عدم تحریف پر قرآن اور روایات کی گواہی

قرآن کریم پر کوئی چیز غالب نہیں آسکتی اور نہ ہی کسی طرف سے اس میں باطل داخل ہوسکتا ہے : ”․․․ وَ إِنَّہُ لَکِتابٌ عَزیزٌ ،لا یَاٴْتیہِ الْباطِلُ مِنْ بَیْنِ یَدَیْہِ وَ لا مِنْ خَلْفِہِ تَنْزیلٌ مِنْ حَکیمٍ حَمیدٍ “

سوال : قرآن کریم کے تحریف نہ ہونے پر قرآن کریم کی کیا دلیل ہے ؟

جواب : آیہ حفظ ایسی دلیل ہے جو خداوند عالم کی طرف سے نازل ہوئی ہے اور اس میں قرآن کریم کو ہر طرح سے محفوظ رکھنے کا وعدہ کیا گیا ہے ، خداوند عالم فرماتا ہے : ” وَ قالُوا یا اٴَیُّہَا الَّذی نُزِّلَ عَلَیْہِ الذِّکْرُ إِنَّکَ لَمَجْنُونٌ،لَوْ ما تَاٴْتینا بِالْمَلائِکَةِ إِنْ کُنْتَ مِنَ الصَّادِقینَ ، ما نُنَزِّلُ الْمَلائِکَةَ إِلاَّ بِالْحَقِّ وَ ما کانُوا إِذاً مُنْظَرینَ ، إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَ إِنَّا لَہُ لَحافِظُونَ“ ۔

اور ان لوگوں نے کہا کہ اے وہ شخص جس پر قرآن نازل ہوا ہے تو دیوانہ ہے ، اگر تو اپنے دعوٰی میں سچا ہے تو فرشتوں کو کیوں سامنے نہیں لاتاہے ، حالانکہ ہم فرشتوں کو حق کے فیصلہ کے ساتھ ہی بھیجا کرتے ہیں اور اس کے بعد پھر کسی کو مہلت نہیں دی جاتی ہے ، ہم نے ہی اس قرآن کو نازل کیا ہے اور ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں ۔

دونوں جگہوں پر ”ذکر“ سے مراد ، نازل ہونے اور نازل کرنے کے قرینہ کی وجہ سے، قرآن کریم ہے ، مشرکین نے پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ) پر تین اعتراض کئے تھے اورقرآن کریم نے ان تینوں کی طرف اشارہ کیا ہے اور ان کا جواب دیا ہے :

۱۔ حضرت محمد مصطفی (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے قرآن کریم کو کسی نامعلوم شخص سے حاصل کیا ہے ۔ جس اعتراض کی طرف صیغہ مجہول کا یہ جملہ کہ ”قرآن تم پر نازل ہوا“اشارہ کرتاہے ۔

۲۔ دوسرا اعتراض یہ تھا کہ نعوذ باللہ پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) حواس باختہ ہیں اور جو کچھ قرآن کریم سے نقل کرتے ہیں اس کا کوئی اعتبار نہیں ہے ۔اور ہم مطمئن نہیں ہیں کہ وہ اپنے افکار و خیالات کو قرآن کریم میں داخل نہیں کریں گے ۔

۳۔ اگر وہ سچ کہتے ہیں کہ ان پر فرشتہ نازل ہوتا ہے اوروحی لیکر آتا ہے تو پھر اس فرشتہ کو ہمارے پاس لیکر کیوں نہیں آتے؟

خدا وندعالم نے تینوں اعتراضات کا جواب دیا ہے ،پہلے ہم دوسرے اور تیسرے اشکال کا جواب خلاصہ کے طور پر بیان کرتے ہیں پھر پہلے اعتراض کو تفصیل سے بیان کریں گے کیونکہ پہلا اعتراض زیادہ اہم ہے ۔

دوسرے اعتراض کا جواب ،قرآن کریم کی یہ آیت ”ہم نے قرآن کو نازل کیا ہے“ ، دیدیتی ہے اور اس آیت میں وضاحت کی گئی ہے کہ قرآن کو نازل کرنے والا خدا کے علاوہ کوئی اور نہیں ہے ۔

تیسرے اعتراض کا جواب یہ ہے کہ فرشتہ کے نازل ہونے کی وجہ سے وہ ہلاک ہوجائیں گے اور یہ بعثت کے مقصد کے خلاف ہے ، جیسا کہ کہا گیا ہے کہ ”ما کانوا من المنظرین“۔

