عالمی متحدہ حکومت

مختصر یہ کہ اسلام دنیا کے تمام انسانوں اور ہر معاشرے کا قانون ہے لیکن اس معنی میں وہ عالمی حکومت نہیں کہ جو”لاینس پالینک“ یا دوسرے مفکرین کا نظریہ ہے کہ وہ عالمی متحدہ حکومت کا نعرہ لگاتے ہیں اور عالمی متحدہ حکومت کا طرفداررسالہ انکے افکار کو نشر کرتا رہتا ہے کیونکہ اگر بالفرض دنیا میں ایک دن ایسی حکومت قائم بھی ہو گئی تو وہ بھی ایسی ہی ہوگی

مختصر یہ کہ اسلام دنیا کے تمام انسانوں اور ہر معاشرے کا قانون ہے لیکن اس معنی میں وہ عالمی حکومت نہیں کہ جو”لاینس پالینک“ یا دوسرے مفکرین کا نظریہ ہے کہ وہ عالمی متحدہ حکومت کا نعرہ لگاتے ہیں اور عالمی متحدہ حکومت کا طرفداررسالہ انکے افکار کو نشر کرتا رہتا ہے کیونکہ اگر بالفرض دنیا میں ایک دن ایسی حکومت قائم بھی ہو گئی تو وہ بھی ایسی ہی ہوگی جیسے پہلی اور دوسری جنگ عظیم کے بعد اقوام متحدہ(U.N.O)کے نام پر عالمی حکومت بنائی گئی اور جیسا کہ اس نظرئے کے مخالفین مثلاً ”اسٹراوس“ کا کہنا ہے کہ اس سے درد سری پیدا ہو گی اور لوگوں کی آزادی چھن جائے گی طاقتور کمزوروں پر مسلط ہو جائیں گے یا متحدہ عالمی حکومت کے مخالفین کے بقول اس دنیا میں موڈرن قسم کے مظالم کا راستہ کھل جائے گا کیونکہ انہوں نے جس متحدہ حکومت کا نظریہ پیش کیا ہے اسکا خدا اور توحید پر ایمان یا ایسے عقیدے سے کوئی تعلق نہیں ہے جو سب کے لئے یکساں طور پر قابل قبول ہو اور اسکا دارو مدار ایک دوسرے کے حقوق یا تمام لوگوں کی آزادی کے اوپر نہیں ہے ۔

یہ لوگ جس حکومت کا نظریہ پیش کرتے ہیں وہ یہ ہے کہ اگر پوری دنیا میں ایک متحدہ حکومت نہ ہو تو ایٹم بم جیسے مہلک اسلحوں کی دوڑ ایک نہ ایک دن پوری انسانیت کو نیست و نابود کر کے رکھ دے گی لہٰذا اس سے بچاوٴ کے لئے ابھی سے دنیا کی تمام قوموں کو قانونی طور پر ایک عالمی سماج اور معاشرے کی بنیاد ڈالنا چاہئے ۔

ایسی کوئی حکومت وجود میں نہیں آسکتی اور بالفرض وجود میں آبھی جائے تو اسکے نفاذ کی کوئی ضمانت نہیں لی جا سکتی اور نہ ہی وہ لوگوں کی خواہشات اور جذبات پر قابو پاکر ان کی رہنمائی کر سکتی ہے اور نہ ہی اس سے دنیا میں ایک ایمانی اور انسانی برادری قائم ہو سکتی ہے۔

ایمانی برادری

 لیکن اسلام جو کچھ بھی کہتا ہے اس کے مطابق اسکے نفاذ کی یقینی ضمانت موجود ہے اور ایمان و عقیدے سے اس کی پشت پناہی ہوتی ہے اور وہ لوگوں کو ایک دوسرے کا بھائی قرار دیتا ہے نیزان کی خواہشات اور جذبات کوصحیح رخ پر لگاتا ہے ۔

