فامّا الشوری للمهاجرین والأنصار فإنْ أجمعوا علی رجلٍ وسمّوه إماماً کان ذلك لله رضی کی تشریح

یه جمله نهج البلاغه کے مکتوبات کا هےجسے معاویه کے دعووں کے جواب میں لکھا گیا هے٬ کیونکه معاویه حضرت امام علی علیه السلام کی حکومت کو صحیح نهیں مانتا تھا لیکن ابوبکر و عمر کی حکومت کو ظاهری طور پر صحیح مانتا تھا، اور اسی پر اعتماد کرتا تھا، امام علیه السلام نےاس خط میں معاویه کی دلیلوں کو باطل کیا اور خود اس کے قابل قبول اصول کے تحت اپنی حکومت کے  صحیح هونے کو ثابت کیا، چنانچه آپ فرماتے هیں:

“جن لوگوں نے ابوبکر و عمر و عثمان کی بیعت کی تھی انھیں شرائط کے تحت میری بیعت کی هے، اس بنا پر نه تو حاضر هونے والا اس کو فسخ کرنے کا اختیار رکھتا هے اور نه غائب رهنے والا اس کو رد کرنے کا اختیار رکھتا هے،” اس کے بعد امام علیه السلام مهاجرین و انصار کی اهمیت و عظمت کو بیان کرتے هوئے فرماتے هیں: مسائل کو حل کرنے والی شوری مهاجرین و انصار سے متعلق هے، (اور اے معاویه تو ان دونوں میں سے نهیں هے فتح مکه کے دن پیغمبر اکرم (ص) نے تم  پر احسان کیا اور تمهیں آزاد کیا، خلافت طلقا (یعنی آزاد شده لوگوں) کے لئے روا نهیں هے، اور ان لوگوں کو خلافت کے لالچ میں نهیں  رهنا چاهئے) اگر ان لوگوں نے کسی کو متفق طور پر امام قرار دیا تو خداوندعالم راضی هے، اگر ان کے فرمان سے کوئی (اے معاویه تیری طرح) طعن و بدعت کے ذریعه خارج هوگیا تو اسے اس کی جگه بٹھا دیں گے اور اگر سرکشی کی تو اس سے جنگ کریں گے”۔

امام علیه السلام کا کلام معاویه کی باتوں کا جواب هے امام علیه السلام چاهتے هیں که اسے خود اس کی باتوں کے ذریعه قانع کریں، کیونکه معاویه خود کو عمروعثمان کی طرف سے منصوب مانتا تھا اوراستدلال کرتا تھا که ان کی خلافت صحیح هے، کیونکه مهاجرین وانصار نے ان کی بیعت کی هے، امام علی علیه السلام نے اسی نکته سے اس خط میں فائده اٹھایا اور اس بات کی یاد دهانی کی که خود تیرے بیان کے مطابق تجھے میرے حکم کی پیروی کرنا چاهئے، کیونکه انهیں مهاجرین و انصار نے میری بھی بیعت کی هے اور اس طرح اس کے لئے عذر و بهانه بازی کی جگه باقی نه چهوڑی۔

امام علیه السلام کا جواب اس دلیل سے هٹ کر هے که جو اس بات پر دلالت کرتی هے که امام کو خدا یا پیغمبر منصوب کرتا هے۔

بعض لوگوں نے یه چاها تھا که اس خط کو خلفا گزشته کی خلافت کے صحیح هونے کی دلیل قرار دیں لیکن یه نظریه صحیح نهیں هے، چونکه امام علیه السلام نے دیگر خطبوں اور کلام میں اس بات پر تاکید کی هے که ان لوگوں کی خلافت٬ حضرت رسول اکرم (صلی الله علیه و آله و سلم) کی معین کرده راه سے الگ راه پر گامزن هے، جیسا که امام علیه السلام نے یوم الشوری میں فرمایا: “خداوندا! میں قریش اور جن لوگوں نے ان کی مدد کی هے ان کے مقابل میں تجھ سے مدد حاصل کرتا هوں اور تیری بارگاه میں شکایت کرتا هوں، انھوں نے میرے رشته داری کی ناطے کو توڑ دیا هے اور میری عظیم منزلت و رتبه کو سبک شمار کیا  اور وه لوگ میرے حق کے غصب کرنے اور مجه سے مقابله کرنے کے لئے متحد هوگئے هیں۔ [1]

اسی طرح امام علیه السلام خطبه شقشقیه[2] میں اپنی زبان پر یه جملے جاری کرتے هیں که حکومت همارے هاتهوں میں هونی چاهئے لیکن ابوبکر و عمر و عثمان نے آپ سے حکومت چهین لی، اس کے بعد اس بات کی وضاحت کرتے هیں۔

 بهتر هے که اس خطبه کا مطالعه کیا جائے تاکه یه معلوم هوجائے امام علیه السلام کی نظر میں خلافت آپ هی کا حق تھا، لیکن عام مسلمانوں کی مصلحت کی خاطر امام علیه السلام نے سکوت کے علاوه کوئی چاره کار نه دیکھا، اسی وجه سے امام علیه السلام نے اسی شورای کے بعض اعضاء پر اعتراض کیا اور اگر امام علیه السلام مهاجرین و انصار کی تمام شورای کو قبول کرتے تو اس طرح شکوه نه کرتے۔

 امام علی علیه السلام نهج البلاغه کے چھٹے مکتوب میں خود معاویه کی بات سے اس کے خلاف احتجاج کرتے هیں اور یه طریقه اس وقت کے ثقافتی حالات کے لحاظ سے استدلال کی بهترین قسم تھی، کیونکه اگر امام علیه السلام صراحت کے ساته حکومت خلفا کے باطل هونے کی طرف اشاره کرتے تو ممکن تھا که آپ کے سپاهیوں اور لشکر میں اختلاف پیدا هوجاتا، اسی وجه سے امام علیه السلام نے ایسے جمله سے استدلال کیا که جو معاویه خود کهتا تھا اور ایسے مقامات پر که جهاں انسان اهل منطق و اهل انصاف نه هو اپنے باطل نظریات اورعقائد پر پافشاری کرتا هے، ایسے موقع پر اس کو قانع کرنے کا بهترین راسته خود اس کے اصول اور اس کی باتوں سے جواب دینا  هے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[1] . نهج‌البلاغه، صبحی صالح، خطبه 172.

[2] نهج‌البلاغه ٬خطبه 3.

تبصرے
Loading...