لیکن پہلے سوال کا جواب اس طرح دیتے ہیں کہ خداوند عالم نے قرآن کریم میں ہرطرح کے خلل اور تحریف کے وارد ہونے کی ذمہ داری لی ہے اور کوئی بھی چیز خداوند عالم کے ارادہ پر غالب نہیں آسکتی ۔

پس ”حفظ“ کی تفسیر میں جتنے بھی احتمالات دئیے گئے ہیں جیسے اعتراض کرنے والوں کے اعتراض سے حفاظت، لوح محفوظ، پیغمبر اکرم اور امام کے سینہ میں محفوظ ہونا یہ سب جواب صحیح نہیں ہیں، چونکہ آیت میں اعتراض کرنے والوں کا کوئی ذکر نہیں ہوا ہے جو آیت اس کا جواب دیتی ۔ لوح محفوظ یا پیغمبر اکرم کے سینہ میں حفاظت کرنے کا بھی مشرکین سے کوئی ربط نہیں ہے ، کیونکہ انہوں نے پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) پر جنون کی تہمت لگائی تھی یعنی قرآن کریم کو پہنچاتے وقت غیر وحی کو اس میں ملاتے ہیں ۔ اور یہ جواب دینا کہ قرآن کریم لوح محفوظ میں محفوظ ہے یہ اعتراض کوجڑ سے ختم نہیں کرتا ، لہذا صحیح بات یہ ہے کہ خداوند عالم خبر دے رہا ہے کہ وہ تمام مراحل میں قرآن کی حفاظت کرنے والا ہے اور جو یہ کہتا ہے کہ قرآن سے کچھ کم ہوا ہے وہ خداوند عالم کے اس قول سے سازگار نہیں ہے ۔

اگر یہ کہا جائے : تحریف کا مدعی کہتا ہے کہ خود اس آیت میں بھی تحریف ہوئی ہے ،لہذا اس سے استدلال کرنا صحیح نہیں ہے ، اس لئے کہ دور پیش آتا ہے ۔

اس کا جواب یہ ہے : تحریف کی بات قرآن کریم کی ان آیات کے متعلق کی جاتی ہے جن میں اہل بیت (علیہم السلام) کی خلافت و رہبری کو بیان کیا گیا ہے یا وہ آیات احکام جن میں رجم ، یا دودھ پلانے کا ذکر ہوا ہے ، لیکن اس طرح کی آیات میں تحریف نہ ہونے پر تمام مسلمان متفق ہیں ۔

وہ آیات جن میں قرآن کریم میں باطل کے نہ آنے کی نفی کی گئی ہے

خدا وند عالم نے قرآن کریم کو ایک ایسی کتاب سے متصف کیا ہے جس پرکوئی چیز غالب نہیں آسکتی اور نہ ہی کسی طرف سے اس میں باطل داخل ہوسکتا ہے : ”․․․ وَ إِنَّہُ لَکِتابٌ عَزیزٌ ،لا یَاٴْتیہِ الْباطِلُ مِنْ بَیْنِ یَدَیْہِ وَ لا مِنْ خَلْفِہِ تَنْزیلٌ مِنْ حَکیمٍ حَمیدٍ “ (۲) ۔

․․․ اور یہ ایک عالی مرتبہ کتاب ہے ، جس کے قریب سامنے یا پیچھے کسی طرف سے باطل آبھی نہیں سکتا ہے کہ یہ خدائے حکیم و حمید کی نازل کی ہوئی کتاب ہے ۔

اس آیت میں چند نکتہ بیان ہوئے ہیں :

اول : اس آیت میں ”ذکر“ سے مراد قرآن کریم ہے ، کیونکہ ”ذکر“ کے بعد فرمایا ہے کہ یہ کتاب عزیز ہے ۔ اس کے علاوہ متعدد آیات میں قرآن کریم کو ذکر کہا گیا ہے : ” وَ قالُوا یا اٴَیُّہَا الَّذی نُزِّلَ عَلَیْہِ الذِّکْرَُ“(۳) ۔ اور ان لوگوں نے کہا کہ اے وہ شخص جس پر قرآن نازل ہوا ہے ۔

