فتح كا انداز

 

جب حضرت مھدی سلام اللہ علیہ ظھور فرمائیں گے تو حضرت كی فتح كا انداز كیا ھوگا؟ اور كس طرح سے حضرت ساری دنیا كو عدل و انصاف سے بھر دیں گے۔؟ كیا حضرت تلوار كے ذریعہ جنگ كریں گے اور جدید اسلحوں پر كامیابی حاصل كریں گے۔؟

ان باتوں كے دو جواب دیے جاسكتے ھیں، ایك عقل كی روشنی میں اور دوسرا حدیث كی روشنی میں۔

یہ ایك حقیقت ھے كہ گذرے زمانے كی طرف باز گشت ناممكن اور غیر منطقی ھے ظھور كے بعد ھرگز یہ نہ ھوگا كہ “عصر نور” “عصر ظلمت” كی طرف پلٹ جائے۔

جدید صنعت اور ترقی یافتہ ٹكنا لوجی نے جہاں انسان كی بہت سی مشكلات كو حل كیا ھے وھاں یہ چیزیں عادلانہ حكومت كے قیام كے بارے میں بھی معاون ثابت ھوں گی۔ كیونہ ساری كائنات پر حكمرانی، اور گوشہ گوشہ میں عدل و انصاف كا قیام بغیر ترقی یافتہ ٹكنا لوجی كے ناممكن ھے بلكہ حضرت كے طرز حكومت كو پیش نظر ركھتے ھوئے موجودہ طرقی یافتہ صنعت و ٹكنالوجی اس دور میں ناكافی ھوگی۔

جنگ كے میدان میں بھی ایسے اسلحوں كا استعمال ھوگا جن كا تصور اس دور میں 

ھمارے لئے آسان نہیں ھے۔ طرز جنگ كے سلسلے میں عقل كی بنیاد پر كوئی یقینی بات نہیں كہی جاسكتی۔ یہ اسلحے مادی ھوں گے یا نفسیاتی … البتہ اتنا ضرور معلوم ھے كہ وہ اسلحہ ایسے ھوں گے۔ جو نیكو كار اور گناھگار میں فرق كو ضرور قائم ركھیں گے۔

گذشتہ سے پیوستہ

یہ صحیح ھے كہ دنیا میں ھر طرف گناھگاروں اور خدا ناشناس افراد كی اكثریت ھے لیكن كائنات كا حسنِ نظام بتا رھا ھے كہ كوئی ایسی فرد ضرور موجود ھے جس كی خاطر یہ دنیا سجی ھوئی ھے۔ حدیث میں اس بات كی طرف ان الفاظ میں اشارہ كیا گیا ھے:

بیمنہ رزق الوریٰ و بوجودہ ثبتت الارض والسماء

ان كی (حجت خدا كی) بركت سے لوگوں كو رزق ملتا ھے اور ان كے وجود كی بنا پر زمین و آسمان قائم ھیں۔”

اسی بات كو خداوند عالم نے حدیث قدسی میں پیغمبر اسلام (ص) كو مخاطب كركے بیان فرمایا ھے:

لولاك لما خلقت الافلاك

اگر آپ نہ ھوتے تو میں آسمانوں كو نہ پیدا كرتا۔”

زمانۂ غیبت میں وجود امام علیہ السلام كا ایك فائدہ اس كائنات ھستی كی بقاء بھی ھے۔

وہ لوگ جو حقائق سے بہت دور ھیں وہ زمانۂ غیبت میں وجود امام (ع) كے لئے صرف شخصی فائدے كے قائل ھیں اور اس عقیدے كے سلسلے میں شیعوں پر طرح طرح كے اعتراضات كیا كرتے ھیں جبكہ وہ اس بات سے بالكل غافل ھیں كہ خود ان كا وجود امام علیہ السلام كے وجود كی بنا پر ھے۔ یہ كائنات اس لئے قائم ھے كہ امامِ قائم (عج) پردۂ غیبت میں موجود ھیں اگر امام نہ ھوتے تو نہ یہ دنیا ھوتی اور نہ اس دنیا كے بسنے والے 

فتح كا انداز

جب حضرت مھدی سلام اللہ علیہ ظھور فرمائیں گے تو حضرت كی فتح كا انداز كیا ھوگا؟ اور كس طرح سے حضرت ساری دنیا كو عدل و انصاف سے بھر دیں گے۔؟ كیا حضرت تلوار كے ذریعہ جنگ كریں گے اور جدید اسلحوں پر كامیابی حاصل كریں گے۔؟

ان باتوں كے دو جواب دیے جاسكتے ھیں، ایك عقل كی روشنی میں اور دوسرا حدیث كی روشنی میں۔

عقل 

یہ ایك حقیقت ھے كہ گذرے زمانے كی طرف باز گشت ناممكن اور غیر منطقی ھے ظھور كے بعد ھرگز یہ نہ ھوگا كہ “عصر نور” “عصر ظلمت” كی طرف پلٹ جائے۔

