فرشتے امتحان كے سانچے ميں

پروردگار كے لطف وكرم سے آدم حقائق عالم كے ادراك كى كافى استعدادركھتے تھے خدا نے ان كى اس استعداد كو فعليت كے درجے تك پہنچا يا اور قرآن كے ارشاد كے مطابق آدم كو تمام اسما ء (عالم وجود كے حقائق واسرار )كى تعليم دى گئي_(1)(2)

پھر خداوند عالم نے فرشتوں سے فرمايا :”اگر سچ كہتے ہوتو ان اشياء اور موجودات كے نام بتاو جنہيں ديكھ رہے ہو اور ان كے اسرارو كيفيات كو بيان كرو،ليكن فرشتے جو اتنا علم نہ ركھتے تھے اس امتحان ميں پيچھے رہ گئے لہذا جواب ميں كہنے لگے خدا وندا :”تومنزہ ہے ،تونے ہميں جوتعليم دى ہے ہم اس كے علاوہ كچھ نہيں جانتے ہميں نہيں معلوم تو خود ہى عليم وحكيم ہے_(3)

اگر ہم نے اس سلسلے ميں سوال كيا ہے تو يہ ہمارى ناآگا ہى كى بناء پرتھا اور آدم كى اس عجيب استعداد اور قدرت سے بے خبر تھے جو ہمارے مقابلے ميں اس كا بہت بڑا امتياز ہے ،بے شك وہ تيرى خلافت وجانشينى كى اہليت ركھتا ہے جہان ہستى كى سرزمين اس كے وجود كے بغير نا قص تھي_

اب آدم عليہ السلام كى بارى آئي كہ وہ ملائكہ كے سامنے موجود ات كا نام ليں اور ان كے اسرار بيان كريں خداوند عالم نے فرمايا :”اے آدم :فرشتوں كو ان موجود ات كے ناموں اور كاموں سے آگاہ كرو،جب آدم نے انہيں ان اسماء سے آگاہ كيا تو خداوند عالم نے فرمايا : كياميں نے تمہيں بتايا نہيں تھا كہ ميں آسمان وزمين كے غيب سے واقف ہوں اور تم جو كچھ ظاہر كرتے اور چھپا تے ہوسب سے باخبر ہوں”_(4)

اس مقام پر ملائكہ نے اس انسان كى وسيع معلومات اور فراواں حكمت ودانائي كے سامنے سرتسليم خم كرديا اور ان پر واضح ہوگيا كہ صرف يہى زمين پر خلافت كى اہليت ركھتا ہے _

(1)سورہ بقرہ آيت31

(2) مفسرين نے اگر چہ ”علم اسماء كى تفسير ميںقسم قسم كے بيانات ديئے ہيں ليكن مسلم ہے كہ آدم كو كلمات واسماء كى تعليم بغير معنى كے نہيں دى تھى كيونكہ يہ كو ئي قابل فخربات نہيں بلكہ مقصد يہ تھا كہ ان اسماء كے معانى ومفاہيم اورجن چيزوں كے وہ نام تھے ان سب كى تعليم ہے البتہ جہان خلقت اور عالم ہستى كے مختلف موجودات كے اسماء خواص سے مربوط علوم سے باخبر وآگاہ كيا جانا حضرت ادم كے لئے بہت بڑا اعزاز تھا _

ايك حديث ميں ہے كہ حضرت امام صادق عليہ السلام سے اس آيت (وعلم آدم الاسماء كلہا)كے متعلق سوال ہوا تو آپ نے فرمايا : (الارضين والجبال والشعاب والا وديہ ثمہ نظر الى بساط تحتہ فقال وہزا ابساط مما علمہ)_

اسماء سے مرادزمينيں ،پہاڑ،دريا،اوروادياں (غرض يہ كہ تمام موجودات ) تھے، اس كے بعد امام (ع) نے اس فرش كى طرف نگاہ كى جو آپ كے نيچے بچھا ہوا تھا اور فرمايا يہاں تك كہ يہ فرش بھى ان امور ميں سے ہے كہ خدا نے جن كى آدم كو تعليم دى _

لہذا معلوم يہ ہوا كہ علم لغت كے مشابہ نہ تھا بلكہ اس كا تعلق فلسفہ ،اور اسرار اور كيفيات وخواص كے ساتھ تھا، خداوندعالم نے آدم كو اس علم كى تعليم دى تاكہ وہ اپنى سيرتكامل ميں اس جہان كى مادى اور روحانى نعمتوں سے بہرہ ورہوسكيں اسى طرح مختلف چيزوں كے نام ركھنے كى استعداد بھى انہيں دى تاكہ وہ چيزوںكے نام ركھ سيكيں اور ضرورت كے وقت ان كا نام لے كر انہيں بلا سكيں يا منگواسكيں اور يہ ضرورى نہ ہو كہ اس كے لئے ويسى چيز دكھانى پڑے، يہ خود ايك بہت بڑى نعمت ہے اس موضوع كى اہميت ہم اس وقت سمجھتے ہيں جب ديكھتے ہيں كہ انسان كے پاس اس وقت جو كچھ ہے كتاب اور لكھنے كى وجہ سے ہے اور گزرے ہوئے لوگوں كے سب علمى ذخائران كى تحريروں ميں جمع ہيں اور يہ سب كچھ چيزوں كے نام ركھنے اور ان كے خواص كى وجہ سے ہے ورنہ كبھى بھى ممكن نہ تھا كہ ہم گذشتہ لوگوں كے علوم آنے والوں تك منتقل كرسكتے _

(3) سورہ بقرہ آيت31

(4) سورہ بقرہ آيت33

 

 

تبصرے
Loading...