فضائلِ علی علیہ السلام غیر مسلم مفکرین کی نظر میں

 

  امیر الموٴمنین حضرت علی ابن ابی طالب علیہما السلام کی شخصیت ایک ایسی شخصیت ہے جس سے اپنے اور غیرسبھی مفکرین اور دانشمند متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکے۔ جس کسی نے اس عظیم انسان کے کردار،گفتار اور اذکار میں غور کیا، وہ دریائے حیرت میں ڈوب گیا۔ غیر مسلم محققین اور دانشوروں نے جب امام المتقین علیہ السلام کے اوصاف کو دیکھا تو دنگ رہ گئے کیونکہ انہوں نے افکارِ علی کو دنیا میں بے نظیر اور لاثانی پایا۔ اس کے علاوہ انہوں نے دیکھا کہ آپ میں کمالِ طہارت، جادوبیانی، حرارتِ ایمانی، بلندیٴ روحِ انسانی، بلند ہمتی، نرم خوئی جیسی صفات موجود ہیں۔ ایک اور سکالر نے کہا کہ علی علیہ السلام روشن ضمیر، شہید ِمحراب اور عدالت ِ انسانی کی پکار تھے۔ وہ مولا علی کوستاروں سے بلند مقام پر سمجھتا ہے۔

  ایک محقق لکھتا ہے کہ علی علیہ السلام وہ پہلی شخصیت ہیں جن کا پورے جہان سے روحانی تعلق ہے۔ وہ سب کے دوست ہیں اور اُن کی موت پیغمبروں کی موت ہے۔ دوسرا محقق لکھتا ہے کہ علی علیہ السلام روح و بیان میں ایک لامتناہی سمندر کی مانند ہیں اور ان کی یہ صفت ہر زمان اور ہر مکان میں ہے۔

 امیر الموٴمنین علی علیہ السلام کی ان تمام صفات کو استاد شہریار ایک شعر میں یوں بیان

کرتے ہیں:

نہ خدا تو انمش گفت نہ بشرتو انمش خواند

متحیرم چہ نامم شہ ملکِ لافتیٰ را

 ”میں(علی علیہ السلام)کو نہ تو خدا کہہ سکتا ہوں اور نہ ہی بشر کہہ سکتا ہوں۔ میں حیران ہوں کہ اس شہ ملک ِ لافتیٰ کو کیا کہوں!“

  آئیے اب غیر مسلم مفکروں کے نظریات کو دیکھتے ہیں:

شبلی شُمَیِّل(ایک عیسائی محقق ڈاکٹر)

 ”امام علی ابن ابی طالب علیہما السلام تمام بزرگ انسانوں کے بزرگ ہیں اور ایسی شخصیت ہیں کہ دنیا نے مشرق و مغرب میں، زمانہٴ گزشتہ اور حال میں آپ کی نظیر نہیں دیکھی“۔

حوالہ

 کتاب ادبیات و تعہد در اسلام، مصنف: محمد رضا حکیمی، صفحہ250۔

ولتر(فرانسیسی فلاسفر اور رائٹر ،اٹھارہویں صدی)

 ولتر نے اپنی کتاب جو آداب و رسومِ اقوام کے بارے میں لکھی، اُس میں رقمطراز ہے کہ خلافت ِ علی  برحق تھی اور اسی کی وصیت پیغمبر اسلام نے کی تھی۔ آخری وقت میں پیغمبراکرم نے قلم دوات طلب کی کہ حضرت علی علیہ السلام کی جانشینی کو خود اپنے ہاتھ سے لکھ دیں۔ ولتر اس بات پر پشیمان ہے کہ پیغمبر اسلام کی یہ وصیت کیوں نہ پوری کی گئی۔ جبکہ اُن کا جانشین علی  کومقرر کردیا گیا تھاتوپیغمبر اسلام کی وفات کے بعد کچھ لوگوں نے حضرت ابوبکر کو کیوں خلیفہ چن لیا تھا؟

تھامس کارلائل(ایک انگریز فلاسفر اور رائٹر)

 تھامس کارلائل لکھتا ہے: ”ہم علی کواس سے زیادہ نہ جان سکے کہ ہم اُن کو دوست رکھتے ہیں اور اُن کو عشق کی حد تک چاہتے ہیں۔ وہ کس قدر جوانمرد، بہادر اور عظیم انسان تھے۔ اُن کے جسم کے ذرّے ذرّے سے مہربانی اور نیکی کے سرچشمے پھوٹتے تھے۔ اُن کے دل سے قوت و بہادری کے نورانی شعلے بلند ہوتے تھے۔ وہ دھاڑتے ہوئے شیر سے بھی زیادہ شجاع تھے لیکن اُن کی شجاعت میں مہربانی اور لطف و کرم کی آمیزش تھی۔