جدید صنعت اور ترقی یافتہ ٹكنا لوجی نے جہاں انسان كی بہت سی مشكلات كو حل كیا ھے وھاں یہ چیزیں عادلانہ حكومت كے قیام كے بارے میں بھی معاون ثابت ھوں گی۔ كیونہ ساری كائنات پر حكمرانی، اور گوشہ گوشہ میں عدل و انصاف كا قیام بغیر ترقی یافتہ ٹكنا لوجی كے ناممكن ھے بلكہ حضرت كے طرز حكومت كو پیش نظر ركھتے ھوئے موجودہ طرقی یافتہ صنعت و ٹكنالوجی اس دور میں ناكافی ھوگی۔

جنگ كے میدان میں بھی ایسے اسلحوں كا استعمال ھوگا جن كا تصور اس دور میں 

ھمارے لئے آسان نہیں ھے۔ طرز جنگ كے سلسلے میں عقل كی بنیاد پر كوئی یقینی بات نہیں كہی جاسكتی۔ یہ اسلحے مادی ھوں گے یا نفسیاتی … البتہ اتنا ضرور معلوم ھے كہ وہ اسلحہ ایسے ھوں گے۔ جو نیكو كار اور گناھگار میں فرق كو ضرور قائم ركھیں گے۔ 

حدیث

احادیث میں ایسی پر معنی تعبیریں ملتی ھیں جن سے گزشتہ باتوں كے جواب واضح ھوجاتے ھیں۔ ذیل كی سطروں میں صرف چند حدیثیں قارئین كی نظر كر رھے ھیں۔

1) حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے ارشاد فرمایا كہ:

ان قائمنا اذا قام اشرقت الارض بنور ربھا واستغنی العباد من ضوء الشمس 23

“جس وقت ھمارے قائم قیام فرمائیں گے اس وقت زمین اپنے پروردگار كے نور سے روشن ھوجائے گی اور بندگان خدا سورج كی روشنی سے بے نیاز ھوجائیں گے۔”

اس سے یہ بات سمجھ میں آتی ھے كہ اس وقت روشنی اور انرجی كا مسئلہ اس قدر آسان ھوجائے گا كہ دن و رات سورج كے بجائے ایك دوسرے نور سے استفادہ كیا جاسكے گا۔ ھوسكتا ھے كہ بعض لوگ اس چیز كو معجزے كی شكل دیں۔ لیكن در حقیقت یہ اعجاز نہ ھوگا بلكہ یہ ٹكنا لوجی اور صنعت كے ترقی یافتہ دور كی طرف اشارہ كیا گیا ھے۔ 

اتنے زیادہ ترقی یافتہ دور كے مقابلے میں آج كے جدید ترین اسلحوں كی كیا حقیقت ھوگی۔ 

2) حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے جناب ابو بصیر سے ارشاد فرمایا كہ: 

انہ اذا تناھت الامور الی صاحب ھذا الامر رفع اللہ تبارك وتعالیٰ لہ كل منخفض من الارض خفض لہ كل مرتفع حتی تكون الدنیا عندہ بمنزلۃ راحتہ فایكم لو كانت فی راحتہ شعرة لم یبصرھا۔ 24

“جس وقت سلسلہ امور صاحب الامر تك پہونچے گا اس وقت خداوند عالم زمین كی ھر پستی كو ان كے لئے بند كردے گا اور ھر بلندی كو ان كے لئے پست كردے گا۔ یہاں تك كہ ساری دنیا ان كے نزدیك ھاتھ كی ہتھیلی كے مانند ھوجائے گی۔ تم میں سے كون ھے جس كی ہتھیلی میں بال ھو، اور وہ اس كو نہ دیكھ رھا ھو۔”!؟

آج كی ترقی یافتہ دنیا میں بلندیوں پر جدید ترین آلات نصب كركے دنیا كے مختلف گوشوں میں آوازیں اور تصویریں بھیجی جارھی ھیں اور اس سلسلے میں مصنوعی سیاروں سے بھی استفادہ كیا جارھا ھے۔ لیكن اس كی دوسری صورت آج كی دنیا میں ابھی تك عملی نہیں ھوسكی ھے یعنی مختلف جگہوں سے ایك مركز پر خبروں اور تصویروں كا انعكاس۔ مگر یہ كہ دنیا كے گوشے گوشے میں نشر كرنے والے اسٹیشن قائم كیے جائیں۔ 

اس حدیث سے ھمیں یہ پتہ چلتا ھے كہ ظھور كے بعد یہ مشكل بھی آسان ھوجائے گی اس وقت دنیا ہاتھ كی ہتھیلی كی مانند ھوجائے گی۔ دنیا كے دور ترین مقامات پر رونما ھونے والے واقعات پر حضرت كی بھرپور نظر ھوگی۔ اس وقت نزدیك و دور كا امتیاز ختم ھوجائے گا۔ دور و نزدیك ھر ایك پر حضرت كی یكساں نگاہ ھوگی۔ ظاھر ھے جی عادلانہ عالمی حكومت كے لیے وسیع ترین اطلاعات كی سخت ضرورت ھے۔ جب تك دنیا كے ھر واقعہ پر بھرپور نظر نہ ھوگی اس وقت تك عدل كا قیام اور ظلم كی فنا كیونكر ممكن ھوگی۔ 

3) حضرت امام محمد باقر علیہ السلام نے ارشاد فرمایا كہ:

ذخر لصاحبكم الصعب!