”وَ إِنَّہُ لَذِکْرٌ لَکَ وَ لِقَوْمِکَ وَ سَوْفَ تُسْئَلُونَ“(۴) ۔ اور یہ قرآن آپ کے لئے اور آپ کی قوم کے لئے نصیحت کا سامان ہے اور عنقریب تم سب سے باز پرس کی جائے گی ۔

دوم : آیت میں ”اِنَّ“ کی خبر محذوف اور مقدر ہے ، مثلا یقینا جب کسی کے پاس ذکر آتا ہے تووہ کفر اختیار کرتے ہیں ہم ان کو اس کی سزا دیں گے ۔

سوم : حق کے مقابلہ میں باطل ہے ، حق ثابت ہے اور اس کو شکست نہیں ہے ،لیکن باطل مغلوب ہوجاتا ہے ، حق و باطل کی مثال ، پانی اور جھاگ کی مثال ہے کہ خداوند عالم فرماتا ہے

”ُ کَذلِکَ یَضْرِبُ اللَّہُ الْحَقَّ وَ الْباطِلَ فَاٴَمَّا الزَّبَدُ فَیَذْہَبُ جُفاء ً وَ اٴَمَّا ما یَنْفَعُ النَّاسَ فَیَمْکُثُ فِی الْاٴَرْضِ کَذلِکَ یَضْرِبُ اللَّہُ الْاٴَمْثالَ “(۵) ۔

اسی طرح پروردگار حق و باطل کی مثال بیان کرتا ہے کہ زیوریا کوئی دوسرا سامان بنانے کے لئے پگھلاتے ہیں ۔ اسی طرح پر وردگار حق و باطل کی مثال بیان کرتا ہے کہ جھاگ خشک ہو کر فنا ہو جاتا ہے، اور جو لوگوں کو فائدہ پہنچانے والا ہے وہ زمین میں باقی رہ جاتا ہے اور خدا اسی طرح مثالیں بیان کرتا ہے ۔

قرآن کریم اپنے تمام معانی، مفاہیم، احکام اور معارف و اصول میں حق ہے اور فطرت سے بھی سازگار ہے ،اس کی غیب کی خبروں میں بھی کوئی جھوٹ اور اختلاف نہیں ہے ، قرآن کریم کے احکام اور خبروں میں بھی کوئی تناقض نہیں ہے : ”اٴَ فَلا یَتَدَبَّرُونَ الْقُرْآنَ وَ لَوْ کانَ مِنْ عِنْدِ غَیْرِ اللَّہِ لَوَجَدُوا فیہِ اخْتِلافاً کَثیراً “(۶) ۔ کیا یہ لوگ قرآن میں غور و فکر نہیں کرتے ہیں کہ اگر وہ غیر خدا کی طرف سے ہوتا تو اس میں بڑا اختلاف ہوتا ۔

پس جس طرح قرآن کریم اپنے مضمون اور معنی میں حق ہے اسی طرح لفظ اور اپنی شکل و صورت میں بھی حق ہے اوراس میں کسی طرح کی کوئی تحریف نہیں ہوئی ہے ، مرحوم طبرسی نے کیا خوب کہا ہے : نہ اس کے الفاظ میں تناقض ہے ، نہ اس کی خبریںجھوٹی ہیں، نہ اس سے کچھ کم ہوا ہے اور نہ اس میں کسی چیز کا اضافہ ہوا ہے (۷) ۔

اس بات کی تائید اس سے پہلے والی آیت کرتی ہے : ”وَ إِمَّا یَنْزَغَنَّکَ مِنَ الشَّیْطانِ نَزْغٌ فَاسْتَعِذْ بِاللَّہِ إِنَّہُ ہُوَ السَّمیعُ الْعَلیمُ “(۸) ۔

اور جب تم میں شیطان کی طرف سے کوئی وسوسہ پیدا ہو تو اللہ کی پناہ طلب کرو کہ وہ سب کی سننے والا اور سب کا جاننے والا ہے ۔

شایہ یہ اس بات کی طرف اشارہ ہو کہ کبھی آنحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے ذہن میں یہ چیز خطور کرتی تھی کہ شاید میرے جانے کے بعد یہ دین باطل ہوجائے لہذا خداوند عالم نے ان کو حکم دیا کہ سننے والے اور حکیم خدا کی پناہ میں چلے جائیں ۔

خلاصہ یہ ہے کہ قرآن کریم ہر طرح کے باطل سے محفوظ ہے اور ہمیشہ اس میں نئے نکات نکلتے رہتے ہیں اور یہ کبھی بھی پرانا اور فنا نہیں ہوگا۔