 اچانک کوفہ میں کسی بہانے سے اُنہیں قتل کردیاگیا۔ اُن کے قتل کی وجہ حقیقت میں اُن کا عدلِ جہانی کو درجہٴ کمال تک پہنچانا تھا۔ وہ دوسروں کو بھی اپنی طرح عادل تصور کرتے تھے۔ جب علی  سے اُن کے قاتل کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے جواب دیا کہ اگر میں زندہ رہا تو میں جانتا ہوں(کہ مجھے کیا فیصلہ کرنا چاہئے) ۔اگر میں زندہ نہ بچ سکا تو یہ کام آپ کے ذمہ ہے۔اگر آپ نے قصاص لینا چاہاتو آپ صرف ایک ہی ضربت لگا کر سزا دیں اور اگر اس کو معاف کردیں تو یہ تقویٰ کے نزدیک تر ہے“۔

حوالہ کتاب ”داستانِ غدیر“، صفحہ294،نقل از کتاب صوت العدالة،صفحہ1229۔

نرسیسان(ایک عیسائی عالم جو بغداد میں سفارتِ برطانیہ کا انچارج بھی تھا)

 ”اگر یہ بے مثال اور عظیم خطیب(علی علیہ السلام) آج بھی منبر کوفہ پر آکر خطبہ دیں تو مسجد ِ کوفہ اپنی تمام تر وسعت کے باوجود یورپ کے تمام رہبران او رعلماء سے کھچا کھچ بھرجائے گی۔یہ رہبراور علماء اس لئے آئیں گے کہ وہ اپنے علم کی پیاس اس درِ شہر علم کے بیکراں سمندر سے بجھا سکیں“۔

حوالہ   کتاب”داستانِ غدیر“،نقل از کتاب”ماہونہج البلاغہ“،صفحہ3۔

سلیمانِ کتانی(ایک عیسائی لبنانی دانشور)

 ”مہاجرین کی اوّلین شخصیات میں سے علی علیہ ا لسلام سب سے زیادہ معروف تھے۔ انہوں نے بہت سی جنگوں اور معرکوں میں فتح حاصل کرکے اپنے نام کا سکہ بٹھادیا تھا۔ لیکن ان کامیابیوں سے بھی قیمتی چیز یہ تھی کہ انہوں نے پیغمبر اسلام کے دل میں ایک مقام بنالیا تھا۔ وہ پیغمبر اسلام ہی کے تربیت یافتہ تھے۔ وہ اُن کے دوست بھی تھے۔ ایسے ساتھی بھی تھے جو کبھی جدا نہ ہوئے۔ وہ (حضرت علی علیہ السلام) پیغمبر اسلام کی بیٹی سیدہ فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے ہمسر بھی تھے۔ پیغمبر اسلام کی عظیم بیٹی جو اپنے والد کو سب سے زیادہ عزیز تھی، وہ(علی علیہ السلام) حسن  و حسین  کے والد ِ بزرگوار بھی تھے جن سے نسلِ پیغمبر چلی۔ وہ سب سے پہلے ایمان لانے والے تھے۔ وہ دین کے سب سے طاقتور محافظ ، شجاع ترین حامی اور مستحکم جنگجو تھے۔ وہ سب سے زیادہ عقلمند،حالات کی نزاکت کو سمجھنے والے رہبر، بے نظیرمقرر اور دین کا بہترین دفاع کرنے والے تھے۔ان تمام حقیقتوں کو دیکھتے ہوئے پیغمبر اسلام خدا سے دعا کرتے ہیں:

  ’پروردگار! ہرکوئی جو علی کو دوست رکھے، تو بھی اُسے دوست رکھ اور جو اُس سے دشمنی رکھے، تو بھی اُس سے دشمنی رکھ۔ علی مجھ سے ہے اور میں علی سے ہوں۔ علی قرآن سے ہے اور قرآن علی سے ہے‘

حوالہ   کتاب’امام علی ، مشعلی و د ژی‘، مصنف:سلیمان کتانی، ترجمہ جلال الدین فارسی، صفحہ34۔