جیسا کہ صدر اسلام میں اسکا عملی نمونہ سب نے اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا اور آج بھی اسلامی ملکوں کی حد بندیوں کے باوجود کروڑوں مسلمان اپنے کو ایک ہی اسلامی معاشرے کا حصہ سمجھتے ہیں ، انکے اندر ایک دوسرے کے بارے میں یکساں طور پر بھائی چارگی کا احساس پایا جاتا ہے اور وہ لوگ ایک دوسرے کی خوشی اور غم میں شریک رہنا چاہتے ہیں ۔

دنیا کے موجودہ یا اسلام سے پہلے کے ہر چھوٹے بڑے سماج اور معاشرہ کے مقابلہ میں اسلامی سماج اور معاشرہ کا امتیاز یہی ہے کہ اس معاشرے میں ہر چیز کی بنیاد اور اس کا مرکز خدا کی ذات اور اسکے احکام وتعلیمات ہی ہیں اور اسلام کے تعلیمات اس عالمی معاشرے کا نظم و نسق چلانے کے لئے ہر لحاظ اور ہراعتبار سے کافی ہیں ۔

ایمان کا کردار

 اس عقیدہ کا مرکزی نقطہ اور بنیادی قلعہ عقیدہ ٴ توحید اور وحدہ لاشریک خدا پر ایمان رکھنا ہے، جو سب کا خالق اور رازق ہے اور جوشخص جتنا بڑا متقی ہوگا وہ اس سے اتنا ہی قریب ہوتا جائے گا، اس اسلامی معاشرے کا ایک حقیقی اور واقعی محور ہے جو کسی ایک شخص سے مخصوص نہیں ہے بلکہ اس سے ہر ایک کا رابطہ ہے جبکہ ”لاینس پالینک“ اور اس کے ساتھیوں کے عالمی معاشرے کی کوئی بنیاد اور مرکز نہیں ہے بلکہ انکے یہاں اس کی اصل وجہ سب کو جلا کر رکھ دینے والی عالمی جنگ کا خوف اور اس کی دہشت کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے ۔

اسلام عقیدہٴ توحید کے ذریعہ لوگوں کے انداز فکر کو تبدیل کرکے انکی فکروں کی سطح کو بلند کرتا ہے اور لوگوں کی سوجھ بوجھ اور وسعت نظر میں اضافہ کر دیتا ہے تاکہ وہ لوگ کسی جنگ یا مہلک اسلحوں کی وحشت اور خوف کے بغیر ایک دوسرے سے نزدیک ہو سکیں اور کسی بھی مسئلے کے بارے میں انکے درمیان بآسانی مفاہمت پیدا ہو سکے ۔

ہمیں اس بات کا مکمل یقین ہے کہ اسلام کی یہ عالمی حکومت ایک دن پوری دنیا کے نظم و نسق کو بخوبی چلائے گی اور تمام مذاہب ،تمام حکومتوں اورقوانین کی وحدت عملی شکل اختیار کرکے رہے گی اور جب تک دنیا میں یہ وحدت پیدا نہ ہوگی اسلام کے پیغام کا حق بخوبی ادا نہیں ہو سکتا ہے ۔

یہ بڑی خوشی کی بات ہے کہ دنیا میں اس اتحاد کے طرفدارو ں کی تعداد میں ہر دن اضافہ ہوتا جا رہا ہے اور جیسا کہ پہلے بیان کیا جا چکا ہے کہ ایک عالمی حکومت کے قیام کی فکر سامنے آنے کی وجہ سے ہی عالمی اداروں کی بنیاد پڑی اگر چہ ایسے ادارے لوگوں کو دھوکہ میں رکھکر ان سے سیاسی فائدہ اٹھانے کے لئے ہی بنائے گئے ہیں لیکن اسکے با وجود یہ اس بات کا ثبوت ہیں کہ ایک بین الاقوامی دینی ،سیاسی اور سماجی اتحاد، انسانی فطرت اور اس کی روح کی آواز ہے اور یہی مجازی تحریکیں در حقیقت بشریت کی جانب سے اسلام کی عالمی حکومت کی تیاریوں کی علامت ہے۔