قلت: وما الصعب؟

قال: ما كان من سحاب فیہ رعد و صاعقۃ او برق فصاحبكم یركبہ اما انہ سیركب السحاب وبرقی فی الاسباب، اسباب السمٰوٰات والارضین! 25

تمھارے امام كے لئے سركش وسیلہ كو ذخیرہ كیا گیا ھے۔ 

راوی كا بیان ھے كہ میں نے دریافت كیا كہ مولا وہ سركش وسیلہ كیا ھے؟ فرمایا: وہ بادل ھے جس میں گرج چمك یا بجلی پوشیدہ ھے وہ اس بادل پر سوار ھوگا۔ آگاہ ھوجاؤ كہ عنقریب بادلوں پر سوار ھوگا، بلندیوں پر پرواز كرے گا، ساتوں آسمانوں اور زمینوں كا سفر كرے گا۔”

بادل سے یہ عام بادل مراد نہیں ھے۔ یہ تو بخارات كا مجموعہ ھیں۔ یہ اس لائق نہیں ھیں كہ ان كے ذریعہ سفر كیا جاسكے، زمین سے بادلوں كا فاصلہ كوئی زیادہ نہیں ھے بلكہ بادل سے ایك ایسے وسیلہ سفر كی طرف اشارہ ھے جس كی رفتار بے پناہ ھے۔ جس كی آواز گرج، چمك اور بجلی جیسی ھے وہ سفر كے دوران آسمانوں كو چیرتا ھوا نكل جائے گا۔ 

آج كی دنیا میں ھمارے سامنے كوئی ایسا وسیلہ اور ذریعۂ سفر نہیں ھے جسے مثال كے طور پر پیش كیا جاسكے۔ البتہ صرف “اڑن طشتری” كے ذریعہ اس وسیلہ سفر كا ایك ھلكا سا تصور ذھنوں میں ضرور آسكتا ھے۔

ان حدیثوں سے یہ حقیقت بالكل واضح ھوجاتی ھے كہ حضرت مھدی سلام اللہ علیہ كے ظھور كے بعد صنعت، ٹكنالوجی كس بام عروج پر ھوں گی۔ ان حدیثوں سے یہ بات واضح ھوگئی كہ ظھور كے بعد ترقی ھوگی تنزلی نہیں۔ حضرت جدید ٹكنالوجی كے ذریعہ دنیا میں عدل و انصاف كی حكومت قائم كریں گے۔ لیكن ایك بات جو ذھنوں میں بار بار كھٹكتی ھے وہ یہ ھے كہ كیا حضرت تلوار كے ذریعہ جنگ كریں گے۔؟

اس بات كا جواب یہ ھے كہ روایات میں “سیف” كا لفظ استعمال كیا گیا ھے۔ 

سیف” یا شمشیر یہ الفاظ جب استعمال كیے جاتے ھیں تو ان سے قدرت و طاقت مراد لی جاتی ھے جس طرح “قلم” سے ثقافت كو تعبیر كیا جاتا ھے۔ 

روایات میں لفظ “سیف” سے عسكری طاقت مراد ھے 

یہ بات بھی واضح ھوجائے ك ھرگز یہ خیال بھی ذھنوں میں نہ آئے كہ حضرت ظھور كے بعد یكبارگی تلوار اٹھالیں گے اور ایك طرف سے لوگوں كے سرقلم كرنا شروع كردیں گے۔ 

سب سے پہلے دلائل كے ذریعہ حقائق بیان فرمائیں گے۔ افكار كی رھنمائی فرمائیں گے، عقل كو دعوت نظر دیں گے، مذھب كی اصطلاح میں سب سے پہلے “اتمام حجّت” كریں گے۔ جب ان باتوں سے كوئی فائدہ نہ ھوگا اس وقت تلوار اٹھائیں گے۔

پھر تو اك برق تباں جانبِ اشرار چلی

نہ چلی بات تو پھر دھوم سے تلوار چلی

اسلام كو اپنی حقانیت پر اس قدر اعتماد ھے كہ اگر اسلامی تعلیمات واضح طور سے بیان كردی جائیں تو ھر منصف مزاج فوراً تسلیم كرلے گا ھاں صرف ھٹ دھرم اور تعصّب كے اندھے قبول نہ كریں گے اور ان كا تو بس ایك علاج ھے اور وہ ھے تلوار یعنی طاقت كا مظاھرہ۔ 