  ”جتنے بھی فضائل و خصائل علی علیہ السلام میں اکٹھے ہو گئے تھے، وہ جب منظر عام پر آئے تو انسان کی عظمت بلند ہوئی اور یہ علی علیہ السلام ہی کی مرہونِ منت ہے“۔

حوالہ  کتاب’امام علی ، مشعلی و ژری‘ مصنف:سلیمان کتانی،ترجمہ جلال الدین فارسی، صفحہ87۔

 ”حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام نے جس وقت سے اسلام کو پایا، اسلام (کے اصولوں) پر ہی زندگی بسر کی اور تمام مشکلات و زحمات جو اس راہ میں آئیں، اُن کو بخوشی قبول کیا۔ تمام مشکلات و مصائب کو ثابت قدمی اوردلیری سے گلے لگایا“۔

حوالہ  کتاب’امام علی ، مشعلی و ژری‘، مصنف:سلیمان کتانی، ترجمہ جلال الدین فارسی، صفحہ26۔

   ”جس وقت علی علیہ السلام خلافت(ظاہری) پر پہنچے ،انہوں نے اپنا وظیفہ اور فرض سمجھا کہ دو محاذوں پر مقابلہ کیا جائے۔ پہلا محاذ لوگوں کو انسانی بلندی و عظمت سے آگاہ کرنا تھا اور دوسرا فتوحاتِ جنگی کو اسلامی اصولوں کے تحت استوار کرنا تھا۔ یہی نکات تھے جو سردارانِ عرب کو ناپسند تھے اور انہوں نے بغاوت کے علم اٹھالئے“۔

حوالہ کتاب”امام علی مشعلی و ژری“، مصنف:سلیمان کتانی، ترجمہ جلال الدین فارسی، صفحہ134۔

 ”کونسی ایسی چیز ہے جو نہج البلاغہ(حضرت علی علیہ السلام کے ارشادات و خطبات پر کتاب) میں بیان کی گئی ہے اور وہ اُس چیز کی روحِ اصلی کی عکاسی نہ کرتی ہو۔ ایسا لگتا ہے جیسے آفتاب کا تمام نور سمٹ کر تنِ علی ابن ابی طالب علیہ السلام میں سماگیا ہو۔

 کونسا ایسا کام ہے جو علی علیہ السلام نے اپنی زندگی میں انجام دیا ہو اور اُس کی تعبیر(انجام) انتہائی اعلیٰ نہ ہوئی ہو اور جس کی علت، اعلیٰ اقدارِ انسانی یا فطرتِ فرشتگانِ آسمانی کے خلاف ہو“۔

حوالہ کتاب”امام علی مشعلی و ژری“، مصنف:سلیمان کتانی، ترجمہ جلال الدین فارسی،

 صفحہ213۔

جانین(شاعرجرمنی)

  ”علی علیہ السلام کو دوست رکھنے اور اُن پر فدا ہونے کے علاوہ میرے پاس کوئی راستہ ہی نہیں کیونکہ وہ شریف النفس، اعلیٰ درجے کے جوان تھے۔ اُن کا نفس پاک تھا جو مہربانی اور نیکی سے بھرا پڑا تھا۔ اُن کا دل جذبہٴ قربانی اور محبت سے لبریز تھا۔ وہ بپھرے ہوئے شیر سے بھی زیادہ بہادر اور شجاع تھے، لیکن ایسے شجاع جن کا دل شجاعت کے ساتھ ساتھ لطف و مہربانی، دلسوزی اور محبت کے جذبات سے سرشار تھا“۔

حوالہ چکیدہ اندیشہ ہا،مصنف:سید یحییٰ برقعی، صفحہ296۔

پروفیسر استانسیلاس گویارد(فرانسیسی مصنف)

 ”معاویہ نے بہت سے کاموں میں خلاف ِاسلام قدم اٹھائے جیسے وہ علی ابن ابی طالب جو پیغمبر اسلام کے بعد شجاع ترین، پرہیزگار ترین، فاضل ترین اور خطیب ترین فردِ عرب تھے، سے برسرِ پیکارہوگیا“۔

حوالہ کتاب”شیعہ“،مجموعہ مذاکرات (جو مرحوم علامہ طباطبائی اور پروفیسر ہنری کرین کے مابین ہوئے)کے صفحہ371اور کتاب”سازمانہای تمدن امپراطوری اسلام“ مصنف:پروفیسر

گویارد(ترجمہ فارسی)صفحہ18سے نقل کی گئی ہے۔

بارون کاردایفو(فرانسیسی دانشور)

