عاشورا امام خمینی کی نظر میں؛

ایام عزا میں مجالس عزا کے بارے میں امام خمینی کے صریح اظہارات پر ایک نظر سے ظاہر ہوتا ہے کہ امام خمینی اس شیعہ اصول کے بارے میں کتنی حساسیت رکھتے ہیں اور اس کو کتنی اہمیت دیتے ہيں اور اگر کوئی عزاداری پر تنقید کریں تو دیکھتے ہیں کہ امام خمینی عتاب آمیز انداز سے ان پر تنقید کرتے ہیں۔

حضرت روح اللہ سیدالشہداء (ع) کے لئے مجالس عزا کو شعائر الہی سمجھتے ہیں اور فرماتے ہيں یہ مجالس در حقیقت اسلام کے سیاسی اجتماعات ہیں جن کا بہرحال تحفظ ہونا چاہئے اور جو لوگ ایرانی قوم کو ملت گریہ کہتے ہیں امام (رح) ان کو خائن سمجھتے ہیں۔

اشک اور گریہ امام کے مکتب میں، مکتب کے تحفظ کے بنیادی امور میں سے ہے اور فرماتے ہیں کہ “ہماری ملت سیاسی گریہ و بکاء کی ملت ہے” اور دشمنوں سے مخاطب ہوکر فرماتے ہیں: “ہم ان ہی آنسؤوں کا سیلاب برپا کرتے ہیں اس سیلاب کے ذریعے اسلام کے سامنے کھڑے کئے گئے بندوں کو تباہ کردیں گے”۔ 

عزاداری کا سیاسی پہلو امام کے نزدیک نہ صرف اہمیت کا حامل ہے بلکہ عزاداری کا بنیادی پہلو ہی سیاسی ہے اور ان کے بقول ائمہ طاہرین علیہم السلام نے ہمارے لئے عزاداری کا نقشہ رسم فرمایا ہے۔

یہاں ہم قارئین کرام کی توجہ عزاداری امام حسین علیہ السلام کے بارے میں کلام امام کے بعض اقتباسات کی طرف مبذول کراتے ہیں:

رضا خان (رضا شاہ پہلوی) نے عزاداری پر قدغن لگادی

وہ دیکھ رہے تھے کہ جو مجالس ایران میں بپا ہوتی ہیں، وعظ و خطابت کی مجالس، عزاداری اور مصائب کی مجالس، ممکن تھا کہ ان کے لئے “مضر” ہوں چنانچہ انھوں نے ان کا راستہ روک لیا۔ ہم نے اچانک دیکھا کہ ایران میں کہیں بھی مجلس عزا منعقد نہیں ہورہی تھی۔ ‍قم میں بعض حضرات، جناب آقائے صدوقی یزدی کے ہاں ایک مجلس عزا تھی جو نماز فجر سے قبل منعقد ہوتی تھی اور اس مجلس کو اذان فجر شروع ہوتے ہی ختم ہونا چاہئے تھا۔ انھوں نے مجالس کو مکمل طور پر نیست و نابود کیا، انھوں نے مجالس، مساجد، ائمۂ مساجد، مراجع تقلید سب کو نیست و نابود کیا۔ یعنی انھوں نے اس فعال قوت سے قوت چھین لی۔ افسوس کا مقام ہے کہ اس زمانے میں انھوں نے ملت کو بھی گمراہ کردیا اور ان کی تشہیری مہم لوگوں پر اثر کرگئی اور انھوں نے علماء کو “انگریز کا نام دے کر” متعارف کرایا، درحقیقت انگریز ہی علماء کو انگریز کہہ کر مطعون کیا کرتے تھے۔(صحیفه امام جلد هـفتم – صفحه 354 – ماموريت‌هاي رضاخان در ايران)

