عصر بعثت اور الله پر ایمان و اعتقاد

قرآن مجید کی بھت سی آیتوں سے واضح ھوتا ھے کہ قرآن کریم کے زمانہٴ نزول میں اصل ھستی خدا اوراس کائنات کے خالق کا وجود اس زمانے کے تمام افراد کے لئے قابل قبول تھا حتی بت پرست اور مشرکین بھی وجود خالق کائنات پر اعتقاد رکھتے تھے:

(ولئن ساٴلتھم من خلق السموات والارض وسخر الشمس والقمر لیقولن الله فانی یوٴفکون)

اور اگر تم ان سے پوچھو کہ آسمانوں اور زمینوں کو کس نے خلق کیا اور کس نے تمھارے لئے شمس وقمر کو مسخر کیا ھے تو وہ کھیں گے کہ الله نے ! تو پھر وہ منحرف کیوں ھو رھے ھیں؟ (1)

(ولئن ساٴلتھم من نزل من السماء ماء فاحیا بہ الارض من بعد موتھا لیقولن الله قل الحمد لله بل اکثر ھم لا یعقلون)

اور اگر تم ان سے پوچھو کہ آسمان سے پانی کس نے برسایا اوراس کے وسیلے سے زمین کو اس کی موت کے بعد کس نے زندہ کیا تو وہ کھیں گے کہ الله نے ۔ تو ان سے کهدو کہ ساری تعریفیں الله ھی کے لئے ھیں لیکن ان میں سے اکثر نھیں سمجھتے۔ (2)

(ولئن ساٴلتھم من خلق السموات والارض لیقولن خلقھن العزیز الحکیم)

اوراگر تم ان سے سوال کرو کہ آسمانوں اور زمین کو کس نے پیدا کیا ھے تو وہ یقینا یھی کھیں گے کہ خداوند متعال قادر وعلیم نے ھی انھیں پیدا کیا ھے۔(3)

اقوام نوح، عاد اور ثمود میں خدا پر اعتقاد

قرآن مجید کی آیتوں سے وضاحت ھوتی ھے کہ نہ فقط زمانہٴ رسول اکرم کے افراد بلکہ قوم نوح، عاد، ثمود اور دوسری امتوں میں بھی اپنے اپنے پیغمبروں کے ساتھ اصل وجود خداپر کوئی جھگڑا یا اختلاف نھیں تھا بلکہ اختلافات اگرتھے تو فقط توحید، نبوت اور قیامت سے متعلق ۔ ان زمانوں کے بت پرست اور مشرکین وجودخدا کو بطور خالق قبول کرتے ھوئے اس کی تصدیق کرتے تھے لیکن مشکل یہ تھی کہ ساتھ ھی ساتھ بتوں کی بھی تجلیات خدا کے طور پر پرستش کرتے تھے۔ وہ لوگ بتوں کی اس لئے پرستش و عبادت کرتے تھے کہ اصنام ان کے اور خدا کے درمیان واسطہ اور وسیلہ قرار پائیں اور ان کی حاجت روائی اور ان کی مشکلات کو دور کریں:

(الم یاٴتکم نبوٴالذین من قبلکم قوم نوح وعادٍ وثمود والذین من بعدھم لا یعلمھم الاالله فلیتوکل المتوکلون)

کیا تمھیں ان لوگوں کی خبر نھیں پھونچی جو تم سے پھلے تھے؟ قوم نوح، ثمود اور جو ان کے بعد تھے وھی جن سے الله کے علاوہ اور کوئی آگاہ نھیں ھے ان کے پیغمبر ان کے پاس واضح دلائل لے کر آئے لیکن انھوں نے (تعجب اور استھزا سے) اپنے منہ پر ھاتھ رکھ کر کھا: ھم اس چیز کے کافر (منکر) ھیں جس کے لئے تم مامور ھو اور جس کی طرف تم ھمیں بلاتے ھو، اس کے بارے میں ھمیں شک ھے۔ ان کے رسولوں نے کھا! کیا الله کے بارے میں شک ھے اور وہ الله جس نے آسمانوں اور زمین کو خلق کیا، وہ جو تمھیں دعوت دیتاھے کہ تمھارے گناہ بخش دے اور تمھیں وعدہ گاہ تک باقی رکھے گا؟ انھوں نے کھا: ( ھم یہ باتیں نھیں سمجھتے ۔ ھم تو اتنی بات جانتے ھیں کہ) تم تو ھمارے ھی جیسے انسان ھو اورتم چاھتے ھو کہ ھمیں اس سے روکو جس کی ھمارے آباء و اجداد پرستش کرتے تھے۔ تم ھمارے لئے کوئی واضح دلیل لاؤ۔

ان کے رسولوں نے کھا! (ھاں) یہ ٹھیک ھے کہ ھم بھی تم جیسے بشر ھیں لیکن الله اپنے بندوں میں سے جس کو چاھتا ھے ( اور جس کو اھل پاتا ھے) نعمت (اور مقام رسالت) عطا فرماتا ھے اور ھم حکم خدا کے بغیر ھرگز معجزہ نھیں لا سکتے اور تمام باایمان افراد صرف الله پر ھی توکل کرنا چاھتے ھیں۔ ھم الله پر کیوں نہ توکل کریں جب کہ اس نے ھمیں(سعادت کی) راھوں کی طرف راھنمائی کی ھے اور ھم تمھاری ایذا رسانیوں پر یقینا صبر کریں گے اور توکل کرنے والوں کو صرف الله پر ھی توکل کرنا چاھئے۔ (4)

علامہ طباطبائی اپنی تفسیر میں ان آیتوں کے ذیل میں اس بات پر زور دیتے ھیں کہ اصل وجود خدا میں ان بت پرست قوموں کو کوئی شک وشبہ نھیں تھا بلکہ اعتراض فقط توحید، رسالت اور قیامت کے سلسلے میں تھا۔ حتی جملہٴ “فاطر السموات والارض” توحید پر استدلال ھے نہ کہ اصل وجود پر۔

طبرسی نے” مجمع البیان “اور سید قطب نے “درفی ظلال القرآن”میں اسی نظریہ کو بیان کیا ھے ۔ ان کے علاوہ بعض دوسرے مفسرین نے بھی اس رائے کواختیار کیا ھے۔ان کا نظریہ بھی یھی ھے کہ بت پرست قوموں کا اختلاف توحید اور خدا کی یکتائی سے تھا نہ کہ اصل وجود خدا سے۔

بشکریہ : الحسنین ڈاٹ کام

 

تبصرے
Loading...