  ”علی علیہ السلام حادثات سے علی نہیں بنے بلکہ علی  سے حادثات وجود میں آئے۔ اُن کے اعمال خود اُن کی فکر و محبت کا نتیجہ تھے۔ وہ ایسے پہلوان تھے جو دشمن پر عین غلبہ کے وقت بھی انتہائی نرم دل اور زاہد ِ بے نیاز ثابت ہوئے۔ وہ دنیاوی مال و منصب سے بالکل رغبت نہ رکھتے تھے اور حقیقت میں انہوں نے اپنی جان بھی قربان کردی۔ وہ گہری روح رکھتے تھے جس کی جڑوں کی گہرائی تک کوئی نہ پہنچ سکتا تھا۔ہرجگہ وہ خوفِ الٰہی میں غرق رہتے تھے“۔

حوالہ   کتاب”علی کیست“،مصنف: فضل اللہ کمپانی، صفحہ357۔

جُرجی زیڈان(ایک مشہور عرب دانشور و مصنف)

  ”معاویہ اور اُس کے ساتھیوں نے اپنے مقاصد کے حصول کیلئے کسی بھی بُرے کام سے دریغ نہ کیا لیکن علی علیہ السلام اور اُن کے ساتھیوں نے صراطِ مستقیم اور حق کے دفاع سے کبھی کنارہ نہ کیا“۔

حوالہ کتاب”شیعہ“، مصنف: مرحوم علامہ طباطبائی ،صفحہ374اور اسے نقل کیا ہے کتاب

”تاریخ تمدنِ اسلام“،جلد4،صفحہ84،94۔

   ”کیا علی علیہ السلام پیغمبر اسلام کے چچا زاد بھائی، جانشین اور داماد نہ تھے؟

 کیا وہ ایک عظیم دانشور، پرہیزگار اور منصف مزاج نہ تھے؟

 کیا وہ ایک مخلص اور غیرت مند مرد نہ تھے جن کی مردانگی اور غیور ہونے کی وجہ سے اسلام اور مسلمانوں نے عزت حاصل کی؟“

حوالہ  ”داستانِ غدیر“،صفحہ293اور یہ نقل کیا گیا ہے کتاب”17رمضان“،صفحہ116۔

امین نخلہ(ایک لبنانی عیسائی معروف دانشور)

 ”تم چاہتے ہو کہ میں علی علیہ السلام کے بلیغ ترین کلام میں سے ایک سو کلمے(اقوال) چن لوں۔ میں گیا اور نہج البلاغہ کو تھام لیا۔ ورق پر ورق الٹتا گیا مگر خدا کی قسم! میں نہیں جانتا کہ اُن کے سینکڑوں ارشادات میں سے ایک سو کلمے(اقوال) بلکہ ایک کلمہ(قول) بھی کیسے چنوں! میں محسوس کرتا ہوں کہ ایک یاقوت کو باقی لعل و گوہر سے کیسے منتخب کیا جائے۔ بس یہی کام میں نے کیا۔ جب میں ایک یاقوت تلاش کررہا تھا تو میری نظر یں اُس کی چمک اور گہرائی میں کھو گئیں۔

 سب سے زیادہ حیرت والی بات میرے لئے یہ تھی کہ میں گمان نہیں کرتا کہ علم و دانش کے اس منبع سے خود کو جدا کرسکوں گا۔

 اس دفعہ تو ان سو کلموں(اقوال) کو لے لو اور یاد رکھو کہ یہ علم و دانش کی نورانی کان میں سے صرف چند نمونے ہیں یا ایسے کہوں کہ باغ میں سے ایک شگوفہ ہے۔ ہاں! ادبیاتِ عرب سے آشنا لوگ جانتے ہیں کہ نہج البلاغہ ایک نعمت ِ الٰہی ہے جس کی وسعت سو کلموں سے کہیں

زیادہ ہے“۔

حوالہ ”داستان غدیر“،صفحہ293اور یہ کتاب”17رمضان“ سے نقل کی گئی ہے۔

ایک عرب دانشور کا قول

 ”اگرحضرت علی علیہ السلام ابن ملجم کے ہاتھوں شہید نہ ہوتے تو عین ممکن تھا کہ وہ اس دنیا میں بے انتہا لمبی زندگی پاتے کیونکہ انہوں نے زندگی کے ہر شعبہ میں اور اپنے وجود میں کمال کا اعتدال قائم کردیا تھا“۔

حوالہ   کتاب”این است آئین ما“،مصنف: مرحوم کاشف الغطاء، ترجمہ و شرح:حضرت آیت اللہ ناصر مکارم،صفحہ193۔