ہمیں گریہ کرنا چاہئے ہمیں اس مکتب کے تحفظ کے لئے ہر روز مجلس بپا کرنی چاہئے

ہمیں گریہ کرنا چاہئے اور ہمیں اس مکتب کے تحفظ کے لئے، اس تحریک کے تحفظ کے لئے ہر روز مجالس بپا کرنی چاہئیں، یہ تحریکیں امام حسین سلام اللہ علیہ کے مرہون منت ہیں۔ یہ لوگ [عزاداری پر اعتراض کرنے والے] نہیں سمجھتے، بچـے ہیں یہ، بدنیت ہیں یہ۔ ہاں! ممکن ہے کہ ان میں سے بعض بدنیت ہوں، بعض کسی نقشے اور منصوبے کے تابع ہوں جس طرح کہ رضا خان کے دور میں ہورہا تھا۔ تا ہم رضا خان نے ابتداء میں نا فہمی میں ایسا کیا اور بعد میں سوچ سمجھ کر کیا۔ اس وقت [حکام نے برطانیہ کے کہنے پر] منبر و محراب کا راستہ روکا۔ ایک مجلس عزاداری بھی نہ تھی۔ اس وقت کے پورے قم میں ایک مجلس عزا تھی، کہا جاتا تھا کہ آقائے صدوقی کے ہاں ایک مجلس فجر سے پہلے بپا ہوا کرتی تھی شاید طلوع آفتاب سے قبل ختم ہوا کرتی تھی۔ پوری مجلس رات کو ہوتی تھی یہ ایک نکتہ تھا۔ ایسا نہیں تھا کہ رضا خان نے حادثاتی طور پر آکر منبر و محراب پر پابندی لگائی اور علماء کو متحد الشکل کردیا، نہیں ایسا نہیں تھا، بلکہ یہ ایک نقشہ اور منصوبہ تھا، منصوبہ یہ تھا کہ اس قوت کو دبا دیں، اس محراب و منبر کی قوت کو دبا دیں، اور اچانک پوری قوم کو ایک طرف ہانک دیں، اور اس عظیم سلطنت کو نیست و نابود کردیں اور اس قوت کو ہم سے چھین لیں۔

قوم پرست بھی ان عزاداریوں کی طرف توجہ دیں

یہ سیاستدان نہیں جانتے کہ اس محراب و منبر نے اس ملک کی کیا خدمت کی ہے۔ یہ لوگ اگر قوم پرست ہیں ـ ہمارا اس بات سے کوئی سروکار نہیں ہے کہ یہ خدا پر ایمان رکھتے ہیں یا نہیں ـ لیکن یہ لوگ اگر قوم پرست بھی ہیں اور اگر ملک کے ہمدرد بھی ہیں انہیں ان عزاداریوں کو ہوا دینی چاہئے کیونکہ ان عزاداریوں نے اس ملت کا کی حفاظت کی ہے، یہ مجالس عزآ اور مصائب و گریہ ہے جس نے تمہارے ملک کو تحفظ فراہم کیا ہے۔ (جلد هـشتم – صفحه 528 – اعتقاد قلبي در سخنگوي اسلامي)

یہ نہیں سمجھتے کہ عزاداری کیا ہے

یہ لوگ کہتے ہیں کہ مجلس عزا کے بجائے مظاہرہ کرنا چاہئے، یہ نہیں سمجھتے کہ مجلس عزا ہے ہی کیا۔ مجلس عزا اور گریہ و بکاء انسان ساز ہے

یہ نکتہ کہ انھوں نے [عزاداری کے مخالفین] نے نوجوانوں کے ذہن میں یہ بات ڈال دی ہے کہ آخر گریہ و بکاء کب تک اور یہ مجالس عزا کب تک؟! آئیں مظاہرے کریں، یہ نہیں سمجھتے کہ عزاداری کیا ہے؛ یہ نہیں سمجھتے کہ اس عزاداری نے ہی اس بنیاد کو اب تک تحفظ دیا ہے، اس کو وہ نہیں سمجھتے، اور ہم ان کو یہ نکتہ سمجھا بھی نہیں سکتے۔ یہ نہیں سمجھتے یہ مجلس عزا اور یہ گریہ و بکاء انسان ساز ہے؛ یہ انسان کی تعمیر کرتا ہے۔ سیدلشہداء علیہ السلام کی مجالس عزاداری ظلم کے خلاف تبلیغ و تشہیر، یہ طاغوت کے خلاف تبلیغ ہے۔ یہ مظلوم پر جو ظلم روا رکھا گیا ہے اس کو آخر تک بیان کیا جانا چاہئے۔ ان ہی لوگوں [ان ہی عزاداری کے مخالفین] کے جوان جب قتل ہوئے تو یہی چیختے چلاتے تھے اور کیا کیا کرتے تھے، لیکن یہ خود ہی دھوکہ کھا لیا، کہتے ہیں کہ ان نوجوانوں کو بھول جاؤ! کیونکہ جو قوتیں ان کے ذہنوں میں یہ باتیں ڈالتی ہیں وہ سیدالشہداء علیہ السلام کو [انقلاب کی] بنیاد سمجھتے ہیں، وہ بنیاد جس نے تمام اقدار کو اب تک محفوظ رکھا ہے، وہ سیدالشہداء ہی ہیں۔ پیغمبر اکرم (ص) نے بھی فرمایا کہ “انا من حسین” یعنی دین و دیانت کا تحفظ امام حسین (ع) ہی کریں گے، اور اس قربانی نے اسلام کی دیانت کو اب تک محفوظ رکھا ہے اور ہمیں اس کا تحفظ کرنا چاہئے اور بعض لوگوں کے فریب میں آنے والے یہ نوجوان اس حقیقت سے غافل ہیں۔