آیت جمع اور قرآن کی قرائت

ایک روایت میں بیان ہوا ہے کہ جس وقت قرآن کریم نازل ہوتا تھا ، پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) اس کو بہت جلدی جلدی پڑھتے تھے تاکہ اچھی طرح حفظ کرلیں ، وحی آئی اور آپ کو اس کام سے منع کیا :

”لا تُحَرِّکْ بِہِ لِسانَکَ لِتَعْجَلَ بِہِ ، إِنَّ عَلَیْنا جَمْعَہُ وَ قُرْآنَہُ، فَإِذا قَرَاٴْناہُ فَاتَّبِعْ قُرْآنَہُ ، ثُمَّ إِنَّ عَلَیْنا بَیانَہُ “(۹) ۔

دیکھئے آپ قرآن کی تلاوت میں عجلت کے ساتھ زبان کو حرکت نہ دیں ، یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم اسے جمع کریں اور پڑھوائیں ، پھر جب ہم پڑھوادیں تو آپ اس کی تلاوت کو دہرائیں ، پھر اس کے بعد اس کی وضاحت کرنا بھی ہماری ہی ذمہ داری ہے ۔

پس قرآن کریم کو جمع ،محفوظ اور اس کی وضاحت کرنا خدا کی ذمہ داری ہے ۔

ایک دوسری آیت میں ضمانت دی ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کبھی بھی قرآن کریم کو فراموش نہیں کریں گے لہذا فرمایا ہے :

”سَنُقْرِئُکَ فَلا تَنْسی، إِلاَّ ما شاء َ اللَّہُ إِنَّہُ یَعْلَمُ الْجَہْرَ وَ ما یَخْفی “(۱۰) ۔ہم عنقریب تمہیں اس طرح پڑھائیں گے کہ بھول نہ سکوگے،مگر یہ کہ خدا ہی چاہے کہ وہ ہر ظاہر اور مخفی رہنے والی چیز کو جانتا ہے ۔

یہ وہ آیات ہیں جن کے ذریعہ قرآن کریم کے تحریف نہ ہونے پر استدلال کیا جاسکتا ہے ، آخری آیت کے ذیل میں ایک استثناء ہے (مگر جو خدا چاہے)اس استثناء کی مثال ایسی ہے جس کواس آیت میں بیان کیا ہے :”وَ اٴَمَّا الَّذینَ سُعِدُوا فَفِی الْجَنَّةِ خالِدینَ فیہا ما دامَتِ السَّماواتُ وَ الْاٴَرْضُ إِلاَّ ما شاء َ رَبُّکَ عَطاء ً غَیْرَ مَجْذُوذٍ “۔

اور جو لوگ نیک بخت ہیں وہ جنت میں ہوں گے اور وہیں ہمیشہ رہیں گے جب تک کہ آسمان و زمین قائم ہیں مگر یہ کہ پروردگار اس کے خلاف چاہے ۔یہ خدا کی ایک عطا ہے جو ختم ہونے والی نہیں ہے ۔

واضح ہے کہ سعادت مند حضرات ہمیشہ جنت میں رہیں گے اور آیت کا آخری حصہ (عطاء غیر مجذوذ) اس بات پر گواہ ہے یعنی ہمیشہ ہر حال میں ایسا نہیں ہے کہ یہ مسئلہ خداوند عالم کی قدرت سے خارج ہے بلکہ وہ ہروقت قادر ہے کہ جب چاہے بہشت میں ہمیشہ رہنے کو نقض کردے (۱۲) ۔

1 . حجر: 6 ـ 9.

2 . فصلت: 41 ـ 42.

3 . حجر: 6.

4 . زخرف: 44.

5 . رعد: 17.

6 . نساء، 82.

7 . مجمع البيان: ج 9، ص 15، چاپ صيدا.

8 . فصلت: 36.

9 . قيامت: 16 ـ 19.

10 . اعلى: 6 ـ 7.

11 . هود: 108.

12-سيماى عقايد شيعه، ص 158.