اتحا دکی زمین ہموار ہو رہی ہے

گذشتہ دور میں ایک عالمی سماج اور معاشرے کے قیام کا نظریہ اس لئے بہت کم سامنے آتا تھا اور اس سے متعلق اسلامی تعلیمات پر توجہ نہ ہونے کی وجہ یہ تھی کہ پہلے زمانے میں ارسال و ترسیل اور ایک دوسرے سے رابطہ پیدا کرنے کے وسائل موجود نہ ہونے کی وجہ سے لوگ ایسی عالمی حکومت قائم ہونے کو دشوارہی نہیں بلکہ نا ممکن سمجھتے تھے لیکن آج ٹیلیفون،ٹیلیویژن، ریڈیو،کمپیوٹر،انٹرنیٹ، جہاز اور دوسرے ترقی یافتہ وسائل نے جس طرح تمام دنیا والوں کو ایک گھرمیں رہنے والوں کی طرح ایک دوسرے سے قریب کر دیا ہے اسی طرح اس سے اسلامی تعلیمات کے سائے میں ایک عالمی حکومت کے قیام کا راستہ صاف ہو گیا ہے چنانچہ صنعت اور ٹیکنالوجی جتنی بھی ترقی کرے گی اسلام کے بیش قیمت اور بلند و بالا احکامات کے لئے حالات اتنے ہی سازگار ہوتے چلے جائیں گے اور اولیائے الٰہی کی بشارتیں اپنی منزل سے اتنی ہی قریب ہو تی چلی جائیں گی آہستہ آہستہ انفرادی اورعلاقائی قدریں کمزور پڑتی نظر آئیں گی اور دنیا کی تمام قومیں اپنے مقدر کے فیصلہ میں براہ راست یا بالواسطہ طور پر خود حصہ لے سکیں گی جسکے بعدتمام علاقائی نظاموں کا خاتمہ ہو جائے گا اور وہ تنہا نظام جو ان نظاموں کی جگہ پر آنے کے بعد پوری دنیا کے نظم و نسق کو عدل و انصاف کے ساتھ چلا سکے گا وہ اسلامی نظام ہی ہوگا۔

مختصر یہ کہ دنیا خود بخود اسلامی مقاصد کی طرف آگے بڑھتی جا رہی ہے اور ایک دن وہ ان تمام خود ساختہ قوانین، نظاموں اور سیاسی یا سماجی امتیازات اور اونچ نیچ کو پیچھے چھوڑ دیگی ،اسلامی مفاہمت کا ایک عام ماحول پیدا ہو جائے گا اور ظلم و ستم اور افراط وتفریط کا خاتمہ ہو گا(۱)

(۱)امریکی فلاسفر ”ویلم لوکا ریسون“ کا کہنا ہے :” بشریت کے لئے ہمیں ایک ملک ،ایک قانون ،ایک قاضی اور ایک حاکم کا اعتراف ہے دنیا کے تمام شہر ہمارے شہر اور دنیا کی ہر قوم والے ہمارے شہری اور ہمارے ہیں ہمیں اپنے شہروں کی سر زمین سے اتنی ہی محبت ہے جتنی کہ دوسرے شہروں سے محبت ہے“ البتہ امریکی اپنے اس نظریہ میں کس حد تک سچے یا جھوٹے ہیں اسکا فیصلہ دنیا والے خود کرینگے۔

مشہور اطالوی ادیب”دانٹہ“ نے کہا : پوری زمین اور اس پر جتنے لوگ زندگی بسر کر رہے ہیں سب کو ایک حاکم کے ما تحت رہنا واجب ہے اور اسے ہر چیز کا اختیار ہو،تا کہ جنگ کی آگ نہ بھڑک سکے اور امن و آشتی قائم رہے ۔