طرز حكومت

حضرت مھدی سلام اللہ علیہ كے عالمی انقلاب كے لئے تین مراحل ضروری ھیں:

پہلا مرحلہ: انتظار۔ آمادگی۔ علامتیں

دوسرا مرحلہ: انقلاب۔ ظلم و ستم سے پیكار۔

تیسرا مرحلہ: عدل و انصاف كی حكومت كا قیام۔ 

پہلے اور دوسرے مرحلے كے سلسلے میں گذشتہ صفحات میں بحث كی جاچكی ھے۔ اب ھم تیسرے مرحلے بارے میں بعض اھم باتیں قارئین كی نذر كررھے ھیں۔ 

ایك ایسی دنیا كا تصور انسان كے لئے كتنا زیادہ وجد آفریں، اطمینان بخش اور غرور آمیز ھے جہاں طبقاتی اختلافات نہ ھوں، فتنہ و فساد نہ ھو جنگ و خونریزی نہ ھو، فقر و تنگ دستی نہ ھو، غریب كے لاشے پر سامراجیوں كے مستانہ قہقہے نہ ھوں قہقہوں كے گرد ناداروں كی سسكتی آھیں نہ ھوں، نہ دریا دریا فقر ھو اور نہ كشتی كشتی ثروت ……”

ایسی دنیا كا تصور ایك افسانہ ضرور معلوم ھوتا ھے مگر دینِ اسلام نے اس كو یقینی بتایا ھے اور اس كے خطوط بھی ترسیم كیے ھیں۔ 

اسلامی نقطہ نظر سے عالمی حكومت كے چند اھم خطوط ملاحظہ ھوں:

1) علوم كی برق رفتار ترقی 

كوئی بھی انقلاب فكری اور ثقافتی انقلاب كے بغیر قائم نہیں رہ سكتا ھے۔ ھر انقلاب كی بقاء كے لئے فكری اور ثقافتی انقلاب ضروری ھے۔ فكری انقلاب كے دو پہلو ھوں، ایك طرف فكری انقلاب انسانوں كو ان علوم كے سیكھنے پر آمادہ كرے جن كی سماج كو ضرورت ھے اور دوسری طرف صحیح انسانی زندگی كے اصول سے واقف كرائے۔

حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے ایك روایت میں ارشاد فرمایا كہ:

العلم سبعۃ و عشرون حرفاً فجمیع ما جائت بہ الرسل حرفان فلم یعرف الناس حتی الیوم غیر الحرفین فاذا قام قائمنا اخرج الخمسۃ والعشرین حرفاً، فبثھا فی الناس و ضم الیھا الحرفین حتی یبثھا سبعۃ و عشرین حرفاً 26

“علم و دانش كے ستّائیس (27) حروف ھیں (27 شعبے اور حصے ھیں) وہ تمام باتیں جو انبیاء علیہم السلام اپنی امت كے لئے لائے وہ دو حرف ھیں۔ اور آج تك تمام لوگ دو حرفوں سے زیادہ نہیں جانتے ھیں لیكن جس وقت ھمارے قائم كا ظھور ھوگا وہ بقیہ 25 حرف (25 شعبے اور حصے) بھی ظاھر فرمادیں گے اور ان كو عوام كے درمیان پھیلادیں گے اور 25 حرفوں میں پہلے كے دو حرف بھی شامل كرلیں گے اس وقت 27 حرف مكمل طور سے پھیلائے جائیں گے۔”

اس حدیث سے یہ بات واضح ھوجاتی ھے كہ حضرت كے ظھور كے بعد علم كس برق رفتاری سے ترقی كرے گا۔ اس زمانے كی علمی ترقی آج تك كی تمام ترقیوں كے مقابلے 

میں بارہ گُنا سے زیادہ ھوگی۔ اس وقت علوم و فنون كے تمام دروازے كُھل جائیں گے۔ 

حضرت امام محمد باقر علیہ السلام سے ایك روایت نقل ھوئی ھے جس سے گذشتہ حدیث كی تكمیل ھوتی ھے وہ حدیث یہ ھے:

اذا قام قائمنا وضع اللہ یدہ علی رؤوس العباد فجمع بھا عقولھم وكملت بھا احلامھم27

“جس وقت ھمارے قائم كا ظھور ھوگا خداوند عالم بندوں كے سروں پر ھاتھ ركھے گا جس سے ان كی عقلیں كامل اور ان كے افكار كی تكمیل ھوگی۔”