پولس سلامہ(ایک لبنانی عیسائی ادیب اور وکیل)

   ”ایک رات میں بیدا رتھا اور دردورنج میں مبتلا تھا۔ میرے تصورات اور تخیلات مجھے بہت پیچھے لے گئے۔ پہلے شہید ِاعظم امام علی علیہ السلام اور پھر امام حسین علیہ السلام کی یاد آئی۔ میں کافی دیر تک روتا رہا۔ پھر علی  و حسین  کے بارے میں اشعار لکھے“۔

 یہ عیسائی مصنف اپنے آپ کو غیر متعصب کہتا ہے اور یہ بھی دعویٰ کرتا ہے کہ وہ مسائل کو کھلی آنکھ اور غیر جانبدار دل و دماغ سے دیکھتا ہے۔ وہ فضائلِ علی علیہ السلام کو لکھنے کے بعد شہادتِ علی  کو بیان کرتے ہوئے کہتا ہے:

  ”اے دامادِ پیغمبر! تیری شخصیت ستاروں کی گردش گاہوں سے بھی بلند ہے۔ یہ نور کی خصوصیت ہے کہ وہ پاک و پاکیزہ باقی رہتا ہے۔ دنیاوی گردوغبار اُس کی اصلی چمک کو ماند نہیں کرسکتا۔ہر کوئی جو شخصیت کے اعتبار سے اعلیٰ اور ثروتمند ہے، وہ کبھی فقیر نہیں ہوسکتا۔ اُس کی پاک نسل اور خاندانی شرافت دوسروں کے غموں میں شریک ہواور اعلیٰ و بزرگ ہوگئی ہے۔ دین و ایمان کی راہ کا شہید مسکراتے ہوئے دردوتکلیف برداشت کرتا ہے۔ اے ادب و سخن کے استاد! تیرا کلام بحرئہ اوقیانوس سے بھی گہرا ہے“۔

حوالہ   ”داستانِ غدیر“، صفحہ301۔

جبران خلیل جبران(ایک معروف عیسائی مصنف)

   ”میرے عقیدے کے مطابق ابو طالب کا بیٹا علی علیہ السلام پہلا عرب تھا جس کا رابطہ کل جہان کے ساتھ تھا اور وہ اُن کا ساتھی لگتا تھا۔ رات اُس کے ساتھ ساتھ حرکت کرتی تھی۔ علی علیہ السلام پہلے انسان تھے جن کی روحِ پاک سے ہدایت کی ایسی شعائیں نکلتی تھیں جو ہر ذی روح کو بھاتی تھیں۔ انسانیت نے اپنی پوری تاریخ میں ایسے انسان کو نہ دیکھا ہوگا۔ اسی وجہ سے لوگ اُن کی پُر معنی گفتار اور اپنی گمراہی میں پھنس کے رہ جاتے تھے۔ پس جو بھی علی علیہ السلام سے محبت کرتا ہے، وہ فطرت سے محبت کرتا ہے او رجو اُن سے دشمنی کرتا ہے، وہ گویا جاہلیت میں غرق ہے۔

علی علیہ السلام اس دنیا سے رخصت ہوگئے لیکن خود کو شہید ِاعظم منوا گئے۔ وہ ایسے شہید تھے کہ لبوں پر سبحانَ ربی الاعلیٰ کا ورد تھا اور دل لقاء اللہ کیلئے لبریز تھا۔ دنیائے عرب نے علی علیہ السلام کے مقام اور اُن کی قدرومنزلت کو نہ پہچانا،یہاں تک کہ اُن کے ہمسایوں میں سے ہی پارسی اٹھے جنہوں نے پتھروں میں سے ہیرے کو چن لیا۔

 علی علیہ السلام نے ابھی تو اپنا پیغام مکمل طو رپر اہلِ جہان تک نہ پہنچایا تھا کہ ابدی دنیا کی طرف راہی ہوگئے۔ لیکن میں اس چیز پر حیران ہوں کہ قبل اس کے کہ علی علیہ السلام اس خاکی دنیا کو خیرباد کہتے، اُن کے چہرے پر خوشی کے آثار نمایاں تھے۔

 حضرت علی علیہ السلام کی موت اُن پیغمبرانِ خدا کی موت کی طرح تھی جو اس دنیا میں آئے۔اُن لوگوں کے ساتھ ایک مدت زندگی بسر کی جو اُن کے قابل نہ تھے اور آخر ِ وقت وہ تن تنہا اور خالی ہاتھ تھے“۔