عدم تحریف پر روایات کی گواہی

سوال : قرآن کریم کے تحریف نہ ہونے پر روایت کی دلیل کیا ہے ؟

جواب : جو روایتیں تحریف سے محفوظ ہونے پر دلالت کرتی ہیں ہم ان میں سے دو کی طرف اشارہ کریں گے:

۱۔ وہ اخبار جو احادیث کو قرآن کے معیار پر سمجھنے کی دعوت دیتی ہیں

ائمہ معصومین (علیہم السلام) سے بہت سی روایتیں نقل ہوئی ہیں جن میں بیان ہوا ہے : روایات کو قرآن کریم سے موازنہ کرو ، جو قرآن کریم کے موافق ہیں ان کو قبول کرلو اور جو مخالف ہیں ان کوچھوڑ دو۔ شیخ حرعاملی نے وسائل الشیعہ کے نویں باب میں صفات قاضی کے متعلق اس حدیث کو بیان کیا ہے ۔

امام صادق (علیہ السلام) سے روایت ہے کہ پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے فرمایا : ہر حق کے اوپر ایک حقیقت ہے اور ہر صحیح کے اوپر ایک نور ہے ۔ جو کتاب خدا کے موافق ہے اس کوقبول کرلو اور جو کتاب خدا کے مخالف ہے اس کو چھوڑ دو۔” فما وافق کتاب اللہ فخذوہ و ما خالف کتاب اللہ فدعوہ“ (۱) ۔

امام صادق (علیہ السلام) سے روایت ہے : ”ما لم یوافق من الحدیث القرآن فھو زخرف“ (۲) ۔ حدیث میں جو چیز قرآن کے موافق نہ ہو وہ باطل ہے (ایسا باطل ہے جس کو حق سے زینت دی گئی ہے) ۔

ایوب بن حر نے بھی نقل کیا ہے کہ میں نے امام صادق (علیہ السلام) کو فرماتے ہوئے سنا: ہر چیز قرآن و سنت کی طرف پلٹتی ہے اور جو حدیث کتاب خدا کے مخالف ہو وہ باطل ہے : ” کل شئی مردود الی الکتاب والسنة و کل حدیث لا یوافق کتاب اللہ فھو زخرف“ (۳) ۔

یہ روایتیں دو طرح سے ہماری بات پر دلالت کرتی ہیں:

الف : ان روایتوں سے جو بات سمجھ میں آتی ہے وہ یہ ہے کہ قرآن کریم ، صحیح، اور تحریف و تصرف سے محفوظ رہنے کا ملاک ہے اور تحریف کا قول ، قرآن کریم کے صحیح وسالم ہونے سے سازگار نہیں ہے ۔

ب : ان تمام روایات میں غور و فکر کرنے سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ احادیث کے صحیح ہونے کیلئے شرط لازم یہ ہے کہ احادیث قرآن کریم کے مخالف نہ ہو ورنہ بہت سی روایتوں پر عمل نہیں کیا جائے گا ،کیونکہ قرآن کریم نے ان کی نفی یا اثبات میں کچھ نہیں کہا ہے ۔

قرآن کی مخالفت و موافقت اس وقت معلوم ہوگی جب قرآن کے تمام سورے اور اجزاء ہمارے پاس موجود ہوں ورنہ ممکن ہے کہ حدیث اس چیز کے مخالف ہو جو قرآن کریم سے ساقط یا تحریف ہوگئی ہے ۔

۲۔ حدیث ثقلین

حدیث ثقلین حکم دیتی ہے کہ قرآن کریم اور عترت کے اقوال سے تمسک کرو، پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے فرمایا ہے :

”انی تارک فیکم الثقلین: کتاب اللہ و عترتی اھل بیتی، ما ان تمسکتم بھما لن تضلوا“۔

میں تمہارے درمیان دوکرانقدر چیزیں چھوڑے جارہا ہوں ایک خدا کی کتاب اور دوسرے میری عترت اور اہل بیت، اگر تم ان دونوں سے تمسک کروگے تو کبھی گمراہ نہیں ہوگے ۔

اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن میں تحریف نہیں ہوئی ہے کیونکہ :

الف : قرآن کریم سے تمسک کرنے کا حکم اس وقت صحیح ہے جب قرآن متمسک ہونے والوں کے پاس موجود ہو ۔

ب : یہ کہنے سے کہ” قرآن کریم کی کچھ آیتیں اور سورے حذف ہوگئے ہیں“ ، لوگوں کا موجودہ قرآن سے اطمینان ختم ہوجائے گاکیونکہ شاید جو کچھ حذف ہوا ہے وہ اس پر قرینہ ہو(۴) ۔

1 . وسائل الشيعه: ج 18، باب 9 از ابواب صفات قاضى، حديث 10.

