غدیر کا واقعہ لافانی و جاودانی ھے

خدائے تعالیٰ کا حکیمانہ ارادہ یہی تھا کہ غدیر کا تاریخی واقعہ تمام زمانوں اور صدیوں میں ایک زندہ تاریخ کی صورت میں باقی رھے تاکہ ھر زمانے کے لوگ اس کی طرف جذب ھوں اور ھر زمانے میں اسلام کے اھل قلم تفسیر ، حدیث ، کلام اور تاریخ پر قلم اٹھاتے وقت اس موضوع پر لکھیں اور مذھبی مقررین ، وعظ و سخن کی مجلسوں میں اسے بیان کرتے ھوئے اس کو امام (ع) کے ناقابل انکار فضائل میں شمار کریں ۔ ادباء و شعراء بھی اس واقعہ سے الھام حاصل کرکے اپنے ادبی ذوق و شوق کو اس واقعہ سے مزین کرکے مولا کے تئیں اپنے جذبات مختلف زبانوں میں بھترین ادبی نمونوں کی صورت میں پیش کریں۔

یہ بات بلا سبب نھیں کہ انسانی تاریخ میں بھت کم ایسے واقعات گزرے ھیں جو واقعہ غدیر کی طرح علماء ، محدثین ، مفسرین ، متکلمین ، فلاسفہ ، مقررین ، شعراء ، مؤرخین و سیرت نگاروں کی توجہ کا مرکز بنے ھیں ان سب نے اس واقعہ کو قدر کی نگاہ سے دیکھا اور عقیدت کے پھول نچھاور کئے ھیں ۔

بیشک اس واقعہ کے لافانی اور جاودانی ھونے کا ایک سبب یہ بھی ھے کہ اس واقعہ سے مربوط قرآن مجید میں دو آیتیں (5) نازل ھوئی ھیں ۔ چونکہ قرآن لافانی اور ابدی ھے اس لئے یہ واقعہ بھی لافانی ھوگیا ھے اور ھرگز ختم ھونے والا نھیں ھے۔

اس کے علاوہ چونکہ گزشتہ زمانہ میں اسلامی معاشرہ اور آج کا شیعہ معاشرہ اس روز کو مذھبی عیدوں میں ایک عظیم عید شمار کرتا ھے اور اس مناسبت سے ھر سا ل با شکوہ تقریبات منعقد کرتا ھے لھذا قدرتی طور پر غدیر کے تاریخی واقعہ نے ابدیت کا رنگ اختیار کرلیا ھے اور کبھی فراموش ھونے والا نھیں ھے۔

تاریخ کا مطالعہ کرنے سے صاف ظاھر ھوتا ھے کہ 18 ذی الجة الحرام کا دن مسلمانوں کے درمیان عید غدیر کے طور پر معروف تھا ، یہاں تک کہ ” ابن خلکان “ فاطمی خلیفہ مستعلی بن المستنصر کے بارے میں لکھتا ھے :

” سن 487ء ہ عید غدیر کے دن ، کہ 18 ذی الحجة الحرام ھے ، لوگوں نے اس کی بیعت کی (6) المستنصر بالله کے بارے میں ” العبیدی“ لکھتا ھے:

” وہ سن 487 ھء میں جب ماہ ذی الحجة میں 12 شبیں باقی بچی تھیں ، فوت ھوا ، یہ شب وھی 8 اویں ذی الحجة کی شب ھے ، اور شب عید غدیر ھے“ (7)

ابن خلکان نے ھی اس شب کو عید غدیر کی شب کا نام نھیں دیا ھے بلکہ ” مسعودی“ (8) اور ”ثعالبی“ (9) نے بھی اس شب کو امت اسلامیہ کی مشھور و معروف شبوں میں شمار کیا ھے۔

عید غدیر کے دن جشن و سرور کی تقریبات کا سلسلہ اس دن خود پیغمبر کے عمل سے شروع ھوا ھے۔ کیونکہ اس دن پیغمبر اکرم صلی الله علیہ و آلہ وسلم نے مھاجرین و انصار بلکہ اپنی بیویوں کو بھی حکم دیا تھا کہ علی(ع)کے پاس جا کر انھیں اس عظیم فضیلت کی مبارکباد دیں۔ 

زید بن ارقم کھتے ھیں : مھاجرین میں سے سب سے پھلے جن افراد نے علی(ع)کے ھاتہ پر بیعت کی ، ابو بکر ، عمر ، عثمان ، طلحہ اور زبیر تھے اور مبارکباد کی یہ تقریب اس دن سورج ڈوبنے تک جاری رھی۔

حوالہ جات :

5۔ آیہ ، ( یَا اٴَیُّھَا الرَّسُولُ بَلِّغْ مَا اٴُنْزِلَ إِلَیْکَ مِنْ رَبِّک “) (مائدہ / 67 )، اور آیہ شریفہ ( اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِینَکُمْ وَ اٴَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِی”) (مائدہ /3)

6۔ وفیات الاعیان ، ج1، ص 60 ۔

7۔ وفیا ت الاعیان ، ج1، ص 223۔

8۔ التنبیہ و الاشراف ، ص 22 ۔

9۔ ثمارة القلوب ، ص 511۔

 

تبصرے
Loading...