے کہ سلام کا جواب دینا بھی عبادت ہے اور قبر عبادت کی جگہ نہیں پھر میں نے کہا آپ تو بہت خوبصورت تھے چہرے کا رنگ ایسا کیوں ہوگیا ہے؟ انہوں نے کہا : جب مجھے قبر میں رکھا گیا تو ایک فرشتہ میرے سرہانے آکھڑا ہوا اور کہا ’’او برے بوڑھے‘‘ اور وہ میرے سارے گناہ گنتے جاتا اور گرز مارتا جاتا تھا اور تمام بدن میں آگ بھڑک گئی، پھر قبر نے مجھ سے کہا کہ تجھے خدا سے شرم نہیں آئی؟ یہ کہہ کر قبر نے ایسا دبایا کہ پھسلیاں ادھر کی ادھر ہوکر چور چور ہوگئیں، شعبان کی پہلی رات تک میں اسی عذاب میں تھا پھر شعبان کی پہلی تاریخ کو آواز آئی کہ فرشتوں اس سے عذاب اٹھالو اس نے تمام عمر شعبان کی راتیں جاگ کر گذاری ہیں اور اکثر روزہ رکھا ہے اس لئے شعبان کی برکت سے اس سے عذاب دور کردو اور اس کو جنت اور رحمت کی خوش خبری سناؤ پس شعبان کی برکت سے اب میں آرام میں ہوں۔

ماہ شعبان کی عبادتیں: 1) روزہ : صحاح ستہ کی آحادیث شریفہ سے ثابت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ماہ شعبان میں بکثرت روزوں کا اہتمام فرمایا کرتے تھے، نسائی شریف میں حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے انہوں نے کہا میں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں شعبان کے علاوہ اور کسی مہینہ میں آپ کو نہیں دیکھتا آپ (بکثرت نفل) روزے رکھتے ہوں فرمایا: یہ وہ مہینہ ہے کہ لوگ اس سے غافل ہیں، یہ رجب رمضان کے درمیان کا مہینہ ہے اور یہ وہ مہینہ ہے جس میں رب العالمین کی بارگاہ میں اعمال پیش ہوتے ہیں، میں محبوب رکھتا ہوں کہ جب میرے عمل پیش ہوں تو میں روزے دار ہوں 2) تلاوت قرآن : غنیۃ الطالبین میں حضرت سیدنا انس بن مالک سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب جب شعبان کا چاند دیکھ لیتے تو کلام مجید کی تلاوت میں منہمک اور محو ہوجاتے الخ  3) درود شریف: حضرت شیخ الاسلام بانی جامعہ نظامیہ اپنی تالیف انوار احمدی میں رقم طراز ہیں ’درود شریف کا حکم ۲ ھ ماہ شعبان میں نازل ہوا اسی لئے ماہ شعبان کو ’’شھر الصلوۃ‘‘ (یعنی درود کا مہینہ) بھی کہتے ہیں، پس اس ماہ میں درود شریف کا بھی خصوصی اہتمام ہونا چاہئے۔

شب برات: ابن ماجہ اور بیہقی میں حدیث شریف ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب پندرہویں شعبان کی رات آئے تو شب بیداری کرکے دن کا روزہ رکھو کیوں کہ اس رات میں اللہ تعالی غروب آفتاب کے وقت سے آسمانِ دنیا کی طرف نزول فرماتا ہے اور یہ اعلان کرتا ہے کہ کیا کوئی ہے جو مجھ سے بخشش مانگے؟ کہ میں اسے بخش دوں، کوئی ہے جو روزی مانگے ؟کہ میں اسے روزی عنایت کروں، کوئی ہے مصیبت زدہ جو مجھ سے عافیت مانگے؟ کہ میں اسے عافیت دوں، کوئی ہے ایسا؟ کوئی ہے ویسا؟ حتی کہ صبح صادق ہوجاتی ہے۔اس رات موت و حیات اور لوگوں کے رزق کے فیصلے ہوتے ہیں۔ اور بیت اللہ کے حجاج کی تعیین ہوتی ہے ۔اور حق تعالی اپنی رحمت سے تمام گناہگاروں کی بخشش فرمادیتا ہے سوائے جادوگر، ماں باپ کا نافرمان، شراب کا عادی، کینہ ور اور قطع تعلق کرنے والاکہ یہ لوگ اس رات اللہ تعالی کی عمومی رحمت سے محروم رہتے ہیں۔ لیکن اگر یہ لوگ بھی صدق دل سے توبہ کرکے اللہ کے حضور میں رجوع کریں تو ضرور اللہ تعالے ان کو اپنی رحمت سے نوازے گا ۔ کیوں کہ اسکا وعدہ ہے کہ وہ شرک کے سوا تمام گناہوں کو بخش دیتا ہے۔ جیسا کہ ارشاد ہے ان اللہ لا یغفر ان یشرک بہ ویغفر ما دون ذلک لمن یشاء۔یعنی یقینااللہ تعالے شرک کو معاف نہیں فرماتا اور اسکے علاوہ کو جس شخص کے لئے چاہتا ہے معاف فرمادیتا ہے ۔ 

فضائل شب برات : امام غزالی رحمۃاللہ علیہ نے مکاشفۃ القلوب میں بحوالۂ دیلمی یہ روایت نقل فرمائی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالے چار راتوں میں خیر و برکت کی بارش نازل فرماتا ہے عید الاضحی کی رات، عید الفطر کی رات، پندرہ شعبان کی رات، اور رجب کی پہلی رات۔ اور اسی میں دیلمی شریف کی یہ بھی روایت ہے کہ پانچ راتیں ایسی ہیں جن میں کوئی دعا ء رد نہیں کی جاتی رجب کی پہلی رات، شعبان کی رات، جمعہ کی رات اور عیدین کی دو راتیں۔ منقول ہے کہ آسمان کے فرشتوں کے لئے دو راتیں عید اور مسرت کی راتیں ہیں اور وہ شب برات اور شب قدر ہیں۔

شب براء ت کی وجہ تسمیہ: اس رات کو شب براء ت اس لئے کہا جاتا ہے کہ براء ت کے معنی چھٹکارہ اور بیزاری کے ہیں اس رات میں دو بیزاریاں ہیں بد بخت لوگ اللہ کی رحمت سے دور اور بیزار ہوجاتے ہیں اور اولیاء اللہ ذلت اور گمراہی سے دور ہوجاتے ہیں۔’’غنیۃ الطالبین‘‘ میں ہے کہ بعض علماء نے کہا ہے کہ اللہ تعالے نے شب براء ت کو تو ظاہر فرمادیااور شب قدر کو پوشیدہ رکھا اس میں حکمت الہی یہ ہے کہ شب قدر رحمت و بخشش اور جہنم سے آزادی کی رات ہے اسے اللہ تعالے نے پوشیدہ اسی لئے رکھا کہ لوگ اس پر تکیہ نہ کرلیں اور اعمال صالحہ سے غافل نہ ہوجائیں اور شب برات کو اس لئے ظاہر کیا کہ یہ رات حکم اور فیصلہ کی رات ہے رد و قبول کی رات ہے خوش نصیبی اور بدبختی کی رات ہے حصول شرف اور اندیشۂ عذاب کی رات ہے کسی کو اس میں سعادت نصیب ہوتی ہے اور کسی کو شقاوت پس اس کو ظاہر کردیا کہ لوگ اس کو غفلت میں نہ گذاریں۔ 

تبصرے
Loading...