2 . همان، حديث 12.

3 . وسائل الشيعه، ج18، باب 9 از ابواب صفات قاضى، حديث 15.

4. سيماى عقايد شيعه،ص 163

قرآن کریم کے تحریف نہ ہونے پر اہل بیت (علیہم السلام) کی احادیث

سوال : کیا اہل بیت (علیہم السلام)، موجودہ قرآن کو خدا کی کتاب سمجھتے تھے؟

جواب : حضرت امیر المومنین (علیہ السلام) کے خطبوں اور آپ کے معصوم جانشینوں کی حدیثوں سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ یہ حضرات ،موجودہ قرآن کو خدا کی کتاب سمجھتے تھے جوکہ پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) پر نازل ہوئی ہے اور اس میں نہ کسی چیز کا اضافہ ہوا ہے اور نہ اس میں سے کوئی چیز کم ہوئی ہے ۔ یہ حقیقت آپ کے کلمات سے واضح ہے ہم یہاں پر چند نمونے پیش کرتے ہیں :

۱۔ امیر المومنین (علیہ السلام) فرماتے ہیں : خداوند عالم نے قرآن کریم کو تمہارے درمیان نازل فرمایا جس میں ہر چیز کی وضاحت ہے اور اس نے اپنے پیغمبر کر ایک مدت کیلئے تمہارے درمیان بھیجا تاکہ جو کچھ قرآن کریم میں نازل ہوا ہے اس کو تمہارے لئے بیان کریں اور تمہارے دین کو کامل کریں (۱) ۔

اس خطبہ میں یہ بات واضح ہے کہ دین اسلام ،خدا کی کتاب کے سایہ میں کامل ہوا ہے ۔ پس اگر قرآن کریم میں تحریف ہوئی ہے تو پھر اس کے ذریعہ دین کس طرح کامل ہوگیا ؟! امام (علیہ السلام) ، پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی رحلت کے بعد لوگوں کو رغبت دلاتے ہیں کہ کامل دین سے تمسک کرو اور یہ قرآن کریم کا کمال ہے کہ جو دین کی سند اور اس کا مآخذ ہے ۔

۲۔ تمہارے درمیان خدا کی کتاب ہے جو بیان کرنے والی ہے اور قرآن کی زبان کبھی کند اور کمزورنہیں ہوگی اور پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی عترت ایسا خاندان ہے جس کی بنیاد کبھی ختم نہیں ہوگی اور ان کے پاس ایسی عزت ہے جو کبھی ختم نہیں ہوگی(۲) ۔

۳۔ امام جواد (علیہ السلام) نے سعد الخیر (۳) کو جو خط لکھا ہے اس میں بیان ہوا ہے : انہوں نے قرآن کو چھوڑ دیا ہے اس کی دلیل یہ ہے کہ انہوں نے قرآن کریم کے حروف کو یاد کرلیا ہے لیکن اس کی تعریف میں تحریف کردی ہے (۴) اس وضاحت سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن کریم کے الفاظ باقی ہیں اور اپنی زندگی میں اس کی تطبیق اور اجراء میں تحریف کرلی ہے (۵) ۔

۱۔ نہج البلاغہ، خطبہ ۸۶۔

۲۔ گذشتہ حوالہ، خطبہ ۱۳۳۔

۳۔ یہ عمر بن عبدالعزیز کے بیٹے ہیں جو امام جواد (علیہ السلام) کے پاس آکر رونے لگے ،کیونکہ وہ جانتے تھے کہ میرا شمار انہی لوگوں میں ہوتا ہے جس کو قرآن کریم نے شجرہ ملعونہ کے نام سے یاد کیا ہے ۔امام (علیہ السلام) نے ان سے فرمایا : تم ان میں سے نہیں ہو، تم ہم میں سے ہو، کیا تم نے نہیں سنا کہ قرآن کریم نے فرمایا ہے : جو میری پیروی کرے گا وہ مجھ سے ہوگا؟ (قاموس الرجال: ج۵، ص ۳۵) ۔ اسی وجہ سے ان کو سعدالخیر کے نام سے پہچانا جاتا ہے ۔

۴۔ کافی ، ج ۸، ص ۵۳، حدیث ۱۶۔

۵۔ سیمای عقاید شیعہ، ص ۱۶۵۔

تبصرے
Loading...