حضرت مھدی سلام اللہ علیہ كی رھبری میں اور آپ كے وجود كی بركت سے لوگوں كی عقلیں كامل ھوجائیں گی۔ افكار میں وسعت پیدا ھوجائے گی۔ تنگ نظری اور كوتاہ فكری كا خاتمہ ھوجائے گا۔ اور اس طرح وہ چیزیں بھی فنا ھوجائیں گی جو تنگ نظری اور كوتاہ فكری كی پیداوار تھیں۔

اس وقت كے لوگ وسیع نظر، بلند افكار، كشادہ دلی، اور خندہ پیشانی كے مالك ھوں گے جو سماج كی مشكلات اپنی پاكیزہ روح اور طاھر افكار سے حل كردیں گے۔

2) صنعت كی بے مثال ترقی

“فتح كا انداز” كے عنوان كے تحت پہلی، دوسری اور تیسری حدیث جو نقل كی ھے اس میں صنعت اور ٹكنالوجی كی غیر معمولی ترقی كی طرف اشارہ كیا گیا ھے۔ 

مواصلات كا نظام اتنا زیادہ ترقی یافتہ ھوجائے گا كہ وسیع و عریض كائنات ہاتھ كی ہتھیلی كی مانند ھوجائے گی، ساری دنیا پر مركز كی پوری پوری نظر ھوگی تاكہ رونما ھونے والے واقعات كا فوری حل تلاش كیا جاسكے۔

روشنی اور انرجی كا مسئلہ اس حد تك حل ھوجائے گا كہ لوگ سورج كی روشنی كے محتاج نہ رھیں گے۔ 

اس وقت سفر كے ایسے ذرائع ایجاد ھوں گے جن كی تیز رفتاری كا آج ھم تصور بھی نہیں كرسكتے۔ ایسے ذرائع ھوں گے جس سے زمین كیا آسمان كی وسعتوں میں بھی سفر كیا جائے گا۔ 

صنعت و ٹكنالوجی كی برق رفتاری كے سلسلے میں ذیل كی حدیث خاص توجہ كی طالب ھے۔ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام كا ارشاد ھے كہ:

ان قائمنا اذا قام مدّ اللہ بشیعتنا فی اسماعھم و ابصارھم حتیٰ لایكون بینھم و بین القائم برید یكلمھم فیسمعون وینظرون الیہ وھو فی مكانہ 28 

“بے شك جس وقت ھمارے قائم كا ظھور ھوگا، خداوند عالم ھمارے شیعوں كی سماعت اور بصارت كو اتنا تیز كردے گا كہ ان كے اور قائم كے درمیان كوئی نامہ برنہ ھوگا، وہ شیعوں سے گفتگو كریں گے اور یہ لوگ سنیں گے “اور قائم كی زیارت كریں گے جبكہ وہ اپنی جگہ پر ھوں گے۔”

اس وقت مواصلات كا نظام اتنا زیادہ ترقی یافتہ ھوجائے گا كہ ھر ایك شخص اس سے استفادہ كرسكے گا، لوگ اپنی اپنی جگہوں سے حضرت كی زیارت كریں گے اور حضرت كی آواز سنیں گے۔ اس وقت ڈاك و تار كا نظام غیر ضروری چیزوں میں شمار ھونے لگے گا۔ پیغام رسانی كے لئے ھر ایك كے پاس اپنا ذریعہ ھوگا۔!!

اس سلسلہ كی ایك دوسری حدیث بھی ملاحظہ ھو۔ یہ حدیث بھی حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے نقل ھوئی ھے:

ان المومن فی زمان قائم وھو بالمشرق سیری اخاہ الذی فی المغرب، وكذا الذی فی المغرب یریٰ اخاہ الذی بالمشرق۔

قائم كے زمانے میں مومنین كا حال یہ ھوگا كہ مشرق كے رھنے والے مغرب كے مومنین كو دیكھیں گے اور مغرب كے رھنے والے مشرق كے مومنین كو دیكھیں گے۔”

صرف حكومت كے اور عوام كے درمیان ھی براہ راست رابطہ نہ ھوگا بلكہ عوام كا بھی ایك دوسرے سے براہ راست رابطہ ھوگا۔ 

اور اس طرح علم و صنعت عدل و انصاف كی بنیاد پر سماج كی تشكیل نوكریں گے سماج میں ھر طرف صدق و صفا، اخوت و برادری كا چرچا ھوگا۔ 

3) اقتصادی ترقیاں اور عدالتِ اجتماعی

جس زمین پر ھم زندگی بسر كر رھے ھیں اس میں اتنی صلاحیت ھے كہ وہ موجودہ نسل اور آنے والی نسل كی كفالت كرسكے، لیكن بہت سے منابع كا ھمیں علم نہیں ھے اور تقسیم كا نظام بھی صحیح نہیں ھے۔ یہی وجہ ھے كہ آج غذا كی قلت كا احساس ھورھا ھے اور ھر روز لوگ بھوك سے جان دے رھے ھیں۔ اس وقت دنیا پر جس اقتصادی نظام كی حكومت ھے وہ ایك استعماری نظام ھے جو اپنے زیر سایہ “قانونِ جنگل” كی پرورش كر رھا ھے۔ وہ لوگ جو زمین میں پوشیدہ ذخیروں كا پتہ لگاتے، انسانیت كی فلاح و بہبود كی كوشش كرتے ھیں وہ استعمار كی بارگاہ ظلم و استبداد میں “امن و امان” كی خاطر بھینٹ چڑھا دیے جاتے ھیں۔ 