حوالہ   ”داستانِ غدیر“، صفحہ295۔

ایلیا پاولویچ پطروشفسکی(روسی موٴرخ)

  ”علی ،محمد کے تربیت یافتہ تھے۔ وہ دین اسلام کے حد درجہ وفادار تھے۔ علی علیہ السلام عشق کی حد تک دین کے پابند تھے۔ وہ سچے اور صادق تھے۔ اخلاقی معاملات میں انتہائی منکسر المزاج تھے۔ وہ شاعر بھی تھے۔ اُن کے وجودِ پاک میں اولیاء اللہ ہونے کیلئے لازم تمام صفات موجود تھیں“۔

حوالہ   ”داستانِ غدیر“،صفحہ297جو ”اسلام در ایران“باب اوّل سے نقل کیا گیا ہے۔

میخائل نعیمہ(مشہور عیسائی عرب مصنف)

  ”امام علی علیہ السلام کی قوت و شجاعت کا سکہ صرف میدانِ جنگ تک محدود نہیں تھا بلکہ وہ صفاتِ الٰہی یعنی طہارت، حرارتِ ایمانی، تقویٰ، نرم خوئی ، بلند ہمتی، دردِ انسانی، جادوبیانی، مددِ محروم و مظلوم اور حمایت ِحق میں بھی یکتا تھے۔

 وہ ہر حال اور ہر صورت میں دین حق کی سربلندی چاہتے تھے۔ اُن کی یہی قوتِ ایمانی ہمیشہ متحر ک اور لوگوں کیلئے چراغِ راہ بنی رہی ہے۔ اگرچہ دن بہ دن ، ماہ بہ ماہ اور سال بہ سال گزرتے رہے، آج بھی اور کل بھی ہمارا یہ شوق بڑھتا ہی جارہا ہے کہ اُن کی تعمیر کردہ حکمت و دانائی کی عمارت تک پہنچ جائیں۔

 سچ تو یہ ہے کہ کوئی موٴرخ یا مصور چاہے کتنا ہی عقلمند اور دانا کیوں نہ ہو، مردِ عظیم مثلِ علی  کی شخصیت کی صحیح عکاسی نہیں کرسکتا، وہ چاہے ہزار صفحے پر ہی محیط کیوں نہ ہو۔ یہ اس لئے کہ علی  ایسے اسرارو رموز کے مالک ِیکتا عرب انسان تھے جنہوں نے کثیر غوروفکر کیا ۔ جو کہا،اُس پر عمل کیا۔ اپنے اور اپنے رب کے درمیان ایسا راز و نیاز قائم کیا جس کو نہ کسی کان نے سنا اور نہ کسی آنکھ نے دیکھا۔ اُن کی شخصیت اُس سے کئی ہزار گنا بلند تر ہے جو زبان یا قلم نے ظاہر کیا ہے۔

  پس علی علیہ السلام کی جو بھی تصویر کھینچی جائے، وہ اصل کے مقابل میں ناقص ہی نظر آئے گی۔ علی علیہ السلام ہر زمان و مکان میں بے مثل و بے نظیر ہیں“۔

حوالہ کتاب ”امام علی ابن ابی طالب علیہ السلام“،تالیف: عبدالفتاح عبدالمقصود،جلد1،

صفحہ17،مقدمہٴ کتاب۔

بارون کارادوو(معروف فرانسیسی موٴرخ ومحقق)

 ”علی علیہ السلام ایسے بلند ہمت، شجاع اور بہادرانسان تھے جو پیغمبر اسلام کے ہمراہ اُن کے قدم بہ قدم دشمنوں کے ساتھ جنگ لڑتے رہے اور آپ نے بڑے بڑے معجز نما کام انجام دئیے۔ معرکہٴ بدر میں علی علیہ السلام 20سالہ جوان تھے کہ اپنے ایک ہی وار میں قریش کے ایک گھڑ سوار کو دو ٹکڑے کردیا۔ جنگ ِ اُحد میں پیغمبر اسلام کی تلوار(ذوالفقار) کو اپنے ہاتھ میں لیا اور دشمن کے سروں کے خود کو کاٹ دیا۔ اُن کی زرہوں کو پھاڑ دیا۔ جنگ ِخیبر میں ایک ہی حملے میں یہودیوں کے قلعہ کے بہت ہی وزنی دروازے کو اپنے ایک ہاتھ سے اکھاڑ دیا اور اُسے اپنی ڈھال کے طور پر استعمال کیا۔ پیغمبر اسلام اُن کو بہت عزیز رکھتے تھے اور اُن پر بہت اعتماد کرتے تھے۔ ایک دن پیغمبر نے علی علیہ السلام کی طرف اشارہ کیا اور فرمایا:

”مَنْ کُنْتُ مَوْلاہُ فَعَلِیٌ مَوْلَاہُ“

حوالہ

 کتاب”امام علی “، تالیف: عبدالفتاح عبدالمقصود،جلد1،صفحہ16،مقدمہٴ کتاب۔

جارج جُرداق(ایک معروف مسیحی مصنف)

 ”تاریخ اور حقیقت ِانسانی کیلئے یکساں ہے کہ کوئی علی علیہ السلام کو پہچانے یا نہ پہچانے،

تاریخ اور حقیقت ِ انسانی خود گواہی دے رہی ہے کہ علی علیہ السلام کا ضمیر زندہ و بیدار تھا۔ وہ شہید ِراہِ خدا تھے اور شہداء کے جد تھے، عدالت ِ انسانی کی فریاد تھے۔ مشرق کی ہمیشہ زندہ رہنے والی شخصیت تھے۔

 ایک کُلِ جہان! کیا تیرے لئے ممکن ہے کہ باوجوداپنی تمام قوتوں کے ، اپنی ترقیِ علم و ہنر کے علی جیسا ایک اور انسان جو علی جیسی عقل رکھتا ہو، اُسی جیسا دل ، ویسی ہی زبان اور ویسی ہی تلوار رکھتا ہو، اس دنیا کو دے دیتی؟“

حوالہ کتاب ”امام علی “، تالیف: عبدالفتاح عبدالمقصود،جلد1،صفحہ18،مقدمہٴ کتاب۔

”علی علیہ السلام کا وجود اُس گروہِ انسانی کیلئے انقلابی تھا جو اسلام کے اجتماعی نیک اہداف کے خلاف تھا۔ وہ گروہ اسلام کو منحرف کرنا چاہتا تھا۔ در حقیقت علی علیہ السلام حضرتِ محمد بن عبداللہ کے بعد اس انقلاب کے نمائندہ اور بانی تھے۔ اس کے اصولوں اور قوانین کو قائم کرنے والے وہی تھے۔ اس کے اہداف کو مشخص اور روشن کرنے والے تھے۔ علی تاریخ انسانی میں انقلابی ترین شخصیت تھے۔ انہوں نے اپنی گفتاروکردار سے اس راہ میں بھرپور کوشش کی۔

 علی کے اقوال، ارشادات، گفتار اور خطبات سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ معاشرے کے ہر فرد کے اندرونی اور بیرونی احساسات سے مکمل طور پر آگاہ تھے۔ وہ یہ بھی جانتے تھے کہ عادلانہ معاشرتی نظام کو قائم رکھنے کیلئے تہذیب ِ اخلاق انتہائی ضروری ہے اور معاشرے میں ہر فرد کو سرگرمِ عمل رکھنے کیلئے صحیح نظامِ حکومت بھی اُتنا ہی ضروری ہے۔

علی  کا افراد کی شخصیت پر اعتماد اور اطمینان اُسی طرح تھا جس طرح افراد کی شخصیت کو اعتماد عقلِ روشن، قلب ِ مہربان اور دل عشق حقیقی میں غلطاں دیتا ہے اور یہ تمام صفات علی علیہ السلام کے گرداگرد اکٹھی ہو گئی تھیں۔ اسی لئے اس اعتماد کی ضرورت کو محسوس کرتے ہوئے علی  کا فرمان ہے:

’اگر کوئی تجھ پر نیک ہونے کا گمان کرے تو تو اُس کے گمان کی(اپنے عمل سے) تصدیق کر‘۔