(جلد دهـم – صفحه 120 – مقايسه رژيم پهلوي با دولتهاي اموي و عباسي)

یہ نام نہاد لکھاری کہیں آپ کو کو دھوکا نہ دیں

یہ ہمارے مذہبی شعائر ہيں جن کو بہر صورت محفوظ رہنا چاہئے۔ یہ ہمارے سیاسی شعائر ہیں جن کا تحفظ ہونا چاہئے۔ یہ قلم فرسا (اور نام نہاد اہل قلم) آپ کو کہیں دھوکا نہ دیں یہ لوگ جو مختلف ناموں سے اور انحرافی اعتقادات کے ذریعے آپ کے ہاتھ سے سب کچھ چھیننا چاہتے ہیں، اور یہ دیکھ رہے ہیں یہ مجالس، یہ مظلوم کی عزاداری اور ان کے مصائب کا ذکر اور ظالم کے جرائم کی یادآوری، ہر زمانے میں مظلوم کو ظالم کے آمنے سامنے لاکھڑا کرتی ہے۔ یہ لوگ اس حقیقت کا ادراک نہيں رکھتے کہ یہ مجالس خدمت کررہی ہیں ملک کی اور خدمت کررہی ہیں اسلام کی۔

یہ جو آپ کو ملت بکاء کہتے ہیں وہ خائن ہیں ان کے آقا گریہ و بکاء سے خوفزدہ ہیں

ہمارے نوجوان متوجہ نہیں ہیں! ان [نام نہاد بزرگوں] کی بات کو کے فریب میں نہ آئیں۔ یہ خائن ہیں جو آپ کے ذہن میں “ملت گریہ”، “ملت گریہ” کہہ کر آپ کے ذہنوں میں بٹھا دینا چاہتے ہیں، یہ خیانت کررہے ہیں۔ ان کے بڑے اور ان کے آقا اس گریہ و بکاء سے ڈرتے ہیں؛ اس کا ثبوت یہ ہے کہ رضا خان آیا اور ہرچیز کو تباہ کرکے چلا گیا اور وہ مأمور تھا [اور اس کو مشن سونپا گیا تھا؛ یہ جو ہم کہہ رہے ہیں کہ وہ مأمور تھا] اس کا ثبوت یہ ہے کہ جب رضا خان چلا گیا تو برطانیہ نے ریڈیو دھلی سے اعلان کیا کہ “ہم خود ہی رضا خان کو لائے تھے اور اس کو خود ہی لے گئے”، وہ صحیح کہہ رہے تھے۔ رضاخان کو لائے تھے اسلام کو کچلنے کے لئے اور اسلام کو کچلنے کا ایک راستہ یہی تھا کہ ان مجالس کو آپ سے چھین لیں۔ 

ہمارے نوجوان اگر کسی مجلس میں جائیں اور وہاں ذکر عزا ہو اور یہ کہہ دیں کہ “یہ بات مت کرو یہ غلط ہے بلکہ یہ بات کرو”، یہ نہ سمجھیں کہ کوئی خدمت کررہے ہیں؛ ان مظالم کا ذکر ہونا چاہئے تا کہ لوگ سمجھ لیں کہ اس زمانے میں کیا گذری ہے اور ہر روز یہ سلسلہ جاری رہنا چاہئے۔ اس کا ایک سیاسی پہلو ہے، سماجی پہلو ہے۔ (جلد دهـم – صفحه 316 – هراس دشمنان از اسلام)

مجالس عزاداری اور مرثیہ کی قوت ماضی کی طرح ہی ہونی چاہئے

ایک عزادار عزاداری کی نیت سے نکلا کرتا تھا۔ جان لیں کہ اگر چاہتے ہو کہ آپ کی تحریک جاری اور محفوظ رہے تو ان سنتوں اور روایات کی حفاظت کریں۔ البتہ سابقہ ادوار میں بعض ناجائز چیزیں تھیں جو اسلام کے مسائل سے بے خبر لوگ انجام دیا کرتے تھے ان کا تصفیہ ہونا چاہئے؛ لیکن عزاداری اسی قوت سے باقی رہے اور “مقررین حالات حاضرہ بیان کرنے کے بعد مجلس عزا کو اسی طرز اور اسی انداز سے پڑھیں جس طرح کے ماضی میں پڑھا کرتے تھے اور مرثیہ اسی طرح پڑھ لیں جو ماضی میں پڑھا کرتے تھے اور لوگوں کو تیار و آمادہ کریں قربانی کے لئے۔ 

تبصرے
Loading...