لیكن جس وقت اس دنیا سے استعماری نظام كا خاتمہ ھوجائے گا اور اسی كے ساتھ ساتھ “قانون جنگل” بھی نابود ھوجائے گا، اس وقت زمین میں پوشیدہ خزانوں سے بھی استفادہ كیا جاسكے گا، اور نئے ذخیروں كی تلاش ھوسكے گی۔ علم و دانش بھی اقتصادیات كی بہتری میں سرگرم رھیں گے۔ 

حضرت مھدی سلام اللہ علیہ كے سلسلے میں جو روایات وارد ھوئی ھیں ان میں اقتصادیات كی بہتری كی طرف بھی اشارہ ملتا ھے۔ ذیل كی سطروں میں اس سلسلے كی چند حدیثیں ملاحظہ ھوں: 

انہ یبلغ سلطانہ المشرق والمغرب، وتظھرلہ الكنوز ولا یبقیٰ فی الارض خراب الا یعمّرہ 

آپ كی حكومت مشرق و مغرب كو احاطہ كیے ھوگی، زمین كے خزانے آپ كے لئے ظاھر ھوجائیں گے۔ زمین كا كوئی حصہ غیر آباد نہیں رھے گا”۔ 

غیر آباد زمینیں افراد، مال یا ذرائع كی كمی كی بنا پر نہیں ھیں بلكہ یہ زمینیں انسان كی ویران كردہ ھیں۔ ظھور كے بعد انسان تعمیر كرے گا تخریب نہیں۔ 

اس سلسلے كی ایك دوسری حدیث ملاحظہ ھو۔ یہ حدیث حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے نقل ھوئی ھے۔ 

اذا قام القائم، حكم بالعدل 

وارتفع الجور فی ایامہ

وامنت بہ السبل

واخرجت الارض بركاتھا

ورد كل حق الی اھلہ

وحكم بین الناس بحكم داؤد و حكم محمد

فحینئذ تظھر الارض كنوزھا

ولا یجد الرجل منكم یومئذ موضعا لصدقتہ ولا لبرہ

لشمول الغنی جمیع المومنین 

جس وقت ھمارے قائم كا ظھور ھوگا، عدل و انصاف كی بنیاد پر حكومت قائم كریں گے ان كے زمانے میں ظلم و جور نابود ھوجائیں گے۔

راستوں پر امن و امان ھوگا، 

زمین اپنی بركتیں ظاھر كردے گی، 

صاحبان حقوق كو ان كے حق مل جائیں گے۔

عوام كے درمیان جناب داؤد (ع) اور حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم كی طرح فیصلہ كریں گے۔

اس موقع پر زمین اپنے خزانے ظاھر كردے گی۔

كسی كو صدقہ دینے یا مالی امداد كا كوئی موقع نہ ملے گا كیونكہ اس وقت تمام لوگ مستغنی ھوچكے ھوں گے۔”

زمین كا اپنی بركتوں كو اور خزانوں كو ظاھر كردینا بتا رھا ھے كہ اس وقت زراعت بھی عروج پر ھوگی، اور زمین میں پوشیدہ تمام منابع كا انكشاف ھوگا۔ عوام كی سالانہ آمدنی اتنی ھوگی كہ سماج میں كوئی فقیر نہ ھوگا، سب كے سب خود كفیل ھوچكے ھوں گے۔ 

جس وقت عدل و انصاف كی بنیاد پر حكومت قائم ھوگی اور ھر شخص كی استعداد سے بھرپور استفادہ كیا جائے گا جس وقت تمام انسانی طاقتیں زراعت اور منابع كے انكشاف میں لگ جائیں گی تو روزانہ نئے خزانے كا انكشاف ھوگا اور ھر روز زراعت میں ترقی ھوگی۔ غذائی اشیاء كی قلتیں، بھوك، پریشانی وغیرہ كی وجہ غیر منصفانہ طرز تقسیم ھے۔ یہ تقسیم كا نقص ھے كہ كہیں سرمایہ كی بہتات ھے اور كہیں دو لقمہ كو كوئی ترس رھا ھے۔ 

حضرت مھدی سلام اللہ علیہ كے دوران حكومت صرف زراعت میں ترقی اور زمین میں پوشیدہ خزانوں ھی كا انكشاف نہ ھوگا بلكہ اس دور میں شھر اس وقت سے زیادہ آباد ھوں گے، چوڑی چوڑی سڑكیں ھوں گی۔ عین سادگی كے ساتھ وسیع مسجدیں ھوں گی۔ گھروں كی تعمیر اس طرح ھوگی كہ كسی دوسرے كو اس سے كوئی تكلیف نہیں پہونچے گی۔ اس سلسلے میں چند روایتیں ملاحظہ ھوں:۔

1) حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت ھے:

و یبنیٰ فی ظھر الكوفہ مسجدا لہ الف باب و یتصل بیوت الكوفہ بنھر كربلا وبالحیرة 29

“كوفہ كی پشت پر ایك ایسی مسجد تعمیر كریں گے جس كے ھزار دروازے ھوں گے اور كوفہ كے مكانات كربلا كی نہر اور حیرہ سے مل جائیں گے”۔

سب جانتے ھیں كہ اس وقت كوفہ سے كربلا كا فاصلہ 90 كلومیٹر ھے۔

2) حضرت امام محمد باقر علیہ السلام كا ارشاد ھے كہ:

اذا قام القائم یكون المساجد كلھا جمالا شرف فیھا كما كان علی عھد رسول اللہ (ص) و یوسع الطریق الاعظم فیصیر ستین ذراعھا ویھدم كل مسجد علی الطریق ویسد كل كوة الی الطریق وكل جناح و كنیف ومیزاب الی الطریق 30

“جس وقت حضرت قائم كا ظھور ھوگا اس وقت مسجدوں كی چھوٹی چھوٹی دیواریں ھوں گی، مینار نہیں ھوں گے، اس وقت مسجدوں كی وھی شكل ھوگی جو رسول اللہ كے زمانے میں تھی۔ شاھراھیں وسیع كی جائیں گی یہاں تك كہ ان كی چوڑائی ساٹھ گز ھوجائے گی۔ وہ تمام مسجدیں منھدم كردی جائیں گی جو راستوں پر ھوں گی (جس سے آنے جانے والوں كو زحمت ھوتی ھوگی)

وہ كھڑكیاں اور جنگلے بھی بند كردیے جائیں گے جو راستوں كی طرف كھلتے ھوں گے۔

وہ چھجے، پر نالے اور گھروں كا گندہ پانی جس سے راستہ چلنے والوں كو تكلیف ھوگی وہ ختم كردیے جائیں گے۔

3) حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے ایك طولانی حدیث میں وارد ھوا ھے كہ: 

… ولیصیرن الكوفہ اربعۃ وخمسین میلا ولیجارون قصورھا كربلا ولیصیرن اللہ كربلا معقلا ومقاما ……” 31

“وہ كوفہ كی مسافت 54 میل كردیں گے، كوفہ كے مكانات كربلا تك پہونچ جائیں گے، اور خدا كربلا كو سرگرمیوں كا مركز قرار دے گا۔”

زراعت، تعمیرات، آبادكاری وغیرہ كے سلسلے میں كافی مقدار میں روایتیں وارد ھوئی ھیں۔ مزید روایتوں كے لئے “منتخب الاثر” كا مطالعہ كیا جاسكتا ھے۔ 

4) عدلیہ

ظلم و جور، ستم و استبداد نا انصافی و نا برابری كا قلع قمع كرنے كے لئے جہاں ایمان و اخلاق كی سخت ضرورت ھے وھاں صحیح نظام كے لئے طاقت ور عدلیہ كی بھی ضرورت ھے۔

صنعت اور ٹكنالوجی كی ترقی كی بنا پر یہ ممكن ھوجائے گا كہ انسانوں كی حركات و سكنات پر نظر ركھی جاسكے۔ ان اقدامات پر پابندی عائد كی جاسكے جو فساد كی خاطر كئے جاتے ھیں۔ مجرموں كی آوازیں ٹیپ كرنا، ان كے خفیہ اعمال كی تصویر لینا … ان چیزوں سے مجرموں پر گرفت مضبوط ھوجائے گی۔ مجرموں كی نگرانی كامیاب حكومت كے لئے بہت ضروری ھے۔ 

اس میں كوئی شك نہیں كہ حضرت كے زمانے میں اخلاقی تعلیمات اتنی عام ھوجائیں گی كہ عوام كی اكثریت سعادتمند معاشرے كی تشكیل كے لئے آمادہ ھوجائے گی۔ عوام كو اخلاقی تربیت سے سماج كے كافی مسائل حل ھوجائیں گے۔ 

لیكن انسان آزاد پیدا كیا گیا ھے۔ اپنے اعمال میں اسے پورا اختیار حاصل ھے۔ اس لئے اس بات كا امكان ضرور ھے كہ ایك صحت مند سماج میں ایسے افراد پائے جائیں جو خواہ مخواہ فساد پھیلانا چاھتے ھوں۔ 

اس بنا پر سماج كی مكمل اصلاح كے لئے وسیع الاختیار عدلیہ كی ضرورت ھے تاكہ مجرموں كو ان كے جرم كا بدلہ دیا جاسكے۔