فرانسوی ”نولیتر“نے یہ کہا ہے: کسی بھی شخص نے اس وقت تک اپنے شہروں کی سر بلندی کی آرزو نہیں کی جب تک اس نے دوسروں کی بدبختی اور انکے فنا ہونے کی آرزو نہیں کر لی ۔دوسرے مفکرین جیسے صموئیل وغیرہ کے بھی ایسے ہی نظریات ہیں جن سے ”ایک عالمی حکومت کے قیام “کے نظریہ کا پتہ چلتا ہے۔

اسلام نے شروع ہی سے اس روشن مستقبل کے بارے میں پیشین گوئی کی تھی اورآیات و روایات میں اسکا صاف صاف وعدہ کیا گیاہے اور بشر کو ایسے دن کا منتظر رہنے کے لئے کہاگیاہے کہ جس دن سب لوگ اسلامی پرچم کے نیچے جمع ہوجائیں گے اور سب کا دین و مذہب قومیت اور حکومت ایک ہی ہوگی اور ان میں ایسے عالی مرتبہ ہادیٴ عالم کے ظہور کی بشارت دی گئی ہے جو پوری دنیا کا نظام چلا سکے اور اس کو عدل و انصاف سے بھر دے اس کے ساتھ ساتھ اسلام نے سب کو اس کی شناخت بھی کرا دی ہے۔

قرآن مجید کی آیتیں

 سورہٴ توبہ آیت ۳۳ ،سورہٴ فتح آیت ۲۸ اور سورہٴ صف کی ۹ویں آیت میں خداوند عالم نے یہ ارشاد فرمایا ہے:

  وہ خدا وہ ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجا ہے تا کہ اپنے دین کو تمام ادیان پر غالب بنا ئے ۔

 تمام مذاہب پر اسلام کے غلبہ کے وعدہ سے متعلق ان آیتوں کی دلالت بالکل واضح ہے ۔

 سورہ ٴانبیاء کی ۱۰۵ ویں آیت میں خدا وند عالم کا ارشاد ہے :

 

  اور ہم نے ذکر کے بعد زبور میں لکھ دیا ہے کہ ہماری زمین کے وارث ہمارے نیک بندے ہی ہونگے۔

 اس آیت میں بھی واضح اعلان ہے کہ زمین پر خدا کا اختیار ہے اور اسکے صالح بندے ہی اسکے مالک بنیں گے ۔

 سورہٴ نور کی ۵۵ویں آیت میں ارشاد فرمایا ہے:

 

  اللہ نے تم میں سے صاحبان ایمان و عمل صالح سے یہ وعدہ کیا ہے کہ انہیں روئے زمین میں اسی طرح خلیفہ بنائے گا جس طرح پہلے والوں کو بنایا ہے۔

 ان دونوں آیتوں میں واضح تاکیدوں کے بعد یہ وعدہ کیا گیا ہے کہ اسلام طاقتور ہو جائے گا اور انکا خوف و ہراس امن میں بدل جائے گا۔

سورہٴ قصص کی پانچویں آیت میں ارشاد ہے:

 

  اور ہم یہ چاہتے ہیں کہ جن لوگوں کو زمین میں کمزور بنا دیا گیا ہے ان پر احسان کریں اور انہیں لوگوں کا پیشوا بنائیں اور زمین کا وارث قرار دیں ۔

  احادیث اور تفسیروں کے مطابق یہ آیت بھی انہیں آیتوں میں سے ہے جن میں حضرت ولی عصرکے ظہور اور ان کی عالمی حکومت کی بشارت دی گئی ہے ۔

  نہج البلاغہ اور دیگر بہت سی معتبر کتابوں میں امیر المومنین کا یہ ارشاد نقل ہواہے:

(۱)