صبرو بُردباری کی یہ فضیلت وہ عظیم فضیلت ہے جس کو تم اخلاق و صفاتِ علی ابن ابی طالب علیہما السلام میں سب سے نمایاں پاؤ گےکیا علی علیہ السلام اُن افراد کے مقابلے میں جو اُن کے خون کے پیاسے تھے، صابر و بردبار نہ تھے؟ کیا علی علیہ السلام نے اُن کے ساتھ فراخدلانہ اور مشفقانہ سلوک نہ کیا تھا کہ وہ اُن کی اس فضیلت کو پہچان سکتے؟ کیا وہ اُن کے ساتھ محبت و عاطفت کے ساتھ پیش نہ آتے تھے؟ کیا علی علیہ السلام اُن کے ساتھ برادرانہ برتاؤ نہیں کرتے تھے؟ کیاحضرت علی علیہ السلام نے کبھی اُن کے ساتھ گلہ و شکوہ کیا؟ کیا انہیں کبھی شرمندہ کیا؟ کیا علی علیہ السلام نے دشمنوں کے سخت رویے اور تکلیف دہ اقدامات کا مردانہ وار صبرواستقامت سے مقابلہ نہیں کیا؟کیاحضرت علی علیہ السلام کی تمام زندگی صبرواستقامت کی زندگی نہ تھی جب ہر طرف سے اُن کے مقابل طوفان اٹھتے رہے؟کیا یہ شرفاء اور روٴساء کی ہوس پرستی نہ تھی کہ دنیا والوں کے ساتھ مل کر اُن کی طرف پشت کرلی تاکہ اُن کے فضائل و کمالات کو چھپایا جاسکے؟

 علی علیہ السلام نے ہمیں اُس طرح کی طرزِ زندگی دکھائی ہے جو سادگی، پیارومحبت اور مہرووفا کے پیکر میں خوبصورت ترین نظر آتی ہے

علی علیہ السلام خود شناسی یا معرفت ِنفس کی اہمیت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ اپنے نفس کو نہ پہچاننااپنے آپ کو ہلاک کرنے کے مترادف ہے۔ اُن کا قول ہے:

”جس انسان نے اپنے نفس کو نہ پہچانا، وہ ہلاک ہوگیا“

 نہج البلاغہ(حضرت علی علیہ السلام کے خطبات، اقوال، ارشادات پر مبنی کتاب) کے جس حصے کا بھی مطالعہ کریں، اُس میں تسلسل و ترتیب ِمنطقی و اصولی نظرآئے گی۔ اس کے علاوہ حضرت علی علیہ السلام کی بلندیٴ سوچ اور کمالِ ذہانت چھلکتی ہوئی نظر آئے گی۔ دوسری

 خصوصیت یہ ہے کہ دو نظریات کے درمیان فکری ہم آہنگی ووحدت نظر آئے گی۔

 امام علی علیہ السلام کی لامتناہی فکری سوچ کی وجہ سے وہ الفاظ کا سہارا نہیں لیتے بلکہ وہ الفاظ اور کلمات خود انسان کو مزید سوچ و بچار کی دعوت دیتے ہیں۔ تم اُن کی کسی عبارت کو نہیں پاؤ گے مگر جس سے تمہاری فکر سوچ کیلئے نئے اُفق پیدا نہ ہوجائیں۔

 علی علیہ السلام اپنے سچے کردار اور سچائی کی وجہ سے دنیا میں پہچانے گئے اور حقیقت میں صدق و راستی اور سچائی ہی وہ واحد صفات ہیں جن سے کسی کے کردار کی شناخت کی جاسکتی ہے اور اس کی وجہ سے انسان دھوکہ نہیں کھاسکتا۔

 علی ابن ابی طالب علیہ السلام منبر پر بڑے اطمینان اور اعتمادِ کامل کے ساتھ اپنے ارشاداتِ عادلانہ کا پرچار کرتے اور تقریر کرتے۔ وہ بہت سمجھ دار اور جلد نتیجہ پر پہنچنے والے انسان تھے۔ وہ لوگوں کے دلوں کے رازوں سے آگاہ تھے اور اُن کی اندرونی ہوس و خواہشات سے بھی واقف تھے۔ علی علیہ السلام سینے میں ایسا دل رکھتے تھے جو محبت و مہربانی سے مالا مال تھا اور آزادی اور فضائلِ انسان سے پُر تھا۔

  آج کے دور میں جب ایسے حالات پیدا کردئیے گئے ہیں جو اقوام کی بدبختی کا باعث ہیں اور دنیا جنگ کے شعلوں کے قریب ہے، یقینا واجب ہے کہ ہم حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام کے ارشادات و اقوال پر کان دھریں اور اُن کو مشعلِ راہ بنالیں اور اُن کے آگے سرِ تعظیم خم کردیں“۔

حوالہ

 کتاب”امام علی صدای عدالت ِ انسانی“، تالیف: جارج جرداق،ترجمہ: سید ہادی خسروی خسروشاہی، جلد4،صفحہ470۔صفحات:,468,442,325,296,248,247,13

476,470۔

 

تبصرے
Loading...