جرائم كے علل و اسباب پر غور كرنے سے معلوم ھوتا ھے كہ بہت سے جرائم كو ان طریقوں سے روكا جاسكتا ھے:

1) عادلانہ تقسیم

ضروریات زندگی كی عادلانہ تقسیم سے كافی جرائم ختم ھوجاتے ھیں۔ عادلانہ تقسیم سے طبقاتی كش مكش ختم ھوجاتی ھے۔ ذخیرہ اندوزی، چور بازاری، گراں فروشی، اور سرمایہ داروں كی ناروا سختیاں نیز سرمایہ دارون كی باھمی چپقلیش … سب كافی حد تك ختم ھوجائیں گی۔ 

2) صحیح تربیت

صحیح تربیت بھی مفاسد اور جرائم كی روك تھام میں كافی موثر ھے۔ اس وقت دنیا میں فساد كی گرم بازاری، جرائم كی فراوانی اس وجہ سے ھے كہ تعلیم كے لئے تو ضرور نئے نئے طریقے اختیار كئے جارھے ھیں لیكن تربیت كا كوئی معقول انتظام نہیں ھے۔ تعلیم كو صحیح راستے پر لگانے كے بجائے تعلیم سے فساد كی شاھراہ تعمیر كی جارھی ھے غیر اخلاقی فلمیں، ڈرامے، كتابیں، اخبار، رسالے سب انسان كے اخلاقیات پر حملہ آور ھیں۔ 

لیكن جب تعلیم كے ساتھ ساتھ تربیت كا بھی جدید ترین معقول انتظام ھوگا، عالمی حكومت انسانوں كی تربیت پر بھرپور توجہ دے گی۔ وہ مفاسد اور جرائم خود بخود ختم ھوجائیں گے جن كا سرچشمہ عدم تربیت یا ناقص تربیت ھے۔ 

3) طاقت ور عدلیہ

ایك ایسی عدلیہ كا وجود جس سے نہ مجرم فرار كرسكتا ھے اور نہ فیصلوں سے سرتابی اس وقت دنیا كے ھر ملك میں عدلیہ موجود ھے۔ لیكن یا تو عدلیہ كی گرفت مجرم پر مضبوط نہیں ھے یا عدلیہ میں صحیح فیصلے كی صلاحیت نہیں ھے، یا دونوں ھی نقص موجود ھیں بلكہ بعض مجرم عدلیہ كی شہ پر جرم كرتے ھیں۔

لیكن ایك ایسی عدلیہ جس كی گرفت بھی مجرم پر سخت ھو اور جو فیصلوں میں رو رعایت نہ كرتی ھو، فساد اور جرائم كے انسداد میں ایك اھم كردار ادا كرتی ھے۔ 

اگر یہ تینوں باتیں یكجا ھوجائیں، عادلانہ تقسیم۔ صحیح تربیت اور طاقت ور عدلیہ تو آپ خود فیصلہ كرسكتے ھیں كہ كتنے عظیم پیمانے پر جرائم كا سد باب ھوجائے گا اور سماج كی اصلاح میں كس قدر موثر اقدام ھوگا۔

روایات سے استفادہ ھوتا ھے كہ حضرت مھدی سلام اللہ علیہا كے زمانۂ حكموت میں یہ تینوں عوامل اپنے عروج پر ھوں گے۔

مدّتِ حكومت

احادیث میں حضرت كی حكومت كے سلسلے میں مختلف روایتیں ملتی ھیں۔ روایتیں 5 سال سے 309 سال (جتنے دنوں اصحاب كہف غار میں سوتے رھے) تك ھیں۔ یہ مختلف اعداد ھوسكتا ھے كہ حكومت كے مختلف مراحل كی طرف اشارہ كر رھے ھوں مرحلہ انقلاب مرحلہ استحكام اور مرحلہ حكومت ان تمام باتوں سے قطع نظر یہ ایك حقیقت ھے كہ مُدّتوں كا انتظار، یہ تیاریاں، یہ مقدمات كسی ایسی حكومت كے لئے زیب نہیں دیتے جس كی عمر مختصر ھو۔ حضرت كی حكومت كی عمر یقیناً طولانی ھوگی تاكہ ساری زحمتیں ثمر آور ھوسكیں ویسے حقائق كا علم ذاتِ احدیت كو ھے۔ 

——————————————————————————–

23. بحار الانوار ج52 ص330

24. بحار الانوار ج52 طبع جدید ص328

25. بحار الانوار ج52 طبع جدید ص 321

26. بحار الانوار ج52 ص336۔ 

27. بحار الانوار ج52 ص328

28. بحار الانوار ج52 ص336

29. بحار الانوار ج52 ص330

30. بحار الانوار ج13 ص186 مطبوعہ امین الضرب

31. سابق مآخذ

 

تبصرے
Loading...