  یہ دنیا منھ زوری دکھلانے کے بعد ایک دن ہماری طرف بہر حال جھکے گی جس طرح کاٹنے والی اونٹنی کو اپنے بچہ پر رحم آجاتا ہے اسکے بعد آپ نے اس آیت کریمہ کی تلاوت فرمائی ”اور ہم یہ چاہتے ہیں کہ ان بندوں پر احسان کریں جنھیںروئے زمین میں کمزور بنا دیا گیا ہے اور انہیں لوگوں کا پیشوا بنائیں اور زمین کا وارث قرار دیں “

(۱)نہج البلاغہ حکمت۲۰۹

  احادیث

 شیعہ اور سنی دونوں کے یہاں متواتر حدیثوں سے یہ بات ثابت ہے کہ اسلام پوری کائنات میں پھیل جائے گا اور کوئی گھر ایسا باقی نہیں رہے گا کہ جو اسلامی تعلیمات کے زیر اثر نہ آ جائے کوئی شہر اور دیہات ایسا نہ ہوگاجس میں ہر صبح و شام اذان اور توحید ورسالت کی گواہی کی آواز بلند نہ ہو جب ہر قوم انقلابی تحریکوں، فتنہ وفساد ،لوٹ مار، گھروں کو جلا کر راکھ کر دینے والی جنگوں ،قحط،مہنگائی اور بیماریوں سے تنگ آچکی ہوگی توخدا وند عالم دنیا کے حقیقی مصلح یعنی قائم آل محمد عجل اللہ تعالیٰ فرجہ کو بھیجے گا تاکہ وہ ظلم و جور سے دنیا کے بھر جانے کے بعد اسے عدل و انصاف سے بھر دیں، آپ کے ظہور کی برکت سے ہرظلم اور بے چینی کا خاتمہ ہو جائے گا ،ہرجگہ امن وآشتی کا دور دورہ ہوگا۔ پوری دنیا میں ایک حکومت قائم ہو گی اور خدا وند عالم مشرق ومغرب کو آپ کے حوالے کر دے گا اور انہیں آپ کے ہاتھوں فتح کر دے گا۔

یہ روایات ان کلیدی اور معتبر کتابو ںمیںموجود ہیں جن پر اہلسنت اور شیعوں کا اعتماد ہے جن میں وہ کتابیں بھی شامل ہیں جو امام زمانہ عجل اللہ فرجہ الشریف کے ظہور سے بہت پہلے یعنی پہلی صدی ہجری میں لکھی گئی ہیں اور اہل نظر بخوبی واقف ہیں کہ رسول اکرم اور ائمہ معصومین اور صحابہ و تابعین کی احادیث و روایات میں جس کثرت کے ساتھ اس مسئلہ کا تذکرہ ہوا ہے اس کے مقابلے میں دوسرے مسائل کا تذکرہ بہت ہی کم ہے ،کیونکہ اس مصلح عالم اور کائنات کے نجات دینے والے کے ظہور کا ایمان در حقیقت پیغمبر اکرم کی صداقت اور آپ کی نبوت کی تصدیق کا اٹوٹ حصہ ہے اور یہ ایک الٰہی وعدہ ہے جو ہر گز غلط نہیں ہو سکتا:

 ان اللّٰہ لا یخلف المیعاد(۱)

 اور اللہ کا وعدہ غلط نہیں ہوتا۔

  یہ وعدہٴ ظہور،الٰہی سنتوں اوربشریت نیز عالم ہستی کے ارتقائی سفر کے عین مطابق ہے اور خدا کے اسمائے حسنیٰ جیسے ’الحاکم‘ ’العادل‘ ’الظاہر ‘ ’الغالب‘ کی تائید ہے۔ فلن تجد لسنة اللہ تبدیلا ولن تجد لسنة اللہ تحویلا۔(۲)

اور خدا کا طریقہٴ کار ہرگز بدلنے والا نہیں ہے اور نہ اس میں کسی طرح کا تغیر ہوسکتا ہے ۔

(۱)سورہٴ آل عمران آیت۹    

(۲)سورہٴ فاطر آیت۴۳

 

 

 

تبصرے
Loading...